Surah

Information

Surah # 4 | Verses: 176 | Ruku: 24 | Sajdah: 0 | Chronological # 92 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
وَاعۡبُدُوا اللّٰهَ وَلَا تُشۡرِكُوۡا بِهٖ شَيۡــًٔـا‌ ؕ وَّبِالۡوَالِدَيۡنِ اِحۡسَانًا وَّبِذِى الۡقُرۡبٰى وَالۡيَتٰمٰى وَ الۡمَسٰكِيۡنِ وَالۡجَـارِ ذِى الۡقُرۡبٰى وَالۡجَـارِ الۡجُـنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالۡجَـنۡۢبِ وَابۡنِ السَّبِيۡلِ ۙ وَمَا مَلَـكَتۡ اَيۡمَانُكُمۡ‌ ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ مَنۡ كَانَ مُخۡتَالًا فَخُوۡرَا ۙ‏ ﴿36﴾
اور اللہ تعالٰی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ سلوک و احسان کرو اور رشتہ داروں سے اور یتیموں سے اور مسکینوں سے اور قرابت دار ہمسایہ سے اور اجنبی ہمسایہ سے اور پہلو کے ساتھی سے اور راہ کے مسافر سے اور ان سے جن کے مالک تمہارے ہاتھ ہیں ، ( غلام کنیز ) یقیناً اللہ تعالٰی تکبّر کرنے والے اور شیخی خوروں کو پسند نہیں فرماتا ۔
و اعبدوا الله و لا تشركوا به شيا و بالوالدين احسانا و بذي القربى و اليتمى و المسكين و الجار ذي القربى و الجار الجنب و الصاحب بالجنب و ابن السبيل و ما ملكت ايمانكم ان الله لا يحب من كان مختالا فخورا
Worship Allah and associate nothing with Him, and to parents do good, and to relatives, orphans, the needy, the near neighbor, the neighbor farther away, the companion at your side, the traveler, and those whom your right hands possess. Indeed, Allah does not like those who are self-deluding and boastful.
Aur Allah Taalaa ki ibadat kero aur uss kay sath kissi ko shareek na kero aur maa baap kay sath salook-o-ehsan kero aur rishtay daron say aur yateemon say aur miskeenon say aur qarabat daar humsaya say aur ajnabi humsaya say aur pehloo kay sathi say aur raah kay musafir say aur unn say jin kay maalik tumharay haath hain ( ghulam kaneez ) yaqeenan Allah Taalaa takabbur kerney walon aur shekhi khoron ko pasand nahi farmata.
اور اللہ کی عبادت کرو ، اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ ، اور والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرو ، نیز رشتہ داروں ، یتیموں ، مسکینوں ، قریب والے پڑوسی ، دور والے پڑوسی ، ( ٢٩ ) ساتھ بیٹھے ( یاساتھ کھڑے ) ہوئے شخص ( ٣٠ ) اور راہ گیر کے ساتھ اور اپنے غلام باندیوں کے ساتھ بھی ( اچھا برتاؤ رکھو ) بیشک اللہ کسی اترانے والے شیخی باز کو پسند نہیں کرتا ۔
اور اللہ کی بندگی کرو اور اس کا شریک کسی کو نہ ٹھہراؤ ( ف۱۰۹ ) اور ماں باپ سے بھلائی کرو ( ف۱۱۰ ) اور رشتہ داروں ( ف۱۱۱ ) اور یتیموں اور محتاجوں ( ف۱۱۲ ) اور پاس کے ہمسائے اور دور کے ہمسائے ( ف۱۱۳ ) اور کروٹ کے ساتھی ( ف۱۱٤ ) اور راہ گیر ( ف۱۱۵ ) اور اپنی باندی غلام سے ( ف۱۱٦ ) بیشک اللہ کو خوش نہیں آتا کوئی اترانے والے بڑائی مارنے والا ( ف۱۱۷ )
اور تم سب اللہ کی بندگی کرو ، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ ، ماں باپ کے ساتھ نیک برتاؤ کرو ، قرابت داروں اور یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ ، اور پڑوسی رشتہ دار سے ، اجنبی ہمسایہ سے ، پہلو کے ساتھی 62 اور مسافر سے ، اور ان لونڈی غلاموں سے جو تمہارے قبضہ میں ہوں ، احسان کا معاملہ رکھو ، یقین جانو اللہ کسی ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو اپنے پندار میں مغرور ہو اور اپنی بڑائی پر فخر کرے ۔
اور تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں ( سے ) اور نزدیکی ہمسائے اور اجنبی پڑوسی اور ہم مجلس اور مسافر ( سے ) ، اور جن کے تم مالک ہو چکے ہو ، ( ان سے نیکی کیا کرو ) ، بیشک اللہ اس شخص کو پسند نہیں کرتا جو تکبرّ کرنے والا ( مغرور ) فخر کرنے والا ( خود بین ) ہو
سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :62 متن میں”الصاحب بالجنب“ فرمایا گیا ہے جس سے مراد ہم نشین دوست بھی ہے اور ایسا شخص بھی جس سے کہیں کسی وقت آدمی کا ساتھ ہو جائے ۔ مثلاً آپ بازار میں جا رہے ہوں اور کوئی شخص آپ کے ساتھ راستہ چل رہا ہو ، یا کسی دوکان پر آپ سودا خرید رہے ہوں اور کوئی دوسرا خریدار بھی آپ کے پاس بیٹھا ہو ، یاسفر کے دوران میں کوئی شخص آپ کا ہم سفر ہو ۔ یہ عارضی ہمسائیگی بھی ہر مہذب اور شریف انسان پر ایک حق عائد کرتی ہے جس کا تقاضا یہ ہے کہ وہ حتی الامکان اس کے ساتھ نیک برتاؤ کرے اور اسے تکلیف دینے سے مجتنب رہے ۔
حقوق العباد اور حقوق اللہ اللہ تبارک وتعالیٰ اپنی عبادت کا حکم دیتا ہے اور اپنی توحید کے ماننے کو فرماتا ہے اور اپنے ساتھ کسی کو شریک کرنے سے روکتا ہے اس لئے کہ جب خالق رزاق نعمتیں دینے والا تمام مخلوق پر ہر وقت اور ہر حال میں انعام کی بارش برسانے والا صرف وہی ہے تو لائق عبادت بھی صرف وہی ہوا ۔ حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہت زیادہ جاننے والے ہیں آپ نے فرمایا یہ کہ وہ اسی کی عبادت کریں اسی کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں پھر فرمایا جانتے ہو جب بندے یہ کریں تو ان کا حق اللہ تعالیٰ کے ذمہ کیا ہے ؟ یہ کہ انہیں وہ عذاب نہ کرے ، پھر فرماتا ہے ماں باپ کے ساتھ احسان کرتے رہو وہی تمہارے عدم سے وجود میں آنے کا سبب بنے ہیں ۔ قرآن کریم کی بہت سی آیتوں میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنی عبادت کے ساتھ ہی ماں باپ سے سلوک و احسان کرنے کا حکم دیا ہے جیسے فرمایا ( اَنِ اشْكُرْ لِيْ وَلِوَالِدَيْكَ ) 31 ۔ لقمان:14 ) اور ( وَقَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا ) 17 ۔ الاسراء:23 ) یہاں بھی یہ بیان فرما کر پھر حکم دیتا ہے کہ اپنے رشتہ داروں سے بھی سلوک و احسان کرتے رہو ۔ حدیث میں ہے مسکین اور صدقہ دینا اور صلہ رحمی کرنا بھی ، اسی حسن سلوک کی شاخ ہے پھر حکم ہوتا ہے کہ یتیموں کے ساتھ بھی سلوک و احسان کرو اس لئے کہ ان کی خبر گیری کرنے والا ان کے سر پر محبت سے ہاتھ پھیرنے والا ان کے ناز ، لاڈ اٹھانے والا نہیں محبت کے ساتھ کھلانے پلانے والا ان کے سر سے اٹھ گیا ہے ۔ پھر مسکینوں کے ساتھ نیکی کرنے کا ارشاد کیا کہ وہ حاجت مند ہے ہاتھ میں محتاج ہیں ان کی ضرورتیں تم پوری کرو ان کی احتیاج تم رفع کرو ان کے کام تم کر دیا کرو ۔ فقیرو مسکین کا پورا بیان سورۃ براۃ کی تفسیر میں آئے گا انشاء اللہ پڑوسیوں کے حقوق اپنے پڑوسیوں کا خیال رکھو ان ان کے ساتھ بھی برتاؤ اور نیک سلوک رکھو خواہ وہ قرابت دار ہوں یا نہ ہو ، خواہ مسلمان یا یہودو نصرانی ہوں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جارذی القربی سے مراد بیوی ہے اور جار الجنت سے مراد مرد رفیق سفر ہے ، پڑوسیوں کے حق میں بہت سی حدیثیں آئی ہیں کچھ سن لیجئے ۔ مسند احمد میں بیان ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں مجھے حضرت جبرائیل پڑوسیوں کے بارے میں یہاں تک وصیت و نصیحت کرتے ہیں کہ مجھے گمان ہوا کہ شاید یہ پڑوسیوں کو وارث بنا دیں گے ، فرماتے ہیں بہتر ساتھی اللہ کے نزدیک وہ ہے جو اپنے ہمراہیوں کے ساتھ خوش سلوک زیادہ ہو اور پڑوسیوں کو وارث بنا دیں گے ، فرماتے ہیں بہتر ساتھی اللہ کے نزدیک وہ ہے جو ہمسایوں سے نیک سلوک میں زیادہ ہو ، فرماتے ہیں انسان جو نہ چاہیے کہ اپنے پڑوسی کی آسودگی بغیر خود شکم سیر ہو جائے ۔ ایک مرتبہ آپ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے سوال کیا زنا کے بارے میں تم کیا کہتے ہو ؟ لوگوں نے کہا وہ حرام ہے اللہ نے اور اس کے رسول سے اسے حرام کیا ہے اور قیامت تک وہ حرام ہی رہے گا ، آپ نے فرمایا سنو دس عورتوں سے زناکاری کرنے والا اس شخص کے گناہ سے کم گنہگار ہے جو اپنے پڑوسی کی عورت سے زنا کرے پھر دریافت فرمایا تم چوری کی نسبت کیا کہتے ہو؟ انہوں نے جواب دیا کہ اسے بھی اللہ تعالیٰ نے اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حرام کیا ہے اور وہ بھی قیامت تک حرام ہے آپ نے فرمایا سنو دس گھروں سے چوری کرنے والے گناہ کا اس شخص کے گناہ سے ہلکا ہے جو اپنے پڑوسی کے گھر سے کچھ چرائے ، بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہا سوال کرتے ہیں کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکون سا گناہ سب سے بڑا ہے؟ آپ نے فرمایا یہ کہ تو اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرائے حالانکہ اسی ایک نے تجھے پیدا کیا ہے میں نے پوچھا پھر کونسا ؟ فرمایا یہ کہ تو اپنی پڑوسن سے زناکاری کرے ۔ ایک انصاری صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے کے لئے گھر سے چلا وہاں پہنچ کر دیکھتا ہوں کہ ایک صاحب کھڑے ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی طرف متوجہ ہیں میں نے خیال کیا کہ شاید انہیں آپ سے کچھ کام ہو گا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہیں اور ان سے باتیں ہو رہی ہیں بڑی دیر ہو گئی یہاں تک کہ مجھے آپ کے تھک جانے کے خیال نے بےچین کر دیا بہت دیر کے بعد آپ لوٹے اور میرے پاس آئے میں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تم نے انہیں دیکھا میں نے کہا ہاں خوب اچھی طرح دیکھا فرمایا جانتے ہو وہ کون تھے؟ وہ جبرائیل علیہ السلام تھے مجھے پڑوسیوں کے حقوق کی تاکید کرتے رہے یہاں تک ان کے حقوق بیان کئے کہ مجھے کھٹکا ہوا کہ غالباً آج تو پڑوسی کو وارث ٹھہرا دیں گے ( مسند احمد ) مسند عبد بن حمید میں ہے حضرت جابر بن عبداللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ایک شخص عوالی مدینہ سے آیا اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت جبرائیل علیہ الصلوۃ والسلام اس جگہ نماز پڑھ رہے تھے جہاں جنازوں کی نماز پڑھی جاتی ہے جب آپ فارغ ہوئے تو اس شخص نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ یہ دوسرا شخص کون نماز پڑھ رہا تھا آپ نے فرمایا تم نے انہیں دیکھا ؟ اس نے کہا ہاں فرمایا تو نے بہت بڑی بھلائی دیکھی یہ جبرائیل تھے مجھے پڑوسی کے بارے میں وصیت کرتے رہے یہاں تک کہ میں نے دیکھا کہ عنقریب اسے وارث بنا دیں گے آٹھویں حدیث بزار میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا پڑوسی تین قسم کے ہیں ایک حق والے یعنی ادنی ، دو حق والے اور تین حق والے یعنی اعلیٰ ، ایک حق والا وہ ہے جو مشرک ہو اور اس سے رشتہ داری نہ ہو ، دو حق والا وہ ہے جو مسلمان ہو اور رشتہ دار نہ ہو ، ایک حق اسلام دوسرا حق پڑوس ، تین حق والا وہ ہے جو مسلمان بھی ہو پڑوسی بھی ہو اور رشتے ناتے کا بھی ہو تو حق اسلام کا حق ہمسائیگی حق صلہ رحمی تین تین حق اس کے ہوگئے ۔ حدیث مسند احمد میں ہے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کیا کہ میرے دو پڑوسی ہیں میں ایک کو ہدیہ بھیجنا چاہتی ہوں تو کسے بھیجواؤں؟ آپ نے فرمایا جس کا دروازہ قریب ہو ۔ دسویں حدیث طبرانی میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وضو کیا لوگوں نے آپ کے وضو کے پانی کو لینا اور ملنا شروع کیا آپ نے پوچھا ایسا کیوں کرتے ہو؟ انہوں نے کہا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں آپ نے فرمایا جسے یہ خوش لگے کہ اللہ اور اس اس کا رسول اس سے محبت کریں تو اسے چاہئے کہ جب بات کرے سچ کرے اور جب امانت دیا جائے تو ادا کرے ۔ ( تفسیر ابن کثیر میں یہ حدیث یہیں پر ختم ہے لیکن شاید اگلا جملہ اس کا سہوا رہ گیا ہے جس کا صحیح تعلق اس مسئلہ سے ہے وہ یہ کہ اسے چاہیے پڑوسی کے ساتھ سلوک و احسان کرے ۔ مترجم ) گیارھویں حدیث مسند احمد میں ہے کہ قیامت کے دن سب سے پہلے جو جھگڑا اللہ کے سامنے پیش ہو گا وہ دو پڑوسیوں کا ہو گا ۔ پھر حکم ہوتا ہے صاحب بالجنت کے ساتھ سلوک کرنے کا ۔ اس سے مراد بہت سے مفسرین کے نزدیک عورت ہے اور بہت سے فرماتے ہیں مراد سفر کا ساتھی ہے اور یہ بھی مروی ہے کہ اس سے مراد دوست اور ساتھی ہے عام اس سے کہ سفر میں وہ یا قیام کی حالت میں ابن سبیل سے مراد مہمان ہے اور یہ بھی جو سفر میں کہیں ٹھہر گیا ہو اگر مہمان بھی یہاں مراد لی جائے کہ سفر میں جاتے جاتے مہمان بنا تو دونوں ایک ہوگئے ، اس کا پورا بیان سورۃ براۃ کی تفسیر میں آ رہا ہے انشاء اللہ تعالی ۔ غلاموں کے بارے میں احکامات پھر غلاموں کے بارے میں فرمایا جا رہا ہے کہ ان کے ساتھ بھی نیک سلوک رکھو اس لئے کہ وہ غریب تمہارے ہاتھوں اسیر ہے اس پر تو تمہارا کامل اختیار ہے تو تمہیں چاہیے کہ اس پر رحم کھاؤ اور اس کی ضرورت کا اپنے امکان بھر خیال رکھو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو اپنے آخری مرض الموت میں بھی اپنی امت کو اس کی وصیت فرما گئے فرماتے ہیں لوگو نماز کا اور غلاموں کا خوب خیال رکھنا بار بار اسی کو فرماتے رہے یہاں تک کہ زبان رکنے لگی مسند کی حدیث میں ہے آپ فرماتے ہیں تو جو خود کھائے وہ بھی صدقہ ہے جو اپنے بچوں کو کھلائے وہ بھی صدقہ ہے جو اپنی بیوی کھلائے وہ بھی صدقہ ہے جو اپنے خادم کو کھلائے وہ بھی صدقہ ہے مسلم میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ایک مرتبہ دراوغہ سے فرمایا کہ کیا غلاموں کو تم نے ان کی خوراک دے دی ؟ اس نے کہا اب تک نہیں دی فرمایا جاؤ دے کر آؤ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے انسان کو یہی گناہ کافی ہے کہ جن کی خوراک کا وہ مالک ہے ان سے روک رکھے ، مسلم میں ہے مملوکہ ماتحت کا حق ہے کہ اسے کھلایا پلایا پہنایا اڑھایا جائے اور اس کی طاقت سے زیادہ کام اس سے نہ لیا جائے ، بخاری شریف میں ہے جب تم میں سے کسی کا خادم اس کا کھانا لے کر آئے تو تمہیں چاہیے کہ اگر ساتھ بٹھا کر نہیں کھلاتے تو کم از کم اسے لقمہ دو لقمہ دے دو خیال کرو کہ اس نے پکانے کی گرمی اور تکلیف اٹھائی ہے اور روایت میں ہے کہ چاہیے تو یہ کہ اسے اپنے ساتھ بٹھا کر کھلائے اور اگر کھانا کم ہو تو لقمہ دو لقمے ہی دے دیا کرو ، آپ فرماتے ہیں تمہارے غلام بھی تمہارے بھائی ہیں ، اللہ تعالیٰ نے انہیں تمہارے ماتحت کر دیا ہے پس جس کے ہاتھ تلے اس کا بھائی ہو اسے اپنے کھانے سے کھلائے اور اپنے پہننے میں سے پہنائے اور ایسا کام نہ کرے کہ وہ عاجز ہو جائے اگر کوئی ایسا ہی مشکل کام آ پڑے تو خود بھی اس کا ساتھ دے ( بخاری مسلم ) پھر فرمایا کہ خودبین ، معجب ، متکبر ، خود پسند ، لوگوں پر اپنی فوقیت جتانے والا ، اپنے آپ کو تولنے والا اپنے تیئں دوسروں سے بہتر جاننے والا اللہ کا پسندیدہ بندہ نہیں ، وہ گو اپنے آپکو بڑا سمجھے لیکن اللہ تعالیٰ کے ہاں وہ ذلیل ہے لوگوں کی نظروں میں وہ حقیر ہے بھلا کتنا اندھیر ہے کہ خود تو اگر کسی سے سلوک کرے تو اپنا احسان اس پر رکھے لیکن رب کی نعمتوں کا جو اللہ تعالیٰ نے اسے دے رکھی ہیں شکر بجا نہ لائے لوگوں میں بیٹھ کر فخر کرے کہ میں اتنا بڑا آدمی ہوں میرے پاس یہ بھی ہے اور وہ بھی ہے حضرت ابو رجاہروی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ہربدخلق متکبر اور خود پسند ہوتا ہے پھر اسی آیت کو تلاوت کیا اور فرمایا ہر ماں باپ کا نافرمان سرکش اور بد نصیب ہوتا ہے پھر آپ نے ( وَځ ا بِوَالِدَتِيْ ۡ وَلَمْ يَجْعَلْنِيْ جَبَّارًا شَقِيًّا ) 19 ۔ مریم:32 ) پڑھی ، حضرت عوام بن حوشب رحمتہ اللہ علیہ بھی یہی فرماتے ہیں حضرت مطرب رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں مجھے حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی ایک روایت ملی تھی میرے دل میں تمنا تھی کہ کسی وقت خود حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مل کر اس روایت کو انہی کی زبانی سنوں چنانچہ ایک مرتبہ ملاقات ہو گئی تو میں نے کہا مجھے یہ خبر ملی ہے کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک حدیث بیان فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ تین قسم کے لوگوں کو دوست رکھتا ہے اور تین قسم کے لوگوں کو ناپسند فرماتا ہے حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا ہاں یہ سچ ہے میں بھلا اپنے خلیل صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بہتان کیسے باندھ سکتا ہوں؟ آپ نے اسی آیت کی تلاوت کی اور فرمایا اسے تو تم کتاب اللہ میں پاتے بھی ہو ، بنو ہجیم کا ایک شخص رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہتا ہے مجھے کچھ نصیحت کیجئے آپ نے یرمایا کپڑا ٹخنے سے نیچا نہ لٹکاؤ کیونکہ یہ تکبر اور خود پسندی ہے جسے اللہ ناپسند رکھتا ہے ۔