سورة الْمَعَارِج حاشیہ نمبر :1
اصل الفاظ ہیں سال سآئل ۔ بعض مفسرین نے یہاں سوال کو پوچھنے کے معنی میں لیا ہے اور وہ آیت کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں کہ پوچھنے والے نے پوچھا ہے کہ وہ عذاب ، جس کی ہمیں خبردی جا رہی ہے ، کس پر واقع ہو گا ؟ اور اللہ تعالی نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ وہ کافروں پر واقع ہو گا ۔ لیکن اکثر مفسرین نے اس جگہ سوال کو مانگنے اور مطالبہ کرنے کے معنی میں لیا ہے ۔ نسائی اور دوسرے محدثین نے ابن عباس سے یہ روایت نقل کی ہے اور حاکم نے اس کو صحیح قرار دیا ہے کہ نضر بن حارث بن کلدہ نے کہا تھا اللھم ان کان ھذا ہو الحق من عندک فامطر علینا حجارۃ من السماء اوئتنا بعذاب الیم ۔ ( الانفال ، آیت 32 ) خدایا اگر یہ واقعی تیری طرف سے حق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا دے یا ہم پر درد ناک عذاب لے آ ۔ اس کے علاوہ متعدد مقامات پر قرآن مجید میں کفار مکہ کے اس چیلنج کا ذکر کیا گیا ہے کہ جس عذاب سے تم ہمیں ڈراتے ہو وہ لے کیوں نہیں آتے ۔ مثال کے طور پر حسب ذیل مقامات ملاحظہ ہوں: یونس ، آیات 46 تا 48 ، الابنیاء 36 تا 41 ، النمل ، 67 تا 72 ، سبا ، 26 تا 30 ، یسین ، 45 تا 52 ۔ الملک ، 24 تا 27 ۔