Surah

Information

Surah # 2 | Verses: 286 | Ruku: 40 | Sajdah: 0 | Chronological # 87 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 281 from Mina at the time of the Last Hajj
وَاتَّقُوۡا يَوۡمًا لَّا تَجۡزِىۡ نَفۡسٌ عَنۡ نَّفۡسٍ شَيۡـًٔـا وَّلَا يُقۡبَلُ مِنۡهَا شَفَاعَةٌ وَّلَا يُؤۡخَذُ مِنۡهَا عَدۡلٌ وَّلَا هُمۡ يُنۡصَرُوۡنَ‏ ﴿48﴾
اُس دن سے ڈرتے رہو جب کوئی کسی کو نفع نہ دے سکے گا اور نہ ہی اسکی بابت کوئی سفارش قبول ہوگی اور نہ کوئی بدلہ اس کے عوض لیا جائے گا اور نہ مدد کئے جائیں گے ۔
و اتقوا يوما لا تجزي نفس عن نفس شيا و لا يقبل منها شفاعة و لا يؤخذ منها عدل و لا هم ينصرون
And fear a Day when no soul will suffice for another soul at all, nor will intercession be accepted from it, nor will compensation be taken from it, nor will they be aided.
Uss din say dartay raho jab koi kissi ko nafa na dey sakay ga aur na hi uss ki babat ki koi sifarish qabool hogi aur na koi badla uss kay ewaz liya jaye ga aur na woh madad kiye jayen gay.
اور اس دن سے ڈرو جس دن کوئی شخص بھی کسی کے کچھ کام نہیں آئے گا نہ کسی سے کوئی سفارش قبول کی جائے گی نہ کسی سے کسی قسم کا فدیہ لیا جائے گا اور نہ ان کو کوئی مدد پہنچے گی
اور ڈرو اس دن سے جس دن کوئی جان دوسرے کا بدلہ نہ ہوسکے گی ( ف۸۰ ) اور نہ ( کافر کے لئے ) کوئی سفارش مانی جائے اور نہ کچھ لے کر ( اس کی ) جان چھوڑی جائے اور نہ ان کی مدد ہو ۔ ( ف۸۱ )
اور ڈرو اس دن سے جب کوئی کسی کے ذرا کام نہ آئے گا ، نہ کسی کی طرف سے سفارش قبول ہوگی ، نہ کسی کو فدیہ لے کر چھوڑا جائے گا ، اور نہ مجرموں کو کہیں سے مدد مل سکے گی ۔ 63
اور اُس دن سے ڈرو جس دن کوئی جان کسی دوسرے کی طرف سے کچھ بدلہ نہ دے سکے گی اور نہ اس کی طرف سے ( کسی ایسے شخص کی ) کوئی سفارش قبول کی جائے گی ( جسے اِذنِ اِلٰہی حاصل نہ ہوگا ) اور نہ اس کی طرف سے ( جان چھڑانے کے لئے ) کوئی معاوضہ قبول کیا جائے گا اور نہ ( اَمرِ الٰہی کے خلاف ) ان کی اِمداد کی جا سکے گی
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :63 بنی اسرائیل کے بگاڑ کی ایک بہت بڑی وجہ یہ تھی کہ آخرت کے متعلق ان کے عقیدے میں خرابی آگئی تھی ۔ وہ اس قسم کے خیالاتِ خام میں مبتلا ہو گئے تھے کہ ہم جلیل القدر انبیا کی اولاد ہیں ، بڑے بڑے اَولیا ، صُلحا اور زُہاد سے نسبت رکھتے ہیں ، ہماری بخشش تو اُنہیں بزرگوں کے صدقے میں ہو جائے گی ، ان کا دامن گرفتہ ہو کر بھلا کوئی سزا کیسے پاسکتا ہے ۔ اِنہیں جُھوٹے بھروسوں نے ان کو دین سے غافل اور گناہوں کے چکّر میں مبتلا کر دیا تھا ۔ اس لیے نعمت یاد دلانے کے ساتھ فوراً ہی ان کی ان غلط فہمیوں کو دُور کر دیا گیا ہے ۔
حشر کا منظر نعمتوں کو بیان کرنے کے بعد عذاب سے ڈرایا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ کوئی کسی کو کچھ فائدہ نہ دے گا جیسے فرمایا آیت ( وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى ) 35 ۔ فاطر:18 ) یعنی کسی کا بوجھ کسی پر نہ پڑے گا اور فرمایا آیت ( لِكُلِّ امْرِۍ مِّنْهُمْ يَوْمَىِٕذٍ شَاْنٌ يُّغْنِيْهِ ) 80 ۔ عبس:37 ) یعنی اس دن ہر شخص نفسا نفسی میں پڑا ہوا ہو گا اور فرمایا ، اے لوگو اپنے رب کا خوف کھاؤ اور اس دن سے ڈرو جس دن باپ بیٹے کو اور بیٹا باپ کو کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچا سکے گا ۔ ارشاد ہے آیت ( وَّلَا يُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةٌ وَّلَا يُؤْخَذُ مِنْهَا عَدْلٌ وَّلَا ھُمْ يُنْصَرُوْنَ ) 2 ۔ البقرۃ:48 ) یعنی کسی کافر کی نہ کوئی سفارش کرے نہ اس کی سفارش قبول ہو اور فرمایا ان کفار کو شفاعت کرنے والوں کی شفاعت فائدہ نہ دے گی دوسری جگہ اہل جہنم کا یہ مقولہ نقل کیا گیا ہے کہ افسوس آج ہمارا نہ کوئی سفارشی ہے نہ دوست ۔ یہ بھی ارشاد ہے فدیہ بھی نہ لیا جائے گا اور جو لوگ کفر پر مر جاتے ہیں وہ اگر زمین بھر کر سونا دیں اور ہمارے عذابوں سے چھوٹنا چاہیں تو یہ بھی نہیں ہو سکتا اور جگہ ہے کافروں کے پاس اگر تمام زمین کی چیزیں٠ اور اس کے مثال اور بھی ہوں اور قیامت کے دن وہ اسے فدیہ دے کر عذابوں سے بچنا چاہیں تو بھی کچھ قبول نہ ہو گا اور دردناک عذابوں میں مبتلا رہیں گے اور جگہ ہے ۔ گو وہ زبردست فدیہ دیں پھر بھی قبول نہیں دوسری جگہ ہے آج تم سے نہ بدلہ لیا جائے نہ ہی کافروں سے تمہارا ٹھکانا جہنم ہے اسی کی آگ تمہاری وارث ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ ایمان کے بغیر سفارش اور شفاعت کا آسرا بیکار محض ہے قرآن میں ارشاد ہے اس دن سے پہلے نیکیاں کر لو جس دن نہ خریدو فروخت ہو گی نہ دوستی اور شفاعت مزید فرمایا آیت ( يَوْمٌ لَّا بَيْعٌ فِيْهِ وَلَا خِلٰلٌ ) 14 ۔ ابراہیم:31 ) اس دن نہ بیع ہو گی نہ دوستی ۔ عدل کے معنی یہاں بدلے کے ہیں اور بدلہ اور فدیہ ایک ہے حضرت علی والی حدیث میں صرف کے معنی نفل اور دل کے معنی فریضہ مروی ہیں لیکن یہ قول یہاں غریب ہے اور صحیح قول پہلا ہی ہے ایک روایت میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عدل کے کیا معنی ہیں آپ نے فرمایا فدیہ ۔ ان کی مدد بھی نہ کی جائے گی یعنی کوئی حمایتی نہیں ہو گا ، قرابتیں کٹ جائیں گی جاہ و حشم جاتا رہے گا کسی کے دل میں ان کے لئے رحم نہ رہے گا نہ خود ان میں کوئی قدرت و قوت رہے گی اور جگہ ہے آیت ( وَّهُوَ يُجِيْرُ وَلَا يُجَارُ عَلَيْهِ ) 23 ۔ المؤمنون:88 ) وہ پناہ دیتا ہے اور اس کی پکڑ سے نجات دینے والا کوئی نہیں ، ایک جگہ ہے آج کے دن نہ اللہ کا سا کوئی عذاب دے سکے نہ اس کی سی قید و بند ۔ ارشاد ہے آیت ( مالکم لا تناصرون بل ھم الیوم مستسلمون ) تم آج کیوں ایک دوسرے کی مدد نہیں کرتے بلکہ وہ سب کے سب آج گردنیں جھکائے تابع فرمان بنے کھڑے ہیں اور آیت میں ہے آیت ( فَلَوْلَا نَــصَرَهُمُ الَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ قُرْبَانًا اٰلِهَةً ) 46 ۔ الاحقاف:48 ) اللہ کے نزدیکی کے لئے وہ اللہ کے سوا جن کی پوجا پاٹ کرتے تھے آج وہ معبود اپنے عابدوں کی مدد کیوں نہیں کرتے؟ بلکہ وہ تو غائب ہو گئے مطلب یہ ہے کہ محبتیں فنا ہو گئیں رشوتیں کٹ گئیں ، شفاعتیں مٹ گئیں ، آپس کی امداد و نصرت نابود ہو گئی معاملہ اس عادل حاکم جبار و قہار اللہ تعالیٰ مالک الملک سے پڑا ہے جس کے ہاں سفارشیوں اور مددگاروں کی مدد کچھ کام نہ آئے بلکہ اپنی تمام برائیوں کا بدلہ بھگتنا پڑے گا ، ہاں یہ اس کی کمال بندہ پروری اور رحم و کرم انعام و اکرام ہے کہ گناہ کا بدلہ برابر دے اور نیکی کا بدلہ کم از کم دس گنا بڑھا کر دے ۔ قرآن کریم میں ایک جگہ ہے کہ وقفہ لینے دو تاکہ ان سے ایک سوال کر لیا جائے گا کہ آج یہ ایک دوسرے کی مدد چھوڑ کر نفسا نفسی میں کیوں مشغول ہیں؟ بلکہ ہمارے سامنے سر جھکائے اور تابع فرمان ہیں ۔