Surah

Information

Surah # 4 | Verses: 176 | Ruku: 24 | Sajdah: 0 | Chronological # 92 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
وَمَا كَانَ لِمُؤۡمِنٍ اَنۡ يَّقۡتُلَ مُؤۡمِنًا اِلَّا خَطَـــًٔا‌ ۚ وَمَنۡ قَتَلَ مُؤۡمِنًا خَطَـــًٔا فَتَحۡرِيۡرُ رَقَبَةٍ مُّؤۡمِنَةٍ وَّدِيَةٌ مُّسَلَّمَةٌ اِلٰٓى اَهۡلِهٖۤ اِلَّاۤ اَنۡ يَّصَّدَّقُوۡا‌ ؕ فَاِنۡ كَانَ مِنۡ قَوۡمٍ عَدُوٍّ لَّـكُمۡ وَهُوَ مُؤۡمِنٌ فَتَحۡرِيۡرُ رَقَبَةٍ مُّؤۡمِنَةٍ‌ ؕ وَاِنۡ كَانَ مِنۡ قَوۡمٍۢ بَيۡنَكُمۡ وَبَيۡنَهُمۡ مِّيۡثَاقٌ فَدِيَةٌ مُّسَلَّمَةٌ اِلٰٓى اَهۡلِهٖ وَ تَحۡرِيۡرُ رَقَبَةٍ مُّؤۡمِنَةٍ‌ ۚ فَمَنۡ لَّمۡ يَجِدۡ فَصِيَامُ شَهۡرَيۡنِ مُتَتَابِعَيۡنِ تَوۡبَةً مِّنَ اللّٰهِ‌ ؕ وَكَانَ اللّٰهُ عَلِيۡمًا حَكِيۡمًا‏ ﴿92﴾
کسی مومن کو دوسرے مومن کا قتل کر دینا زیبا نہیں مگر غلطی سے ہو جائے ( تو اور بات ہے ) ، جو شخص کسی مسلمان کو بلاقصد مار ڈالے اس پر ایک مسلمان غلام کی گردن آزاد کرنا اور مقتول کے عزیزوں کو خون بہا پہنچانا ہے ۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ لوگ بطور صدقہ معاف کر دیں اور اگر مقتول تمہاری دشمن قوم کا ہو اور ہو وہ مسلمان تو صرف ایک مومن غلام کی گردن آزاد کرنی لازمی ہے ۔ اور اگر مقتول اس قوم سے ہو کہ تم میں اور ان میں عہد و پیماں ہے تو خون بہا لازم ہے جو اس کے کنُبے والوں کو پہنچایا جائے اور ایک مسلمان غلام کا آزاد کرنا بھی ( ضروری ہے ) پس جو نہ پائے اس کے ذمے دو مہینے کے لگاتار روزے ہیں ، اللہ تعالٰی سے بخشوانے کے لئے اور اللہ تعالٰی بخوبی جاننے والا اور حکمت والا ہے ۔
و ما كان لمؤمن ان يقتل مؤمنا الا خطا و من قتل مؤمنا خطا فتحرير رقبة مؤمنة و دية مسلمة الى اهله الا ان يصدقوا فان كان من قوم عدو لكم و هو مؤمن فتحرير رقبة مؤمنة و ان كان من قوم بينكم و بينهم ميثاق فدية مسلمة الى اهله و تحرير رقبة مؤمنة فمن لم يجد فصيام شهرين متتابعين توبة من الله و كان الله عليما حكيما
And never is it for a believer to kill a believer except by mistake. And whoever kills a believer by mistake - then the freeing of a believing slave and a compensation payment presented to the deceased's family [is required] unless they give [up their right as] charity. But if the deceased was from a people at war with you and he was a believer - then [only] the freeing of a believing slave; and if he was from a people with whom you have a treaty - then a compensation payment presented to his family and the freeing of a believing slave. And whoever does not find [one or cannot afford to buy one] - then [instead], a fast for two months consecutively, [seeking] acceptance of repentance from Allah . And Allah is ever Knowing and Wise.
Kissi momin ko doosray momin ka qatal ker dena zaiba nahi magar ghalati say hojaye ( to aur baat hai ) jo shaks kissi musalman ko bila qasad maar dalay uss per aik musalman ghulam ki gardan aazad kerna aur maqtool kay azizon ko khoon baha phonchana hai haan yeh aur baat hai kay woh log bator sadqa moaf ker denaur maqtool agar tumhari dushman qom ka ho aur ho woh musalman to sirf aik momin ghulam ki gardan aazad kerni lazmi hai. Aur agar maqtool uss qom say ho kay tum mein aur unn mein ehad-o-paymaan hai to khoon baha lazim hai jo uss kay kunbay walon ko phonchaya jaye aur aik musalman ghulam ka aazad kerna bhi ( zaroori hai ) pus jo na paye uss kay zimmay do maheeney kay lagataar raozay hain Allah Taalaa say bakshwaney kay liye aur Allah Taalaa bakhoobi janney wala aur hikmat wala hai.
کسی مسلمان کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ کسی دسرے مسلمان کو قتل کرے ، الا یہ کہ غلطی سے ایسا ہوجائے ۔ ( ٥٦ ) اور جو شخص کسی مسلمان کو غلطی سے قتل کربیٹھے تو اس پر فرض ہے کہ وہ ایک مسلمان غلام آزاد کرے اور دیت ( یعنی خون بہا ) مقتول کے وارثوں کو پہنچائے ، الا یہ کہ وہ معاف کردیں ۔ اور اگر مقتول کسی ایسی قوم سے تعلق رکھتا ہو جو تمہاری دشمن ہے ، مگر وہ خود مسلمان ہو تو بس ایک مسلمان غلام کو آزاد کرنا فرض ہے ، ( خون بہا دینا واجب نہیں ) ( ٥٧ ) ۔ اور اگر مقتول ان لوگوں میں سے ہو جو ( مسلمان نہیں ، مگر ) ان کے اور تمہارے درمیان کوئی معاہدہ ہے تو بھی یہ فرض ہے کہ خوں بہا اس کے وارثوں تک پہنچایا جائے ، اور ایک مسلمان غلام کو آزاد کیا جائے ۔ ( ٥٨ ) ہاں اگر کسی کے پاس غلام نہ ہو تو اس پر فرض ہے کہ دو مہینے تک مسلسل روزے رکھے ۔ یہ توبہ کا طریقہ ہے جو اللہ نے مقرر کیا ہے ، اور اللہ علیم و حکیم ہے ۔
اور مسلمانوں کو نہیں پہنچتا کہ مسلمان کا خون کرے مگر ہاتھ بہک کر ( ف۲٤۹ ) اور جو کسی مسلمان کو نادانستہ قتل کرے تو اس پر ایک مملوک مسلمان کا آزاد کرنا ہے اور خون بہا کر مقتول کے لوگوں کو سپرد کی جائے ( ف۲۵۰ ) مگر یہ کہ وہ معاف کردیں پھر اگر وہ ( ف۲۵۱ ) اس قوم سے ہو جو تمہاری دشمن ہے ( ف۲۵۲ ) اور خود مسلمان ہے تو صرف ایک مملوک مسلمان کا آزاد کرنا ( ف۲۵۳ ) اور اگر وہ اس قوم میں ہو کہ تم میں ان میں معاہدہ ہے تو اس کے لوگوں کو خوں بہا سپرد کیا جائے اور ایک مسلمان مملوک آزاد کرنا ( ف۲۵٤ ) تو جس کا ہاتھ نہ پہنچے ( ۲۵۵ ) وہ لگاتار دو مہینے کے روزے ( ف۲۵٦ ) یہ اللہ کے یہاں اس کی توبہ ہے اور اللہ جاننے والا حکمت والا ہے ،
کسی مومن کا یہ کام نہیں ہے کہ دوسرے مومن کو قتل کرے ، اِلّا یہ کہ اس سے چوک ہو جائے ۔ 120 اور جو شخص کسی مومن کو غلطی سے قتل کر دے تو اس کا کفّارہ یہ ہے کہ ایک مومن کو غلامی سے آزاد کرے121 اور مقتول کے وارثوں کو خون بہا دے ، 122 اِلّا یہ کہ وہ خون بہا معاف کر دیں ۔ لیکن اگر وہ مسلمان مقتول کسی ایسی قوم سے تھا جس سے تمہاری دشمنی ہو تو اس کا کفّارہ ایک مومن غلام آزاد کرنا ہے ۔ اور اگر وہ کسی ایسی غیر مسلم قوم کا فرد تھا جس سے تمہارا معاہدہ ہو تو اس کے وارثوں کو خوں بہا دیا جائے گا اور ایک مومن غلام کو آزاد کرنا ہوگا ۔ 123 پھر جو غلام نہ پائے وہ پے در پے دو مہینے کے روزے رکھے ۔ 124 یہ اس گناہ پر اللہ سے توبہ کرنے کا طریقہ ہے 125 اور اللہ علیم و دانا ہے ۔
اور کسی مسلمان کے لئے ( جائز ) نہیں کہ وہ کسی مسلمان کو قتل کر دے مگر ( بغیر قصد ) غلطی سے ، اور جس نے کسی مسلمان کو نادانستہ قتل کر دیا تو ( اس پر ) ایک مسلمان غلام / باندی کا آزاد کرنا اور خون بہا ( کا ادا کرنا ) جو مقتول کے گھر والوں کے سپرد کیا جائے ( لازم ہے ) مگر یہ کہ وہ معاف کر دیں ، پھر اگر وہ ( مقتول ) تمہاری دشمن قوم سے ہو اور وہ مومن ( بھی ) ہو تو ( صرف ) ایک غلام / باندی کا آزاد کرنا ( ہی لازم ) ہے اور اگر وہ ( مقتول ) اس قوم میں سے ہو کہ تمہارے اور ان کے درمیان ( صلح کا ) معاہدہ ہے تو خون بہا ( بھی ) جو اس کے گھر والوں کے سپرد کیا جائے اور ایک مسلمان غلام / باندی کا آزاد کرنا ( بھی لازم ) ہے ۔ پھر جس شخص کو ( غلام / باندی ) میسر نہ ہو تو ( اس پر ) پے در پے دو مہینے کے روزے ( لازم ) ہیں ۔ اللہ کی طرف سے ( یہ اس کی ) توبہ ہے ، اور اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے
سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :120 یہاں ان منافق مسلمانوں کا ذکر نہیں ہے جن کے قتل کی اوپر اجازت دی گئی ہے ، بلکہ ان مسلمانوں کا ذکر ہے جو یا تو دارالاسلام کے باشندے ہوں ، یا اگر دارالحرب یا دارالکفر میں بھی ہوں تو دشمنان اسلام کی کارروائیوں میں ان کی شرکت کا کوئی ثبوت نہ ہو ۔ اس وقت بکثرت لوگ ایسے بھی تھے جو اسلام قبول کرنے کے بعد اپنی حقیقی مجبوریوں کی بنا پر دشمن اسلام قبیلوں کے درمیان ٹھیرے ہوئے تھے ۔ اور اکثر ایسے اتفاقات پیش آجاتے تھے کہ مسلمان کسی دشمن قبیلہ پر حملہ کرتے اور وہاں نادانستگی میں کوئی مسلمان ان کے ہاتھ سے مارا جاتا تھا ۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے یہاں اس صورت کا حکم بیان فرمایا ہے جبکہ غلطی سے کوئی مسلمان کسی مسلمان کے ہاتھ سے مارا جائے ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :121 چونکہ مقتول مومن تھا اس لئے اس کے قتل کا کفارہ ایک مومن غلام کی آزادی قرار دیا گیا ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :122 نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خوں بہا کی مقدار سو اونٹ ، یا دوسو گائیں ، یا دو ہزار بکریاں مقرر فرمائی ہے ۔ اگر دوسری کسی شکل میں کوئی شخص خوں بہا دینا چاہے تو اس کی مقدار انہی چیزوں کی بازاری قیمت کے لحاظ سے معین کی جائے گی ۔ مثلاً نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں نقد خوں بہا دینے والوں کے لیے ۸ سو دینار یا ۸ ہزار درہم مقرر تھے ۔ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ آیا تو انہوں نے فرمایا کہ اونٹوں کی قیمت اب چڑھ گئی ہے ، لہٰذا اب سونے کے سکے میں ایک ہزار دینار ، یا چاندی کے سکے میں ۱۲ ہزار درہم خوں بہا دلوایا جائے گا ۔ مگر واضح رہے کہ خوں بہا کی یہ مقدار جو مقرر کی گئی ہے قتل عمد کی صورت کے لیے نہیں ہے بلکہ قتل خطا کی صورت کے لیے ہے ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :123 اس آیت کے احکام کا خلاصہ یہ ہے: اگر مقتول دارالاسلام کا باشندہ ہو تو اس کے قاتل کو خوں بہا بھی دینا ہوگا اور خدا سے اپنے قصور کی معافی مانگنے کے لیے ایک غلام بھی آزاد کرنا ہوگا ۔ اگر وہ دارالحرب کا باشندہ ہو تو قاتل کو صرف غلام آزاد کرنا ہوگا ۔ اس کا خوں بہا کچھ نہیں ہے ۔ اگر وہ کسی ایسے دارالکفر کا باشندہ ہو جس سے اسلامی حکومت کا معاہدہ ہے تو قاتل کو ایک غلام آزاد کرنا ہوگا اور اس کے علاوہ خوں بہا بھی دینا ہوگا ، لیکن خوں بہا کی مقدار وہی ہوگی جتنی اس معاہد قوم کے کسی غیر مسلم فرد کو قتل کردینے کی صورت میں ازروئے معاہدہ دی جانی چاہیے ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :124 یعنی روزے مسلسل رکھے جائیں ، بیچ میں ناغہ نہ ہو ۔ اگر کوئی شخص عذر شرعی کے بغیر ایک روزہ بھی بیچ میں چھوڑ دے تو ازسر نو روزوں کا سلسلہ شروع کرنا پڑے گا ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :125 یعنی یہ”جرمانہ“نہیں بلکہ”توبہ“ اور ”کفارہ“ ہے ۔ جرمانہ میں ندامت و شرمساری اور اصلاح نفس کی کوئی روح نہیں ہوتی بلکہ عموماً وہ سخت ناگواری کے ساتھ مجبوراً دیا جاتا ہے اور بیزاری و تلخی اپنے پیچھے چھوڑ جاتا ہے ۔ برعکس اس کے اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ جس بندے سے خطا ہوئی ہو وہ عبادت اور کار خیر اور ادائے حقوق کے ذریعہ سے اس کا اثر اپنی روح پر سے دھودے ، اور شرمساری و ندامت کے ساتھ اللہ کی طرف رجوع کرے ، تاکہ نہ صرف یہ گناہ معاف ہو بلکہ آئندہ کے لیے اس کا نفس ایسی غلطیوں کے اعادہ سے بھی محفوظ رہے ۔ کفارہ کے لغوی معنی ہیں”چھپانے والی چیز“ ۔ کسی کار خیر کو گناہ کا ”کفارہ“قرار دینے کا مطلب یہ ہے کہ یہ نیکی اس گناہ پر چھا جاتی ہے اور اسے ڈھانک لیتی ہے ، جیسے کسی دیوار پر داغ لگ گیا ہو اور اس پر سفیدی پھیر کر داغ کا اثر مٹا دیا جائے ۔
قتل مسلم ، قصاص و دیت کے مسائل اور قتل خطا ارشاد ہوتا ہے کہ کسی مسلمان کو لائق نہیں کہ کسی حال میں اپنے مسلمان بھائی کا خون ناحق کرے صحیح میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کسی مسلمان کا جو اللہ کی ایک ہونے کی اور میرے رسول ہونے کی شہادت دیتا ہو خون بہانا حلال نہیں مگر تین حالتوں میں ایک تو یہ کہ اس نے کسی کو قتل کر دیا ہو ، دوسرے شادی شدہ ہو کر زنا کیا ہو ، تیسرے دین اسلام کو چھوڑ دینے والا جماعت سے علیحدہ ہونے والا ۔ پھر یہ بھی یاد رہے کہ جب ان تینوں کاموں میں سے کوئی کام کسی سے واقع ہو جائے تو رعایا میں سے کسی کو اس کے قتل کا اختیار نہیں البتہ امام یا نائب امام کو بہ عہدہ قضا کا حق ہے ، اس کے بعد استثناء منقطع ہے ، عرب شاعروں کے کلام میں بھی اس قسم کے استثناء بہت سے ملتے ہیں ، اس آیت کے شان نزول میں ایک قول تو یہ مروی ہے کہ عیاش بن ابی ربیعہ جو ابو جہل کا ماں کی طرف سے بھائی تھا جس ماں کا نام اسماء بنت مخرمہ تھا اس کے بارے میں اتری ہے اس نے ایک شخص کو قتل کر ڈالا تھا جسے وہ اسلام لانے کی وجہ سے سزائیں دے رہا تھا یہاں تک کہ اس کی جان لے لی ، ان کا نام حارث بن زید عامری تھا ، حضرت عیاش رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دل میں یہ کانٹا رہ گیا اور انہوں نے ٹھان لی کہ موقعہ پا کر اسے قتل کردوں گا اللہ تعالیٰ نے کچھ دنوں بعد قاتل کو بھی اسلام کی ہدایت دی وہ مسلمان ہوگئے اور ہجرت بھی کر لی لیکن حضرت عیاش رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ معلوم نہ تھا ، فتح مکہ والے دن یہ ان کی نظر پڑے یہ جان کر کہ یہ اب تک کفر پر ہیں ان پر اچانک حملہ کر دیا اور قتل کر دیا اس پر یہ آیت اتری دوسرا قول یہ ہے کہ یہ آیت حضرت ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے جبکہ انہوں نے ایک شخص کافر پر حملہ کیا تلوار سونتی ہی تھی تو اس نے کلمہ پڑھ لیا لیکن ان کی تلوار چل گئی اور اسے قتل کر ڈالا ، جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ واقعہ بیان ہوا تو حضرت ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنا یہ عذر بیان کیا کہ اس نے صرف جان بچانے کی غرض سے یہ کلمہ پڑھا تھا ، آپ ناراض ہو کر فرمانے لگے کیا تم نے اس کا دل چیر کر دیکھا تھا ؟ یہ واقعہ صحیح حدیث میں بھی ہے لیکن وہاں نام دوسرے صحابی کا ہے ، پھر قتل خطا کا ذکر ہو رہا ہے کہ اس میں دو چیزیں واجب ہیں ایک تو غلام آزاد کرنا دوسرے دیت دینا ، اس غلام کے لئے بھی شرط ہے کہ وہ ایماندار ہو ، کافر کو آزاد کرنا کافی نہ ہو گا چھوٹا نابالغ بچہ بھی کافی نہ ہوگا جب تک کہ وہ اپنے ارادے سے ایمان کا قصد کرنے والا اور اتنی عمر کا نہ ہو ، امام ابن جریر کا مختار قول یہ ہے کہ اگر اس کے ماں باپ دونوں مسلمان ہوں تو جائز ہے ورنہ نہیں ، جمہور کا مذہب یہ ہے کہ مسلمان ہونا شرط ہے چھوٹے بڑے کی کوئی قید نہیں ، ایک انصاری سیاہ فام لونڈی کو لے کر حاضر حضور ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میرے ذمے ایک مسلمان گردن کا آزاد کرنا ہے اگر یہ مسلمان ہو تو میں اسے آزاد کردوں ، آپ نے اس لونڈی سے پوچھا کیا تو گواہی دیتی ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں؟ اس نے کہا ہاں ، آپ نے فرمایا اس بات کی بھی گواہی دیتی ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ اس نے کہا ہاں فرمایا کیا مرنے کے بعد جی اٹھنے کی بھی تو قائل ہے؟ اس نے کہا ہاں ، آپ نے فرمایا اسے آزاد کردو اس نے اسناد صحیح ہے اور صحابی کون تھے؟ اس کا مخفی رہنا سند میں مضر نہیں ، یہ روایت حدیث کی اور بہت سی کتابوں میں اس طرح ہے کہ آپ نے اس سے پوچھا اللہ کہاں ہے؟ اس نے کہا آسمانوں میں دریافت کیا میں کون ہوں؟ جواب دیا آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں آپ نے فرمایا اسے آزاد کردو ۔ یہ ایماندار ہے پس ایک تو گردن آزاد کرنا واجب ہے دوسرے خوں بہا دینا جو مقتول کے گھر والوں کو سونپ دیا جائے گا یہ ان کے مقتول کا عوض ہے یہ دیت سو اونٹ ہے پانچ سو قسموں کے ، بیس تو دوسری سال کی عمر کی اونٹنیاں اور بیس اسی عمر کے اونٹ اور بیس تیسرے سال میں لگی ہوئی اونٹنیاں اور بیس پانچویں سال میں لگی ہوئی اور بیس چوتھے سال میں لگی ہوئی یہی فیصلہ قتل خطا کے خون بہا کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کیا ہے ملاحظہ ہو سنن و مسند احمد ۔ یہ حدیث بروایت حضرت عبداللہ موقوف بھی مروی ہے ، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ایک جماعت سے بھی یہی منقول ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ دیت چار چوتھائیوں میں بٹی ہوئی ہے یہ خون بہا قاتل کے عاقلہ اور اس کے عصبہ یعنی وارثوں کے بعد کے قریبی رشتہ داروں پر ہے اس کے اپنے مال پر نہیں امام شافعی فرماتے ہیں میرے خیال میں اس امر میں کوئی بھی مخالف نہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیت کا فیصلہ انہی لوگوں پر کیا ہے اور یہ حدیث خاصہ میں کثرت سے مذکور ہے امام صاحب جن احادیث کی طرف اشارہ کرتے ہیں وہ بہت سی ہیں ، بخاری و مسلم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ہذیل قبیلہ کی دو عورتیں آپس میں لڑیں ایک نے دوسرے کو پتھر مارا وہ حاملہ تھی بچہ بھی ضائع ہو گیا اور وہ بھی مر گئی قصہ آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا تو آپ نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ اس بچہ کے عوض تو ایک لونڈی یا غلام دے اور عورت مقتولہ کے بدلے دیت قاتلہ عورت کے حقیقی وارثوں کے بعد کے رشتے داروں کے ذمے ہے ، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جو قتل عمد خطا سے ہو وہ بھی حکم میں خطاء محض کے ہے ۔ یعنی دیت کے اعتبار سے ہاں اس میں تقسیم ثلث پر ہو گی تین حصے ہونگے کیونکہ اس میں شباہت عمد یعنی بالقصد بھی ہے ، صحیح بخاری شریف میں ہے بنو جذیمہ کی جنگ کے لئے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حضور نے ایک لشکر پر سردار بنا کر بھیجا انہوں نے جا کر انہیں دعوت اسلام دی انہوں نے دعوت تو قبول کر لی لیکن بوجہ لا علمی بجائے اسلمنا یعنی ہم مسلمان ہوئے کے صبانا کہا یعنی ہم بےدین ہوئے ، حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انہیں قتل کرنا شروع کر دیا جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ خبر پہنچی تو آپ نے ہاتھ اٹھا کر جناب باری میں عرض کی یا اللہ خالد کے اس فعل میں اپنی بیزاری اور برات تیرے سامنے ظاہر کرتا ہوں ، پھر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلا کر انہیں بھیجا کہ جاؤ ان کے مقتولوں کی دیت چکاؤ اور جو ان کا مالی نقصان ہوا ہو اسے بھی کوڑی کوڑی چکاؤ ، اس سے ثابت ہوا کہ امام یا نائب امام کی خطا کا بوجھ بیت المال پر ہو گا ۔ پھر فرمایا ہے کہ خوں بہا جو واجب ہے اگر اولیاء مقتول از خود اس سے دست بردار ہو جائیں تو انہیں اختیار ہے وہ بطور صدقہ کے اسے معاف کرسکتے ہیں ۔ پھر فرمان ہے کہ اگر مقتول مسلمان ہو لیکن اس کے اولیاء حربی کافر ہوں تو قاتل پر دیت نہیں ، قاتل پر اس صورت میں صرف آزادگی گردن ہے اور اگر اس کے ولی وارث اس قوم میں سے ہوں جن سے تمہاری صلح اور عہد و پیمان ہے تو دیت دینی پڑے گی اگر مقتول مومن تھا تو کامل خون بہا اور اگر مقتول کافر تھا تو بعض کے نزدیک تو پوری دیت ہے بعض کے نزدیک آدھی بعض کے نزدیک تہائی ، تفصیل کتب احکام میں ملاحظہ ہو اور قاتل پر مومن بردے کو آزاد کرنا بھی لازم ہے اگر کسی کو اس کی طاقت بوجہ مفلسی کے نہ ہو تو اس کے ذمے دو مہینے کے روزے ہیں جو لگاتار پے درپے رکھنے ہوں گے اگر کسی شرعی عذر مثلاً بیماری یا حیض یا نفاس کے بغیر کوئی روزہ بیچ میں سے چھوڑ دیا تو پھر نئے سرے سے روزے شروع کرنے پڑیں گے ، سفر کے بارے میں دو قول ہیں ایک تو یہ کہ یہ بھی شرعی عذر ہے دوسرے یہ کہ یہ عذر نہیں ۔ پھر فرماتا ہے قتل خطا کی توبہ کی یہ صورت ہے کہ غلام آزاد نہیں کر سکتا تو روزے رکھ لے اور جسے روزوں کی بھی طاقت نہ ہو وہ مسکینوں کو کھلا سکتا ہے یا نہیں؟ تو ایک قول تو یہ ہے کہ ساٹھ مسکینوں کو کھلا دے جیسے کہ ظہار کے کفارے میں ہے ، وہاں صاف بیان فرما دیا یہاں اس لئے بیان نہیں کیا گیا کہ یہ ڈرانے اور خوف دلانے کا مقام ہے آسانی کی صورت اگر بیان کر دی جاتی تو ہیبت وعظمت اتنی باقی نہ رہتی ، دوسرا قول یہ ہے کہ روزے کے نیچے کچھ نہیں اگر ہوتا تو بیان کے ساتھ ہی بیان کر دیا جاتا ، حاجب کے وقت سے بیان کو موخر کرنا ٹھیک نہیں ( یہ بظاہر قول ثانی ہی صحیح معلوم ہوتا ہے واللہ اعلم ۔ مترجم ) اللہ علیم وحکیم ہے ، اس کی تفسیر کئی مرتبہ گذر چکی ہے ۔ قتل عمداً اور قتل مسلم قتل خطا کے بعد اب قتل عمداً کا بیان ہو رہا ہے ، اس کی سختی برائی اور انتہائی تاکید والی ڈراؤنی وعید فرمائی جا رہی ہے یہ وہ گناہ جسے اللہ تعالیٰ نے شرک کے ساتھ ملا دیا ہے فرماتا ہے ( وَالَّذِيْنَ لَا يَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰــهًا اٰخَرَ وَلَا يَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِيْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُوْنَ ۚ وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ يَلْقَ اَثَامًا ) 25 ۔ الفرقان:68 ) یعنی مسلمان بندے وہ ہیں جو اللہ کے ساتھ کسی اور کو معبود ٹھہرا کر نہیں پکارتے اور نہ وہ کسی شخص کو ناحق قتل کرتے ہیں ، دوسری جگہ فرمان ہے ( قُلْ تَعَالَوْا اَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ اَلَّا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَـيْــــًٔـا وَّبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا ۚوَلَا تَقْتُلُوْٓا اَوْلَادَكُمْ مِّنْ اِمْلَاقٍ ) 6 ۔ الانعام:151 ) یہاں بھی اللہ کے حرام کئے ہوئے کاموں کا ذکر کرتے ہیں شرک کا اور قتل کا ذکر فرمایا ہے اور بھی اس مضمون کی آیتیں بہت سی ہیں اور حدیث بھی اس باب میں بہت سی منقول ہوئی ہیں ، بخاری مسلم میں ہے کہ سب سے پہلے خون کا فیصلہ قیامت کے دن ہو گا ، ابو داؤد میں ہے ایماندار نیکیوں اور بھلائیوں میں بڑھتا رہتا ہے جب تک کہ خون ناحق نہ کرے اگر ایسا کر لیا تو تباہ ہو جاتا ہے ، دوسری حدیث میں ہے ساری دنیا کا زوال اللہ کے نزدیک ایک مسلمان کے قتل سے کم درجے کا ہے اور حدیث میں ہے اگر تمام روئے زمین کے اور آسمان کے لوگ کسی ایک مسلمان کے قتل میں شریک ہوں تو اللہ سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے ، اور حدیث میں ہے جس شخص نے کسی مسلمان کے قتل میں آدھے کلمے سے بھی اعانت کی وہ قیامت کے دن اللہ کے سامنے اس حالت میں آئے گا اس کی پیشانی میں لکھاہا ہو گا کہ یہ شخص اللہ کی رحمت سے محروم ہے ، حضرت ابن عباس کا تو قول ہے کہ جس نے مومن کو قصداً قتل کیا اس کی توبہ قبول ہی نہیں ، اہل کوفہ جب اس مسئلہ میں اختلاف کرتے ہیں تو ابن جیبر ابن عباس کے پاس آکر دریافت کرتے ہیں آپ فرماتے ہیں یہ آخری آیت ہے جسے کسی آیت نے منسوخ نہیں کیا ، اور آپ فرماتے ہیں کہ دوسری ( وَالَّذِيْنَ لَا يَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰــهًا اٰخَرَ وَلَا يَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِيْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُوْنَ ۚ وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ يَلْقَ اَثَامًا ) 25 ۔ الفرقان:68 ) جس میں تو یہ ذکر ہے کہ وہ اہل شرک کے بارے میں نازل ہوئی ہے ، پس جبکہ کسی شخص نے اسلام کی حالت میں کسی مسلمان کو غیر شرعی وجہ سے قتل کیا اس کی سزا جہنم ہے اور اس کی توبہ قبول نہیں ہو گی ، حضرت مجاہد سے جب یہ قول عباس بیان ہوا تو فرمانے لگے مگر جو نادم ہو ، سالم بن ابو الجعد فرماتے ہیں ، حضرت ابن عباس جب نابینا ہوگئے تھے ایک مرتبہ ہم ان کے پاس بیٹھے ہوئے تھے جو ایک شخص آیا اور آپ کو آواز دے کر پوچھا کہ اس کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں جس نے کسی مومن کو جان بوجھ کر مار ڈالا آپ نے فرمایا اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اللہ کا اس پر غضب ہے اس پر اللہ کی لعنت ہے اور اس کے لئے عذاب عظیم تیار ہے ، اس نے پھر پوچھا اگر وہ توبہ کرے نیک عمل کرے اور ہدایت پر جم جائے تو؟ فرمانے لگے اس کی ماں اسے روئے اسے توبہ اور ہدایت کہاں؟ اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میرا نفس ہے میں نے تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بنا ہے اس کی ماں اسے روئے جس نے مومن کو جان بوجھ مار ڈالا ہے وہ قیامت کے دن اسے دائیں یا بائیں ہاتھ سے تھامے ہوئے رحمن کے عرش کے سامنے آئے گا اس کی رگوں سے خون بہہ رہا ہو گا اور اللہ سے کہے گا کہ اے اللہ اس سے پوچھ کہ اس نے مجھے کیوں قتل کیا ؟ اس اللہ عظیم کی قسم جس کے ہاتھ میں عبداللہ کی جان ہے کہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک اسے منسوخ کرنے والی کوئی آیت نہیں اتری ، اور روایت میں اتنا اور بھی ہے کہ نہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی وحی اترے گی حضرت زید بن ثابت ، حضرت ابو ہریرہ ، حضرت عبداللہ بن عمر ، حضرت ابو سلمہ بن عبدالرحمن ، عبید بن عمیر ، حسن ، قتادہ ، ضحاک بھی حضرت ابن عباس کے خیال کے ساتھ ہیں ۔ ابن مردویہ میں ہے کہ مقتول اپنے قاتل کو پکڑ کر قیامت کے دن اللہ کے سامنے لائے گا دوسرے ہاتھ سے اپنا سر اٹھائے ہوئے ہو گا اور کہے گا میرے رب اس سے پوچھ کہ اس نے مجھے کیوں قتل کیا ؟ قاتل کہے گا پروردگار اس لئے کہ تیری عزت ہو اللہ فرمائے گا پس یہ میری راہ میں ہے ۔ دوسرا مقتول بھی اپنے قاتل کو پکڑے ہوئے لائے گا اور یہی کہے گا ، قاتل جواباً کہے گا اس لئے کہ فلاں کی عزت ہو اللہ فرمائے گا قاتل کا گناہ اس نے اپنے سر لے لیا پھر اسے آگ میں جھونک دیا جائے گا جس گڑھے میں ستر سال تک تو نیچے چلا جائے گا ۔ مسند احمد میں ہے ممکن ہے اللہ تعالیٰ تمام گناہ بخش دے ، لیکن ایک تو وہ شخص جو کفر کی حالت میں مرا دوسرا وہ جو کسی مومن کا قصداً قاتل بنا ۔ ابن مردویہ میں بھی ایسی ہی حدیث ہے اور وہ بالکل غریب ہے ، محفوظ وہ حدیث ہے جو بحوالہ مسند بیان ہوئی ۔ ابن مردویہ میں اور حدیث ہے کہ جان بوجھ کر ایماندار کو مار ڈالنے والا کافر ہے ۔ یہ حدیث منکر ہے اور اس کی اسناد میں بہت کلام ہے ۔ حمید کہتے ہیں میرے پاس ابو العالیہ آئے میرے دوست بھی اس وقت میرے پاس تھے ہم سے کہنے لگے تم دونوں کم عمر اور زیادہ یادداشت والے ہو آؤ میرے ساتھ بشر بن عاصم کے پاس چلو جب وہاں پہنچے تو بشر سے فرمایا انہیں بھی وہ حدیث سنا دو انہوں نے سنانی شروع کی کہ عتبہ بن مالک لیثی نے کہا رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چھوٹا سا لشکر بھیجا تھا اس نے ایک قوم پر چھاپہ مارا وہ لوگ بھاگ کھڑے ہوئے ان کے ساتھ ایک شخص بھاگا جا رہا تھا اس کے پیچھے ایک لشکری بھاگا جب اس کے قریب ننگی تلوار لئے ہوئے پہنچ گیا تو اس نے کہا میں تو مسلمان ہوں ۔ اس نے کچھ خیال نہ کیا تلوار چلا دی ۔ اس واقعہ کی خبر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوئی تو آپ بہت ناراض ہوئے اور سخت سست کہا یہ خبر اس شخص کو بھی پہنچی ۔ ایک روز رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ پڑھ رہے تھے کہ اس قاتل نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی قسم اس نے تو یہ بات محض قتل سے بچنے کے لئے کہی تھی آپ نے اس کی طرف سے نگاہ پھیرلی اور خطبہ سناتے رہے ۔ اس نے دوبارہ کہا آپ نے پھر منہ موڑ لیا ، اس سے صبر نہ ہوسکا ، تیسری باری کہا تو آپ نے اس کی طرف توجہ کی اور ناراضگی آپ کے چہرے سے ٹپک رہی تھی ، فرمانے لگے مومن کے قاتل کی کوئی بھی معذرت قبول کرنے سے اللہ تعالیٰ انکار کرتے ہیں تین بار یہی فرمایا یہ روایت نسائی میں بھی ہے پس ایک مذہب تو یہ ہوا کہ قاتل مومن کی توبہ نہیں دوسرا مذہب یہ کے کہ توبہ اس کے اور اللہ کے درمیان ہے جمہور سلف وخلف کا یہی مذہب ہے کہ اگر اس نے توبہ کی اللہ کی طرف رجوع کیا خشوع خضوع میں لگا رہا نیک اعمال کرنے لگ گیا تو اللہ اس کی توبہ قبول کر لے گا اور مقتول کو اپنے پاس سے عوض دے کر اسے راضی کرلے گا اللہ فرماتا ہے ( اِلَّا مَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًـا فَاُولٰۗىِٕكَ يَدْخُلُوْنَ الْجَــنَّةَ وَلَا يُظْلَمُوْنَ شَـيْــــــًٔا ) 19 ۔ مریم:60 ) یہ خبر اور خبر میں نسخ کا احتمال نہیں اور اس آیت کو مشرکوں کے بارے میں اور اس آیت کو مومنوں کے بارے میں خاص کرنا بظاہر خلاف قیاس ہے اور کسی صاف دلیل کا محتاج ہے واللہ اعلم ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ( قُلْ يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِيْعًا ۭ اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ ) 39 ۔ الزمر:53 ) اے میرے وہ بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے تم میری رحمت سے مایوس نہ ہو ۔ یہ آیت اپنے عموم کے اعتبار سے ہر گناہ پر محیط ہے خواہ کفر و شرک ہو خواہ شک و نفاق ہو خواہ قتل وفسق ہو خواہ کچھ ہی ہو ، جو اللہ کی طرف رجوع کرے اللہ اس کی طرف مائل ہو گا جو توبہ کرے اللہ اسے معاف فرمائے گا ۔ فرماتا ہے ( اِنَّ اللّٰهَ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِيْعًا ۭ اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ ) 39 ۔ الزمر:53 ) اللہ تعالیٰ شرک کو بخشتا نہیں اس کے سوا کے تمام گناہ جسے چاہے بخش دے ۔ اللہ اس کی کریمی کے صدقے جائیے کہ اس نے اسی سورت میں اس آیت سے پہلے بھی جس کی تفسیر اب ہم کر رہے ہیں اپنی عام بخشش کی آیت بیان فرمائی اور پھر اس آیت کے بعد ہی اسے دوہرا دیا اسی طرح اپنی عام بخشش کا اعلان پھر کیا تاجکہ بندوں کو اس کی کامل فطرت سے کامل امید بند جائے واللہ اعلم ۔ بخاری مسلم کی وہ حدیث بھی اس موقعہ پر یاد رکھنے کے قابل ہے جس میں ہے کہ ایک بنی اسرائیلی نے ایک سو قتل کئے تھے ۔ پھر ایک عالم سے پوچھتا ہے کہ کیا میری توبہ قبول ہو سکتی ہے وہ جواب دیتا ہے کہ تجھ میں اور تیری توبہ میں کون ہے جو حائل ہے؟ جاؤ اس بدبستی کو چھوڑ کر نیکوں کے شہر میں بسو چنانچہ اس نے ہجرت کی مگر راستے میں ہی فوت ہو گیا اور رحمت کے فرشتے اسے لے گئے یہ حدیث پوری پوری کئی مرتبہ ہو چکی ہے جبکہ بنی اسرائیل میں یہ ہے تو اس امت مرحومہ کے لئے قاتل کی توبہ کے لئے دروازے بند کیوں ہوں؟ ہم پر تو پہلے بہت زیادہ پابندیاں تھیں جن سب سے اللہ نے ہمیں آزاد کر دیا اور رحمتہ اللعالمین جیسے سردار انبیاء کو بھیج کر وہ دین ہمیں دیا جو آسانیوں اور راحتوں والا سیدھا صاف اور واضح ہے ، لیکن یہاں جو سزا قاتل کی بیان فرمائی ہے اس سے مرادیہ ہے کہ اس کی سزا یہ ہے کہ اسے سزا ضرور دی جائے ۔ چنانچہ حضرت ابو ہریرہ اور سلف کی ایک جماعت بھی یہی فرماتی ہے ، بلکہ اس معنی کی ایک حدیث بھی ابن مردویہ میں ہے لیکن سنداً وہ صحیح نہیں اور اسی طرح ہر وعید کا مطلب یہی ہے کہ اگر کوئی عمل صالح وغیرہ اس کے مقابل میں نہیں تو اس بدی کا بدلہ وہ ہے جو وعید میں واضح بیان ہوا ہے اور یہی طریقہ وعید کے بارے میں ہمارے نزدیک نہایت درست اور احتیاط والا ہے ۔ واللہ اعلم بالصواب ، اور قاتل کا مقدر جہنم بن گیا ۔ چاہے اس کی وجہ توبہ کی عدم قبولیت کہا جائے یا اس کے متبادل کسی نیک عمل کا مفقود ہونا خواہ بقول جمہور دوسرا نیک عمل نجات دہندہ نہ ہونے کی وجہ سے ہو ۔ وہ ہمیشہ جہنم میں نہ رہے گا بلکہ یہاں خلود سے مراد بہت دیر تک رہنا ہے جیسا کہ متواتر احادیث سے ثابت ہے کہ جہنم میں سے وہ بھی نکل آئیں گے جن کے دل میں رائی کے چھوٹے سے چھوٹے دانے کے برابر بھی ایمان ہو گا ۔ اوپر جو ایک حدیث بیان ہوئی ہے کہ ممکن ہے اللہ تعالیٰ تمام گناہوں کو بجز کفر اور قتل مومن کے معاف فرما دے ۔ اس میں عسی ترجی کا مسئلہ ہے ان دونوں صورتوں میں ترجی یعنی امید گو اٹھ جائے پھر بھی وقوع پذیر ہوتا یعنی ایسا ہونا ان دونوں میں سے ایک بھی ممکن نہیں اور وہ قتل ہے ، کیونکہ شرک وکفر کا معاف نہ ہونا تو الفاظ قرآن سے ثابت ہو چکا اور جو حدیثیں گذریں جن میں قاتل کو مقتول لے کر آئے گا وہ بالکل ٹھیک ہیں چونکہ اس میں انسانی حق ہے وہ توبہ سے ٹل نہیں جاتا ۔ بلکہ انسانی حق تو توبہ ہونے کی صورت میں بھی حقدار کو پہنچانا ضروری ہے اس میں جس طرح قتل ہے اسی طرح چوری ہے غضب ہے تہمت ہے اور دوسرے حقوق انسان ہیں جن کا توبہ سے معاف نہ ہونا اجماعاً ثابت ہے بلکہ توبہ کے لئے صحت کی شرط ہے کہ ان حقوق کو ادا کرے ۔ اور جب ادائیگی محال ہے تو قیامت کے روز اس کا مطالبہ ضروری ہے ۔ لیکن مطالبہ سے سزا کا واقع ہونا ضروری نہیں ۔ ممکن ہے کہ قاتل کے اور سب اعمال صالحہ مقتول کو دے دئیے جائیں یا بعض دے دئیے جائیں اور اس کے پاس پھر بھی کچھ رہ جائیں اور یہ بخش دیا جائے اور یہ بھی ممکن ہے کہ قاتل کا مطالبہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے اپنے پاس سے اور اپنی طرف سے حور و قصور اور بلند درجات جنت دے کر پورا کر دے اور اس کے عوض وہ اپنے قاتل سے درگذر کرنے پر خوش ہو جائے اور قاتل کو اللہ تعالیٰ بخش دے وغیرہ ۔ واللہ اعلم ۔ جان بوجھ کر مارا ڈالنے والے کے لئے کچھ تو دنیوی احکام ہیں اور کچھ اخروی ۔ دنیا میں تو اللہ نے مقتول کے ولیوں کو اس پر غلیہ دیا ہے فرماتا ہے ( آیت ومن قتل مظلوما فقد جعلنا لولیہ سلطانا الخ ، ) جو ظلم سے قتل کیا جائے ہم نے اس کے پیچھے والوں کو غلبہ دیا ہے کہ انہیں اختیار ہے کہ یا تو وہ بدلہ لیں یعنی قاتل کو بھی قتل کرائیں یا معاف کر دیں یا دیت یعنی خون بہا یعنی جرمانہ وصول کرلیں اور اس کے جرمانہ میں سختی ہے جو تین قسموں پر مشتمل ہے ۔ تیس تو چوتھے سال کی عمر میں لگے ہوئے اونٹ ، تیس پانچویں سال میں لگے ہوئے ، چالیس حاملہ اونٹنیاں جیسے کہ کتب احکام میں ثابت ہیں ، اس میں ائمہ نے اختلاف کیا ہے کہ اس پر غلام کا آزاد کرنا یا دو ماہ کے پے درپے روزے رکھے یا کھانا کھلانا ہے یا نہیں؟ پس امام شافعی اور ان کے اصحاب اور علماء کی ایک جماعت تو اس کی قائل ہے کہ جب خطا میں یہ حکم ہے تو عمداً میں بطور ادنیٰ یہی حکم ہونا چاہئے اور ان پر جواباً جھوٹی غیر شرعی قسم کے کفارے کو پیش کیا گیا ہے اور انہوں نے اس کا عذر عمداً چھوڑ دی ہوئی دی نماز کو قضا قرار دیا ہے جیسے کہ اس پر اجماع ہے خطا میں ، امام احمد کے اصحاب اور دوسرے کہتے ہیں قتل عمداً ناقابل کفارہ ہے ۔ اس لئے اس یعنی کفارہ نہیں اور اسی طرح جھوٹی قسم اور ان کے لئے ان دونوں صورتوں میں اور عمداً چھوٹی ہوئی نماز میں فرق کرنے کی کوئی راہ نہیں ، اسلئے کہ یہ لوگ حضرت واثلہ بن اسقع کے پاس آئے اور کہا کوئی ایسی حدیث بھی ہے جو مسند احمد میں مروی ہے کہ لوگ حضرت واثلہ بن اسقع کے پاس آئے اور کہا کوئی ایسی حدیث سناؤ جس میں کمی زیادتی نہ ہو تو وہ بہت ناراض ہوئے اور فرمانے لگے کیا تم قرآن لے کر پڑھتے ہو تو اس میں کمی زیادتی بھی کرتے ہو؟ انہوں نے کہا حضرت ہمارا مطلب یہ ہے کہ خود رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ نے جو سنی ہو کہا ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنوں میں سے ایک آدمی کی بابت حاضر ہوئے جس نے بوجہ قتل کے اپنے تئیں جہنمی بنا لیا تھا ۔ تو آپ نے فرمایا اس کی طرف سے ایک غلام آزاد کرو اس کے ایک ایک عضو کے بدلہ اس کا ایک ایک عضو اللہ تعالیٰ جہنم سے آزاد کردے گا ۔