Surah

Information

Surah # 108 | Verses: 3 | Ruku: 1 | Sajdah: 0 | Chronological # 15 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Early Makkah phase (610-618 AD)
اِنَّاۤ اَعۡطَيۡنٰكَ الۡكَوۡثَرَؕ‏ ﴿1﴾
یقیناً ہم نے تجھے ( حوض ) کوثر ( اور بہت کچھ ) دیا ہے ۔
انا اعطينك الكوثر
Indeed, We have granted you, [O Muhammad], al-Kawthar.
Yaqeenan hum nay tujhay ( hoz ) kusar ( aur bhat kuch ) diya hay
۔ ( اے پیغمبر ) یقین جانو ہم نے تمہیں کوثر عطا کردی ہے ۔ ( ١ )
( ۱ ) اے محبوب! بیشک ہم نے تمہیں بیشمار خوبیاں عطا فرمائیں ( ف۲ )
﴿اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ﴾ ہم نے تمہیں کوثر عطا کر دیا ۔ 1
بیشک ہم نے آپ کو ( ہر خیر و فضیلت میں ) بے انتہا کثرت بخشی ہے٭
سورة الکوثر حاشیہ نمبر : 1 کوثر کا لفظ یہاں جس طرح استعمال کیا گیا ہے اس کا پورا مفہوم ہماری زبان تو درکنار شاید دنیا کی کسی زبان میں بھی ایک لفظ سے ادا نہیں کیا جاسکتا ۔ یہ کثرت سے مبالغہ کا صیغہ ہے جس کے لغوی معنی تو بے انتہا کثرت کے ہیں ، مگر جس موقع پر اس لفظ کو استعمال کیا گیا ہے اس میں محض کثرت کا نہیں بلکہ خیر اور بھلائی اور نعمتوں کی کثرت ، اور ایسی کثرت کا مفہوم نکلتا ہے جو افراط اور فراوانی کی حد کو پہنچی ہوئی ہو ، اور اس سے مراد کسی ایک خیر یا بھلائی یا نعمت کی نہیں بلکہ بے شمار بھلائیوں اور نعمتوں کی کثرت ہے ۔ دیباچے میں اس سورہ کا جو پس منظر ہم نے بیان کیا ہے اس پر ایک مرتبہ پھر نگاہ ڈال کر دیکھیے ۔ حالات وہ تھے جب دشمن یہ سمجھ رہے تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہر حیثیت سے تباہ ہوچکے ہیں ، قوم سے کٹ کر بے یارو مددگار رہ گئے ۔ تجارت برباد ہوگئی ، اولاد نرینہ تھی جس سے آگے ان کا نام چل سکتا تھا ۔ وہ بھی وفات پاگئی ، بات ایسی لے کر اٹھے ہیں کہ چند گنے چنے آدمی چھوڑ کر مکہ تو درکنار پورے عرب میں کوئی اس کو سننا تک گوارا نہیں کرتا ۔ اس لیے ان کے مقدر میں اس کے سوا کچھ نہیں کہ جیتے جی ناکامی و نامرادی سے دو چار ہیں اور جب وفات پاجائیں تو دنیا میں کوئی ان کا نام لیوا بھی نہ ہو ، اس حالت میں جب اللہ تعالی کی طرف سے یہ فرمایا گیا کہ ہم نے تمہیں کوثر عطا کردیا تو اس سے خودبخود یہ مطلب نکلتا ہے کہ تمہارے مخالف بے وقوف تو یہ سمجھ رہے ہیں کہ تم برباد ہوگئے اور نبوت سے پہلے جو نعمتیں تمہیں حاصل تھیں وہ ھی تم سے چھن گئیں ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم نے تمہیں بے انتہا خیر اور بے شمار نعمتوں سے نواز دیا ہے ۔ اس میں اخلاق کی وہ بے نظیر خوبیاں بھی شامل ہیں جو حضور کو بخشی گئیں ۔ اس میں نبوت اور قرآن اور علم اور حکمت کی وہ عظیم نعمتیں بھی شامل ہیں جو آپ کو عطا کی گئیں ۔ اس میں توحید اور ایک ایسے نظام زندگی کی نعمت بھی شامل ہے جس کے سیدھے سادھے ، عام فہم ، عقل و فطرت کے مطابق اور جامع و ہمہ گیر اصول تمام عالم میں پھیل جانے اور ہمیشہ پھیلتے ہی چلے جانے کی طاقت رکھتے ہیں ۔ اس میں رفع ذکر کی نعمت بھی شامل ہے جس کی بدولت حضور کا نام نامی چودہ سو برس سے دنیا کے گوشے گوشے میں بلند ہورہا ہے اور قیامت تک بلند ہوتا رہے گا ۔ اس میں یہ نعمت بھی شامل ہے کہ آپ کی دعوت سے بالآخر ایک ایسی عالمگیر امت وجود میں آئی جو دنیا میں ہمیشہ کے لیے دین حق کی علمبردار بن گئی ، جس سے زیادہ نیک اور پاکیزہ اور بلند پایہ انسان دنیا کی کسی امت میں کبھی پیدا نہیں ہوئے ، اور جو بگاڑ کی حالت کو پہنچ کر بھی دنیا کی سب قوموں سے بڑھ کر خیر اپنے اندر رکھتی ہے ۔ اس میں یہ نعمت بھی شامل ہے کہ حضور نے اپنی آنکھوں سے اپنی حیات مبارکہ ہی میں اپنی دعوت کو انتہائی کامیاب دیکھ لیا اور آپ کے ہاتھوں سے وہ جماعت تیار ہوگئی جو دنیا پر چھا جانے کی طاقت رکھتی تھی ۔ اس میں یہ نعمت بھی شامل ہے کہ اولاد نرینہ سے محروم ہوجانے کی بنا پر دشمن تو یہ سمجھتے تھے کہ آپ کا نام و نشان دنیا سے مٹ جائے گا ، لیکن اللہ نے صرف یہی نہیں کہ مسلمانوں کی صورت میں آپ کو وہ روحانی اولاد عطا فرمائی جو قیامت تک تمام روئے زمین پر آپ کا نام روشن کرنے والی ہے ، بلکہ آپ کی صرف ایک ہی صاحبزادی حضرت فاطمہ سے آپ کو جو جسمانی اولاد بھی عطا کی جو دنیا بھر میں پھیلی ہوئی ہے اور جس کا سارا سرمایہ افتخار ہی حضور سے اس کا انتساب ہے ۔ یہ تو وہ نعمتیں ہیں جو اس دنیا میں لوگوں نے دیکھ لیں کہ وہ کسی فراوانی کے ساتھ اللہ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا فرمائیں ان کے علاوہ کوثر سے مراد وہ دو مزید ایسی عظیم نعمتیں بھی ہیں جو آخرت میں اللہ تعالی آپ کو دینے والا ہے ۔ ان کو جاننے کا کوئی ذریعہ ہمارے پاس نہ تھا اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ان کی خبر دی اور بتایا کہ کوثر سے مراد وہ بھی ہیں ۔ ایک حوض کوثر جو قیامت کے روز میدان حشر میں آپ کو ملے گا ، دوسرے نہر کوثر جو جنت میں آپ کو عطا فرمائی جائے گی ، ان دونوں کے متعلق اس کثرت سے احادیث حضور سے منقول ہوئی ہیں اور اتنے کثیر راویوں نے ان کو روایت کیا ہے کہ ان کی صحت میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں ۔ حوض کوثر کے متعلق حضور نے جو کچھ فرمایا ہے وہ یہ ہیں: ( ۱ ) یہ حوض قیامت کے روز آپ کو عطا ہوگا اور اس سخت وقت میں جبکہ ہر ایک العطش العطش کر رہا ہوگا ، آپ کی امت آپ کے پاس اس پر حاضر ہوگی ، اور اس سے سیراب ہوگی ۔ آپ اس پر سب سے پہلے پہنچے ہوئے ہوں گے اور اس کے وسط میں تشریف فرما ہوں گے ۔ آپ کا ارشاد ہے ھو حوض ترد علیہ امتی یوم القیمۃ ۔ وہ ایک حوض ہے جس پر میری امت قیامت کے روز وارد ہوگی ۔ ( مسلم ، کتاب الصلوۃ ، ابو داؤد ، کتاب السنہ ) انا فرطکم علی الحوض ۔ میں تم سب سے پہلے اس پر پہنچا ہوا ہوں گا ( بخاری ، کتاب الرقاق اور کتاب الفتن ، مسلم ، کتاب الفضائل اور کتاب الطہارۃ ۔ ابن ماجہ ، کتاب المناسک اور کتاب الزہد ، مسند احمد ، مرویات عبداللہ بن مسعود ، عبداللہ بن عباس ، و ابوہریرہ ) انی فط لکم وانا شھید علیکم وانی واللہ لانظر الی حوضی الانہ ۔ میں تم سے آگے پہنچنے والا ہوں ، اور تم پر گواہی دوں گا اور خدا کی قسم میں اپنے حوض کو اس وقت دیکھ رہا ہوں ۔ ( بخاری ، کتاب الجنائز ، کتاب المغازی ، کتاب الرقاق ) انصار کو مخاطب کرتے ہوئے ایک موقع پر آپ نے فرمایا انکم ستلقون بعدی اثرۃ فاصبروا حتی تلقونی علی الحوض ۔ میرے بعد تم کو خود غرضیوں اور اقربا نوازیوں سے پالا پڑے گا ، اس پر صبر کرنا یہاں تک کہ مجھ سے آکر حوض پر ملو ۔ ( بخاری ، کتاب مناقب الانصار وکتاب المغازی ، مسلم کتاب الامارہ ، ترمذی ، کتاب الفتن ) انا یوم القیامۃ عند عقر الحوض ۔ میں قیامت کے روز حوض کے وسط کے پاس ہوں گا ( مسلم ، کتاب الفضائل ) حضرت ابو برزہ اسلمی سے پوچھا گیا کہ کیا آپ نے حوض کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ سنا ہے؟ انہوں نے کہا ، ایک نہیں دو نہیں تین نہیں چار نہیں پانچ نہیں بار بار سنا ہے ، جو اس کو جھٹلائے اللہ اسے اس کا پانی نصیب نہ کرے ( ابو داؤد ، کتاب السنہ ) عبید اللہ بن زیاد حوض کے بارے میں روایات کو جھوٹ سمجھتا تھا ، حتی کہ اس نے حضرت برزہ اسلمی ، براء بن عازب اور عائذ بن عمرو کی سب روایات کو جھٹلا دیا ۔ آخر کار ابو سبرہ ایک تحریر نکال کر لائے جو انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص سے سن کر نقل کی تھی اور اس میں حضور کا یہ ارشاد درج تھا کہ الا ان موعدکم حوضی خبردار رہو ، میری اور تمہاری ملاقات کی جگہ میرا حوض ہے ( مسند احمد ، مرویات عبداللہ بن عمرو بن عاص ) ( ۲ ) اس حوض کی وسعت مختلف روایات میں مختلف بیان کی گئی ہے ۔ مگر کثیر روایات میں یہ ہے کہ وہ ایلہ ( اسرائیل کے موجودہ بندرگاہ ایلات ) سے یمن کے صنعا تک ، یا ایلہ سے عدن تک ، یا عمان سے عدن تک طویل ہوگا اور اس کی چوڑائی اتنی ہوگی جتنا ایلہ سے جحفہ ( جدہ اور رابغ کے درمیان ایک مقام ) تک کا فاصلہ ہے ۔ ( بخاری ، کتاب الرقاق ، ابوداؤد الطیالسی ، حدیث نمبر 995 ۔ مسند احمد ، مرویات ابوبکر صدیق و عبداللہ بن عمر ۔ مسلم ، کتاب الطہارۃ و کتاب الفضائل ۔ ترمذی ، ابواب صفۃ القیامہ ۔ ابن ماجہ ، کتاب الزہد ۔ ا سے گمان ہوتا ہے کہ قیامت کے روز موجودہ بحر احمر ہی کو حوض کوثر میں تبدیل کردیا جائے گا ، واللہ اعلم بالصواب ۔ ( ۳ ) اس حوض کے متعلق حضور نے بتایا ہے کہ اس میں جنت کی نہر کوثر ( جس کا ذکر آگے آرہا ہے ) سے پانی لاکر ڈالا جائے گا ۔ یشخب فیہ میزابان من الجنۃ ، اور دوسری روایت میں ہے یغت فیہ میزابان یمدانہ من الجنۃ ، یعنی اس میں جنت سے دو نالیاں لاکر ڈالی جائیں گی جو اسے پانی بہم پہنچائیں گی ۔ ( مسلم ، کتاب الفضائل ) ایک اور روایت میں ہے یفتح نھر من الکوثر الی الحوض ، جنت کی نہر کوثر سے ایک نہر اس حوض کی طرف کھول دی جائے گی ( مسند احمد ، مرویات عبداللہ بن مسعود ) ( ۴ ) اس کی کیفیت حضور نے یہ بیان فرمائی ہے کہ اس کا پانی دودھ سے ( اور بعض روایات میں ہے چاندی سے اور بعض میں برف سے ) زیادہ سفید ، برف سے زیادہ ٹھنڈا ، شہد سے زیادہ میٹھا ہوگا ، اس کی تہہ کی مٹی مشک سے زیادہ خوشبودار ہوگی ، اس پر اتنے کوزے رکھے ہوں گے جتنے آسمان میں تارے ہیں ، جو اس کا پانی پی لے گا اسے پھر کبھی پیاس نہ لگے گی ۔ اور جو اس سے محروم رہ گیا وہ پھر کبھی سیراب نہ ہوگا ۔ یہ باتیں تھوڑے تھوڑے لفظی اختلافات کے ساتھ بکثرت احادیث میں منقول ہوئی ہیں ( بخاری ، کتاب الرقاق ۔ مسلم ، کتاب الطہارت و کتاب الفضائل ۔ مسند احمد ، مرویات ابن مسعود ، ابن عمر ، وعبداللہ بن عمرو بن العاص ۔ ترمذی ، ابواب صفۃ القیامۃ ۔ ابن ماجہ ، کتاب الزھد ، ابو داؤد طیالسی ، حدیث 995 ۔ 2135 ) ( ۵ ) اس کے بارے میں حضور نے بار بار اپنے زمانے کے لوگوں کو خبردار کیا کہ میرے بعد تم میں سے جو لوگ بھی میرے طریقے کو بدلیں گے ان کو اس حوض سے ہٹا دیا جائے گا اور اس پر انہیں نہ آنے دیا جائے گا ، میں کہوں گا کہ یہ میرے اصحاب میں تو مجھ سے کہا جائے گا کہ آپ کو نہیں معلوم کہ آپ کے بعد انہوں نے کیا کیا ہے ۔ پھر میں بھی ان کو دفع کروں گا اور کہوں گا کہ دور ہو ۔ یہ مضمون بھی بکثرت روایات میں بیان ہوا ہے ( بخاری ، کتاب الرقاق ، کتاب الفتن ۔ مسلم ، کتاب الطہارۃ ، کتاب الفضائل ۔ مسند احمد ، مرویات ابن مسعود و ابو ہریرہ ۔ ابن ماجہ ، کتاب المناسک ۔ ابن ماجہ نے اس سلسلے میں جو حدیث نقل کی ہے وہ بڑے ہی دردناک الفاظ میں ہے ۔ اس میں حضور فرماتے ہیں الا وانی فرطکم علی الحوض واکاثر بکم الامم فلا تسودوا وجھی ، الا وانی مستنقذ اناسا و مستنقذ اناس منی فاقول یا رب اصیحابی ، فیقول انک لا تدری ما احدثوا بعدک ۔ خبردار رہو ، میں تم سے آگے حوض پر پہنچا ہوا ہوں گا اور تمہارے ذریعہ سے دوسری امتوں کے مقابلے میں اپنی امت کی کثرت پر فخر کروں گا ۔ اس وقت میرا منہ کالا نہ کروانا ، خبردار رہو کچھ لوگوں کو میں چھڑاؤں گا اور کچھ لوگ مجھ سے چھڑائے جائیں گے ، میں کہوں گا کہ اے پروردگار یہ تو میرے صحابی ہیں ، وہ فرمائے گا تم نہیں جانتے انہوں نے تمہارے بعد کیا نرالے کام کیے ہیں ۔ ابن ماجہ کی روایت ہے کہ یہ الفاظ حضور نے عرفات کے خطبے میں فرمائے تھے ) ( ۶ ) اسی طرح حضور نے اپنے دور کے بعد قیامت تک آنے والے مسلمانوں کو بھی خبردار کیا ہے کہ ان میں سے جو بھی میرے طریقے سے ہٹ کر چلیں گے اور اس میں ردو بدل کریں گے انہیں اس حوض سے ہٹا دیا جائے گا ، میں کہوں گا کہ اے رب یہ تو میرے ہیں ، میری امت کے لوگ ہیں ، جواب ملے گا آپ کو معلوم نہیں کہ انہوں نے آپ کے بعد کیا کیا تغیرات کیے اور الٹے ہی پھرتے چلے گئے ۔ پھر میں بھی ان کو دفع کروں گا اور حوض پر نہ آنے دوں گا ۔ اس مضمون کی بہت سی روایات احادیث میں ہیں ( بخاری ) کتاب المساقات ، کتاب الرقاق ، کتاب الفتن ۔ مسلم ، کتاب الطہارۃ ، کتاب الصلوۃ ، کتاب الفضائل ۔ ابن ماجہ ، کتاب الزہد ۔ مسند احمد مرویات ابن عباس ) اس حوض کی روایات 50 سے زیادہ صحابہ سے مروی ہیں ، اور سلف نے بالعموم اس سے مراد حوض کوثر لیا ہے ۔ امام بخاری نے کتاب الرقاق کے آخری باب کا عنوان ہی یہ باندھا ہے باب فی الحوض و قول اللہ اِنَّآ اَعْطَيْنٰكَ الْكَوْثَرَ ۔ اور حضرت انس کی ایک روایت میں تو تصریح ہے کہ حضور نے کوثر کے متعلق فرمایا ھو حوض ترد علیہ امتی ۔ وہ ایک حوض ہے جس پر میری امت وارد ہوگی ۔ جنت میں کوثر نامی جو نہر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کی جائے گی اس کا ذکر بھی بکثرت روایات میں آیا ہے ۔ حضرت انس سے بہت سی روایات نقل ہوئی ہیں جن میں وہ فرماتے ہیں ( اور بعض روایات میں صراحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کی حیثیت سے بیان کرتے ہیں ) کہ معراج کے موقع پر حضور کو جنت کی سیرا کرائی گئی اور اس موقع پر آپ نے ایک نہر دیکھی جس کے کناروں پر اندر سے ترشے ہوئے موتیوں یا ہیروں کے قبے بنے ہوئے تھے ۔ اس کی تہ کی مٹی مشک اذفر کی تھی ۔ حضور نے جبریل سے یا اس فرشتے سے جس نے آپ کو سیر کرائی تھی ، پوچھا یہ کیا ہے؟ اس نے جواب دیا ، یہ نہر کوثر ہے جو آپ کو اللہ تعالی نے عطا کی ہے ( مسند احمد ، بخاری ، مسلم ، ابو داؤد ، ترمزی ، ابو داؤد طیالسی ، ابن جریر ) حضرت انس ہی کی روایت ہے کہ حضور سے پوچھا گیا ( یا ایک شخص نے پوچھا ) کوثر کیا ہے؟ آپ نے فرمایا ایک نہر ہے جو اللہ تعالی نے مجھے جنت میں عطا کی ہے ۔ اس کی مٹی خشک ہے ۔ اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھا ہے ۔ ( مسند احمد ، ترمذی ، ابن جریر ۔ مسند احمد کی ایک اور راویت میں ہے کہ حضور نے نہر کوثر کی یہ صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا اس کی تہ میں کنکریوں کے بجائے موتی پڑے ہوئے ہیں ) ابن عمر فرماتے ہیں کہ حضور نے ارشاد فرمایا کہ کوثر جنت میں ایک نہر ہے جس کے کنارے سونے کے ہیں ، وہ موتیوں اور ہیروں پر بہ رہی ہے ( یعنی کنکریوں کی جگہ اس کی تہ میں یہ جواہر پڑے ہوئے ہیں ) اس کی مٹی مشک سے زیادہ خوشبودار ہے ، اس کا پانی دودھ سے ( یا برف سے ) زیادہ سفید ہے ، برف سے زیادہ ٹھنڈا اور شہد سے زیادہ میٹھا ہے ( مسند احمد ، ترمذی ، ابن ماجہ ، ابن ابی حاتم ، دارمی ، ابو داؤد طیالسی ، ابن المنذر ، ابن مردویہ ، ابن ابی شیبہ ) اسامہ بن زید کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ حضرت حمزہ کے ہاں تشریف لے گئے ۔ وہ گھر پر نہ تھے ۔ ان کی اہلیہ نے حضور کی تواضع کی اور دوران گفتگو عرض کیا کہ میرے شوہر نے مجھے بتایا ہے کہ آپ کو جنت میں ایک نہر عطا کی گئی ہے جس کا نام کوثر ہے ۔ آپ نے فرمایا ہاں ، اور اس کی زمین یاقوت و مرجان اور زبرجد اور موتیوں کی ہے ( ابن جریر ، ابن مردویہ ۔ اس کی سند اگرچہ ضعیف ہے مگر اس مضمون کی کثیر التعداد روایات کا موجود ہونا اس کو تقویت پہنچاتا ہے ) ان مرفوع روایات کے علاوہ صحابہ اور تابعین کے بکثرت اقوال احادیث میں نقل ہوئے ہیں جن میں وہ کوثر سے مراد جنت کی یہ نہر لیتے ہیں اور اس کی وہی صفات بیان کرتے ہیں جو اوپر گزری ہیں ۔ مثال کے طور پر حضرت عبداللہ بن عمر ، حضرت عبداللہ بن عباس ، حضرت انس بن مالک ، حضرت عائشہ ، مجاہد اور ابوالعالیہ ( رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین ) کے اقوال مسند احمد ، بخاری ، ترمذی ، نسائی ، ابن مردویہ ، ابن جریر ، اور ابن ابی شیبہ وغیرہ محدثین کی کتابوں میں موجود ہیں ۔
شہد سے زیادہ میٹھی اور دودھ سے زیادہ سفید نہر: مسند احمد میں ہے کہ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر غنودگی سی طاری ہو گئی اور دفعتہ سر اٹھا کر مسکرائے پھر یا تو خود آپ نے فرمایا یا لوگوں کے اس سوال پر کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کیسے مسکرائے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھ پر اس وقت ایک سورت اتری پھر آپ نے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر اس پوری سورت کی تلاوت کی اور فرمایا جانتے ہو کہ کوثر کیا ہے ؟ لوگوں نے کہا اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی زیادہ جانتے ہیں فرمایا وہ ایک جنت کی نہر ہے جس پر بہت بھلائی ہے جو میرے رب نے مجھے عطا فرمائی ہے جس پر میری امت قیامت والے دن آئیگی اس کے برتن آسمان کے ستاروں کی گنتی کے برابر ہیں بعض لوگ اس سے ہٹائے جائیں گے تو میں کہوں گا اے میرے رب یہ بھی میرے امتی ہیں تو کہا جائیگا آپ کو نہیں معلوم کہ ان لوگوں نے آپ کے بعد کیا کیا بدعتیں نکالی تھیں اور حدیث میں وارد ہوا ہے کہ اس میں دو پرنالے آسمان سے گرتے ہوں گے نسائی کی حدیث میں ہے یہ واقعہ مسجد میں گذرا اسی سے اکثر قاریوں کا استدلال ہے کہ یہ سورت مدنی ہے اور اکثر فقہاء نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم ہر سورت میں اس کے ساتھ ہی نازل ہوئی تھی اور ہر سورت کی ایک مستقل آیت ہے مسند کی اور حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کر کے فرمایا کہ مجھے کوثر عنایت کی گئی ہے جو ایک جاری نہر ہے لیکن گڑھا نہیں ہے اس کے دونوں جانب موتی کے خیمے ہیں اس کی مٹی خالص مشک ہے اس کے کنکر بھی سچے موتی ہیں اور روایت میں ہے کہ معراج والی رات آپ نے آسمان پر جنت میں اس نہر کو دیکھا اور جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا کہ یہ کونسی نہر ہے تو حضرت جبرئیل علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ کوثر ہے جو اللہ تعالی نے آپ کو دے رکھی ہے اور اس قسم کی بہت سی حدیثیں ہیں اور بہت سی ہم نے سورہ اسراء کی تفسیر میں بیان بھی کر دی ہیں ایک اور حدیث میں ہے کہ اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید ہے اور شہد سے زیادہ میٹھا ہے جس کے کنارے دراز گردن والے پرندے بیٹھے ہوئے ہیں ۔ حضرت صدیق رضی اللہ عنہ نے سن کر فرمایا وہ پرندے تو بہت ہی خوبصورت ہوں گے آپ نے فرمایا کھانے میں بھی وہ بہت ہی لذیذ ہیں ( ابن جریر ) اور روایت میں ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ کوثر کیا ہے اس پر آپ نے یہ حدیث بیان کی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان پرندوں کی نسبت یہ فرمایا ( مسند احمد ) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں یہ نہر جنت کے درمیان میں ہے ایک منقطع سند سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ کوثر کے پانی کے گرنے کی آواز جو سننا چاہے وہ اپنے دونوں کانوں میں اپنی دونوں انگلیاں ڈال لے اولاً تو اس کی سند ٹھیک نہیں دوسرے اس کے معنی یہ ہیں کہ اس جیسی آواز آتی ہے نہ کہ خاص اسی کی آواز ہو واللہ اعلم صحیح بخاری شریف میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ کوثر سے مراد وہ بھلائی اور خیر ہے جو اللہ تعالی نے آپ کو عطا فرمائی ہے ابو بشر کہتے ہیں کہ میں نے سعید بن جبیر رحمۃ اللہ علیہ سے یہ سن کر کہا کہ لوگ تو کہتے ہیں کہ یہ جنت کی ایک نہر ہے تو حضرت سعید نے فرمایا وہ بھی ان بھلائیوں اور خیر میں سے ہے جو آپ کو اللہ کی طرف سے عنایت ہوئی ہیں ۔ اور بھی حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ اس سے مراد بہت سی خیر ہے تو یہ تفسیر شامل ہے حوض کوثر وغیرہ سب کو ۔ کوثر ماخوذ ہے کثرت سے جس سے مراد خیر کثیر ہے اور اسی خیر کثیر میں حوض جنت بھی ہے جیسے کہ بہت سے مفسرین سے مروی ہے حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں دنیا اور آخرت کی بہت بہت بھلائیاں مراد ہے عکرمہ فرماتے ہیں نبوت ، قرآن ، ثواب ، آخرت کوثر ہے اور یہ بھی یاد رہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے کوثر کی تفسیر نہر کوثر سے بھی مروی ہے جیسے کہ ابن جریر میں سندا مروی ہے کہ آپ نے فرمایا کوثرجنت کی ایک نہر ہے جس کے دونوں کنارے سونا چاندی ہے جو یاقوت اور موتیوں پر بہہ رہی ہے جس کا پانی برف سے زیادہ سفید ہے اور شہد سے زیادہ میٹھا ہے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے بھی یہ تفسیر مروی ہے ابن جریر ترمذی اور ابن ماجہ وغیرہ میں یہ روایت مرفوع بھی آئی ہے امام ترمذی اسے حسن صحیح بتاتے ہیں ابن جریر میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک دن حضرت حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ تعالی عنہ کے گھر تشریف لے گئے آپ اس وقت گھر پر نہ تھے آپ کی بیوی صاحبہ جو قبیلہ بنو نجار سے تھیں انہوں نے کہا کہ یا نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ تو ابھی ابھی آپ ہی کی طرف گئے ہیں شاید بنو نجار میں رک گئے ہوں آپ تشریف لائے حضور صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں گئے تو مائی صاحبہ نے آپ کے سامنے مالیدہ رکھا جو آپ نے تناول فرمایا مائی صاحبہ خوش ہو کر فرمانے لگیں اللہ تعالی اسے جزو جسم بنائے اچھا ہوا خود تشریف لے آئے میں تو حاضر دربار ہونے کا ارادہ کر چکی تھی کہ آپ کو حوض کوثر ملنے کی مبارک باد دوں مجھ سے ابھی ابھی حضرت ابو عمارہ نے کہا تھا آپ نے فرمایا ہاں اس حوض کی زمین یاقوت مرجان زبرجد اور موتیوں کی ہے اس کے ایک راوی حرام بن عثمان ضعیف ہیں لیکن واقعہ حسن ہے اور اصل تو تواتر سے ثابت ہو چکی ہے بہت سے صحابہ اور تابعین وغیرہ سے ثابت ہے کہ کوثر نہر کا نام ہے پھر ارشاد ہے کہ جیسے ہم نے تمہیں خیر کثیر عنایت فرمائی اور ایسی پر شوکت نہر دی تو تم بھی صرف میری ہی عبادت کرو خصوصا نفل فرض نماز اور قربانی اسی وحدہ لا شریک لہ کے نام کی کرتے رہو جیسے فرمایا ( قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ١٦٢؀ۙ ) 6- الانعام:162 ) مراد قربانی سے اونٹوں کا نحر کرنا وغیرہ ہے مشرکین سجدے اور قربانیاں اللہ کے سوا اوروں کے نام کی کرتے تھے تو یہاں حکم ہوا کہ تم صرف اللہ ہی کے نام کی مخلصانہ عبادتیں کیا کرو اور جگہ ہے ( وَلَا تَاْكُلُوْا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِاسْمُ اللّٰهِ عَلَيْهِ وَاِنَّهٗ لَفِسْقٌ ۭوَاِنَّ الشَّيٰطِيْنَ لَيُوْحُوْنَ اِلٰٓي اَوْلِيٰۗـــِٕــهِمْ لِيُجَادِلُوْكُمْ ۚ وَاِنْ اَطَعْتُمُوْهُمْ اِنَّكُمْ لَمُشْرِكُوْنَ ١٢١۝ۧ ) 6- الانعام:121 ) جس جانور پر اللہ کا نام نہ لیا جائے اسے نہ کھاؤ یہ تو فسق ہے اور کہا گیا ہے کہ مراد وانحر سے دائیں ہاتھ کا بائیں ہاتھ پر نماز میں سینے پر رکھنا ہے یہی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے غیر صحیح سند کے ساتھ مروی ہے حضرت شعبی رحمۃ اللہ اس لفظ کی یہی تفسیر کرتے ہیں حضرت ابو جعفر باقر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس سے مراد نماز کے شروع کے وقت رفع الیدین کرنا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ مطلب یہ ہے کہ اپنے سینے سے قبلہ کی طرف متوجہ ہو یہ تینوں قول ابن جریر میں منقول ہیں ابن ابی حاتم میں اس جگہ ایک بہت منکر حدیث مروی ہے جس میں ہے کہ جب یہ سورت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اتری تو آپ نے فرمایا اے جبرئیل وانحر سے مراد کیا ہے جو مجھے میرے پروردگار کا حکم ہو رہا ہے تو حضرت جبرئیل نے فرمایا اس سے مراد قربانی نہیں بلکہ اللہ کا تمہیں حکم ہو رہا ہے کہ نماز کی تکبیر تحریمہ کے وقت رفع الیدین کرو اور رکوع کے وقت بھی اور جب رکوع سے سر اٹھاؤ تب اور جب سجدہ کرو یہی ہماری نماز ہے اور ان فرشتوں کی نماز ہے جو ساتوں آسمانوں میں ہیں ہر چیز کی زینت ہوتی ہے اور نماز کی زینت ہر تکبیر کے وقت رفع الیدین کرنا ہے یہ حدیث اسی طرح مستدرک حاکم میں بھی ہے حضرت عطاء خراسانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں وانحر سے مراد یہ ہے کہ اپنی پیٹھ رکوع سے اٹھاؤ تو اعتدال کرو اور سینے کو ظاہر کرو یعنی اطمینان حاصل کرو ابن ابی حاتم یہ سب اقوال غریب ہیں اور صحیح پہلا قول ہے کہ مراد نحر سے قربانیوں کا ذبح کرنا ہے اسی لیے رسول مقبول صلی اللہ علہ وآلہ وسلم نماز عید سے فارغ ہو کر اپنی قربانی ذبخ کرتے تھے اور فرماتے تھے جو شخص ہماری نماز پڑھے اور ہم جیسی قربانی کرے اس نے شرعی قربانی کی اور جس نے نماز سے پہلے ہی جانور ذبح کر لیا اس کی قربانی نہیں ہوئی ابو بردہ بن نیار رضی اللہ تعالی عنہ نے کھڑے ہو کر کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے نماز عید سے پہلے ہی قربانی کر لی یہ سمجھ کر کہ آج کے دن گوشت کی چاہت ہوگی آپ نے فرمایا بس وہ تو کھانے کا گوشت ہو گیا صحابی نے کہا اچھا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اب میرے پاس ایک بکری کا بچہ ہے جو مجھے دو بکریوں سے بھی زیادہ محبوب ہے کیا یہ کافی ہو گا آپ نے فرمایا ہاں تجھے تو کافی ہے لیکن تیرے بعد چھ مہینے کا بکری کا بچہ کوئی اور قربانی نہیں دے سکتا امام ابو جعفر بن جریر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ٹھیک قول اس کا ہے جو کہتا ہے کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ اپنی تمام نمازیں خالص اللہ ہی کے لیے ادا کر اس کے سوا کسی اور کے لیے نہ کر اسی طرح اسی کی راہ میں خون بہا کسی اور کے نام پر قربانی نہ کر اس کا شکر بجا لا جس نے تجھے یہ بزرگی دی اور وہ نعمت دی جس جیسی کوئی اور نعمت نہیں تجھی کو اس کے ساتھ خاص کیا یہی قول بہت اچھا ہے محمد بن کعب قرظی اور عطا کا بھی یہی فرمان ہے پھر ارشاد ہوتا ہے کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تجھ سے اور تیری طرف اتری ہوئی وحی سے دشمنی رکھنے والا ہی قلت و ذلت والا بے برکتا اور دم بریدہ ہے یہ آیت عاص بن وائل کے بارے میں اتری ہے یہ پاجی جہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر سنتا تو کہتا اسے چھوڑو وہ دم کٹا ہے اس کے پیچھے اس کی نرینہ اولاد نہیں اس کے انتقال کرتے ہی اس کا نام دنیا سے اٹھ جائیگا اس پر یہ مبارک سورت نازل ہوئی ہے شمر بن عطیہ فرماتے ہیں کہ عقبہ بن ابو معیط کے حق میں یہ آیت اتری ہے ابن عباس وغیرہ فرماتے ہیں کعب بن اشرف اور جماعت قریش کے بارے میں یہ نازل ہوئی ہے بزار میں ہے کہ جب کعب بن اشرف مکے میں آیا تو قریشیوں نے اس سے کہا کہ آپ تو ان کے سردار ہیں آپ اس بچہ کی طرف نہیں دیکھتے جو اپنی ساری قوم سے الگ تھلک ہے اور خیال کرتا ہے کہ وہ افضل ہے حالانکہ ہم حاجیوں کے اہل میں سے ہیں بیت اللہ ہمارے ہاتھوں میں ہے زمزم پر ہمارا قبضہ ہے تو یہ خبیث کہنے لگا بیشک تم اس سے بہتر ہو اس پر یہ آیت اتری اس کی سند صحیح ہے حضرت عطا فرماتے ہیں ابو لہب کے بارے میں یہ آیت اتری ہے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صاحبزادے انتقال ہوا تو یہ یدنصیب مشرکین سے کہنے لگا کہ آج کی رات محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نسل کٹ گئی ( صلی اللہ علیہ وسلم و بارک ) اس پر اللہ تعالی نے یہ آیت اتاری ابن عباس سے بھی یہ منقول ہے آپ یہ بھی فرماتے ہیں کہ اس سے مراد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر دشمن ہے جن جن کے نام لیے گئے وہ بھی اور جن کا ذکر نہیں ہوا وہ بھی ابتر کے معنی ہیں تنہا عرب کا یہ بھی محاورہ ہے کہ جب کسی کی نرینہ اولاد مر جاتے تو کہتے ہیں ابتر حضور علیہ السلام کے صاحبزادہ کے انتقال پر بھی انہوں نے دشمنی کی وجہ سے یہی کہا جس پر یہ آیت اتری تو مطلب یہ ہوا کہ ابتر وہ ہے جس کے مرنے کے بعد اس کا نام مٹ جائے ان مشرکین نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت بھی یہی خیال کیا تھا کہ ان کے لڑکے تو انتقال کر گئے وہ نہ رہے جن کی وجہ سے ان کے انتقال کے بعد بھی ان کا نام رہتا حاشاو کلا اللہ تعالی آپ کا نام رہتی دنیا تک رکھے گا آپ کی شریعت ابدالاباد تک باقی رہے گی آپ کی اطاعت ہر ایک پر فرض کر دی گئی ہے آپ کا پیار اور پاک نام ہر ایک مسلم کے دل و زبان پر ہے اور قیام تک فضائے آسمانی میں عروج و اقبال کے ساتھ گونجتا رہیگا بحر و بر میں ہر وقت اس کی منادی ہوتی رہیگی اللہ تعالیٰ آپ پر اور آپ کی آل و اولاد پر اور ازواج و اصحاب پر قیامت تک درود سلام بے حد و بکثرت بھیجتا رہے آمین الحمداللہ اللہ تعالی کے فضل و کرم سے اس کے احسان و رحم سے سورہ کوثر کی تفسیر بھی ختم ہوئی ۔ وللہ الحمدوالمنہ ۔