Surah

Information

Surah # 108 | Verses: 3 | Ruku: 1 | Sajdah: 0 | Chronological # 15 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Early Makkah phase (610-618 AD)
اِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الۡاَبۡتَرُ‏ ﴿3﴾
یقیناً تیرا دشمن ہی لا وارث اور بے نام و نشان ہے ۔
ان شانك هو الابتر
Indeed, your enemy is the one cut off.
Yaqeenan tera dushman hi la-waris aur benam-o-nishan hai
قین جانو تمہارا دشمن ہی وہ ہے جس کی جڑ کٹی ہوئی ہے ۔ ( ٢ )
( ۳ ) بیشک جو تمہارا دشمن ہے وہی ہر خیر سے محروم ہے ( ف۵ )
تمہارا دشمن 3 ہی جڑ کٹا ہے ۔ 4 ؏١
بیشک آپ کا دشمن ہی بے نسل اور بے نام و نشاں ہوگا
سورة الکوثر حاشیہ نمبر : 3 اصل میں لفظ شَانِئَكَ استعمال ہوا ہے ۔ شانی شن سے ہے جس کے معنی ایسے بغض اور ایسی عداوت کے ہیں جس کی بنا پر کوئی شخص کسی دوسرے کے ساتھ بدسلوکی کرنے لگے ۔ قرآن مجید میں دوسری جگہ ارشاد ہوا ہے وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓي اَلَّا تَعْدِلُوْا ۔ اور اے مسلمانو! کسی گروہ کی عداوت تمہیں اس زیادتی پر آمادہ نہ کرنے پائے کہ تم انصاف نہ کرو ( المائدہ 8 ) پس شَانِئَكَ سے مراد ہر وہ شخص ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دشمنی اور عداوت میں ایسا اندھا ہوگیا ہو کہ آپ کو عیب لگاتا ہو ، آپ کے خلاف بدگوئی کرتا ہو ، آپ کی توہین کرتا ہو ، اور آپ پر طرح طرح کی باتیں چھانٹ کر اپنے دل کا بخار نکالتا ہو ۔ سورة الکوثر حاشیہ نمبر : 4 هُوَ الْاَبْتَرُ وہی ابتر ہے فرمایا گیا ہے ، یعنی وہ آپ کو ابتر کہتا ہے ، لیکن حقیقت میں ابتر وہ خود ہے ۔ ابتر کی کچھ تشریح ہم اس سے پہلے اس سورۃ کے دیباچے میں کرچکے ہیں ۔ یہ لفظ بتر سے ہے جس کے معنی کاٹنے کے ہیں ۔ مگر محاورے میں یہ بہت وسیع معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ حدیث میں نماز کی اس رکعت کو جس کے ساتھ کوئی دوسری رکعت نہ پڑھی جائے بتیراء کہا گیا ہے ، یعنی اکیلی رکعت ۔ ایک اور حدیث میں ہے کل امر ذی بال لا یبدأ فیہ بحمد اللہ فھو ابتر ۔ ہر وہ کام جو کوئی اہمیت رکھتا ہو ، اللہ کی حمد کے بغیر شروع کیا جائے تو وہ ابتر ہے ۔ یعنی اس کی جڑ کٹی ہوئی ہے ، اسے کوئی استحکام نصیب نہیں ہے ، یا اس کا انجام اچھا نہیں ہے ۔ نامراد آدمی کو ابتر کہتے ہیں ۔ ذرائع و وسائل سے محروم ہوجانے والا بھی ابتر کہلاتا ہے ۔ جس شخص کے لیے کسی خیر اور بھلائی کی توقع باقی نہ رہی ہو اور جس کی کامیابی کی سب امیدیں منقطع ہوگئی ہوں وہ بھی ابتر ہے ، جو آدمی اپنے کنبے برادری اور اعوان و انصار سے کٹ کر اکیلا رہ گیا ہو وہ بھی ابتر ہے ۔ جس آدمی کی کوئی اولاد نرینہ نہ ہو یا مرگئی ہو اس کے لیے بھی ابتر کا لفظ بولا جاتا ہے کیونکہ اس کے پیچھے اس کا کوئی نام لیوا باقی نہیں رہتا ، اور مرنے کے بعد وہ بے نام و نشان ہوجاتا ہے ۔ قریب قریب ان سب معنوں میں کفار قریش رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ابتر کہتے تھے ۔ اس پر اللہ تعالی نے فرمایا کہ اے نبی ، ابتر تم نہیں ہو بلکہ تمہارے یہ دشمن ابتر ہیں ۔ یہ محض کوئی جوابی حملہ نہ تھا ، بلکہ درحقیقت یہ قرآن کی بڑی اہم پیشینگوئیوں میں سے ایک پیشینگوئی تھی جو حرف بحرف صحیح ثابت ہوئی ۔ جس وقت یہ پیشینگوئی کی گئی تھی اس وقت لوگ حضور ہی کو ابتر سمجھ رہے تھے اور کوئی تصور بھی نہ کر سکتا تھا کہ قریش کے یہ بڑے بڑے سردار کیسے ابتر ہوجائیں گے جو نہ صرف مکہ میں بلکہ پورے عرب میں نامور تھے ، کامیاب تھے ، مال و دولت اور اولاد ہی کی نعمتیں نہیں رکھتے تھے بلکہ سارے ملک میں جگہ جگہ ان کے اعوان و انصار موجود تھے ، تجارت کے اجارہ دار اور حج کے منتظم ہونے کی وجہ سے تمام قبائل عرب سے ان کے وسیع تعلقات تھے ۔ لیکن چند سال نہ گزرے تھے کہ حالات بالکل پلٹ گئے ۔ یا تو وہ وقت تھا کہ غزوہ احزاب ( 5ھ ) کے موقع پر قریش بہت سے عرب اور یہودی قبائل کو لے کر مدینے پر چڑھ آئے تھے اور حضور کو محصور ہوکر شہر کے گرد خندق کھود کر مدافعت کرنی پڑی تھی ، یا تین ہی سال بعد وہ وقت آیا کہ 8 ھ میں جب آپ نے مکہ پر چڑھائی کی تو قریش کا کوئی حامی و مددگار نہ تھا اور انہیں بے بسی کے ساتھ ہتھیار ڈال دینے پڑے ۔ اس کے بعد ایک سال کے اندر پورا ملک عرب حضور کے ہاتھ میں تھا ، ملک کے گوشے گوشے سے قبائل کے وفود آکر بیعت کر رہے تھے ۔ اور آپ کے دشمن بالکل بے بس اور بے یارومددگار ہوکر رہ گئے تھے ۔ پھر وہ ایسے بے نام و نشان ہوئے کہ ان کی اولاد اگر دنیا میں باقی رہی بھی تو ان میں سے آج کوئی یہ نہیں جانتا کہ وہ ابو جہل یا ابو لہب یا عاص بن وائل یا عقبہ بن ابی معیط وغیرہ اعدائے اسلام کی اولاد میں سے ہے ، اور جانتا بھی ہو تو کوئی یہ کہنے کے لیے تیار نہیں ہے کہ اس کے اسلاف یہ لوگ تھے ۔ اس کے برعکس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آل پر آج دنیا بھر میں درود بھیجا جارہا ہے ۔ کروڑوں مسلمانوں کو آپ سے نسبت پر فخر ہے ۔ لاکھوں انسان آپ ہی سے نہیں بلکہ آپ کے خاندان اور آپ کے ساتھیوں کے خاندانوں تک سے انتساب کو باعث شرف سمجھتے ہیں ۔ کوئی سید ہے ، کوئی علوی ہے ، کوئی عباسی ہے ، کوئی ہاشمی ہے ، کوئی صدیقی ہے ، کوئی فاروقی ہے ، کوئی عثمانی ہے ، کوئی زبیری ہے ، اور کوئی انصاری ۔ مگر نام کو بھی کوئی ابو جہلی یا ابو لہبی نہیں پایا جاتا ۔ تاریخ نے ثابت کردیا کہ ابتر حضور نہیں بلکہ آپ کے دشمن ہی تھے اور ہیں ۔