Surah

Information

Surah # 110 | Verses: 3 | Ruku: 1 | Sajdah: 0 | Chronological # 114 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD).Revealed at Mina on Last Hajj, but regarded as Madinan sura
بِسۡمِ اللهِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِيۡمِ
شروع کرتا ہوں اللہ تعا لٰی کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے ۔
بسم الله الرحمن الرحيم
In the name of Allah , the Entirely Merciful, the Especially Merciful.
Shuroo Allah kay naam say jo bara meharban nehayat reham kerney wala hai
شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے ، بہت مہربان ہے
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا
اللہ کے نام سے جو رحمان و رحیم ہے ۔
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان ہمیشہ رحم فرمانے والا ہے ۔
نام : پہلی آیت اِذَا جَاۗءَ نَصْرُ اللّٰهِ کے لفظ نصر کو اس سورت کا نام قرار دیا گیا ہے ۔ زمانۂ نزول : حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ یہ قرآن مجید کی آخری سورت ہے ، یعنی اس کے بعد کوئی مکمل سورت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل نہیں ہوئی حوالہ: مسلم ، نسائی ، طبرانی ، ابن ابی شیبہ ، ابن مردویہ ۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ یہ سورت حجۃ الوداع کے موقع پر ایام تشریق کے وسط میں بمقام منٰی نازل ہوئی اور اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اونٹنی پر سوار ہو کر اپنا مشہور خطبہ ارشاد فرمایا حوالہ: ترمذی ، بزار ، بیہقی ، ابن ابی شیبہ ، عبد بن حمید ، ابو یعلٰی ، ابن مردویہ ۔ بیہقی نے کتاب الحج میں حضرت سراء بنت بنہان کی روایت سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وہ خطبہ نقل کیا ہے جو آپ نے اس موقع پر ارشاد فرمایا تھا ۔ وہ کہتی ہیں کہ: ” میں نے حجۃ الوداع میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے سنا کہ لوگو جانتے ہو کہ یہ کونسا دن ہے؟ لوگوں نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے ۔ فرمایا یہ ایام تشریق کے بیچ کا دن ہے ۔ پھر آپ نے پوچھا جانتے ہو یہ کون سا مقام ہے؟ لوگوں نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے ۔ فرمایا یہ مشعر حرام ہے ۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں نہیں جانتا ، شاید اس کے بعد میں تم سے نہ مل سکوں ۔ خبردار رہو ، تمہارے خون اور تمہاری عزتیں ایک دوسرے پر اسی طرح حرام ہیں جس طرح یہ دن اور یہ مقام حرام ہے ، یہاں تک کہ تم اپنے رب کے سامنے حاضر ہو اور وہ تم سے تمہارے اعمال کے بارے میں سوال کرے ۔ سنو ، یہ بات تم میں سے قریب والا دور والے تک پہنچا دے ۔ سنو ، کیا میں نے تمہیں پہنچا دیا ؟ اس کے بعد جب ہم لوگ مدینہ واپس ہوئے تو کچھ زیادہ دن نہ گزرے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انتقال ہو گیا “ ان دونوں روایتوں کو ملا کر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ سورۂ نصر کے نزول اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے درمیان تین مہینے کچھ دن کا فصل تھا ، کیونکہ تاریخ کی رو سے حجۃ الوداع اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے درمیان اتنا ہی زمانہ گزرا تھا ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جب یہ سورت نازل ہوئی تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا مجھے میری وفات کی خبر دے دی گئی ہے اور میرا وقت آن پورا ہوا حوالہ: مسند احمد ، ابن جریر ، ابن المنذر ، ابن مردویہ ۔ دوسری روایات جو حضرت عبد اللہ بن عباس سے منقول ہوئی ہیں ان میں بیان کیا گیا ہے کہ اس سورت کے نزول سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ سمجھ لیا تھا کہ آپ کو دنیا سے رخصت ہونے کی اطلاع دے دی گئی ہے حوالہ: مسند احمد ، ابن جریر ، نسائی ابن ابی حاتم ، ابن مردویہ ام المومنین حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب یہ سورت نازل ہوئی تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اس سال میرا انتقال ہونے والا ہے ۔ یہ بات سن کر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا رو دیں ۔ اس پر آپ نے فرمایا میرے خاندان میں سے تم ہی سب سے پہلے مجھ سے آ کر ملو گی ۔ یہ سن کر وہ ہنس دیں حوالہ ابن ابی حاتم ، ابن مردویہ ۔ قریب قریب اسی مضمون کی روایت بیہقی نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے نقل کی ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ مجھے غزوۂ بدر میں شریک ہونے والے بڑے بڑے شیوح کے ساتھ اپنی مجلس میں بلاتے تھے ۔ یہ بات بعض بزرگوں کو ناگوار گزری اور انہوں نے کہا ہمارے لڑکے بھی تو اسی لڑکے جیسے ہیں ، اس کو خاص طور پر کیوں ہمارے ساتھ شریک مجلس کیا جاتا ہے؟ ( امام بخاری اور ابن جریر نے تصریح کی ہے کہ یہ بات کہنے والے حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ تھے ) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ علم کے لحاظ سے اس کا جو مقام ہے وہ آپ لوگ جانتے ہیں ۔ پھر ایک روز انہوں نے شیوخ بدر کو بلایا اور مجھے بھی ان کے ساتھ بلا لیا ۔ میں سمجھ گیا کہ آج مجھے یہ دکھانے کے لیے بلایا گیا ہے کہ مجھ کو ان کی مجلس میں کیوں شریک کیا جاتا ہے ۔ دوران گفتگو میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے شیوخ بدر رضی اللہ عنہم اجمعین سے پوچھا کہ آپ حضرات اذا جآءَ نصر اللہ والفتح کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ بعض نے کہا اس میں ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ جب اللہ کی نصرت آئے اور ہم کو فتح نصیب ہو تو ہم اللہ کی حمد اور اس سے استغفار کریں ۔ بعض نے کہا اس سے مراد شہروں اور قلعوں کی فتح ہے ۔ بعض خاموش رہے ۔ اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا ابن عباس رضی اللہ عنہ ، کیا تم بھی یہی کہتے ہو؟ میں نے کہا ، نہیں ۔ انہوں نے پوچھا پھر تم کیا کہتے ہو؟ میں نے عرض کیا اس سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اجل ہے ۔ اس میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خبر دی گئی ہے جب اللہ کی نصرت آ جائے اور فتح نصیب ہو جائے تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وقت آن پورا ہوا ، اس کے بعد آپ اللہ کی حمد اور استغفار کریں ۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں بھی اس کے سوا کچھ نہیں جانتا جو تم نے کہا ہے ۔ ایک روایت میں اس پر یہ اضافہ ہے کہ حضرت عمر نے شیوخ بدر سے فرمایا آپ لوگ مجھے کیسے ملامت کرتے ہیں جبکہ اس لڑکے کو اس مجلس میں شریک کرنے کی وجہ آپ نے دیکھ لی حوالہ: بخاری ، مسند احمد ، ترمذی ، ابن جریر ، ابن مردویہ ، بغوی ، بیہقی ، ابن المنذر موضوع اور مضمون : جیسا کہ مندرجۂ بالا روایات سے معلوم ہوتا ہے ، اس سورہ میں اللہ تعالٰی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ بتا دیا تھا کہ جب عرب میں اسلام کی فتح مکمل ہو جائے اور لوگ اللہ کے دین میں فوج در فوج داخل ہونے لگیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ کام مکمل ہو گیا ہے جس کے لیے آپ دنیا میں بھیجے گئے تھے ۔ اس کے بعد آپ کو حکم دیا گیا کہ آپ اللہ کی حمد اور اس کی تسبیح کرنے میں مشغول ہو جائیں کہ اس کے فضل سے آپ اتنا بڑا کام انجام دینے میں کامیاب ہوئے ، اور اس سے دعا کریں کہ اس خدمت کی انجام دہی میں جو بھول چوک یا کوتاہی بھی آپ سے ہوئی ہو اسے وہ معاف فرما دے ۔ اس مقام پر آدمی غور کرے تو دیکھ سکتا ہے کہ ایک نبی اور ایک عام دنیوی رہنما کے درمیان کتنا عظیم فرق ہے ۔ کسی دنیی رہنما کو اگر اپنی زندگی ہی میں وہ انقلاب عظیم برپا کرنے میں کامیابی نصیب ہو جائے جس کے لیے وہ کام کرنے اٹھا ہو تو اس کے لیے یہ جشن منانے اور اپنی قیادت پر فخر کرنے کا موقع ہوتا ہے لیکن یہاں اللہ کے پیغمبر کو ہم دیکھتے ہیں کہ اس نے 23 سال کی مختصر مدت میں ایک پوری قوم کے عقائد ، افکار ، عادات ، اخلاق ، تمدن ، تہذیب ، معاشرت ، معیشت ، سیاست اور حربی قابلیت کو بالکل بدل ڈالا اور جہالت و جاہلیت میں ڈوبی ہوئی قوم کو اٹھا کر اس قابل بنا دیا کہ وہ دنیا کو مسخر کر ڈالے اور اقوام عالم کی امام بن جائے ، مگر ایسا عظیم کارنامہ اس کے ہاتھوں انجام پانے کے بعد اسے جشن منانے کا نہیں بلکہ اللہ کی حمد اور تسبیح کرنے اور اس سے مغفرت کی دعا کرنے کا حکم دیا جاتا ہے ، اور وہ پوری عاجزی کے ساتھ اس حکم کی تعمیل میں لگ جاتا ہے ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی وفات سے پہلے سبحٰنک اللھم و بحمدک استغفرک و اتوب الیک ( بعض روایات میں الفاظ یہ ہیں سبحان اللہ و بحمدہ استغفر اللہ و اتوب الیہ ) کثرت سے پڑھا کرتے تھے ۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ یہ کیسے کلمات ہیں جو آپ نے اب پڑھنے شروع کر دیے ہیں؟ فرمایا میرے لیے ایک علامت مقرر کر دی گئی ہے کہ جب میں اسے دیکھوں تو یہ الفاظ کہا کروں اور وہ ہے اذا جآء نصر اللہ والفتح حوالہ مسند احمد ، ابن جریر ، ابن المنذر ، ابن مردویہ ۔ اسی سے ملتی جلتی بعض روایات میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے رکوع و سجود میں بکثرت یہ الفاظ کہتے تھے سبحٰنک اللھم و بحمدک اللھم اغفرلی ۔ یہ قرآن ( یعنی سورۂ نصر ) کی تاویل تھی جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمائی تھی حوالہ: بخاری ، مسلم ، ابو داؤد ، نسائی ، ابن ماجہ ، ابن جریر ۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان مبارک پر آپ کے آخری زمانۂ حیات میں اٹھتے بیٹھتے اور جاتے آتے یہ الفاظ جاری رہتے: سبحان اللہ و بحمدہ میں نے ایک روز پوچھا یا رسول اللہ ، آپ کثرت سے یہ ذکر کیوں کرتے رہتے ہیں؟ فرمایا مجھے اس کا حکم دیا گیا ہے پھر آپ نے یہ سورت پڑھی حوالہ ابن جریر ۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ جب یہ سورت نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کثرت سے یہ ذکر فرماتے رہتے: سبحانک اللھم و بحمدک اللھم اغفرلی ، سبحانک ربنا و بحمدک ، اللھم اغفرلی ، انک انت التواب الغفور حوالہ ابن جریر ، مسند احمد ، ابن ابی حاتم ابن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ اس سورت کے نازل ہونے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آخرت کے لیے محنت و ریاضت کرنے میں اس قدر شدت کے ساتھ مشغول ہو گئے جتنے اس سے پہلے کبھی نہ ہوئے تھے حوالہ: نسائی ، طبرانی ، ابن ابی حاتم ، ابن مردویہ ۔
قرآن کا چوتھائی حصہ: پہلے وہ حدیث بیان ہو چکی ہے کہ یہ سورت چوتھائی قرآن کے برابر ہے حضرت ابن عباس نے عبید اللہ بن عبداللہ سے پوچھا جانتے ہو سب سے آخر کونسی سورت اتری جواب دیا کہ ہاں یہی سورت اذا جآء تو آپ نے فرمایا تم سچے ہو ( نسائی ) حافظ ابو بکر بزار اور حافظ بیہقی نے حضرت ابن عمر کی یہ روایت وارد کی ہے کہ یہ سورت ایام تشریق کے درمیان دن اتری تو آپ سمجھ گئے کہ یہ رخصت کی وسرت ہے اسی وقت حکم دیا اور آپ کی اونٹنی قصویٰ کسی گئی آپ اس پر سوار ہوئے اور اپنا وہ پر زور خطبہ پڑھا جو مشہور ہے بہیقی میں ہے کہ جب یہ سورت نازل ہوئی تو حضور علیہ السلام نے اپنی لخت جگر حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو بلایا اور فرمایا مجھے میرے انتقال کی خبر آ گئی ہے حضرت زہرا رضی اللہ عنہ رونے لگیں پھر یکایک ہنس دیں جب اور لوگوں نے وجہ پوچھی تو فرمایا خبر انتقال نے تو رلا دیا لیکن روتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تسلی دی اور فرمایا بیٹی صبر کرو میری اہل میں سے سب سے پہلے تم مجھ سے ملو گی تو مجھے بےساختہ ہنسی آ گئی ۔