Surah

Information

Surah # 4 | Verses: 176 | Ruku: 24 | Sajdah: 0 | Chronological # 92 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
الَّذِيۡنَ يَتَرَ بَّصُوۡنَ بِكُمۡ‌ ۚ فَاِنۡ كَانَ لَـكُمۡ فَتۡحٌ مِّنَ اللّٰهِ قَالُـوۡۤا اَلَمۡ نَـكُنۡ مَّعَكُمۡ ‌ ۖ وَاِنۡ كَانَ لِلۡكٰفِرِيۡنَ نَصِيۡبٌۙ قَالُـوۡۤا اَلَمۡ نَسۡتَحۡوِذۡ عَلَيۡكُمۡ وَنَمۡنَعۡكُمۡ مِّنَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ‌ ؕ فَاللّٰهُ يَحۡكُمُ بَيۡنَكُمۡ يَوۡمَ الۡقِيٰمَةِ ‌ؕ وَلَنۡ يَّجۡعَلَ اللّٰهُ لِلۡكٰفِرِيۡنَ عَلَى الۡمُؤۡمِنِيۡنَ سَبِيۡلًا‏ ﴿141﴾
یہ لوگ تمہارے انجام کار کا انتظار کرتے رہتے ہیں پھر اگر تمہیں اللہ فتح دے تو یہ کہتے ہیں کہ کیا ہم تمہارے ساتھی نہیں اور اگر کافروں کو تھوڑا غلبہ مل جائے تو ( ان سے ) کہتے ہیں کہ ہم تم پر غالب نہ آنے لگے تھے اور کیا ہم نے تمہیں مسلمانوں کے ہاتھوں سے نہ بچایا تھا ؟پس قیامت میں خود اللہ تعالٰی تمہارے درمیان فیصلہ کرے گا اور اللہ تعالٰی کافروں کو ایمان والوں پر ہرگز راہ نہ دے گا ۔
الذين يتربصون بكم فان كان لكم فتح من الله قالوا الم نكن معكم و ان كان للكفرين نصيب قالوا الم نستحوذ عليكم و نمنعكم من المؤمنين فالله يحكم بينكم يوم القيمة و لن يجعل الله للكفرين على المؤمنين سبيلا
Those who wait [and watch] you. Then if you gain a victory from Allah , they say, "Were we not with you?" But if the disbelievers have a success, they say [to them], "Did we not gain the advantage over you, but we protected you from the believers?" Allah will judge between [all of] you on the Day of Resurrection, and never will Allah give the disbelievers over the believers a way [to overcome them].
Yeh log tumharay anjam kaar ka intizar kertay rehtay hain phir agar tumhen Allah fatah dey to yeh kehtay hain kay kiya hum tumharay sathi nahi aur kafiron ko thora sa ghlba mill jaye to ( unn say ) kehtay hain kay hum tum per ghalib na aaney lagay thay aur kiya hum ney tumhen musalmanon kay haathon say na bachaya tha? Pus qayamat mein khud Allah Taalaa tumharay darmiyan faisla keray ga aur Allah Taalaa kafiron ko eman walon per hergiz raah na dey ga.
۔ ( اے مسلمانو ) یہ وہ لوگ ہیں جو تمہارے ( انجام کے ) انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں ۔ چنانچہ اگر تمہیں اللہ کی طرف سے فتح ملے تو ( تم سے ) کہتے ہیں کہ : کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے ؟ اور اگر کافروں کو ( فتح ) نصیب ہو تو ( ان سے ) کہتے ہیں کہ : کیا ہم نے تم پر قابو نہیں پالیا تھا؟ اور کیا ( اس کے باوجود ) ہم نے تمہیں مسلمانوں سے نہیں بچایا؟ ( ٨٣ ) بس اب تو اللہ ہی قیامت کے دن تمہارے اور ان کے د رمیان فیصلہ کرے گا ، اور اللہ کافروں کے لیے مسلمانوں پر غالب آنے کا ہرگز کوئی راستہ نہیں رکھے گا ۔
وہ جو تمہاری حالت تکا کرتے ہیں تو اگر اللہ کی طرف سے تم کو فتح ملے کہیں کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے ( ف۳۵۷ ) اور اگر کافروں کا حصہ ہو تو ان سے کہیں کیا ہمیں تم پر قابو نہ تھا ( ف۳۵۸ ) اور ہم نے تمہیں مسلمانوں سے بچایا ( ف۳۵۹ ) تو اللہ تم سب میں ( ف۳٦۰ ) قیامت کے دن فیصلہ کردے گا ( ف۳٦۱ ) اور اللہ کافروں کو مسلمان پر کوئی راہ نہ دے گا ( ف۳٦۲ )
یہ منافق تمہارے معاملہ میں انتظار کر رہے ہیں ﴿کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے﴾ ۔ اگر اللہ کی طرف سے فتح تمہاری ہوئی تو آکر کہیں گے کہ کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے ؟ اگر کافروں کا پلّہ بھاری رہا تو ان سے کہیں گے کہ کیا ہم تمہارے خلاف لڑنے پر قادر نہ تھے اور پھر بھی ہم نے تم کو مسلمانوں سے بچایا ؟ 171 بس اللہ ہی تمہارے اور ان کے معاملہ کا فیصلہ قیامت کے روز کرے گا اور ﴿اس فیصلہ میں﴾ اللہ نے کافروں کے لیے مسلمانوں پر غالب آنے کی ہرگز کوئی سبیل نہیں رکھی ہے ۔ ؏ ۲۰
وہ ( منافق ) جو تمہاری ( فتح و شکست کی ) تاک میں رہتے ہیں ، پھر اگر تمہیں اللہ کی طرف سے فتح نصیب ہو جائے تو کہتے ہیں: کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے؟ اور اگر کافروں کو ( ظاہری فتح میں سے ) کچھ حصہ مل گیا تو ( ان سے ) کہتے ہیں: کیا ہم تم پر غالب نہیں ہو گئے تھے اور ( اس کے باوجود ) کیا ہم نے تمہیں مسلمانوں ( کے ہاتھوں نقصان ) سے نہیں بچایا؟ پس اللہ تمہارے درمیان قیامت کے دن فیصلہ فرمائے گا ، اور اللہ کافروں کو مسلمانوں پر ( غلبہ پانے کی ) ہرگز کوئی راہ نہ دے گا
سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :171 ہر زمانہ کے منافقین کی یہی خصوصیت ہے ۔ مسلمان ہونے کی حیثیت سے جو فائدے حاصل کیے جا سکتے ہیں ان کو یہ اپنے زبانی اقرار اور دائرہ اسلام میں برائے نام شمولیت کے ذریعہ سے حاصل کرتے ہیں ۔ اور جو فائدے کافر ہونے کی حیثیت سے حاصل ہونے ممکن ہیں ان کی خاطر یہ کفار سے جا کر ملتے ہیں اور ہر طریقہ سے ان کو یقین دلاتے ہیں کہ ہم کوئی”متعصب مسلمان“ نہیں ہیں ، نام کا تعلق مسلمانوں سے ضرور ہے مگر ہماری دلچسپیاں اور وفاداریاں تمہارے ساتھ ہیں ، فکر و تہذیب اور مذاق کے لحاظ سے ہر طرح کی موافقت تمہارے ساتھ ہے ، اور کفر و اسلام کی کشمکش میں ہمارا وزن جب پڑے گا تمہارے ہی پلڑے میں پڑے گا ۔
عمل میں صفر دعویٰ میں اصلی مسلمان منافقوں کی بد باطنی کا ذکر ہے کہ مسلمانوں کی بربادی اس کی پستی کی تلاش میں لگے رہتے ہیں ٹوہ لیتے رہتے ہیں ، اگر کسی جہاد میں مسلمان کامیاب و کامران ہوگئے اللہ کی مدد سے یہ غالب آ گئے تو ان کے پیٹ میں گھسنے کے لئے آ آ کر کہتے ہیں کیوں جی ہم بھی تو تمہارے ساتھی ہیں اور اگر کسی وقت مسلمانوں کی آزمائش کے لئے اللہ جل شانہ نے کافروں کو غلبہ دے دیا جیسے احد میں ہوا تھا گو انجام کار حق ہی غالب رہا تو یہ ان کی طرف لپکتے ہیں اور کہتے ہیں دیکھو پوشیدہ طور پر تو ہم تمہاری تائید ہی کرتے رہے اور انہیں نقصان پہنچاتے رہے یہ ہماری ہی چالاکی تھی جس کی بدولت آج تم نے ان پر فتح پا لی ۔ یہ ہیں ان کے کرتوت کہ دو کشتیوں میں پاؤں رکھ چھوڑتے ہیں دھوبی کا کتا گھر کا نہ گھاٹ کا گو یہ اپنی اس مکاری کو اپنے لئے باعث فخر جانتے ہوں لیکن دراصل یہ سرا ان کی بے ایمانی اور کم یقینی کی دلیل ہے بھلا کچا رنگ کب تک رہتا ہے؟ گاجر کی پونگی کب تک بجے گی؟ کاغذ کی ناؤ کب تک چلے گی؟ وقت آ رہا ہے کہ اپنے کئے پر نادم ہوں گے اپنی بیوقوفی پر ہاتھ ملیں گے اپنے شرمناک کرتوت پر ٹسوے بہائیں گے اللہ کا سچا فیصلہ سن لیں گے اور تمام بھلائیوں سے ناامید ہو جائیں گے ۔ بھرم کھل جائے گا ہر راز فاش ہو جائے گا اندر کا باہر آ جائے گا یہ پالیسی اور حکمت عملی یہ مصلحت وقت اور مقتضائے موقعہ نہایت ڈراؤنی صورت سے سامنے آ جائے گا اور عالم الغیب کے بےپناہ عذابوں کا شکار بن جائیں گے ناممکن ہے کہ کافروں کو اللہ تعالیٰ مومنوں پر غالب کر دے ، حضرت علی سے ایک شخص نے اس کا مطلب پوچھا تو آپ نے اول جملے کے ساتھ ملا کر پڑھ دیا ۔ مطلب یہ تھا کہ قیامت کے دن ایسا نہ ہو گا ، یہ بھی مروی ہے کہ سبیل سے مراد حجت ہے ، لیکن تاہم اس کے ظاہری معنی مراد لینے میں بھی کوئی مانع نہیں یعنی یہ ناممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ اب سے لے کر قیامت تک کوئی ایسا وقت لائے کہ کافر اس قدر غلبہ حاصل کرلیں کہ مسلمانوں کا نام مٹا دیں یہ اور بات ہے کہ کسی جگہ کسی وقت دنیاوی طور پر انہیں غلبہ مل جائے لیکن انجام کار مسلمانوں کے حق میں ہی مفید ہو گا دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی فرمان الٰہی ہے ( اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُوْمُ الْاَشْهَادُ ) 40 ۔ غافر:51 ) ہم اپنے رسولوں اور ایماندار بندوں کو مدد دنیا میں بھی ضرور دیں گے اور یہ معنی لینے میں ایک لطافت یہ بھی ہے کہ منافقوں کے دلوں میں مسلمانوں کو ذلت اور بربادی کا شکار دیکھنے کا جو انتظار تھا مایوس کر دیا گیا کہ کفار کو مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ اس طرح غالب نہیں کرے گا کہ تم پھولے نہ سماؤ اور کچھ لوگ جس ڈر سے مسلمانوں کا ساتھ کھلے طور پر نہ دیتے تھے ان کے ڈر کو بھی زائل کر دیا کہ تم یہ نہ سمجھو کہ کسی وقت بھی مسلمان مٹ جائیں گے اسی مطلب کی وضاحت ( فَتَرَى الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ يُّسَارِعُوْنَ فِيْهِمْ يَقُوْلُوْنَ نَخْشٰٓى اَنْ تُصِيْبَنَا دَاۗىِٕرَةٌ ) 5 ۔ المائدہ:52 ) میں کر دی ہے ۔ اس آیت کریمہ سے حضرات علماء کرام نے اس امر پر بھی استدلال کیا ہے کہ مسلمان غلام کو کافر کے ہاتھ بیچنا جائز نہیں ، کیونکہ اس صورت میں ایک کافر کو ایک مسلمان پر غالب کر دینا ہے اور اس میں مسلمان کی ذلت ہے جن بعض ذی علم حضرات نے اس سودے کو جائز رکھا ہے ان کا فیصلہ ہے کہ وہ اپنی ملک سے اس کو اسی وقت آزاد کر دے ۔