Surah

Information

Surah # 1 | Verses: 7 | Ruku: 1 | Sajdah: 0 | Chronological # 5 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Early Makkah phase (610-618 AD)
صِرَاطَ الَّذِيۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَيۡهِمۡ ۙ ﴿6﴾
اُن لوگوں کی راہ جن پر تو نے انعام کیا ۔
صراط الذين انعمت عليهم
The path of those upon whom You have bestowed favor
Unn logon ki raah jin per tu ney inaam kiya
ان لوگوں کے راستے کی جن پر تو نے انعام کیا ہے
راستہ ان کا جن پر تو نے احسان کیا
ان لوگوں کاراستہ جن پر تو نے انعام فرمایا 9 ،
ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام فرمایا
سورة الْفَاتِحَة حاشیہ نمبر :9 یہ اس سیدھے راستہ کی تعریف ہے جس کا علم ہم اللہ تعالیٰ سے مانگ رہے ہیں ۔ یعنی وہ راستہ جس پر ہمیشہ سے تیرے منظورِ نظر لوگ چلتے رہے ہیں ۔ وہ بے خطا راستہ کہ قدیم ترین زمانہ سے آج تک جو شخص اور جو گروہ بھی اس پر چلا وہ تیرے انعامات کا مستحق ہوا اور تیری نعمتوں سے مالا مال ہوکر رہا ۔
انعام یافتہ کون؟ اس کا بیان پہلے گزر چکا ہے کہ بندے کے اس قول پر اللہ کریم فرماتا ہے یہ میرے بندے کے لئے ہے اور میرے بندے کے لئے ہے جو کچھ وہ مانگے یہ آیت صراط مستقیم کی تفسیر ہے اور نحویوں کے نزدیک یہ اس سے بدل ہے اور عطف بیان بھی ہو سکتی ہے واللہ اعظم ۔ اور جن پر اللہ کا انعام ہوا ان کا بیان سورۃ نساء میں آچکا ہے فرمان ہے آیت ( وَمَنْ يُّطِعِ اللّٰهَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰۗىِٕكَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِيّٖنَ وَالصِّدِّيْقِيْنَ وَالشُّهَدَاۗءِ وَالصّٰلِحِيْنَ ۚ وَحَسُنَ اُولٰۗىِٕكَ رَفِيْقًا ) 4 ۔ النسآء:69 ) یعنی اللہ اور اس رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کہے پر عمل کرنے والے ان کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ کا انعام ہے جو نبی ، صدیق ، شہید ، صالح لوگ ہیں ، یہ بہترین ساتھی اور اچھے رفیق ہیں ۔ یہ فضل ربانی ہے اور اللہ جاننے والا کافی ہے ۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ اللہ جل شانہ تو مجھے ان فرشتوں ، نبیوں ، صدیقوں ، شہیدوں اور صالحین کی راہ پر چلا جن پر تو نے اپنی اطاعت و عبادت کی وجہ سے انعام نازل فرمایا ۔ یہ آیت ٹھیک آیت ( ومن یطع اللہ ) کی طرح ہے ۔ ربیع بن انس کہتے ہیں اس سے مراد انبیاء ہیں ۔ ابن عباس اور مجاہد فرماتے ہیں مومن ہیں ۔ وکیع کہتے ہیں مسلمان ۔ عبدالرحمن فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ مراد ہیں ۔ ابن عباس کا قول زیادہ معقول اور قابل تسلیم ہے واللہ اعلم ۔ جمہور کی قرأت میں غیرے کے زیر کے ساتھ ہے اور صفت ہے ۔ زمحشری کہتے ہیں رے کی زبر کے ساتھ پڑھا گیا ہے اور حال ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عمر بن خطاب کی قرأت یہی ہے اور ابن کثیر سے بھی یہی روایت کی گئی ہے ۔ علیھم میں جو ضمیر ہے وہ اس کا ذوالحال ہے اور انعمت عامل ہے ۔ معنی یہ ہوئے کہ اللہ جل شانہ تو ہمیں سیدھا راستہ دکھا ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام کیا ۔ جو ہدایت اور استقامت والے تھے اور اللہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اطاعت گزار ، اس کے حکموں پر عمل کرنے والے ، اس کے منع کئے ہوئے کاموں سے رک رہنے والے تھے ۔