Surah

Information

Surah # 5 | Verses: 120 | Ruku: 16 | Sajdah: 0 | Chronological # 112 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 3, revealed at Arafat on Last Hajj
وَاَنۡزَلۡنَاۤ اِلَيۡكَ الۡكِتٰبَ بِالۡحَـقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيۡنَ يَدَيۡهِ مِنَ الۡكِتٰبِ وَمُهَيۡمِنًا عَلَيۡهِ‌ فَاحۡكُمۡ بَيۡنَهُمۡ بِمَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰهُ وَلَا تَتَّبِعۡ اَهۡوَآءَهُمۡ عَمَّا جَآءَكَ مِنَ الۡحَـقِّ‌ؕ لِكُلٍّ جَعَلۡنَا مِنۡكُمۡ شِرۡعَةً وَّمِنۡهَاجًا ‌ؕ وَلَوۡ شَآءَ اللّٰهُ لَجَـعَلَـكُمۡ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّلٰـكِنۡ لِّيَبۡلُوَكُمۡ فِىۡ مَاۤ اٰتٰٮكُمۡ فَاسۡتَبِقُوا الۡخَـيۡـرٰتِ‌ؕ اِلَى اللّٰهِ مَرۡجِعُكُمۡ جَمِيۡعًا فَيُنَبِّئُكُمۡ بِمَا كُنۡتُمۡ فِيۡهِ تَخۡتَلِفُوۡنَۙ‏ ﴿48﴾
اور ہم نے آپ کی طرف حق کے ساتھ یہ کتاب نازل فرمائی ہے جو اپنے سے اگلی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اور ان کی محافظ ہے اس لئے آپ ان کے آپس کے معاملات میں اسی اللہ کی اُتاری ہوئی کتاب کے ساتھ حکم کیجئے ، اس حق سے ہٹ کر ان کی خواہشوں کے پیچھے نہ جائیے تم میں سے ہر ایک کے لئے ہم نے ایک دستور اور راہ مقرر کر دی اگر منظور مولٰی ہوتا تو تم سب کو ایک ہی امت بنا دیتا لیکن اس کی چاہت ہے کہ جو تمہیں دیا ہے اس میں تمہیں آزمائے تم نیکیوں کی طرف جلدی کرو تم سب کا رجوع اللہ ہی کی طرف ہے ، پھر وہ تمہیں ہر وہ چیز بتا دے گا ، جس میں تم اختلاف کرتے رہتے تھے ۔
و انزلنا اليك الكتب بالحق مصدقا لما بين يديه من الكتب و مهيمنا عليه فاحكم بينهم بما انزل الله و لا تتبع اهواءهم عما جاءك من الحق لكل جعلنا منكم شرعة و منهاجا و لو شاء الله لجعلكم امة واحدة و لكن ليبلوكم في ما اتىكم فاستبقوا الخيرت الى الله مرجعكم جميعا فينبكم بما كنتم فيه تختلفون
And We have revealed to you, [O Muhammad], the Book in truth, confirming that which preceded it of the Scripture and as a criterion over it. So judge between them by what Allah has revealed and do not follow their inclinations away from what has come to you of the truth. To each of you We prescribed a law and a method. Had Allah willed, He would have made you one nation [united in religion], but [He intended] to test you in what He has given you; so race to [all that is] good. To Allah is your return all together, and He will [then] inform you concerning that over which you used to differ.
Aur hum ney aap ki taraf haq kay sath yeh kitab nazil farmaee hai jo apney say agli kitabon ki tasdeeq kerney wali hai aur inn ki mohafiz hai. Iss liye aap inn kay aapas kay moamlaat mein issi utari hui kitab kay sath hukum kijiye iss haq say hatt ker inn ki khuwaishon kay peechay na jaiye tum mein say her aik kay liye hum ney aik dastoor aur raah muqarrar ker di hai. Agar manzoor maula hota to tum sab ko aik hi ummat bana deta lekin uss ki chahat hai kay jo tumhen diya hai uss mein tumhen aazmaye tum nekiyon ki taraf jaldi kero tum sab ka rujoo Allah hi ki taraf hai phir woh tumhen her woh cheez bata dey ga jiss mein tum ikhtilaf kertay rehtay ho.
اور ( اے رسول محمد ! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) ہم نے تم پر بھی حق پر مشتمل کتاب نازل کی ہے جو اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور ان کی نگہبان ہے ۔ لہذا ان لوگوں کے درمیان اسی حکم کے مطابق فیصلہ کرو جو اللہ نے نازل کیا ہے ، اور جو حق بات تمہارے پاس آگئی ہے اسے چھوڑ کر ان کی خواہشات کے پیچھے نہ چلو ۔ تم میں سے ہر ایک ( امت ) کے لیے ہم نے ایک ( الگ ) شریعت اور طریقہ مقرر کیا ہے ۔ ( ٤٠ ) اور اگر اللہ چاہتا تو تم سب کو ایک امت بنا دیتا ، لیکن ( الگ شریعتیں اس لیے دیں ) تاکہ جو کچھ اس نے تمہیں دیا ہے اس میں تمہیں آزمائے ۔ لہذا نیکیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو ۔ اللہ ہی کی طرف تم سب کو لوٹ کر جانا ہے ۔ اس وقت وہ تمہیں وہ باتیں بتائے گا جن میں تم اختلاف کیا کرتے تھے ۔
اور اے محبوب ہم نے تمہاری طرف سچی کتاب اتاری اگلی کتابوں کی تصدیق فرماتی ( ف۱۲٤ ) اور ان پر محافظ و گواہ تو ان میں فیصلہ کرو اللہ کے اتارے سے ( ف۱۲۵ ) اور اسے سننے والے ان کی خواہشوں کی پیروی نہ کرنا اپنے پاس آیا ہوا حق چھوڑ کر ، ہم نے تم سب کے لیے ایک ایک شریعت اور راستہ رکھا ( ف۱۲٦ ) اور اللہ چاہتا تو تم سب کو ایک ہی امت کردیتا مگر منظور یہ ہے کہ جو کچھ تمہیں دیا اس میں تمہیں آزمائے ( ف۱۲۷ ) تو بھلائیوں کی طرف سبقت چاہو ، تم سب کا پھرنا اللہ ہی کی طرف ہے تو وہ تمہیں بتادے گا جس بات میں تم جھگڑتے تھے
پھر اے محمد ! ہم نے تمہاری طرف یہ کتاب بھیجی جو حق لے کر آئی ہے اور الکتاب میں سے جو کچھ اس کے آگے موجود ہے اس کی تصدیق کرنے والی 78 اور اس کی محافظ و نگہبَان ہے ۔ 79 لہٰذا تم خدا کے نازل کردہ قانون کے مطابق لوگوں کے معاملات کا فیصلہ کرو اور جو حق تمہارے پاس آیا ہے اس سے منّہ موڑ کر ان کی خواہشات کی پیروی نہ کرو ۔ ۔ ۔ ۔ 80 ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لیے ایک شریعت اور ایک راہِ عمل مقرر کی ۔ اگرچہ تمہارا خدا چاہتا تو تم سب کو ایک امّت بھی بنا سکتا تھا ، لیکن اس نے یہ اس لیے کیا کہ جو کچھ اس نے تم لوگوں کو دیا ہے اس میں تمہاری آزمائش کرے ۔ لہٰذا بھلائیوں میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرو ۔ آخر کار تم سب کو خدا کی طرف پلٹ کر جانا ہے ، پھر وہ تمہیں اصل حقیقت بتا دے گا جس میں تم اختلاف کرتے رہے 81 ہو ۔ ۔ ۔ ۔ 82
اور ( اے نبئ مکرّم! ) ہم نے آپ کی طرف ( بھی ) سچائی کے ساتھ کتاب نازل فرمائی ہے جو اپنے سے پہلے کی کتاب کی تصدیق کرنے والی ہے اور اس ( کے اصل احکام و مضامین ) پر نگہبان ہے ، پس آپ ان کے درمیان ان ( احکام ) کے مطابق فیصلہ فرمائیں جو اﷲ نے نازل فرمائے ہیں اور آپ ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں ، اس حق سے دور ہو کر جو آپ کے پاس آچکا ہے ۔ ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لئے الگ شریعت اور کشادہ راہِ عمل بنائی ہے ، اور اگر اﷲ چاہتا تو تم سب کو ( ایک شریعت پر متفق ) ایک ہی امّت بنا دیتا لیکن وہ تمہیں ان ( الگ الگ احکام ) میں آزمانا چاہتا ہے جو اس نے تمہیں ( تمہارے حسبِ حال ) دیئے ہیں ، سو تم نیکیوں میں جلدی کرو ۔ اﷲ ہی کی طرف تم سب کو پلٹنا ہے ، پھر وہ تمہیں ان ( سب باتوں میں حق و باطل ) سے آگاہ فرمادے گا جن میں تم اختلاف کرتے رہتے تھے
سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :78 یہاں ایک اہم حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے ۔ اگرچہ اس مضمون کو یوں بھی ادا کیا جا سکتا تھا کہ ”پچھلی کتابوں“ میں سے جو کچھ اپنی اصلی اور صحیح صورت پر باقی ہے ، قرآن اس کی تصدیق کرتا ہے ، لیکن اللہ تعالیٰ نے ”پچھلی کتابوں“ کے بجائے”الکتاب“ کا لفظ استعمال فرمایا ۔ اس سے یہ راز منکشف ہوتا ہے کہ قرآن اور تمام وہ کتابیں جو مختلف زمانوں اور مختلف زبانوں میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئیں ، سب فی الاصل ایک ہی کتاب ہیں ۔ ایک ہی ان کا مصنف ہے ، ایک ہی ان کا مدعا اور مقصد ہے ، ایک ہی ان کی تعلیم ہے ، اور ایک ہی علم ہے جو ان کے ذریعہ سے نوع انسانی کو عطا کیا گیا ۔ فرق اگر ہے تو عبارات کا ہے جو ایک ہی مقصد کے لیے مختلف مخاطبوں کے لحاظ سے مختلف طریقوں سے اختیار کی گئیں ۔ پس حقیقت صرف اتنی ہی نہیں ہے کہ یہ کتابیں ایک دوسرے کی مخالف نہیں ، مؤ ید ہیں ، تردید کرنے والی نہیں ، تصدیق کرنے والی ہیں ۔ بلکہ اصل حقیقت اس سے کچھ بڑھ کر ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ سب ایک ہی ”الکتاب“ کے مختلف ایڈیشن ہیں ۔ سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :79 اصل میں لفظ”مُھَیْمِنْ“ استعمال ہوا ہے ۔ عربی میں ھیمن یھمن ھیمنۃ کے معنی محافظت ، نگرانی ، شہادت ، امانت ، تائد اور حمایت کے ہیں ۔ ھیمن الرجل الشئ ، یعنی آدمی نے فلاں چیز کی حفاظت و نگہبانی کی ۔ ھیمن الطائر علیٰ فراخہ ، یعنی پرندے نے اپنے چوزے کو اپنے پروں میں لے کر محفوض کر لیا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ لوگوں سے کہا انی داعٍ فھیمنوا یعنی میں دعا کر تا ہوں تم تائید میں آمین کہو ۔ اسی سے لفظ ھمیَان ہے جسے اردو میں ہمیانی کہتے ہیں ، یعنی وہ تھیلی جس میں آدمی اپنا مال رکھ کر محفوظ کرتا ہے ۔ پس قرآن کو ”الکتاب“ پر مھیمن کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس نے ان تمام بر حق تعلیمات کو جو پچھلی کتب آسمانی میں دی گئی تھیں ، اپنے اندر لے کر محفوظ کر لیا ہے ۔ وہ ان پر نگہبان ہے اس معنی میں کہ اب ان کی تعلیمات برحق کا کوئی حصہ ضائع نہ ہونے پائے گا ۔ وہ ان کا مؤید ہے اس معنی میں کہ ان کتابوں کے اندر خدا کا کلام جس حد تک موجود ہے قرآن سے اس کی تصدیق ہوتی ہے ۔ وہ ان پر گواہ ہے اس معنی میں کہ ان کتابوں کے اندر خدا کے کلام اور لوگوں کے کلام کی جو آمیزش ہوگئی ہے قرآن کی شہادت سے اس کو پھر چھانٹا جا سکتا ہے ، جو کچھ ان میں قرآن کے مطابق ہے وہ خدا کا کلام ہے اور جو قرآن کے خلاف ہے وہ لوگوں کا کلام ہے ۔ سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :80 یہ ایک جملہ معترضہ ہے جس سے مقصود ایک سوال کی توضیح کرنا ہے جو اوپر کے سلسلہ تقریر کو سنے ہوئے مخاطب کے ذہن میں الجھن پیدا کر سکتا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ جب تمام انبیاء اور تمام کتابوں کا دین ایک ہے ، اور یہ سب ایک دوسرے کی تصدیق و تائید کرتے ہوئے آئے ہیں تو شریعت کی تفصیلات میں ان کے درمیان فرق کیوں ہے؟ کیا بات ہے کہ عبادت کی صورتوں میں ، حرام و حلال کی قیود میں اور قوانین تمدن و معاشرت کے فروع میں مختلف انبیاء اور کتب آسمانی کی شریعتوں کے درمیان تھوڑا بہت اختلاف پایا جاتا ہے؟ سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :81 یہ مذکورہ بالا سوال کا پورا جواب ہے ۔ اس جواب کی تفصیل یہ ہے: ( ۱ ) محض اختلاف شرائع کو اس بات کی دلیل قرار دینا غلط ہے کہ یہ شریعتیں مختلف مآخذ سے ماخوذ اور مختلف سر چشموں سے نکلی ہوئی ہے ۔ دراصل وہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے مختلف قوموں کے لیے مختلف زمانوں اور مختلف حالات میں مختلف ضابطے مقرر فرمائے ۔ ( ۲ ) بلاشبہ یہ ممکن تھا کہ شروع ہی سے تمام انسانوں کے لیے ایک ضابطہ مقرر کر کے سب کو ایک امت بنا دیا جاتا ۔ لیکن وہ فرق جو اللہ تعالیٰ نے مختلف انبیاء کی شریعتوں کے درمیان رکھا اس کے اندر دوسری بہت سی مصلحتوں کے ساتھ ایک بڑی مصلحت یہ بھی تھی کہ اللہ تعالیٰ اس طریقہ سے لوگوں کی آزمائش کرنا چاہتا تھا ۔ جو لوگ اصل دین اور اس کی روح اور حقیقت کو سمجھتے ہیں ، اور دین میں ان ضوابط کی حقیقی حیثیت کو جانتے ہیں ، اور کسی تعصب میں مبتلا نہیں ہیں وہ حق کو جس صورت میں بھی وہ آئے گا پہچان لیں گے اور قبول کرلیں گے ۔ ان کو اللہ کے بھیجے ہوئے سابق احکام کی جگہ بعد کے احکام تسلیم کرنے میں کوئی تامل نہ ہو گا ۔ بخلاف اس کے جو لوگ روح دین سے بیگانہ ہیں اور ضوابط اور ان کی تفصیلات ہی کو اصل دین سمجھ بیٹھے ہیں ، اور جنہوں نے خدا کی طرف سے آئی ہوئی چیزوں پر خود اپنے حاشیے چڑھا کر ان پر جمود اور تعصب اختیار کر لیا ہے وہ ہر اس ہدایت کو رد کرتے چلے جائیں گے جو بعد میں خدا کی طرف سے آئے ۔ ان دونوں قسم کے آدمیوں کو ممیز کرنے کے لیے یہ آزمائش ضروری تھی ، اس لیے اللہ تعالیٰ نے شرائع میں اختلاف رکھا ۔ ( ۳ ) تمام شرائع سے اصل مقصود نیکیوں اور بھلائیوں کو پانا ہے اور وہ اسی طرح حاصل ہو سکتی ہیں کہ جس وقت جو حکم خدا ہو اس کی پیروی کی جائے ۔ لہٰذا جو لوگ اصل مقصد پر نگاہ رکھتے ہیں ان کے لیے شرائع کے اختلافات اور مناہج کے فروق پر جھگڑا کرنے کے بجائے صحیح طرز عمل یہ ہے کہ مقصد کی طرف اس راہ سے پیش قدمی کریں جس کو اللہ تعالیٰ کی منظوری حاصل ہو ۔ ( ٤ ) جو اختلافات انسانوں نے اپنے جمود ، تعصب ، ہٹ دھرمی اور ذہن کی اپج سے خود پیدا کر لیے ہیں ان کا آخری فیصلہ نہ مجلس مناظرہ میں ہو سکتا ہے نہ میدان جنگ میں ۔ آخری فیصلہ اللہ تعالیٰ خود کرے گا جبکہ حقیقت بے نقاب کر دی جائے گی اور لوگوں پر منکشف ہو جائے گا کہ جن جھگڑوں میں وہ عمریں کھپا کر دنیا سے آئے ہیں ان کی تہ میں ” حق “ کا جوہر کتنا تھا اور باطل کے حاشیے کی قدر ۔ سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :82 یہاں سے پھر وہی سلسلہ تقریر چل پڑتا ہے جو اوپر سے چلا آرہا تھا ۔
قرآن ایک مستقل شریعت ہے تورات و انجیل کی ثنا و صفت اور تعریف و مدحت کے بعد اب قرآن عظیم کی بزرگی بیان ہو رہی ہے کہ ہم نے اسے حق و صداقت کے ساتھ نازل فرمایا ہے یہ بالیقین اللہ واحد کی طرف سے ہے اور اس کا کلام ہے ۔ یہ تمام پہلی الٰہی کتابوں کو سچا مانتا ہے اور ان کتابوں میں بھی اس کی صفت و ثنا موجود ہے اور یہ بھی بیان ان میں ہے کہ یہ پاک اور آخری کتاب آخری اور افضل رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اترے گی ، پس ہر دانا شخص اس پر یقین رکھتا ہے اور اسے مانتا ہے ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( ۭ اِنَّ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِهٖٓ اِذَا يُتْلٰى عَلَيْهِمْ يَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ سُجَّدًا ) 17 ۔ الاسراء:107 ) جنہیں اس سے پہلے علم دیا گیا تھا ، جب ان کے سامنے اس کی تلاوت کی جاتی ہے تو وہ ٹھوڑیوں کے بل سجدے میں گر پڑتے ہیں اور زبانی اقرار کرتے ہیں کہ ہمارے رب کا وعدہ سچا ہے اور وہ سچا ثابت ہو چکا ، اس نے اگلے رسولوں کی زبانی جو خبر دی تھی وہ پوری ہوئی اور آخری رسول رسولوں کے سرتاج رسول آ ہی گئے اور یہ کتاب ان پہلی کتابوں کی امین ہے ۔ یعنی اس میں جو کچھ ہے ، وہی پہلی کتابوں میں بھی تھا ، اب اس کے خلاف کوئی کہے کہ فلاں پہلی کتاب میں یوں ہے تو یہ غلط ہے ۔ یہ ان کی سچی گواہ اور انہیں گھیر لینے والی اور سمیٹ لینے والی ہے ۔ جو جو اچھائیاں پہلے کی تمام کتابوں میں جمع تھیں ، وہ سب اس آخری کتاب میں یکجا موجود ہیں ، اسی لئے یہ سب پر حاکم اور سب پر مقدم ہے اور اس کی حفاظت کا کفیل خود اللہ تعالیٰ ہے ۔ جیسے فرمایا ( اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ ) 15 ۔ الحجر:9 ) بعض نے کہا ہے کہ مراد اس سے یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس کتاب پر امین ہیں ۔ واقع میں تو یہ قول بہت صحیح ہے لیکن اس آیت کی تفسیر یہ کرنی ٹھیک نہیں بلکہ عربی زبان کے اعتبار سے بھی یہ غور طلب امر ہے ۔ صحیح تفسیر پہلی ہی ہے ۔ امام ابن جریر نے بھی حضرت مجاہد سے اس قول کو نقل کر کے فرمایا ہے یہ بہت دور کی بات ہے بلکہ ٹھیک نہیں ہے اس لئے مھیمن کا عطف مصدق پر ہے ، پس یہ بھی اسی چیز کی صفت ہے جس کی صفت مصدق کا لفظ تھا ۔ اگر حضرت مجاہد کے معنی صحیح مان لئے جائیں تو عبارت بغیر عطف کے ہونی چاہئے تھی خواہ عرب ہوں ، خواہ عجم ہوں ، خواہ لکھے پڑھے ہوں ، خواہ ان پڑھ ہوں ۔ اللہ کی طرف سے نازل کردہ سے مراد وحی اللہ ہے خواہ وہ اس کتاب کی صورت میں ہو ، خواہ جو پہلے احکام اللہ نے مقرر کر رکھے ہوں ۔ ابن عباس فرماتے ہیں اس آیت سے پہلے تو آپ کو آزادی دی گئی تھی ، اگر چاہیں ان میں فیصلے کریں چاہیں نہ کریں ، لیکن اس آیت نے حکم دیا کہ وحی الٰہی کے ساتھ ان میں فیصلے کرنے ضروری ہیں ، ان بدنصیب جاہلوں نے اپنی طرف سے جو احکام گھڑ لئے ہیں اور ان کی وجہ سے کتاب اللہ کو پس پشت ڈال دیا ہے ، خبردار اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو ان کی چاہتوں کے پیچھے لگ کر حق کو نہ چھوڑ بیٹھنا ۔ ان میں سے ہر ایک کیلئے ہم نے راستہ اور طریقہ بنا دیا ہے ۔ کسی چیز کی طرف ابتداء کرنے کو شرعۃ کہتے ہیں ، منہاج لغت میں کہتے ہیں واضح اور آسان راستے کو ۔ پس ان دونوں لفظوں کی یہی تفسیر زیادہ مناسب ہے ۔ پہلی تمام شریعتیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھیں ، وہ سب توحید پر متفق تھیں ، البتہ چھوٹے موٹے احکام میں قدرے ہیر پھیر تھا ۔ جیسے حدیث شریف میں ہے ہم سب انبیاء علاتی بھائی ہیں ، ہم سب کا دین ایک ہی ہے ، ہر نبی توحید کے ساتھ بھیجا جاتا رہا اور ہر آسمانی کتاب میں توحید کا بیان اس کا ثبوت اور اسی کی طرف دعوت دی جاتی رہی ۔ جیسے قرآن فرماتا ہے کہ تجھ سے پہلے جتنے بھی رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے بھیجے ، ان سب کی طرف یہی وحی کی کہ میرے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں ، تم سب صرف میری ہی عبادت کرتے رہو ۔ اور آیت میں ( وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ ) 16 ۔ النحل:36 ) ہم نے ہر امت کو بزبان رسول کہلوا دیا کہ اللہ کی عبادت کرو اور اس کے سوال دوسروں کی عبادت سے بچو ۔ احکام کا اختلاف ضرور ، کوئی چیز کسی زمانے میں حرام تھی پھر حلال ہو گئی یا اس کے برعکس ۔ یا کسی حکم میں تخفیف تھی اب تاکید ہو گئی یا اس کے خلاف اور یہ بھی حکمت اور مصلحت اور حجت ربانی کے ساتھ مثلاً توراۃ ایک شریعت ہے ، انجیل ایک شریعت ہے ، قرآن ایک مستقل شریعت ہے تا کہ ہر زمانے کے فرمانبرداروں اور نافرمانوں کا امتحان ہو جایا کرے ۔ البتہ توحید سب زمانوں میں یکساں رہی اور معنی اس جملہ کے یہ ہیں کہ اے امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! تم میں سے ہر شخص کیلئے ہم نے اپنی اس کتاب قرآن کریم کو شریعت اور طریقہ بنایا ہے ، تم سب کو اس کی اقتدار اور تابعداری کرنی چاہئے ۔ اس صورت میں جعلنا کے بعد ضمیر ہ کی محذوف ماننی پڑے گی ۔ پس بہترین مقاصد حاصل کرنے کا ذریعہ اور طریقہ صرف قرآن کریم ہی ہے لیکن صحیح قول پہلا ہی ہے اور اس کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اس کے بعد ہی فرمان ہوا ہے کہ اگر اللہ چاہتا تو سب کو ایک ہی امت کر دیتا ۔ پس معلوم ہوا کہ اگلا خطاب صرف اس امت سے ہی نہیں بلکہ سب امتوں سے ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی اور کامل قدرت کا بیان ہے کہ اگر وہ چاہتا تو سب لوگوں کو ایک ہی شریعت اور دین پر کر دیتا کوئی تبدیلی کسی وقت نہ ہوتی ۔ لیکن رب کی حکمت کاملہ کا تقاضا یہ ہوا کہ علیحدہ علیحدہ شریعتیں مقرر کرے ، ایک کے بعد دوسرا نبی بھیجے اور بعض احکام اگلے نبی کے پچھلے نبی سے بدلوا دے ، یہاں تک کہ اگلے دین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت سے منسوخ ہو گئے اور آپ تمام روئے زمین کی طرف بھیجے گئے اور خاتم الانبیاء بنا کر بھیجے گئے ۔ یہ مختلف شریعتیں صرف تمہاری آزمائش کیلئے ہوئیں تاکہ تابعداروں کو جزاء اور نافرمانوں کو سزا ملے ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ تمہیں آزمائے ، اس چیز میں جو تمہیں اس نے دی ہے یعنی کتاب ۔ پس تمہیں خیرات اور نیکیوں کی طرف سبقت اور دوڑ کرنی چاہئے ۔ اللہ کی اطاعت ، اس کی شریعت کی فرمانبرداری کی طرف آگے بڑھنا چاہئے اور اس آخری شریعت ، آخری کتاب اور آخری پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی بہ دل و جاں فرماں برداری کرنی چاہئے ۔ لوگو! تم سب کا مرجع و ماویٰ اور لوٹنا پھرنا اللہ ہی کی طرف ہے ، وہاں وہ تمہیں تمہارے اختلاف کی اصلیت بتا دے گا ۔ سچوں کو ان کی سچائی کا اچھا پھل دے گا اور بروں کو ان کی کج بحثی ، سرکشی اور خواہش نفس کی پیروی کی سزا دے گا ۔ جو حق کو ماننا تو ایک طرف بلکہ حق سے چڑتے ہیں اور مقابلہ کرتے ہیں ۔ ضحاک کہتے ہیں مراد امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے ، مگر اول ہی اولیٰ ہے ۔ پھر پہلی بات کی اور تاکید ہو رہی ہے اور اس کے خلاف سے روکا جاتا ہے اور فرمایا جاتا ہے کہ دیکھو کہیں اس خائن ، مکار ، کذاب ، کفار یہود کی باتوں میں آکر اللہ کے کسی حکم سے ادھر ادھر نہ ہو جانا ۔ اگر وہ تیرے احکام سے رو گردانی کریں اور شریعت کے خلاف کریں تو تو سمجھ لے کہ ان کی سیاہ کاریوں کی وجہ سے اللہ کا کوئی عذاب ان پر آنے والا ہے ۔ اسی لئے توفیق خیر ان سے چھین لی گئی ہے ۔ اکثر لوگ فاسق ہیں یعنی اطاعت حق سے خارج ۔ اللہ کے دین کے مخالف ، ہدایت سے دور ہیں ۔ جیسے فرمایا آیت ( وَمَآ اَكْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِيْنَ ) 12 ۔ یوسف:103 ) یعنی گو تو حرص کر کے چاہے لیکن اکثر لوگ مومن نہیں ہیں ۔ اور فرمایا آیت ( وَاِنْ تُطِعْ اَكْثَرَ مَنْ فِي الْاَرْضِ يُضِلُّوْكَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ) 6 ۔ الانعام:116 ) اگر تو زمین والوں کی اکثریت کی مانے گا تو وہ تجھے بھی راہ حق سے بہکا دیں گے ۔ یہودیوں کے چند بڑے بڑے رئیسوں اور عالموں نے آپس میں ایک میٹنگ کر کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ آپ جانتے ہیں اگر ہم آپ کو مان لیں تو تمام یہود آپ کی نبوت کا اقرار کرلیں گے اور ہم آپ کو ماننے کیلئے تیار ہیں ، آپ صرف اتنا کیجئے کہ ہم میں اور ہماری قوم میں ایک جھگڑا ہے ، اس کا فیصلہ ہمارے مطابق کر دیجئے ، آپ نے انکار کر دیا اور اسی پر یہ آیتیں اتریں ۔ اس کے بعد جناب باری تعالیٰ ان لوگوں کا ذکر کر رہا ہے جو اللہ کے حکم سے ہٹ جائیں ، جس میں تمام بھلائیاں موجود اور تمام برائیاں دور ہیں ۔ ایسے پاک حکم سے ہٹ کر رائے قیاس کی طرف ، خواہش نفسانی کی طرف اور ان احکام کی طرف جھکے جو لوگوں نے از خود اپنی طرف سے بغیر دلیل شرعی کے گھڑ لئے ہیں جیسے کہ اہل جاہلیت اپنی جہالت و ضلالت اور اپنی رائے اور اپنی مرضی کے مطابق حکم احکام جاری کر لیا کرتے تھے اور جیسے کہ تاتاری ملکی معاملات میں چنگیز خان کے احکام کی پیروی کرتے تھے جو الیاسق نے گھڑ دیئے تھے ۔ وہ بہت سے احکام کے مجموعے اور دفاتر تھے جو مختلف شریعتوں اور مذہبوں سے چھانٹے گئے تھے ۔ یہودیت ، نصرانیت ، اسلامیت وغیرہ سب کے احکام کا وہ مجموعہ تھا اور پھر اس میں بہت سے احکام وہ بھی تھے ، جو صرف اپنی عقلی اور مصلحت وقت کے پیش نظر ایجاد کئے گئے تھے ، جن میں اپنی خواہش کی ملاوٹ بھی تھی ۔ پس وہی مجموعے ان کی اولاد میں قابل عمل ٹھہر گئے اور اسی کو کتاب و سنت پر فوقیت اور تقدیم دے لی ۔ درحقیقت ایسا کرنے والے کافر ہیں اور ان سے جہاد واجب ہے یہاں تک کہ وہ لوٹ کر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی طرف آ جائیں اور کسی چھوٹے یا بڑے اہم یا غیر اہم معاملہ میں سوائے کتاب و سنت کے کوئی حکم کسی کا نہ لیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ جاہلیت کے احکام کا ارادہ کرتے ہیں اور حکم رب سے سرک رہے ہیں؟ یقین والوں کیلئے اللہ سے بہتر حکمران اور کار فرما کون ہوگا ؟ اللہ سے زیادہ عدل و انصاف والے احکام کس کے ہوں گے؟ ایماندار اور یقین کامل والے بخوبی جانتے اور مانتے ہیں کہ اس احکم الحاکمین اور الرحم الراحمین سے زیادہ اچھے ، صاف ، سہل اور عمدہ احکام و قواعد مسائل و ضوابط کسی کے بھی نہیں ہو سکتے ۔ وہ اپنی مخلوق پر اس سے بھی زیادہ مہربان ہے جتنی ماں اپنی اولاد پر ہوتی ہے ، وہ پورے اور پختہ علم والا کامل اور عظیم الشان قدرت والا اور عدل و انصاف والا ہے ۔ حضرت حسن فرماتے ہیں اللہ کے فیصلے کے بغیر جو فتویٰ دے اس کا فتویٰ جاہلیت کا حکم ہے ۔ ایک شخص نے حضرت طاؤس سے پوچھا کیا میں اپنی اولاد میں سے ایک کو زیادہ اور ایک کو کم دے سکتا ہوں؟ تو آپ نے یہی آیت پڑھی ۔ طبرانی میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں سب سے بڑا اللہ کا دشمن وہ ہے جو اسلام میں جاہلیت کا طریقہ اور حیلہ تلاش کرے اور بےوجہ کسی کی گردن مارنے کے درپے ہو جائے ۔ یہ حدیث بخاری میں بھی قدرے الفاظ کی زیادتی کے ساتھ ہے ۔