Surah

Information

Surah # 5 | Verses: 120 | Ruku: 16 | Sajdah: 0 | Chronological # 112 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 3, revealed at Arafat on Last Hajj
لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللّٰهُ بِاللَّغۡوِ فِىۡۤ اَيۡمَانِكُمۡ وَلٰـكِنۡ يُّؤَاخِذُكُمۡ بِمَا عَقَّدْتُّمُ الۡاَيۡمَانَ‌ ۚ فَكَفَّارَتُهٗۤ اِطۡعَامُ عَشَرَةِ مَسٰكِيۡنَ مِنۡ اَوۡسَطِ مَا تُطۡعِمُوۡنَ اَهۡلِيۡكُمۡ اَوۡ كِسۡوَتُهُمۡ اَوۡ تَحۡرِيۡرُ رَقَبَةٍ‌ ؕ فَمَنۡ لَّمۡ يَجِدۡ فَصِيَامُ ثَلٰثَةِ اَيَّامٍ‌ ؕ ذٰ لِكَ كَفَّارَةُ اَيۡمَانِكُمۡ اِذَا حَلَفۡتُمۡ‌ ؕ وَاحۡفَظُوۡۤا اَيۡمَانَكُمۡ‌ ؕ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَـكُمۡ اٰيٰتِهٖ لَعَلَّكُمۡ تَشۡكُرُوۡنَ‏ ﴿89﴾
اللہ تعالٰی تمہاری قسموں میں لغو قسم پر تم سے مواخذہ نہیں فرماتا لیکن مواخذہ اس پر فرماتا ہے کہ تم جن قسموں کو مضبوط کر دو اس کا کفارہ دس محتاجوں کو کھانا دینا ہے اوسط درجے کا جو اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہو یا ان کو کپڑا دینا یا ایک غلام یا لونڈی آزاد کر نا ہے اور جس کو مقدور نہ ہو تو تین دن کے روزے ہیں یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جب کہ تم قسم کھا لو اور اپنی قسموں کا خیال رکھو! اسی طرح اللہ تعالٰی تمہارے واسطے اپنے احکام بیان فرماتا ہے تاکہ تم شکر کرو ۔
لا يؤاخذكم الله باللغو في ايمانكم و لكن يؤاخذكم بما عقدتم الايمان فكفارته اطعام عشرة مسكين من اوسط ما تطعمون اهليكم او كسوتهم او تحرير رقبة فمن لم يجد فصيام ثلثة ايام ذلك كفارة ايمانكم اذا حلفتم و احفظوا ايمانكم كذلك يبين الله لكم ايته لعلكم تشكرون
Allah will not impose blame upon you for what is meaningless in your oaths, but He will impose blame upon you for [breaking] what you intended of oaths. So its expiation is the feeding of ten needy people from the average of that which you feed your [own] families or clothing them or the freeing of a slave. But whoever cannot find [or afford it] - then a fast of three days [is required]. That is the expiation for oaths when you have sworn. But guard your oaths. Thus does Allah make clear to you His verses that you may be grateful.
Allah Taalaa tumhari qasmon mein laghv qasam per tum say moaakhiza nahi farmata lekin moaakhiza uss per farmata hai kay tum jin qasmon ko mazboot ker do. Iss ka kaffaara das mohtajon kko khana dena hai osat darjay ka jo apney ghar walon ko khilatay ho ya unn ko kapra dena ya aik ghulam ya londi aazad kerna hai aur jiss ko maqdoor na ho to teen din kay rozay hain yeh tumhari qasmon ka kaffaara hai jabkay tum qasam kha lo aur apni qasmon ka khayal rakho1 issi tarah Allah Taalaa tumharay wastay apney ehkaam biyan farmata hai takay tum shukar kero.
اللہ تمہاری لغو قسموں پر تمہاری پکڑ نہیں کرے گا ( ٥٩ ) لیکن جو قسمیں تم نے پختگی کے ساتھ کھائی ہوں ، ( ٦٠ ) ان پر تمہاری پکڑ کرے گا ۔ چنانچہ اس کا کفارہ یہ ہے کہ دس مسکینوں کو وہ اوسط درجے کا کھانا کھلاؤ جو تم اپنے گھر والوں کو کھلایا کرتے ہو ، یا ان کو کپڑے دو ، یا ایک غلام آزاد کرو ۔ ہاں اگر کسی کے پاس ( ان چیزوں میں سے ) کچھ نہ ہو تو وہ تین دن روزے رکھے ۔ یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جب تم نے کوئی قسم کھالی ہو ( اور اسے توڑ دیا ہو ) اور اپنی قسموں کی حفاظت کیا کرو ۔ ( ٦١ ) اسی طرح اللہ اپنی آیتیں کھول کھول کر تمہارے سامنے واضح کرتا ہے ، تاکہ تم شکر ادا کرو ۔
اللہ تمہیں نہیں پکڑتا تمہاری غلط فہمی کی قسموں پر ( ف۲۱۳ ) ہاں ان قسموں پر گرفت فرماتے ہے جنہیں تم نے مضبوط کیا ( ف۲۱٤ ) تو ایسی قسم کا بدلہ دس مسکینوں کو کھانا دینا ( ف۲۱۵ ) اپنے گھر والوں کو جو کھلاتے ہو اس کے اوسط میں سے ( ف۲۱٦ ) یا انہیں کپڑے دینا ( ف۲۱۷ ) یا ایک بردہ آزاد کرنا تو جو ان میں سے کچھ نہ پائے تو تین دن کے روزے ( ف۲۱۸ ) یہ بدلہ ہے تمہاری قسموں کا ، جب قسم کھاؤ ( ف۲۱۹ ) اور اپنی قسموں کی حفاظت کرو ( ف۲۲۰ ) اسی طرح اللہ تم سے اپنی آیتیں بیان فرماتا ہے کہ کہیں تم احسان مانو ،
تم لوگ جو مہمل قسمیں کھا لیتے ہو ان پر اللہ گرفت نہیں کرتا ، مگر جو قسمیں تم جان بوجھ کر کھاتے ہو ان پر وہ ضرور تم سے مواخذہ کرے گا ۔ ﴿ایسی قسم توڑنے کا﴾ کفّارہ یہ ہے کہ دس ﴿١۰﴾ مسکینوں کو وہ اَوسط درجہ کا کھانا کھلاؤ جو تم اپنے بال بچّوں کو کھلاتے ہو ، یا انہیں کپڑے پہناؤ ، یا ایک غلام آزاد کرو ، اور جو اس کی استطاعت نہ رکھتا ہو وہ تین دن کے روزے رکھے ۔ یہ تمہاری قسموں کا کفّارہ ہے جبکہ تم قسم کھا کر توڑ دو ۔ 106 اپنی قسموں کی حفاظت کیا کرو ۔ 107 اس طرح اللہ اپنے احکام تمہارے لیے واضح کرتا ہے شاید کہ تم شکر ادا کرو ۔
اللہ تمہاری بے مقصد ( اور غیر سنجیدہ ) قَسموں میں تمہاری گرفت نہیں فرماتا لیکن تمہاری ان ( سنجیدہ ) قَسموں پر گرفت فرماتا ہے جنہیں تم ( ارادی طور پر ) مضبوط کرلو ، ( اگر تم ایسی قَسم کو توڑ ڈالو ) تو اس کا کفّارہ دس مسکینوں کو اوسط ( درجہ کا ) کھانا کھلانا ہے جو تم اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہو یا ( اسی طرح ) ان ( مسکینوں ) کو کپڑے دینا ہے یا ایک گردن ( یعنی غلام یا باندی کو ) آزاد کرنا ہے ، پھر جسے ( یہ سب کچھ ) میسر نہ ہو تو تین دن روزہ رکھنا ہے ۔ یہ تمہاری قَسموں کا کفّارہ ہے جب تم کھالو ( اور پھر توڑ بیٹھو ) ، اور اپنی قَسموں کی حفاظت کیا کرو ، اسی طرح اللہ تمہارے لئے اپنی آیتیں خوب واضح فرماتا ہے تاکہ تم ( اس کے احکام کی اطاعت کر کے ) شکر گزار بن جاؤ
سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :106 چونکہ بعض لوگوں نے حلال چیزوں کو اپنے اوپر حرام کر لینے کی قسم کھا رکھی تھی اس لیے اللہ تعالیٰ نے اسی سلسہ میں قسم کا حکم بھی بیان فرما دیا کہ اگر کسی شخص کی زبان سے بلا ارادہ قسم کا لفظ نکل گیا ہے تو اس کی پابندی کرنے کی ویسے ہی ضرورت نہیں ، کیونکہ ایسی قسم پر کوئی مواخذہ نہیں ہے ، اور اگر جان بوجھ کر کسی نے قسم کھائی ہے تو وہ اسے توڑ دے اور کفارہ ادا کر دے ، کیونکہ جس نے کسی معصیت کی قسم کھائی ہو اسے اپنی قسم پر قائم نہ رہنا چاہیے ( ملاحظہ ہو سورہ بقرہ ، حاشیہ نمبر ۲٤۳ و ۲٤٤ – نیز کفارہ کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ نساء حاشیہ نمبر ۱۲۵ ) ۔ سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :107 قسم کی حفاظت کے کئی مفہوم ہیں: ایک یہ کہ قسم کو صحیح مصرف میں استعمال کیا جائے ، فضول باتوں اور معصیت کے کاموں میں استعمال نہ کیا جائے ۔ دوسرے یہ کہ جب کسی بات پر آدمی قسم کھائے تو اسے یاد رکھے ، ایسا نہ ہو کہ اپنی غفلت کی وجہ سے وہ اسے بھول جائے ۔ اور پھر اس کی خلاف ورزی کرے ۔ تیسرے یہ کہ جب کسی صحیح معاملہ میں بالارادہ قسم کھائی جائے تو اسے پورا کیا جائے اور اگر اس کی خلاف ورزی ہو جائے تو اس کا کفارہ ادا کیا جائے ۔
غیر ارادی قسمیں اور کفارہ لعو قسمیں کیا ہوتی ہیں؟ ان کے کیا احکام ہیں؟ یہ سب سورۃ بقرہ کی تفسیر میں بالتفصیل بیان کر چکے ہیں اس لئے یہاں ان کے دوہرانے کی ضرورت نہیں فالحمد اللہ ۔ مقصد یہ ہے کہ روانی کلام میں انسان کے منہ سے بغیر قصد کے جو قسمیں عادۃ نکل جائیں وہ لغو قسمیں ہیں ۔ امام شافعی کا یہی مذہب ہے ، مذاق میں قسم کھا بیٹھنا ، اللہ کی نافرمانی کے کرنے پر قسم کھا بیٹھنا ، زیادتی گمان کی بنا پر قسم کھا بیٹھنا بھی اس کی تفسیر میں کہا گیا ہے ۔ غصے اور عضب میں ، نسیان اور بھول چوک سے کھانے پینے پہننے اوڑھنے کی چیزوں میں قسم کھا بیٹھنا مراد ہے ، اس قوم کی دلیل میں آیت ( يٰٓاَيُّھَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحَرِّمُوْا طَيِّبٰتِ مَآ اَحَلَّ اللّٰهُ لَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوْا ۭاِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِيْنَ ) 5 ۔ المائدہ:87 ) کو پیش کیا جاتا ہے ، بالکل صحیح بات یہ ہے کہ لغو قسموں سے مراد بغیر قصد کی قسمیں ہیں اور اس کی دلیل ( ولکن یواخذ کم بما عقدتم الایمان ہے یعنی جو قسمیں بالقصد اور بالعزم ہوں ان پر گرفٹ ہے اور ان پر کفارہ ہے ۔ کفارہ دس مسکینوں کا کھانا جو محتاج فقیر ہوں جن کے پاس بقدر کفایت کے نہ ہو اوسط درجے کا کھانا جو عموماً گھر میں کھایا جاتا ہو وہی انہیں کھلا دینا ۔ مثلاً دودھ روٹی ، گھی روٹی ، زیتون کا تیل روٹی ، یہ بھی مطلب بیان کیا گیا ہے کہ بعض لوگوں کی خوراک بہت اعلی ہوتی ہے بعض لوگ بہت ہی ہلکی غذا کھاتے ہیں تو نہ وہ ہو نہ یہ ہو ، تکلف بھی نہ ہو اور بجل بھی نہ ہو ، سختی اور فراخی کے درمیان ہو ، مثلاً گوشت روٹی ہے ، سرکہ اور روٹی ہے ، روٹی اور کھجوریں ہیں ۔ جیسی جس کی درمیانی حثییت ، اسی طرح قلت اور کثرت کے درمیان ہو ۔ حضرت علی سے منقول ہے کہ صبح شام کا کھانا ، حسن اور محمد بن خفیہ کا قول ہے کہ دس مسکینوں کو ایک ساتھ بٹھا کر روٹی گوشت کھلا دینا کافی ہے یا اپنی حیثیت کے مطابق روٹی کسی اور چیز سے کھلا دینا ، بعض نے کہا ہے ہر مسکین کو آدھا صاع گہیوں کھجوریں وغیرہ دے دینا ، امام ابو حنیفہ کا قول ہے کہ گہیوں تو آدھا صاع کافی ہے اور اس کے علاوہ ہر چیز کا پورا صاع دے دے ۔ ابن مردویہ کی روایت میں ہے کہ حضور صی اللہ علیہ وسلم نے ایک صاع کھجوروں کا کفارے میں ایک ایک شخص کو دیا ہے اور لوگوں کو بھی یہی حکم فرمایا ہے لیکن جس کی اتنی حثییت نہ ہو وہ آدھا صاع گہیوں کا دے دے ، یہ حدیث ابن ماجہ میں بھی ہے لیکن اس کا ایک راوی بالکل ضعیف ہے جس کے ضعف پر محدثین کا اتفاق ہے ۔ در قطنی نے اسے متروک کہا ہے اس کا نام عمر بن عبداللہ ہے ، ابن عباس کا قول ہے کہ ہر مسکین کو ایک مد گہیوں مع سالن کے دے دے ، امام شافعی بھی یہی فرماتے ہیں لیکن سالن کا ذکر نہیں ہے اور دلیل ان کی وہ حدیث ہے جس میں ہے کہ رمضان شریف کے دن میں اپنی بیوی سے جماع کرنے والے کو ایک کمتل ( خاص پیمانہ ) میں سے ساٹھ مسکینوں کو کھلا نے کا حکم حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا تھا اس میں پندرہ صاع آتے ہیں تو ہر مسکین کے لئے ایک مد ہوا ۔ ابن مدویہ کی ایک اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم کے کفارے میں گہیوں کا ایک مد مقرر کیا ہے لیکن اس کی اسناد بھی ضعیف ہیں کیونکہ نضیر بن زرارہ کوفی کے بارے میں امام ابو حاتم رازی کا قول ہے کہ وہ مجہول ہے گو اس سے بہت سے لوگوں نے روایت کی ہے اور امام ابن حبان نے اسے ثقہ کہا ہے واللہ اعلم ، پھر ان کے استاد عمری بھی ضعیف ہیں ، امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ کا فرمان ہے کہ گہیوں کا ایک مد اور باقی اناج کے دو مد دے ۔ واللہ اعلم ( یہ یاد رہے کہ صاع انگریزی اسی روپے بھر کے سیر کے حساب سے تقریباً پونے تین سیر کا ہوتا ہے اور ایک صاع کے چار مد ہو تے ہیں واللہ اعلم ، مترجم ) یا ان دس کو کپڑا پہنانا ، امام شافعی کا قول ہے کہ ہر ایک کو خواہ کچھ ہی کپڑا دے دے جس پر کپڑے کا اطلاق ہوتا ہو کافی ہے ، مثلاً کرتہ ہے ، پاجامہ ہے ، تہمد ہے ، پگڑی ہے یا سر پر لپیٹنے کا رومال ہے ۔ پھر امام صاحب کے شاگردوں میں سے بعض تو کہتے ہیں ٹوپی بھی کافی ہے ۔ بعض کہتے ہیں یہ ناکافی ہے ، کافی کہنے والے یہ دلیل دیتے ہیں کہ حضرت عمران بن حصین سے جب اس کے بارے میں سوال ہوتا ہے تو آپ فرماتے ہیں اگر کوئی وفد کسی امیر کے پاس آئے اور وہ انہیں ٹوپیاں دے تو عرب تو یہی کہیں گے کہ قد کسوا انہیں کپڑے پہنائے گئے ۔ لیکن اس کی اسناد بھی ضعیف ہیں کیونکہ محمد بن زبیر ضعیف ہیں واللہ اعلم ۔ موزے پہنانے کے بارے میں بھی اختلاف ہے ۔ صحیح یہ ہے کہ جائز نہیں ۔ امام مالک اور امام احمد فرماتے ہیں کہ کم سے کم اتنا اور ایسا کپڑا ہو کہ اس میں نماز جائز ہو جائے مرد کو دیا ہے تو اس کی اور عورت کو دیا ہے تو اس کی ۔ واللہ اعلم ۔ ابن عباس فرماتے ہیں عباہو یا شملہ ہو ۔ مجاہد فرماتے ہیں ۔ ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ ایک کپڑا ہو اور اس سے زیادہ جو ہو ۔ غرض کفارہ قسم میں ہر چیز سوائے جانگئے کے جائز ہے ۔ بہت سے مفسرین فرماتے ہیں ایک ایک کپڑا ایک ایک مسکین کو دے دے ۔ ابراہیم نخعی کا قول ہے ایسا کپڑا جو پورا کار آمد ہو مثلاً لحاف چادر وغیرہ نہ کہ کرتہ دوپٹہ وغیرہ ابن سیرن اور حسن دو دو کپڑے کہتے ہیں ، سعید بن مسیب کہتے ہیں عمامہ جسے سر پر باندھے اور عبا جسے بدن پر پہنے ۔ حضرت ابو موسیٰ قسم کھاتے ہیں پھر اسے توڑتے ہیں تو دو کپڑے بحرین کے دے دیتے ہیں ۔ ابن مردویہ کی ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ ہر مسکین کیلئے ایک عبا ، یہ حدیث عریب ہے ، یا ایک غلام کا آزاد کرنا ، امام ابو حنیفہ تو فرماتے ہیں کہ یہ مطلق ہے کافر ہو یا مسلمان ، امام شافعی اور دوسرے بزرگان دین فرماتے ہیں اس کا مومن ہونا ضروری ہے کیونکہ قتل کے کفارے میں غلام کی آزادی کا حکم ہے اور وہ مقید ہے کہ وہ مسلمان ہونا چاہے ، دونوں کفاروں کا سبب چاہے جدا گانہ ہے لیکن وجہ ایک ہی ہے اور اس کی دلیل وہ حدیث بھی ہے جو مسلم وغیرہ میں ہے کہ حضرت معاویہ بں حکم اسلمی کے ذمے ایک گردن آزاد کرنا تھی وہ حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنے ساتھ ایک لونڈی لئے ہوئے آئے ۔ حضور نے اس سیاہ فام لونڈی سے دریافت فرمایا کہ اللہ کہاں ہے؟ اس نے کہا آسمان میں پوچھا ہم کون ہیں؟ جواب دیا کہ آپ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں آپ نے فرمایا اسے آزاد کرو یہ ایماندار عورت ہے ۔ پس ان تینوں کاموں میں سے جو بھی کر لے وہ قسم کا کفارہ ہو جائے گا اور کافی ہو گا اس پر سب کا اجماع ہے ۔ قرآن کریم نے ان چیزوں کا بیان سب سے زیادہ آسان چیز سے شروع کیا ہے اور بتدریج اوپر کو پہنچایا ہے ۔ پس سب سے سہل کھانا کھلانا ہے ۔ پھر اس سے قدرے بھاری کپڑا پہنانا ہے اور اس سے بھی زیادہ بھاری غلام کو آزاد کرنا ہے ۔ پس اس میں ادنی سے اعلی بہتر ہے ۔ اب اگر کسی شخص کو ان تینون میں سے ایک کی بھی قدرت نہ ہو تو وہ تین دن کے روزے رکھ لے ۔ سعید بن جبیر اور حسن بصری سے مروی ہے کہ جس کے پاس تین درہم ہوں وہ تو کھانا کھلا دے ورنہ روزے رکھ لے اور بعض متاخرین سے منقول ہے کہ یہ اس کے لئے ہے جس کے پاس ضروریات سے فاضل چیز نہ ہو معاش وغیرہ پونجی کے بعد جو فالتو ہو اس سے کفارہ ادا کرے ، امام ابن جرید فرماتے ہیں جس کے پاس اس دن کے اپنے اور اپنے بال بچوں کے کھانے سے کچھ بچے اس میں سے کفارہ ادا کرے ، قسم کے توڑنے کے کفارے کے روزے پے در پے رکھنے واجب ہیں یا مستحب ہیں اس میں دو قول ہیں ایک یہ کہ واجب نہیں ، امام شافعی نے باب الایمان میں اسے صاف لفظوں میں کہا ہے امام مالک کا قول بھی یہی ہے کیونکہ قرآن کریم میں روزوں کا حکم مطلق ہے تو خواہ پے در پے ہوں خواہ الگ الگ ہوں تو سب پر یہ صادق آتا ہے جیسے کہ رمضان کے روزوں کی قضا کے بارے میں آیت ( فعدۃ من ایام اخر ) فرمایا گیا ہے وہاں بھی پے در پے کی یا علیحدہ علیحدہ کی قید نہیں اور حضرت امام شافعی نے کتاب الام میں ایک جگہ صراحت سے کہا ہے کہ قسم کے کفارے کے روزے پے در پے رکھنے چاہیئں یہی قول خفیہ اور حنابلہ کا ہے ۔ اس لئے کہ حضرت ابی بن کعب وغیرہ سے مروی ہے کہ ان کی قرأت آیت ( فصیام ثلثتہ ایام متتابعات ) ہے ابن مسعود سے بھی یہی قرأت مروی ہے ، اس صورت میں اگرچہ اس کا متواتر قرأت ہونا ثابت نہ ہو ۔ تاہم خبر واحد یا تفسیر صحابہ سے کم درجے کی تو یہ قرأت نہیں پس حکماً یہ بھی مرفوع ہے ۔ ابن مردویہ کی ایک بہت ہی غریب حدیث میں ہے کہ حضرت حذیفہ نے پوچھا یا رسول اللہ ہمیں اختیار ہے آپ نے فرمایا ہاں ، تو اختیار پر ہے خواہ گردن آزاد کر خواہ کپڑا پہنا دے خواہ کھانا کھلا دے اور جو نہ پائے وہ پے در پے تین روزے رکھ لے ۔ پھر فرماتا ہے کہ تم جب قسم کھا کر توڑ دو تو یہ کفارہ ہے لیکن تمہیں اپنی قسموں کی حفاظت کرنی چاہیے انہیں بغیر کفارے کے نہ چھوڑنا چاہیے اسی طرح اللہ تعالیٰ تمہارے سامنے اپنی آیتیں واضح طور پر بیان فرما رہا ہے تاکہ تم شکر گزاری کرو ۔