Surah

Information

Surah # 5 | Verses: 120 | Ruku: 16 | Sajdah: 0 | Chronological # 112 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 3, revealed at Arafat on Last Hajj
وَاِذۡ قَالَ اللّٰهُ يٰعِيۡسَى ابۡنَ مَرۡيَمَ ءَاَنۡتَ قُلۡتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُوۡنِىۡ وَاُمِّىَ اِلٰهَيۡنِ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ‌ؕ قَالَ سُبۡحٰنَكَ مَا يَكُوۡنُ لِىۡۤ اَنۡ اَقُوۡلَ مَا لَـيۡسَ لِىۡ بِحَقٍّ‌ؕؔ اِنۡ كُنۡتُ قُلۡتُهٗ فَقَدۡ عَلِمۡتَهٗ‌ؕ تَعۡلَمُ مَا فِىۡ نَفۡسِىۡ وَلَاۤ اَعۡلَمُ مَا فِىۡ نَفۡسِكَ‌ؕ اِنَّكَ اَنۡتَ عَلَّامُ الۡغُيُوۡبِ‏ ﴿116﴾
اور وہ وقت بھی قابل ذکر ہے جب کہ اللہ تعالٰی فرمائے گا اے عیسیٰ بن مریم! کیا تم نے ان لوگوں سے کہہ دیا تھا کہ مجھ کو اور میری ماں کو بھی علاوہ اللہ کے معبود قرار دے لو! عیسیٰ عرض کریں گے کہ میں تو تجھ کو منزہ سمجھتا ہوں ، مجھ کو کسی طرح زیبا نہ تھا کہ میں ایسی بات کہتا جس کو کہنے کا مجھ کو کوئی حق نہیں ، اگر میں نے کہا ہوگا تو تجھ کو اس کا علم ہوگا ، تو تو میرے دل کے اندر کی بات بھی جانتا ہے اور میں تیرے نفس میں جو کچھ ہے اس کو نہیں جانتا ۔ تمام غیبوں کا جاننے والا تو ہی ہے ۔
و اذ قال الله يعيسى ابن مريم ءانت قلت للناس اتخذوني و امي الهين من دون الله قال سبحنك ما يكون لي ان اقول ما ليس لي بحق ان كنت قلته فقد علمته تعلم ما في نفسي و لا اعلم ما في نفسك انك انت علام الغيوب
And [beware the Day] when Allah will say, "O Jesus, Son of Mary, did you say to the people, 'Take me and my mother as deities besides Allah ?'" He will say, "Exalted are You! It was not for me to say that to which I have no right. If I had said it, You would have known it. You know what is within myself, and I do not know what is within Yourself. Indeed, it is You who is Knower of the unseen.
Aur woh waqt bhi qabil-e-ziker hai jab kay Allah Taalaa farmaye ga kay aey essa ibn-e-marium kiya tum ney inn logon say keh diya tha kay mujh ko aur meri maa ko bhi ilawa Allah kay mabood qarar dey lo! Essa arz keren gay kay mein to tujh ko munza samajhta hun mujh ko kissi tarah zeba na tha kay mein aisi baat kehta jiss ka kehney ka mujh ko koi haq nahi agar mein ney kaha hoga to tujh ko iss ka ilm hoga. Tu to meray dil kay andar ki baat bhi janta hai aur mein teray nafs mein jo kuch hai uss ko nahi janta. Tamam ghaibon ka jannay wala tu hi hai.
اور ( اس وقت کا بھی ذکر سنو ) جب اللہ کہے گا کہ : اے عیسیٰ ابن مریم ! کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو اللہ کے علاوہ دو معبود بناؤ؟ ( ٧٩ ) وہ کہیں گے : ہم تو آپ کی ذات کو ( شرک سے ) پاک سمجھتے ہیں ۔ میری مجال نہیں تھی کہ میں ایسی بات کہوں جس کا مجھے کوئی حق نہیں ۔ اگر میں نے ایسا کہا ہوتا تو آپ کو یقینا معلوم ہوجاتا ۔ آپ وہ باتیں جانتے ہیں جو میرے دل میں پوشیدہ ہی اور میں اورآپ کی پوشیدہ باتوں کو نہیں جانتا ۔ یقینا آپ کو تمام چھپی ہوئی باتوں کا پورا پورا علم ہے ۔
اور جب اللہ فرمائے گا ( ف۲۸۷ ) اے مریم کے بیٹے عیسیٰ! کیا تو نے لوگوں سے کہہ دیا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو دو خدا بنالو اللہ کے سوا ( ف۲۸۸ ) عرض کرے گا ، پاکی ہے تجھے ( ف۲۸۹ ) مجھے روا نہیں کہ وہ بات کہوں جو مجھے نہیں پہنچتی ( ف۲۹۰ ) اگر میں نے ایسا کہا ہو تو ضرور تجھے معلوم ہوگا تو جانتا ہے جو میرے جی میں ہے اور میں نہیں جانتا جو تیرے علم میں ہے ، بیشک تو ہی ہے سب غیبوں کا خوب جاننے والا ( ف۲۹۱ )
غرض جب ﴿یہ احسانات یاد دلاکر﴾ اللہ فرمائے گا کہ “ اے عیسٰی بن مریم ! کیا تو نے لوگوں سے کہا تھا کہ خدا کے سوا مجھے اور میری ماں کو بھی خدا بنا لو؟ ” 130 تو وہ جواب میں عرض کرے گا “ سبحان اللہ ! میرا یہ کام نہ تھا کہ وہ بات کہتا جس کے کہنے کا مجھے حق نہ تھا ، اگر میں نے ایسی بات کہی ہوتی تو آپ کو ضرور علم ہوتا ، آپ جانتے ہیں جو کچھ میرے دل میں ہے اور میں نہیں جانتا جو کچھ آپ کے دل میں ہے ، آپ تو ساری پوشیدہ حقیقتوں کے عالم ہیں ۔
اور جب اﷲ فرمائے گا: اے عیسٰی ابن مریم! کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ تم مجھ کو اور میری ماں کو اﷲ کے سوا دو معبود بنا لو ، وہ عرض کریں گے: تو پاک ہے ، میرے لئے یہ ( روا ) نہیں کہ میں ایسی بات کہوں جس کا مجھے کوئی حق نہیں ۔ اگر میں نے یہ بات کہی ہوتی تو یقیناً تو اسے جانتا ، تو ہر اس ( بات ) کو جانتا ہے جو میرے دل میں ہے اور میں ان ( باتوں ) کو نہیں جانتا جو تیرے علم میں ہیں ۔ بیشک تو ہی غیب کی سب باتوں کو خوب جاننے والا ہے
سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :130 عیسائیوں نے اللہ کے ساتھ صرف مسیح اور روح القدس ہی کو خدا بنانے پر اکتفا نہیں کیا ، بلکہ مسیح کی والدہ ماجدہ حضرت مریم کو بھی ایک مستقل معبود بنا ڈالا ۔ حضرت مریم علیہا السلام کو اُلُوہیّت یا قُدُّوسیّت کے متعلق کوئی اشارہ تک بائیبل میں موجود نہیں ہے ۔ مسیح کے بعد ابتدائی تین سو برس تک عیسائی دنیا اس تخیل سے بالکل ناآشنا تھی ۔ تیسری صدی عیسوی کے آخری دور میں اسکندریہ کے بعض علماء دینیات نے پہلی مرتبہ حضرت مریم کے لیے ”اُمّ اللہ“ یا ” مادر خدا“ کے الفاظ استعمال کیے ۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ اُلُوہیّت مریم کا عقیدہ اور مریم پرستی کا طریقہ عیسائیوں میں پھیلنا شروع ہوا ۔ لیکن اول اول چرچ اسے باقاعدہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ تھا ، بلکہ مریم پرستوں کو فاسد العقیدہ قرار دیتا تھا ۔ پھر جب نَسطُوریَس کے اس عقیدے پر کہ مسیح کی واحد ذات میں دو مستقل جداگانہ شخصیتیں جمع تھیں ، مسیحی دنیا میں بحث و جدال کا ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا تو اس کا تصفیہ کرنے کے لیے سن ٤۳۱ میں شہر افسوس میں ایک کونسل منعقد ہوئی ، اور اس کونسل میں پہلی مرتبہ کلیسا کی سرکاری زبان میں حضرت مریم کے لیے ”مادر خدا“ کا لقب استعمال کیا گیا ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مریم پرستی کا جو مرض اب تک کلیسا کے باہر پھیل رہا تھا وہ اس کے بعد کلیسا کے اندر بھی تیزی کے ساتھ پھیلنے لگا ، حتٰی کہ نزول قرآن کے زمانہ تک پہنچتے پہنچتے حضرت مریم اتنی بڑی دیوی بن گئیں کہ باپ ، بیٹا اور روح القدس تینوں ان کے سامنے ہیچ ہوگئے ۔ ان کے مجسمے جگہ جگہ کلیساؤں میں رکھے ہوئے تھے ، ان کے آگے عبادت کے جملہ مراسم ادا کیے جاتے تھے ، انہی سے دعائیں مانگی جاتی تھیں ، وہی فریاد رس ، حاجت روا ، مشکل کشا اور بکسیوں کی پشتیبان تھیں ، اور ایک مسیحی بندے کے لیے سب سے بڑا ذریعہ اعتماد اگر کوئی تھا تو وہ یہ تھا کہ ” مادر خدا“ کی حمایت و سرپرستی اسے حاصل ہو ۔ قیصر جَسٹِینَن اپنے ایک قانون کی تمہید میں حضرت مریم علیہا السلام کو اپنی سلطنت کا حامی و ناصر قرار دیتا ہے ۔ اس کا مشہور جنرل نرسیس میدان جنگ میں حضرت مریم علیہا السلام سے ہدایت و رہنمائی طلب کرتا ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمعصر قیصر ہِرَقْل نے اپنے جھنڈے پر ”مادر خدا“ کی تصویر بنا رکھی تھی اور اسے یقین تھا کہ اس تصویر کی برکت سے یہ جھنڈا سرنگوں نہ ہوگا ۔ اگرچہ بعد کی صدیوں میں تحریک اصلاح کے اثر سے پروٹسٹنٹ عیسائیوں نے مریم پرستی کے خلاف شدت سے آواز اٹھائی ، لیکن رومن کیتھولک کلیسا آج تک اس مسلک پر قائم ہے ۔
روز قیامت نصاریٰ کی شرمندگی جن لوگوں نے مسیح پرستی یا مریم پرستی کی تھی ، ان کی موجودگی میں قیامت کے دن اللہ تبارک و تعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے سوال کرے گا کہ کیا تم ان لوگوں سے اپنی اور اپنی والدہ کی پوجا پاٹ کرنے کو کہہ آئے تھے؟ اس سوال سے مردود نصرانیوں کو ڈانٹ ڈپٹ کرنا اور ان پر غصے ہونا ہے تاکہ وہ تمام لوگوں کے سامنے شرمندہ اور ذلیل و خوار ہوں ۔ حضرت قتادہ وغیرہ کا یہی قول ہے اور اس پر وہ آیت ( هٰذَا يَوْمُ يَنْفَعُ الصّٰدِقِيْنَ صِدْقُهُمْ ) 5 ۔ المائدہ:119 ) سے استدلال کر تے ہیں ۔ سدی فرماتے ہیں یہ خطاب اور جواب دینا ہی کافی ہے ، امام ابن جریر رحمتہ اللہ علیہ اس قول کو ٹھیک بتا کر فرماتے ہیں کہ یہ واقعہ اس وقت کا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ کو آسمان دنیا پر چڑھا لیا تھا ، اس کی دلیل ایک تو یہ ہے کہ کلام لفظ ماضی کے ساتھ ہے ، دوسری دلیل آیت ( ان تعذبھم ) ہے لیکن یہ دونوں دلیلیں ٹھیک نہیں ، پہلی دلیل کا جواب تو یہ ہے کہ بہت سے امور جو قیامت کے دن ہونے والے ہیں ان کا ذکر قرآن کریم میں لفط ماضی کے ساتھ موجود ہے ، اس سے مقصود صرف اسی قدر ہے کہ وقوع اور ثبوت بخوبی ثابت ہو جائے ، دوسری دلیل کا جواب یہ ہے کہ اس سے مقصود جناب مسیح علیہ السلام کا یہ ہے کہ ان سے اپنی برات ظاہر کر دیں اور ان کا معاملہ اللہ کے سپرد کر دیں ، اسے شرط کے ساتھ معلق رکھنے سے اس کا وقوع لازم نہیں جیسے کہ اسی جگہ اور آیتوں میں ہے ، زیادہ ظاہر وہی تفسیر ہے جو حضرت قتادہ وغیرہ سے مروی ہے اور جو اوپر گزر چکی ہے یعنی یہ کہ یہ گفتگو اور یہ سوال جواب قیامت کے دن ہوں گے تاکہ سب کے سامنے نصرانیوں کی ذلت اور ان پر ڈانٹ ڈپٹ ہو چنانچہ ایک مرفوع غریب و عزیز حدیث میں بھی مروی ہے ، جسے حافظ ابن عساکر رحمتہ اللہ علیہ ابو عبداللہ مولی عمر بن عبدالعزیز کے حالات میں لائے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت کے دن انبیاء اپنی اپنی امتوں سمیت اللہ کے سامنے بلوائے جائیں گے پھر حضرت عیسیٰ بلوائے جائیں گے اور اللہ تعالیٰ اپنے احسان انہیں جتلائے گا جن کا وہ اقرار کریں گے فرمائے گا کہ اے عیسیٰ جو احسان میں نے تجھ پر اور تیری والدہ پر کئے ، انہیں یاد کر ، پھر فرمائے گا تو نے لوگوں سے کہا تھا کہ اللہ کو چھوڑ کر مجھے اور میری والدہ کو الہ سمجھنا ، آپ اس کا بالکل انکار کریں گے ، پھر نصرانیوں کو بلا کر ان سے دریافت فرمائے گا تو وہ کہیں گے ، ہاں انہوں نے ہی ہمیں اس راہ پر ڈالا تھا اور ہمیں یہی حکم دیا تھا ، اسی لیے حضرت عیسیٰ کے سارے بدن کے بال کھڑے ہو جائیں گے ، جنہیں لے کر فرشتے اللہ کے سامنے جھکا دیں گے بہ مقدار ایک ہزار سال کے یہاں تک کہ عیسائیوں پر حجت قائم ہو جائے گی ، اب ان کے سامنے صلیب کھڑی کی جائے گی اور انہیں دھکے دے کر جہنم میں پہنچا دیا جائے گا ، جناب عیسیٰ کے جواب کو دیکھئے کہ کس قدر باادب اور کامل ہے ؟ دراصل یہ بھی اللہ کی ایک نعمت ہے ، آپ کو اسی وقت یہ جواب سکھایا جائے گا جیسے کہ ایک مرفوع حدیث میں بھی ہے کہ آپ فرمائیں گے کہ باری تعالیٰ نے مجھے ایسی بات کہنے کا حق تھا نہ میں نے کہا ، تجھ سے نہ میری کوئی بات پوشیدہ ہے نہ میرا کوئی ارادہ چھپا ہوا ہے ، دلی راز تجھ پر ظاہر ہیں ، ہاں تیرے بھید کسی نے نہیں پائے تمام ڈھکی چھپی باتیں تجھ پر کھلی ہوئی ہیں غیبوں کا جاننے والا تو ہی ہے ، جس تبلیغ پر میں مامور اور مقرر تھا میں نے تو وہی تبیلغ کی تھی جو کچھ مجھ سے اے جناب باری تو نے ارشاد فرمایا تھا وہی بلا کم و کاست میں نے ان سے کہدیا تھا ۔ جا کا ما حصل یہ ہے کہ صرف ایک اللہ ہی کی عبادت کرو ، وہی میرا رب ہے اور وہی تم سب کا پالنہار ہے ، جب میں ان میں موجود تھا ان کے اعمال دیھکتا بھالتا تھا لیکن جب تو نے مجھے بلا لیا پھر تو تو ہی دیکھتا بھالتا رہا اور تو تو ہر چیز پر شاہد ہے ، ابو داؤد طیالسی میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک واعظ میں فرمایا اے لوگو تم سب اللہ عز و جل کے سامنے ننگے پیر ، ننگے بدن ، بےختنہ جمع ہونے والے ہو ، جیسے کہ ہم نے شروع پیدائش کی تھی ویسے ہی دوبارہ لوٹائیں گے ، سب سے پہلے خلیل اللہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کپڑے پہنائے جائیں گے سنو کچھ لوگ میری امت کے ایسے لائے جائیں گے جنہیں بائیں جانب گھسیٹ لیا جائے گا تو میں کہوں گا یہ تو میرے ہیں ، کہا جائے گا ، آپ کو نہیں معلوم کہ آپ کے بعد انہوں نے کیا کیا گل کھلائے تھے ، تو میں وہی کہوں گا جو اللہ کے صالح بندے کا قول ہے کہ جب تک میں ان میں رہا ، ان کے اعمال پر شاہد تھا ، پس فرمایا جائیگا کہ آپ کے بعد یہ تو دین سے مرتد ہی ہوتے رہے ۔ اس کے بعد کی آیت کا مضمون اللہ تعالیٰ کی چاہت اور اسکی مرضی کی طرف کاموں کو لوٹانا ہے ، وہ جو کچھ چاہے کرتا ہے اس سے کوئی کسی قسم کا سوال نہیں کر سکتا اور وہ ہر ایک سے باز پرس کرتا ہے ، ساتھ ہی اس مقولے میں جناب مسیح کی بیزاری ہے ، ان نصرانیوں سے جو اللہ پر اور اس کے رسول پر بہتان باندھتے تھے اور اللہ کا شریک ٹھہراے تھے اور اس کی اولاد اور بیوی بتاتے تھے ، اللہ تعالیٰ ان کی ان تہمتوں سے پاک ہے اور وہ بلند و برتر ہے ۔ اس عظیم الشان آیت کی عظمت کا اظہار اس حدیث سے ہوتا ہے ، جس میں ہے کہ پوری ایک رات اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسی ایک آیت کی تلاوت فرماتے رہے ، چنانچہ مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رات نماز پڑھی اور صبح تک ایک ہی آیت کی تلاوت فرماتے رہے ، اسی کو رکوع میں اور اسی کو سجدے میں پڑھتے رہے ، وہ آیت یہی ہے صبح کو حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا یا رسول اللہ آج کی رات تو آپ نے اسی ایک آیت میں گزاری رکوع میں بھی اس کی تلاوت رہی اور سجدے میں بھی ، آپ نے فرمایا میں نے اللہ تعالیٰ سے اپنی امت کی شفات کیلئے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے اس دعا کو قبول فرما لیا ، پس میری یہ شفاعت ہر موحد شخص کیلئے ہو گی ، انشاء اللہ تعالیٰ ، مسند احمد کی اور حدیث میں ہے حضرت جرہ بنت دجاجہ عمرے کے ارادے سے جاتی ہیں جب ربذہ میں پہنچتنی ہیں تو حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حدیث سنتی ہیں کہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کی نماز پڑھائی ، فرضوں کے بعد دیکھا کہ صحابہ نماز میں مشغول ہیں تو آپ اپنے خیمے کی طرف تشریف لے گئے ، جب جگہ خالی ہو گئی اور صحابہ چلے گئے تو آپ واپس تشریف لائے اور نماز میں کھڑے ہو گئے میں بھی آ گیا اور آپ کے پیچھے کھڑا ہو گیا تو آپ نے اپنی دائیں طرف کھڑا ہونے کا مجھے اشارہ کیا ، میں دائیں جانب آ گیا ، پھر حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے اور وہ آپ کے پیچھے کھڑے ہوئے تو آپ نے اپنی بائیں طرف کھڑے ہونے کا اشارہ کیا چنانچہ وہ آ کر بائیں جانب کھڑے ہو گئے ، اب ہم تینوں نے اپنی اپنی نماز شروع کی الگ الگ تلاوت قرآن اپنی نماز میں کر رہے تھے اور حضور علیہ السلام کی زبان مبارک پر ایک ہی آیت تھی ، بار بار اسی کو پڑھ رہے تھے ، جب صبح ہوئی تو میں نے حضرت ابن مسعود سے کہا کہ ذرا حضور سے دریافت تو کرو کہ رات کو ایک ہی آیت کے پڑھنے کی کیا وجہ تھی؟ انہوں نے کہا اگر حضور خود کچھ فرمائیں تو اور بات ہے ورنہ میں تو کچھ بھی نہ پوچھو گا ، اب میں نے خود ہی جرات کر کے آپ سے دریافت کیا کہ حضور پر میرے ماں باپ فدا ہوں ، سارا قرآن تو آپ پر اترا ہے اور آپ کے سینے میں ہے پھر آپ نے ایک ہی آیت میں ساری رات کیسے گزار دی ؟ اگر کوئی اور ایسا کرتا تو ہمیں تو بہت برا معلوم ہوتا ، آپ نے فرمایا اپنی امت کے لئے دعا کر رہا تھا ، میں نے پوچھا پھر کیا جواب ملا ؟ آپ نے فرمایا اتنا اچھا ، ایسا پیارا ، اس قدر آسانی والا کہ اگر عام لوگ سن لیں تو ڈر ہے کہ کہیں نماز بھی نہ چھوڑ بیٹھیں ، میں نے کہا مجھے اجازت ہے کہ میں لوگوں میں یہ خوش خبری پہنچا دوں؟ آپ نے اجازت دی ، میں ابھی کچھ ہی دور گیا ہوں گا کہ حضرت عمر نے کہا یا رسول اللہ اگر یہ خبر آپ نے عام طور پر کرا دی تو ڈر ہے کہ کہیں لوگ عبادت سے بےپرواہ نہ ہو جائیں تو آپ نے آواز دی کہ لوٹ آئے اور وہ آیت ( ان تعذبھم ) الخ ، تھی ابن ابی حاتم میں ہے حضور نے حضرت عیسیٰ کے اس قول کی تلاوت کی پھر ہاتھ اٹھا کر فرمایا اے میرے رب میری امت اور آپ رونے لگے ، اللہ تعالیٰ نے جبرائیل کو حکم دیا کہ جا کر پوچھو کہ کیوں رو رہے ہیں؟ حالانکہ اللہ کو سب کچھ معلوم ہے ، حضرت جبرائیل علیہ السلام آئے دریافت کیا تو آپ نے فرمایا اپنی امت کے لئے ! اللہ تعالیٰ نے فرمایا جاؤ کہدو کہ ہم آپ کو آپ کی امت کے بارے میں خوش کر دیں گے اور آپ بالکل رنجیدہ نہ ہوں گے ، مسند احمد میں ہے حضرت حذیفہ فرماتے ہیں ایک روز رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آئے ہی نہیں یہاں تک کہ ہم نے خیال کیا کہ آج آپ آئیں گے ہی نہیں ، پھر آپ تسریف لائے اور آتے ہی سجدے میں گر پڑے اتنی دیر لگ گئی کہ ہمیں خوف ہوا کہ کہیں آپ کی روح پرواز نہ کر گئی ہو؟ تھوڑی دیر میں آپ نے سر اٹھایا اور فرمانے لگے مجھ سے میرے رب عزوجل نے میری امت کے بارے میں دریافت فرمایا کہ میں ان کے ساتھ کیا کروں؟ میں نے عرض کیا کہ باری تعالیٰ وہ تیری مخلوق ہے وہ سب تیرے بندے اور تیرے غلام ہیں تجھے اختیار ہے ، پھر مجھ سے دوبارہ میرے اللہ نے دریافت فرمایا میں نے پھر بھی یہی جواب دیا تو مجھ سے اللہ عزوجل نے فرمایا اے نبی میں آپ کو آپ کی امت کے بارے میں کبھی شرمندہ نہ کروں گا ، سنو مجھے میرے رب نے خوشخبری دی ہے کہ سب سے پہلے میری امت میں سے میرے ساتھ ستر ہزار شخص جنت میں جائیں گے ، ہر ہزار کے ساتھ ستر ہزار اور ہوں گے ، ان سب پر حساب کتاب مطلقاً نہیں ، پھر میری طرف پیغام بھیجا کہ میرے حبیب مجھ سے دعا کرو میں قبول فرماؤں گا مجھ سے مانگو میں دوں گا میں نے اس قاصد سے کہا کہ جو میں مانگوں مجھے ملے گا ؟ اس نے جواب دیا کہ ہاں اسی لئے تو مجھے اللہ نے بھیجا ہے ، چنانچہ میرے رب نے بہت کچھ عطا فرمایا ، میں یہ سب کچھ فخر کے طور پر نہیں کہہ رہا ، مجھے میرے رب نے بالکل بخش دیا ، اگلے پچھلے سب گناہ معاف فرما دیئے حالانکہ زندہ سلامت چل پھر رہا ہوں ، مجھے میرے رب نے یہ بھی عطا فرمایا کہ میری تمام امت قحط سالی کی وجہ سے بھوک کے مارے ہلاک نہ ہو گی اور نہ سب کے سب مغلوب ہو جائیں گے ، مجھے میرے رب نے حوص کوثر دیا ہے ، وہ جنت کی ایک نہر ہے جو میرے حوض میں بہ رہی ہے ، مجھے اس نے عزت ، مدد اور رعب دیا ہے جو امتیوں کے آگے آگے مہینہ بھر کی راہ پر چلتا ہے ، تمام نبیوں میں سب سے پہلے میں جنت ہی میں جاؤں گا ، میرے اور میری امت کے لئے غنیمت کا مال حلال طیب کر دیا گیا وہ سختیاں جو پہلوں پر تھیں ہم پر سے ہٹا دی گئیں اور ہمارے دین میں کسی طرح کی کوئی تنگی نہیں رکھی گئی ۔