Surah

Information

Surah # 2 | Verses: 286 | Ruku: 40 | Sajdah: 0 | Chronological # 87 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 281 from Mina at the time of the Last Hajj
قَالَ اِنَّهٗ يَقُوۡلُ اِنَّهَا بَقَرَةٌ لَّا ذَلُوۡلٌ تُثِيۡرُ الۡاَرۡضَ وَلَا تَسۡقِى الۡحَـرۡثَ ‌ۚ مُسَلَّمَةٌ لَّا شِيَةَ فِيۡهَا ‌ؕ قَالُوا الۡـٰٔـنَ جِئۡتَ بِالۡحَـقِّ‌ؕ فَذَبَحُوۡهَا وَمَا كَادُوۡا يَفۡعَلُوۡنَ‏ ﴿71﴾
آپ نے فرمایا کہ اللہ کا فرمان ہے کہ وہ گائے کام کرنے والی زمین میں ہل جوتنے والی اور کھیتوں کو پانی پلانے والی نہیں ، وہ تندرست اور بے داغ ہے ۔ انہوں نے کہا ، اب آپ نے حق واضح کر دیا گو وہ حکم برداری کے قریب نہ تھے ، لیکن اسے مانا اور وہ گائے ذبح کر دی ۔
قال انه يقول انها بقرة لا ذلول تثير الارض و لا تسقي الحرث مسلمة لا شية فيها قالوا الن جت بالحق فذبحوها و ما كادوا يفعلون
He said, "He says, 'It is a cow neither trained to plow the earth nor to irrigate the field, one free from fault with no spot upon her.' " They said, "Now you have come with the truth." So they slaughtered her, but they could hardly do it.
Aap ney farmaya kay Allah ka farman hai kay woh gaaye kaam kerney wali zamin mein hal jootney wali aur kheton ko pani pilaney wali nahi woh tandrust aur bey daagh hai unhon ney kaha abb aap ney haq wazeh ker diya go woh hukum bardari kay qarib na thay lekin ussay mana aur gaaye zibah ker di.
موسی نے کہا : اللہ فرماتا ہے کہ وہ ایسی گائے ہو جو کام میں جت کر زمین نہ گاہتی ہو ، اور نہ کھیتی کو پانی دیتی ہو ، پوری طرح صحیح سالم ہو جس میں کوئی داغ نہ ہو ۔ انہوں نے کہا : ہاں ! اب آپ ٹھیک ٹھیک پتہ لے کر آئے ۔ اس کے بعد انہوں نے اسے ذبح کیا ، جبکہ لگتا نہیں تھا کہ وہ کر پائیں گے ۔ ( ٥٢ )
کہا وہ فرماتا ہے کہ وہ ایک گائے ہے جس سے خدمت نہیں لی جاتی کہ زمین جوتے اور نہ کھیتی کو پانی دے بے عیب ہے جس میں کوئی داغ نہیں بولے اب آپ ٹھیک بات لائے ( ف ۱۲۰ ) تو اسے ذبح کیا اور ( ذبح ) کرتے معلوم نہ ہوتے تھے ( ف۱۲۱ )
موسیٰ علیہ السلام نے جواب دیا: اللہ کہتا ہے کہ وہ ایسی گائے ہے جس سے خدمت نہیں لی جاتی ، نہ زمین جوتتی ہے نہ پانی کھینچتی ہے ، صحیح سالم اور بے داغ ہو ۔ اس پر وہ پکار اٹھے کہ ہاں ، اب تم نے ٹھیک پتہ بتایا ہے ۔ پھر انہوں نے اسے ذبح کیا ، ورنہ وہ ایسا کرتے معلوم نہ ہوتے تھے ۔ 84 ؏۸
۔ ( موسیٰ علیہ السلام نے کہا: ) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ( وہ کوئی گھٹیا گائے نہیں بلکہ ) یقینی طور پر ایسی ( اعلیٰ ) گائے ہو جس سے نہ زمین میں ہل چلانے کی محنت لی جاتی ہو اور نہ کھیتی کو پانی دیتی ہو ، بالکل تندرست ہو اس میں کوئی داغ دھبہ بھی نہ ہو ، انہوں نے کہا: اب آپ ٹھیک بات لائے ( ہیں ) ، پھر انہوں نے اس کو ذبح کیا حالانکہ وہ ذبح کرتے معلوم نہ ہوتے تھے
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :84 چونکہ ان لوگوں کو اپنی ہمسایہ قوموں سے گائے کی عظمت و تقدیس اور گاؤ پرستی کے مرض کی چُھوت لگ گئی تھی اس لیے ان کو حکم دیا گیا کہ گائے ذبح کریں ۔ ان کے ایمان کا امتحان ہی اسی طرح ہو سکتا تھا کہ اگر وہ واقعی اب خدا کے سوا کسی کو معبُود نہیں سمجھتے ، تو یہ عقیدہ اختیار کرنے سے پہلے جس بُت کو معبُود سمجھتے رہے ہیں اسے اپنے ہاتھ سے توڑ دیں ۔ یہ امتحان بہت کڑا امتحان تھا ۔ دلوں میں پُوری طرح ایمان اُترا ہوا تھا ، اس لیے انہوں نے ٹالنے کی کوشش کی اور تفصیلات پُوچھنے لگے ۔ مگر جتنی جتنی تفصیلات وہ پُوچھتے گئے اتنے ہی گھِرتے چلے گئے یہاں تک کہ آخر کار اسی خاص قسم کی سنہری گائے پر ، جسے اس زمانے میں پرستش کے لیے مختص کیا جاتا تھا ، گویا اُنگلی رکھ کر بتا یا گیا کہ اِسے ذِبح کرو ۔ بائیبل میں بھی اس واقعے کی طرف اشارہ ہے ، مگر وہاں یہ ذکر نہیں ہے کہ بنی اسرائیل نے اس حکم کو کس کس طرح ٹالنے کی کوشش کی تھی ۔ ( ملاحظہ ہو گنتی ، باب ۱۹- آیت ۱۰-۱ )