Surah

Information

Surah # 6 | Verses: 165 | Ruku: 20 | Sajdah: 0 | Chronological # 55 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 3, revealed at Arafat on Last Hajj
فَلَمَّا رَاٰ الشَّمۡسَ بَازِغَةً قَالَ هٰذَا رَبِّىۡ هٰذَاۤ اَكۡبَرُ‌ۚ فَلَمَّاۤ اَفَلَتۡ قَالَ يٰقَوۡمِ اِنِّىۡ بَرِىۡٓءٌ مِّمَّا تُشۡرِكُوۡنَ‏ ﴿78﴾
پھر جب آفتاب کو دیکھا چمکتا ہوا تو فرمایا کہ یہ میرا رب ہے یہ تو سب سے بڑا ہے پھر جب وہ بھی غروب ہوگیا تو آپ نے فرمایا بے شک میں تمہارے شرک سے بیزار ہوں ۔
فلما را الشمس بازغة قال هذا ربي هذا اكبر فلما افلت قال يقوم اني بريء مما تشركون
And when he saw the sun rising, he said, "This is my lord; this is greater." But when it set, he said, "O my people, indeed I am free from what you associate with Allah .
Phir jab aftab ko dekha chamakta hua to farmaya kay yeh mera rab hai yeh to sab say bara hai phir jab woh bhi ghuroob hogaya to aap ney farmaya be-shak mein tumharay shirk say bey zaar hun.
پھر جب انہوں نے سورج کو چمکتے دیکھا تو کہا : یہ میرا رب ہے ۔ یہ زیادہ بڑا ہے ۔ پھر جب وہ غروب ہوا تو انہوں نے کہا : اے میری قوم ! جن جن چیزوں کو تم اللہ کی خدائی میں شریک قرار دیتے ہو ، میں ان سب سے بیزار ہوں ۔
پھر جب سورج جگمگاتا دیکھا بولے اسے میرا رب کہتے ہو ( ف۱٦٦ ) یہ تو ان سب سے بڑا ہے ، پھر جب وہ ڈوب گیا کہا اے قوم میں بیزار ہوں ان چیزوں سے جنہیں تم شریک ٹھہراتے ہو ( ف۱٦۷ )
پھر جب سورج کو روشن دیکھا تو کہا یہ ہے میرا رب ، یہ سب سے بڑا ہے ۔ مگر جب وہ بھی ڈوبا تو ابراہیم ( علیہ السلام ) پکار اٹھا اے برادران قوم ! میں ان سب سے بیزار ہوں جنہیں تم خدا کا شریک ٹھیراتے ہو ۔ 53
پھر جب سورج کو چمکتے دیکھا ( تو ) کہا: ( کیا اب تمہارے خیال میں ) یہ میرا رب ہے ( کیونکہ ) یہ سب سے بڑا ہے؟ پھر جب وہ ( بھی ) چھپ گیا تو بول اٹھے: اے لوگو! میں ان ( سب چیزوں ) سے بیزار ہوں جنہیں تم ( اﷲ کا ) شریک گردانتے ہو
سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :53 ”یہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس ابتدائی تفکر کی کیفیت بیان کی گئی ہے جو منصب نبوت پر سرفراز ہونے سے پہلے ان کے لیے حقیقت تک پہنچنے کا ذریعہ بنا ۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ ایک صحیح الدماغ اور سلیم النظر انسان ، جس نے سراسر شرک کے ماحول میں آنکھیں کھولی تھیں ، اور جسے توحید کی تعلیم کہیں سے حاصل نہ ہو سکی تھی ، کس طرح آثار کائنات کا مشاہدہ کر کے اور ان پر غور و فکر اور ان سے صحیح استدلال کر کے امر حق معلوم کرنے میں کامیاب ہو گیا ۔ اوپر قوم ابراہیم علیہ السلام کے جو حالات بیان کیے گئے ہیں ان پر ایک نظر ڈالنے سے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب ہوش سنبھالا تھا تو ان کے گرد و پیش ہر طرف چاند ، سورج اور تاروں کی خدائی کے ڈنکے بج رہے تھے ۔ اس لیے قدرتی طور پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی جستجوئے حقیقت کا آغاز اسی سوال سے ہونا چاہیے تھا کہ کیا فی الواقع ان میں سے کوئی رب ہو سکتا ہے؟ اسی مرکزی سوال پر انھوں نے غور و فکر کیا اور آخر کار اپنی قوم کے سارے خداؤں کو ایک اٹل قانون کے تحت غلاموں کی طرح گردش کرتے دیکھ کر وہ اس نتیجہ پر پہنچ گئے کہ جن جن کے رب ہونے کا دعویٰ کیا جاتا ہے ان میں سے کسی کے اندر بھی ربُوبیّت کا شائبہ تک نہیں ہے ، رب صرف وہی ایک ہے جس نے ان سب کو پیدا کیا اور بندگی پر مجبور کیا ہے ۔ اس قصہ کے الفاظ سے عام طور پر لوگوں کے ذہن میں ایک شبہ پیدا ہوتا ہے ۔ یہ جو ارشاد ہوا ہے کہ جب رات طاری ہوئی تو اس نے ایک تارا دیکھا ، اور جب وہ ڈوب گیا تو یہ کہا ، پھر چاند دیکھا اور جب وہ ڈوب گیا تو یہ کہا ، پھر سورج دیکھا اور جب وہ بھی ڈوب گیا تو یہ کہا ، اس پر ایک عام ناظر کے ذہن میں فوراً یہ سوال کھٹکتا ہے کہ کیا بچپن سے آنکھ کھولتے ہی روزانہ حضرت ابراہیم علیہ السلام پر رات طاری نہ ہوتی رہی تھی اور کیا وہ ہر روز چاند ، تاروں اور سورج کو طلوع و غروب ہوتے نہ دیکھتے تھے؟ ظاہر ہے کہ یہ غور و فکر تو انہوں نے سن رشد کو پہنچنے کے بعد ہی کیا ہو گا ۔ پھر یہ قصہ اس طرح کیوں بیان کیا گیا ہے کہ جب رات ہوئی تو یہ دیکھا اور دن نکلا تو یہ دیکھا ؟ گویا اس خاص واقعہ سے پہلے انہیں یہ چیزیں دیکھنے کا اتفاق نہ ہوا تھا ، حالانکہ ایسا ہونا صریحاً مستبعد ہے ۔ یہ شبہ بعض لوگوں کے لیے اس قدر ناقابل حل بن گیا کہ اسے دفع کرنے کی کوئی صورت انہیں اس کے سوا نظر نہ آئی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پیدائش اور پرورش کے متعلق ایک غیر معمولی قصہ تصنیف کریں ۔ چنانچہ بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پیدائش اور پرورش ایک غار میں ہوئی تھی جہاں سن رشد کو پہنچنے تک وہ چاند ، تاروں اور سورج کے مشاہدے سے محروم رکھے گئے تھے ۔ حالانکہ بات بالکل صاف ہے اور اس کو سمجھنے کے لیے اس نوعیت کی کسی داستان کی ضرورت نہیں ہے ۔ نیوٹن کے متعلق مشہور ہے کہ اس نے باغ میں ایک سیب کو درخت سے گرتے دیکھا اور اس سے اس کا ذہن اچانک اس سوال کی طرف متوجہ ہوگیا کہ اشیاء آخر زمین پر ہی کیوں گرا کرتی ہیں ، یہاں تک غور کرتے کرتے وہ قانون جذب و کشش کے استنباط تک پہنچ گیا ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس واقعہ سے پہلے نیوٹن نے کبھی کوئی چیز زمین پر گرتے نہیں دیکھی تھی؟ ظاہر ہے کہ ضرور دیکھی ہو گی اور بارہا دیکھی ہوگی ۔ پھر کیا وجہ ہے کہ اسی خاص تاریخ کو سیب گرنے کے مشاہدے سے نیوٹن کے ذہن میں وہ حرکت پیدا ہوئی جو اس سے پہلے روز مرہ کے ایسے سینکڑوں مشاہدات سے نہ ہوئی تھی؟ اس کا جواب اگر کچھ ہو سکتا ہے تو یہی کہ غور وفکر کرنے والا ذہن ہمیشہ ایک طرح کے مشاہدات سے ایک ہی طرح متأثر نہیں ہوا کرتا ۔ بارہا ایسا ہوتا ہے کہ آدمی ایک چیز کو ہمیشہ دیکھتا رہتا ہے اور اس کے ذہن میں کوئی حرکت پیدا نہیں ہوتی ، مگر ایک وقت اسی چیز کو دیکھ کر یکایک ذہن میں ایک کھٹک پیدا ہو جاتی ہے جس سے فکر کی قوتیں ایک خاص مضمون کی طرف کام کرنے لگتی ہیں ۔ یا پہلے سے کسی سوال کی تحقیق میں ذہن الجھ رہا ہوتا ہے اور یکایک روز مرہ ہی کی مشاہدات میں سے کسی ایک چیز پر نظر پڑتے ہی گتھی کا وہ سرا ہاتھ لگ جاتا ہے جس سے ساری الجھنیں سلجھتی چلی جاتی ہیں ۔ ایسا ہی معاملہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ بھی پیش آیا ۔ راتیں روز آتی تھیں اور گزر جاتی تھیں ۔ سورج اور چاند اور تارے سب ہی آنکھوں کے سامنے ڈوبتے اور ابھرتے رہتے تھے ۔ لیکن وہ ایک خاص دن تھا جب ایک تارے کے مشاہدے نے ان کے ذہن کو اس راہ پر ڈال دیا جس سے بالآخر وہ توحید الٰہ کی مرکزی حقیقت تک پہنچ کر رہے ۔ ممکن ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذہن پہلے سے اس سوال پر غور کر رہا ہو کہ جن عقائد پر ساری قوم کا نظام زندگی چل رہا ہے ان میں کس حد تک صداقت ہے ، اور پھر ایک تارا یکایک سامنے آکر کشود کار کے لیے کلید بن گیا ہو ۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ تارے کے مشاہدے ہی سے ذہنی حرکت کی ابتدا ہوئی ہو ۔ اس سلسلہ میں ایک اور سوال بھی پیدا ہوتا ہے ۔ وہ یہ کہ جب حضرت ابراہیم ہی نے تارے کو دیکھ کر کہا یہ میرا رب ہے ، اور جب چاند اور سورج کو دیکھ کر انہیں اپنا رب کہا ، تو کیا اس وقت عارضی طور پر ہی سہی ، وہ شرک میں مبتلا نہ ہوگئے تھے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ایک طالب حق اپنی جستجو کی راہ میں سفر کرتے ہوئے بیچ کی جن منزلوں پر غور و فکر کے لیے ٹھیرتا ہے ، اصل اعتبار ان منزلوں کا نہیں ہوتا بلکہ اصل اعتبار اس سمت کا ہوتا ہے جس پر وہ پیش قدمی کر رہا ہے اور اس آخری مقام کا ہوتا ہے جہاں پہنچ کر وہ قیام کرتا ہے ۔ بیچ کی منزلیں ہر جویائے حق کے لیے ناگزیر ہیں ۔ ان پر ٹھیرنا بسلسلہ طلب و جستجو ہوتا ہے نہ کہ بصورت فیصلہ ۔ اصلاً ٹھیراؤ سوالی و استفہامی ہوا کرتا ہے نہ کہ حکمی ۔ طالب جب ان میں سے کسی منزل پر رک کر کہتا ہے کہ ” ایسا ہے“ تو دراصل یہ اس کی آخری رائے نہیں ہوتی بلکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ”ایسا ہے“؟ اور تحقیق سے اس کا جواب نفی میں پاکر وہ آگے بڑھ جاتا ہے ۔ اس لیے یہ خیال کرنا بالکل غلط ہے کہ اثنائے راہ میں جہاں جہاں وہ ٹھیرتا رہا وہاں وہ عارضی طور پر کفر یا شرک میں مبتلا رہا ۔