Surah

Information

Surah # 6 | Verses: 165 | Ruku: 20 | Sajdah: 0 | Chronological # 55 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 3, revealed at Arafat on Last Hajj
وَحَآجَّهٗ قَوۡمُهٗ ‌ؕ قَالَ اَتُحَآجُّٓونِّىۡ فِى اللّٰهِ وَقَدۡ هَدٰٮنِ‌ؕ وَلَاۤ اَخَافُ مَا تُشۡرِكُوۡنَ بِهٖۤ اِلَّاۤ اَنۡ يَّشَآءَ رَبِّىۡ شَيۡـًٔـا ‌ؕ وَسِعَ رَبِّىۡ كُلَّ شَىۡءٍ عِلۡمًا‌ؕ اَفَلَا تَتَذَكَّرُوۡنَ‏ ﴿80﴾
اور ان سے ان کی قوم نے حجت کرنا شروع کیا آپ نے فرمایا کہ تم اللہ کے معاملے میں مجھ سے حجت کرتے ہو حالانکہ اس نے مجھ کو طریقہ بتلا دیا ہے اور میں ان چیزوں سے جن کو اللہ تعالٰی کے ساتھ شریک بناتے ہو نہیں ڈرتا ہاں اگر میرا پروردگار ہی کوئی امر چاہے میرا پروردگار ہرچیز کو اپنے علم میں گھیرے ہوئے ہے ، کیا تم پھر بھی خیال نہیں کرتے ۔
و حاجه قومه قال اتحاجوني في الله و قد هدىن و لا اخاف ما تشركون به الا ان يشاء ربي شيا وسع ربي كل شيء علما افلا تتذكرون
And his people argued with him. He said, "Do you argue with me concerning Allah while He has guided me? And I fear not what you associate with Him [and will not be harmed] unless my Lord should will something. My Lord encompasses all things in knowledge; then will you not remember?
Aur unn say unn ki qom ney hujjat kerna shuroo kiya aap ney farmaya kiya tum Allah kay moamlay mein mujh say hujjat kertay ho halankay uss ney mujhay tareeqa batla diya hai aur mein unn cheezon say jin ko tum Allah kay sath shareek banatay ho nahi darta haan agar mera perwerdigar hi koi amar chahaye mera perwerdigar her cheez ko apney ilm mein gheray huye hai kiya tum phir bhi khayal nahi kertay.
اور ( پھر یہ ہوا کہ ) ان کی قوم نے ان سے حجت شروع کردی ۔ ( ٢٩ ) ابراہیم نے ( ان سے ) کہا : کیا تم مجھ سے اللہ کے بارے میں حجت کرتے ہو جبکہ اس نے مجھے ہدایت دے دی ہے ؟ اور جن چیزوں کو تم اللہ کے ساتھ شریک مانتے ہو ، میں ان سے نہیں ڈرتا ( کہ وہ مجھے کوئی نقصان پہنچا دیں گی ) الا یہ کہ میرا پروردگار ( مجھے ) کچھ ( نقصان پہنچانا ) چاہے ( تو وہ ہرحال میں پہنچے گا ) میرے پروردگار کا علم ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے ۔ کیا تم پھر بھی کوئی نصیحت نہیں مانتے؟
اور ان کی قوم ان سے جھگڑے لگی کہا کیا اللہ کے بارے میں مجھ سے جھگڑتے ہو تو وہ مجھے راہ بتا چکا ( ف۱٦۹ ) اور مجھے ان کا ڈر نہیں جنہیں تم شریک بتاتے ہو ( ف۱۷۰ ) ہاں جو میرا ہی رب کوئی بات چاہے ( ف۱۷۱ ) میرے رب کا علم ہر چیز کو محیط ہے ، تو کیا تم نصیحت نہیں مانتے
اس کی قوم اس سے جھگڑنے لگی تو اس نے قوم سے کہا کیا تم لوگ اللہ کے معاملے میں مجھ سے جھگڑتے ہو؟ حالانکہ اس نے مجھے راہِ راست دکھا دی ہے ۔ اور میں تمہارے ٹھیرائے ہوئے شریکوں سے نہیں ڈرتا ، ہاں اگر میرا رب کچھ چاہے تو وہ ضرور ہوسکتا ہے ۔ میرے رب کا عِلم ہر چیز پر چھایا ہوا ہے ، پھر کیا تم ہوش میں نہ آؤ گے؟ 54
اور ان کی قوم ان سے بحث و جدال کرنے لگی ( تو ) انہوں نے کہا: بھلا تم مجھ سے اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہو حالانکہ اس نے مجھے ہدایت فرما دی ہے ، اور میں ان ( باطل معبودوں ) سے نہیں ڈرتا جنہیں تم اس کا شریک ٹھہرا رہے ہو مگر ( یہ کہ ) میرا رب جو کچھ ( ضرر ) چاہے ( پہنچا سکتا ہے ) ۔ میرے رب نے ہر چیز کو ( اپنے ) علم سے احاطہ میں لے رکھا ہے ، سو کیا تم نصیحت قبول نہیں کرتے
سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :54 اصل میں لفظ تَذَکُّر استعمال ہوا ہے جس کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ ایک شخص جو غفلت اور بھلاوے میں پڑا ہوا ہو وہ چونک کر اس چیز کو یاد کر لے جس سے وہ غافل تھا ۔ اسی لیے ہم نے اَفَلَا تَتَذَکَّرُوْنَ کا یہ ترجمہ کیا ہے ۔ حضرت ابرہیم علیہ السلام کے ارشاد کا مطلب یہ تھا کہ تم جو کچھ کر رہے ہو ، تمہارا اصلی و حقیقی رب اس سے بے خبر نہیں ہے ، اس کا علم ساری چیزوں پر وسیع ہے ، پھر کیا اس حقیقت سے واقف ہو کر بھی تمھیں ہوش نہ آئے گا ؟
مشرکین کا توحید سے فرار ابراہیم علیہ السلام کی سچی توحید کے دلائل سن کر پھر بھی مشرکین آپ سے بحث جاری رکھتے ہیں تو آپ ان سے فرماتے ہیں تعجب ہے کہ تم مجھ سے اللہ جل جلالہ کے بارے میں جھگڑا کر رہے ہو؟ حالانکہ وہ یکتا اور لا شریک ہے اس نے مجھے راہ دکھا دی ہے اور دلیل عطا فرمائی ہے میں یقینا جانتا ہوں کہ تمہارے یہ سب معبود محض بےبس اور بےطاقت ہیں ، میں نہ تو تمہاری فضول اور باطل باتوں میں آؤں گا نہ تمہاری دھمکیاں سچی جانوں گا ، جاؤ تم سے اور تمہارے باطل معبودوں سے جو ہو سکے کر لو ۔ ہرگز ہرگز کمی نہ کرو بلکہ جلدی کر گزرو اگر تمہارے اور ان کے قبضے میں میرا کوئی نقصان ہے تو جاؤ پہنچا دو ۔ میرے رب کی منشا بغیر کچھ بھی نہیں ہو سکتا ضرر نفع سب اسی کی طرف سے ہے تمام جیزیں اسی کے علم میں ہیں اس پر چھوٹی سے جھوتی چیز بھی پوشیدہ نہیں ۔ افسوس اتنی دلیلیں سن کر بھی تمہارے دل نصیحت حاصل نہیں کرتے ۔ حضور ہود علیہ السلام نے بھی اپنی قوم کے سامنے یہی دلیل پیش کی تھی ۔ قرآن میں موجود ہے کہ ان کی قوم نے ان سے کہا اے ہود تم کوئی دلیل تو لائے نہیں ہو اور صرف تمہارے قول سے ہم اپنے معبودوں سے دست بردار نہیں ہو سکتے نہ ہم تجھ پر ایمان لائیں گے ۔ ہمارا اپنا خیال تو یہ ہے کہ ہمارے معبودوں نے تجھے کچھ کر دیا ہے ۔ آپ نے جواب دیا کہ میں اللہ کو گواہ کرتا ہوں اور تم بھی گواہ رہو کہ تم جن کو بھی اللہ کا شریک ٹھہرا رہے ہو ، میں سب سے بیزار ہوں ۔ جاؤ تم سب مل کر جو کچھ مکر میرے ساتھ کرنا چاہتے ہو وہ کر لو اور مجھے مہلت بھی نہ دو ، میں نے تو اس رب پر توکل کر لیا ہے جو تمہارا میرا سب کا پالنہار ہے ۔ تمام جانداروں کی پیشانیاں اسی کے ہاتھ میں ہیں ۔ سمجھو اور سوچو تو سہی کہ میں تمہارے ان باطل معبودوں سے کیوں ڈراؤں گا ؟ جبکہ تم اس اکیلے اللہ وحدہ لا شریک سے نہیں ڈرتے اور کھلم کھلا اس کی ذات کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہرا رہے ہو ۔ تم ہی بتلاؤ کہ ہم تم میں سے امن کا زیادہ حقدار کون ہے؟ دلیل میں اعلی کون ہے؟ یہ آیت مثل آیت ( اَمْ لَهُمْ شُرَكَاۗءُ ڔ فَلْيَاْتُوْا بِشُرَكَاۗىِٕهِمْ اِنْ كَانُوْا صٰدِقِيْنَ ) 68 ۔ القلم:41 ) اور آیت ( اِنْ هِىَ اِلَّآ اَسْمَاۗءٌ سَمَّيْتُمُوْهَآ اَنْتُمْ وَاٰبَاۗؤُكُمْ مَّآ اَنْزَلَ اللّٰهُ بِهَا مِنْ سُلْطٰنٍ ) 53 ۔ النجم:23 ) کے ہے مطلب یہ ہے کہ اس کا بندہ جو خیرو شر ، کا نفع و ضر کا مالک ہے امن والا ہوگا یا اس کا بندہ جو محض بےبس اور بےقدرت ہے قیامت کے دن کے عذابوں سے امن میں رہے گا پھر جناب باری تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو لوگ صرف اللہ ہی کی عبادت کریں اور خلوص کے ساتھ دینداری کریں رب کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں امن و امان اور راہ راست والے یہی لوگ ہیں جب یہ آیت اتری تو صحابہ ظلم کا لفط سن کر چونک اٹھے اور کہنے لگے یا رسول اللہ ہم میں سے ایسا کون ہے جس نے کوئی گناہ ہی نہ کیا ہو؟ اس پر آیت ( اِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيْمٌ ) 31 ۔ لقمان:13 ) نازل ہوئی یعنی یہاں مراد ظلم سے شرک ہے ( بخاری شریف ) اور روایت میں ہے کہ حضور نے ان کے اس سوال پر فرمایا کیا تم نے اللہ کے نیک بندے کا یہ قول نہیں سنا کہ اے میرے پیارے بچے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا شرک بڑا بھاری ظلم ہے ۔ پس مراد یہاں ظلم سے شرک ہے اور روایت میں ہے کہ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ تم جو سمجھ رہے ہو وہ مقصد نہیں اور حدیث میں آپ کا خود لظلم کی تفسیر بشرک سے کرنا مروی ہے ۔ بہت سے صحابیوں سے بہت سی سندوں کے ساتھ بہت سی کتابوں میں یہ حدیث مروی ہے ۔ ایک روایت میں حضور کا فرمان ہے کہ مجھ سے کہا گیا کہ تو ان ہی لوگوں میں سے ہے ۔ مسند احمد میں زاذان اور جریر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ اے باپ کیا آپ آزر بت کو معبود مانتے ہیں؟ لیکن یہ دور کی بات ہے خلاف لغت ہے کیونکہ حرف استفہام کے بعد والا اپنے سے پہلے والے میں عامل نہیں ہوتا اس لئے کہ اس کے لئے ابتداء کلام کا حق ہے ، عربی کا یہ تو مشہور قاعدہ ہے ، الغرض حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام اپنے باپ کو وعظ سنا رہے ہیں اور انہیں بت پرستی سے روک رہے ہیں لیکن وہ باز نہ آئے ۔ آپ فرماتے ہیں کہ یہ تو نہایت بری بات ہے کہ تم ایک بت کے سامنے الحاج اور عاجزی کرو ۔ جو اللہ تعالیٰ کا حق ہے یقینا اس مسلک کے لوگ سب کے سب بہکے ہوئے اور راہ بھٹکے ہوئے ہیں اور آیت میں ہے کہ صدیق نبی ابراہیم خلیل نے اپنے والد سے فرمایا ابا آپ ان کی پرستش کیوں کرتے ہیں جو نہ سنیں نہ دیکھیں نہ کچھ فائدہ پہنچائیں ، ابا میں آپ کو وہ کھری بات سناتا ہوں جو اب تک آپ کے علم میں نہیں آئی تھی ، آپ میری بات مان لیجئے میں آپ کو صحیح راہ کی رہنمائی کروں گا ، ابا شیطان کی عبادت سے ہٹ جائیے ، وہ تو رحمان کا نافرمان ہے ، ابا مجھے تو ڈر لگتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو آپ پر اللہ کا کوئی عذاب آ جائے اور آپ شیطان کے رفیق کار بن جائیں ۔ باپ نے جواب دیا کہ ابراہیم کیا تو میرے معبودوں سے ناراض ہے؟ سن اگر تو اس سے باز نہ آیا تو میں تجھے سنگسار کر دوں گا ، پس اب تو مجھ سے الگ ہو جا ۔ آپ نے فرمایا اچھا میرا سلام لو میں تو اب بھی اپنے پروردگار سے تمہاری معافی کی درخواست کروں گا وہ مجھ پر بہت مہربان ہے ، میں تم سب کو اور تمہارے ان معبودوں کو جو اللہ کے سوا ہیں چھوڑتا ہوں اپنے رب کی عبادت میں مشغول ہوتا ہوں ناممکن ہے کہ میں اس کی عبادت بھی کروں اور پھر بےنصیب اور خالی ہاتھ رہوں چنانچہ حسب وعدہ خلیل اللہ اپنے والد کی زندگی تک استغفار کرتے رہے لیکن جبکہ مرتے ہوئے بھی وہ شرک سے باز نہ آئے تو آپ نے استغفار بند کر دیا اور بیزار ہو گئے ، چنانچہ قرآن کریم میں ہے حضرت ابراہیم کا اپنے باپ کے لئے استغفار کرنا ایک وعدے کی بنا پر تھا جب آپ پر یہ کھل گیا کہ وہ دشمن اللہ ہے تو آپ اس سے بیزار اور بری ہو گئے ، ابراہیم بڑے ہی اللہ سے ڈرنے والے نرم دل حلیم الطبع تھے ، حدیث صحیح میں ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام قیامت کے دن اپنے باپ آزر سے ملاقات کریں گے آزر آپ کو دیکھ کر کہے گا بیٹا آج میں تیری کسی بات کی مخالفت نہ کروں گا ، آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں گے کہ اے اللہ تو نے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ قیامت کے دن تو مجھے رسوانہ کرے گا اس سے زیادہ سوائی کیا ہو گی کہ میرا باپ رحمت سے دور کر دیا جائے ، آپ سے فرمایا جائے گا کہ تم اپنے پیچھے کی طرف دیکھو ، دیکھیں گے کہ ایک بجو کیچڑ میں لتھڑا کھڑا ہے اس کے پاؤں پکڑے جائیں گے اور آگ میں ڈال دیا جائے گا ، مخلوق کو دیکھ کر خالق کی وحدانیت سمجھ میں آ جائے اس لئے ہم نے ابراہیم کو آسمان و زمین کی مخلوق دکھا دی جیسے اور آیت میں ہے آیت ( اَوَلَمْ يَنْظُرُوْا فِيْ مَلَكُوْتِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا خَلَقَ اللّٰهُ مِنْ شَيْءٍ ۙ وَّاَنْ عَسٰٓي اَنْ يَّكُوْنَ قَدِ اقْتَرَبَ اَجَلُهُمْ ) 7 ۔ الاعراف:185 ) اور جگہ ہے آیت ( اَفَلَمْ يَرَوْا اِلٰى مَا بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ ۭاِنْ نَّشَاْ نَخْسِفْ بِهِمُ الْاَرْضَ اَوْ نُسْقِطْ عَلَيْهِمْ كِسَفًا مِّنَ السَّمَاۗءِ ) 34 ۔ سبأ:9 ) یعنی لوگوں کو آسمان و زمین کی مخلوق پر عبرت کی نظریں ڈالنی چاہئیں انہیں اپنے آگے پیچھے آسمان و زمین کو دیکھنا چاہیے اگر ہم چاہیں تو انہیں زمین میں دھنسا دیں اگر چاہیں آسمان کا ٹکڑا ان پر گرا دیں رغبت و رجو والے بندوں کیلئے اس میں نشانیاں ہیں ۔ مجاہد وغیرہ سے منقول ہے کہ آسمان حضرت ابراہیم کے سامنے کھول دیئے گئے عرش تک آپ کی نظریں پہنچیں ۔ حجاب اٹھا دیئے گئے اور آپ نے سب کچھ دیکھا ، بندوں کو گناہوں میں دیکھ کر ان کے لئے بد دعا کرنے لگے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا تجھ سے زیادہ میں ان پر رحیم ہوں بہت ممکن ہے کہ یہ توبہ کرلیں اور بد اعمالیوں سے ہٹ جائیں ۔ پس یہ دکھلاناموقوف کر دیا گیا ممکن ہے یہ کشف کے طور پر ہو اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس سے مراد معلوم کرانا اور حقائق سے متعارف کرا دینا ہو ۔ چنانچہ مسند احمد اور ترمذی کی ایک حدیث میں حضور کے خواب کا ذکر ہے کہ میرے پاس میرا رب بہت اچھی صورت میں آیا اور مجھ سے دریافت فرمایا کہ اونچی جماعت کے فرشتے اس وقت کس بارے میں گفتگو کر رہے ہیں؟ میں نے اپنی لا علمی ظاہر کی تو اللہ تعالیٰ نے اپنی ہتھیلی میری دونوں بازوؤں کے درمیان رکھ دی یہاں تک کہ اس کی پوریوں رب کی بات صادق آ گئی ہے ان کے پاس چاہے تم تمام نشانیاں لے آؤ پھر بھی انہیں ایمان نصیب نہیں ہو گا یہاں تک کہ وہ اپنی آنکھوں سے عذاب دیکھ لیں ۔ پس رب کی حکمت اور اس کے علم میں کوئی شبہ نہیں ۔