Surah

Information

Surah # 2 | Verses: 286 | Ruku: 40 | Sajdah: 0 | Chronological # 87 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 281 from Mina at the time of the Last Hajj
بِسۡمِ اللهِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِيۡمِ
شروع کرتا ہوں اللہ تعا لٰی کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے ۔
بسم الله الرحمن الرحيم
In the name of Allah , the Entirely Merciful, the Especially Merciful.
Shuroo Allah kay naam say jo bara meharban nehayat reham kerney wala hai
شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے ، بہت مہربان ہے
اللہ کے نام سے شروع جو بہت مہربان رحمت والا
اللہ کے نام سے جو رحمان و رحیم ہے ۔
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان ہمیشہ رحم فرمانے والا ہے ۔
سورة الْبَقَرَة نام اور وجہ تسمیہ : اس سُورۃ کا نام ” بقرۃ“ اس لیے ہے کہ اس میں ایک جگہ گائے کا ذکر آیا ہے ۔ قرآن کی ہر سورۃ میں اس قدر وسیع مضامین بیان ہوئے ہیں کہ ان کے لیے مضمون کے لحاظ سے جامع عنوانات تجویز نہیں کیے جاسکتے ۔ عربی زبان اگرچہ اپنی لغت کے اعتبار سے نہایت مالدار ہے ، مگر بہر حال ہے تو انسانی زبان ہی ۔ انسان جو زبانیں بھی بولتا ہے وہ اس قدر تنگ اور محدود ہیں کہ وہ ایسے الفاظ یا فقرے فراہم نہیں کر سکتیں جو ان وسیع مضامین کے لیےجامع عنوان بن سکتے ہوں ۔ اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی رہنمائی سے قرآن کی بیشتر سورتوں کے لیے عنوانات کے بجائے نام تجویز فرمائے جو محض علامت کا کام دیتے ہیں ۔ اس سُورۃ کو بقرہ کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس میں گائے کے مسئلے پر بحث کی گئی ہے بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ” وہ سورۃ جس میں گائے کا ذکر آیا ہے ۔ زمانہ نزول : اس سُورۃ کا بیشتر حصّہ ہجرتِ مدینہ کے بعد مدنی زندگی کے بالکل ابتدائی دَور میں نازل ہوا ہے ، اور کمتر حصّہ ایسا ہے جو بعد میں نازل ہوا اور مناسبتِ مضمون کے لحاظ سے اس میں شامل کر دیا گیا ۔ حتیٰ کہ سود کی ممانعت کے سلسلہ میں جو آیات نازل ہوئی ہیں وہ بھی اس میں شامل ہیں حالانکہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلّم کی زندگی کے بالکل آخری زمانہ میں اُتری تھیں ۔ سُورۃ کا خاتمہ جن آیات پر ہوا ہے وہ ہجرت سے پہلے مکہ میں نازل ہو چکی تھیں مگر مضمون کی مناسبت سے ان کو بھی اِسی سُورۃ میں ضم کر دیا گیا ہے ۔ شان نزول : اس سُورۃ کے سمجھنے کے لیے پہلے اس کا تاریخی پس منظر اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے: ( ۱ ) ہجرت سے قبل جب تک مکہ میں اسلام کی دعوت دی جاتی رہی ، خطاب بیشتر مشرکینِ عرب سے تھا جن کے لیے اسلام کی آواز ایک نئی اور غیر مانوس آواز تھی ۔ اب ہجرت کے بعد سابقہ یہودیوں سے پیش آیا جن کی بستیاں مدینہ سے بالکل متصل ہی واقع تھیں ۔ یہ لوگ توحید ، رسالت ، وحی ، آخرت اور ملائکہ کے قائل تھے ، اس ضابطہء شرعی کو تسلیم کرتے تھے جو خدا کی طرف سے ان کے نبی موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوا تھا ، اور اُصولاً ان کا دین وہی اسلام تھا جس کی تعلیم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلّم دے رہے تھے ۔ لیکن صدیوں کے مسلسل انحطاط نے ان کو اصل دین سے بہت دُور ہٹا *1* دیا تھا ۔ ان کے عقائد میں بہت سے غیر اسلامی عناصر کی آمیزش ہوگئی تھی جن کے لیے توراۃ میں کوئی سَنَد موجود نہ تھی ۔ ان کی عملی زندگی میں بکثرت ایسے رسُوم اور طریقے رواج پاگئے تھے جو اصل دین میں نہ تھے اور جن کے لیے توراۃ میں کوئی ثبوت نہ تھا ۔ خود توراۃ کو انہوں نے انسانی کلام کے اندر خلط ملط کر دیا تھا ، اور خدا کا کلام جس حد تک لفظاً یا معنیً محفوظ تھا اس کو بھی انہوں نے اپنی من مانی تاویلوں اور تفسیروں سے مسخ کر رکھا تھا ۔ دین کی حقیقی روح ان میں سے نکل چکی تھی اور ظاہری مذہبیت کا محض ایک بے جان ڈھانچہ باقی تھا جس کو وہ سینہ سے لگائے ہوئے تھے ۔ ان کے علماء اور مشائخ ، ان کے سردارانِ قوم اور ان کے عوام ، سب کی اعتقادی ، اخلاقی اور عملی حالت بگڑ گئی تھی ، اور اپنے اس بگاڑ سے ان کو ایسی محبت تھی کہ وہ کسی اصلاح کو قبول کرنے پر تیار نہ ہوتے تھے ۔ صدیوں سے مسلسل ایسا ہو رہا تھا کہ جب کوئی اللہ کا بندہ انہیں دین کا سیدھا راستہ بتانے آتا تو وہ اسے اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتے اور ہر ممکن طریقہ سے کوشش کرتے تھے کہ وہ کسی طرح اصلاح میں کامیاب نہ ہو سکے ۔ یہ لوگ حقیقت میں بگڑے ہوئے مسلمان تھے جن کے ہاں بدعتوں اور تحریفوں ، موشگافیوں اور فرقہ بندیوں ، استخواں گیری و مغز افگنی ، خدا فراموشی و دنیا پرستی کی بدولت انحطاط اس حد کو پہنچ چکا تھا کہ وہ اپنا اصل نام ”مسلم“ تک بھُول گئے تھے ، محض ” یہُودی“ بن کر رہ گئے تھے اور اللہ کے دین کو انہوں نے محض نسلِ اسرائیل کی آبائی وراثت بنا کر رکھ دیا تھا ۔ پس جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہدایت فرمائی کہ ان کو اصل دین کی طرف دعوت دیں ، چنانچہ سُورۂ بقرہ کے ابتدائی پندرہ سولہ رکوع اسی دعوت پر مشتمل ہیں ۔ ان میں یہودیوں کی تاریخ اور ان کی اخلاقی و مذہبی حالت پر جس طرح تنقید کی گئی ہے ، اور جس طرح ان کے بگڑے ہوئے مذہب و اخلاق کی نمایاں خصُوصیّات کے مقابلہ میں حقیقی دین کے اصول پہلو بہ پہلو پیش کیے گئے ہیں ، اس سے یہ بات بالکل آئینے کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ ایک پیغمبر کی اُمّت کے بگاڑ کی نوعیت کیا ہوتی ہے ، رسمی دینداری کے مقابلہ میں حقیقی دینداری کس چیز کا نام ہے ، دین حق کے بنیادی اصول کیا ہیں اور خدا کی نگاہ میں اصل اہمیّت کِن چیزوں کی ہے ۔ ( ۲ ) مدینہ پہنچ کر اسلامی دعوت ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکی تھی ۔ مکّہ میں تو معاملہ صرف اُصُولِ دین کی تبلیغ اور دین قبول کرنے والوں کی اخلاقی تربیت تک محدُود تھا ، مگر جب ہجرت کے بعد عرب کے مختلف قبائل کے وہ سب لوگ جو اسلام قبول کر چکے تھے ، ہر طرف سے سمٹ کر ایک جگہ جمع ہونے لگے اور انصار کی مدد سے ایک چھوٹی سی اسلامی ریاست کی بنیاد پڑ گئی تو اللہ تعالیٰ نے تمدّن ، معاشرت ، معیشت ، قانون اور سیاست کے متعلق بھی اُصُولی ہدایات دینی شروع کیں اور یہ بتایا کہ اسلام کی اساس پر یہ نیا نظام زندگی کس طرح تعمیر کیا جائے ۔ اس سُورۃ کے آخری ۲۳ رکوع زیادہ تر انہی ہدایات پر مشتمل ہیں ، جن میں سے اکثر ابتدا ہی میں بھیج دی گئی تھیں اور بعض متفرق طور پر حسبِ ضرورت بعد میں بھیجی جاتی رہیں ۔ ( ۳ ) ہجرت کے بعد اسلام اور کفر کی کشمکش بھی ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکی تھی ۔ ہجرت سے پہلے اسلام کی دعوت خود کفر کے گھر میں دی جا رہی تھی اور متفرق قبائل سے جو لوگ اسلام قبول کرتے تھے وہ اپنی اپنی جگہ رہ کر ہی دین کی تبلیغ کرتے اور جواب میں مصائب اور مظالم کے تختہء مشق بنتے تھے ۔ مگر ہجرت کے بعد جب یہ منتشر مسلمان مدینہ میں جمع ہو کر ایک جتھا بن گئے اور انہوں نے ایک چھوٹی سی آزاد ریاست قائم کر لی تو صُورتِ حال یہ ہوگئی کہ ایک طرف ایک چھوٹی سی بستی تھی اور دُوسری طرف تمام عرب اس کا استیصال کر دینے پر تُلا ہوا تھا ۔ اب اس مُٹھی بھر جماعت کی کامیابی کا ہی نہیں بلکہ اس کے وجود و بقا کا انحصار بھی اس بات پر تھا کہ اوّلاً وہ پُورے جوش و خروش کے ساتھ اپنے مسلک کی تبلیغ کر کے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنا ہم عقیدہ بنانے کی کوشش کرے ۔ ثانیاً وہ مخالفین کا برسرِ باطل ہونا اس طرح ثابت و مبرہن کر دے کہ کسی ذی عقل انسان کو اس میں شبہہ نہ رہے ۔ ثالثًا بے خان و ماں ہونے اور تمام ملک کی عداوت و مزاحمت سے دوچار ہونے کی بنا پر فقر و فاقہ اور ہمہ وقت بے امنی و بے اطمینانی کی جو حالت ان پر طاری ہو گئی تھی اور جن خطرات میں وہ چاروں طرف سے گھِر گئے تھے ، ان میں وہ ہراساں نہ ہوں ، بلکہ پورے صبر وثبات کے ساتھ ان حالات کا مقابلہ کریں اور اپنے عزم میں ذرا تزلزل نہ آنے دیں ۔ رابعاً وہ پُوری دلیری کے ساتھ ہر اس مسلّح مزاحمت کا مسلّح مقابلہ کر نے کے لیے تیار ہو جائیں جو ان کی دعوت کو ناکام کرنے کے لیے کسی طاقت کی طرف سے کی جائے ، اور اس بات کی ذرا پروا نہ کریں کہ مخالفین کی تعداد اور ان کی مادّی طاقت کتنی زیادہ ہے ۔ خامسًا ان میں اتنی ہمّت پیدا کی جائے کہ اگر عرب کے لوگ اس نئے نظام کو ، جو اسلام قائم کرنا چاہتا ہے ، فہمائش سے قبول نہ کریں ، تو انہیں جاہلیّت کے فاسد نظام زندگی کو بزور مٹا دینے میں بھی تامل نہ ہو ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ تعالیٰ نے اس سُورۃ میں ان پانچوں امور کے متعلق ابتدائی ہدایات دی ہیں ۔ ( ٤ ) دعوت اسلامی کے اس مرحلہ میں ایک نیا عنصر بھی ظاہر ہونا شروع ہو گیا تھا ، اور یہ منافقین کا عنصر تھا ۔ اگرچہ نفاق کے ابتدائی آثار مکّہ کے آخری زمانہ میں بھی نمایاں ہونے لگے تھے ، مگر وہاں صرف اس قسم کے منافق پائے جاتے تھے جو اسلام کے برحق ہونے کے تو معترف تھے اور ایمان کا اقرار بھی کرتے تھے لیکن اس کے لیے تیار نہ تھے کہ اس حق کی خاطر اپنے مفاد کی قربانی اور اپنے دُنیوی تعلقات کا اِنقطاع اور ان مصائب و شدائد کو بھی برداشت کرلیں جو اس مسلکِ حق کو قبول کرنے کے ساتھ ہی نازل ہونے شروع ہو جاتے تھے ۔ مدینہ پہنچ کر اس قسم کے منافقین کے علاوہ چند اور قسموں کے منافق بھی اسلامی جماعت میں پائے جانے لگے ۔ ایک قسم کے منافق وہ تھے جو قطعاً اسلام کے منکر تھے اور محض فتنہ برپا کرنے کے لیے جماعتِ مسلمین میں داخل ہو جاتے تھے ۔ دوسری قِسم کے منافق وہ تھے جو اسلامی جماعت کے دائرۂ اقتدار میں گھِر جانے کی وجہ سے اپنا مفاد اسی میں دیکھتے تھے کہ ایک طرف مسلمانوں میں بھی اپنا شمار کرائیں اور دُوسری طرف مخالفینِ اسلام سے بھی ربط رکھیں تاکہ دونوں طرف کے فوائد سے متمتع ہوں اور دونوں طرف کے خطرات سے محفوظ رہیں ۔ تیسری قسم ان لوگوں کی تھی جو اسلام اور جاہلیّت کے درمیان متردّد تھے ۔ انہیں اسلام کے برحق ہونے پر کامل اطمینان نہ تھا ۔ مگر چونکہ ان کے قبیلے یا خاندان کے بیشتر لوگ مسلمان ہو چکے تھے اس لیے یہ بھی مسلمان ہوگئے تھے ۔ چوتھی قسم میں وہ لوگ شامل تھے جو امرِ حق ہونے کی حیثیت سے تو اسلام کے قائل ہو چکے تھے مگر جاہلیّت کے طریقے اور اوہام اور رسمیں چھوڑنے اور اخلاقی پابندیاں قبول کرنے اور فرائض اور ذمہ داریوں کا بار اُٹھانے سے ان کا نفس انکار کرتا تھا ۔ سُورۃ بقرہ کے نزول کے وقت ان مختلف اقسام کے منافقین کے ظہُور کی محض ابتدا تھی اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف صرف اجمالی اشارات فرمائے تھے ۔ بعد میں جتنی جتنی ان کی صفات اور حرکات نمایاں ہوتی گئیں اسی قدر تفصیل کے ساتھ بعد کی سورتوں میں ہر قسم کے منافقین کے متعلق ان کی نوعیت کے لحاظ سے الگ الگ ہدایات بھیجی گئیں ۔ ”
تفسیر سورۃ بقرۃ اس مبارک سورت کے فضائل کا بیان حضرت معقل بن یسار رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ سورۃ بقرہ قرآن کا کوہان ہے اور اس کی بلندی کا یہ عالم ہے کہ اس کی ایک ایک آیت کے ساتھ اسی اسی ( ٨٠ ) فرشتے نازل ہوتے تھے اور بالخصوص آیت الکرسی تو خاص عرش تلے نازل ہوئی اور اس سورت میں شامل کی گئی ۔ سورۃ یٰسین قرآن کا دل ہے جو شخص اسے اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی اور آخرت طلبی کے لئے پڑھے اسے بخش دیا جاتا ہے ۔ اس سورت کو مرنے والوں کے سامنے پڑھا کرو ( مسند احمد ) اس حدیث کی سند میں ایک جگہ عن رجل ہے تو یہ نہیں معلوم ہوتا تھا کہ اس سے مراد کون ہے؟ لیکن مسند احمد ہی کی دوسری روایت میں اس کا نام ابو عثمان آیا ہے ۔ یہ حدیث اسی طرح ابو داؤد نسائی اور ابن ماجہ میں بھی ہے ۔ ترمذی کی ایک ضعیف سند والی حدیث ہے کہ ہر چیز کی ایک بلندی ہوتی ہے اور قرآن پاک کی بلندی سورۃ بقرہ ہے ۔ اس سورت میں ایک آیت ہے جو تمام آیتوں کی سردار ہے اور وہ آیت آیت الکرسی ہے ۔ مسند احمد ، صحیح مسلم ، ترمذی اور نسائی میں حدیث ہے کہ اپنے گھروں کو قبریں نہ بناؤ ۔ جس گھر میں سورۃ بقرہ پڑھی جائے وہاں شیطان داخل نہیں ہو سکتا ۔ امام ترمذی اسے حسن صحیح بتلاتے ہیں ۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ جس گھر میں سورۃ بقرہ پڑھی جائے وہاں سے شیطان بھاگ جاتا ہے ۔ اس حدیث کے ایک راوی کو امام یحییٰ بن معین تو ثقہ بتاتے ہیں لیکن امام احمد وغیرہ ان کی حدیث کو منکر کہتے ہیں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی اسی طرح کا قول منقول ہے ۔ اسے نسائی نے عمل الیوم واللیلہ میں اور حاکم نے مستدرک میں روایت کیا ہے اور اس کی سند کو صحیح کہا ہے ۔ ابن مردویہ میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تم میں سے کسی کو ایسا نہ پاؤں کہ وہ پیر پر پیر چڑھائے پڑھتا چلا جائے لیکن سورۃ بقرہ نہ پڑھے ۔ سنو! جس گھر میں یہ مبارک سورت پڑھی جاتی ہے وہاں سے شیطان بھاگ کھڑا ہوتا ہے ، سب گھروں میں بدترین اور ذلیل ترین گھر وہ ہے جس میں کتاب اللہ کی تلاوت نہ کی جائے امام نسائی نے عمل الیوم واللیلہ میں بھی اسے وارد کیا ہے مسند دارمی میں حضرت ابن مسعود سے روایت ہے کہ جس گھر میں سورۃ بقرہ پڑھی جائے اس گھر سے شیطان گوز مارتا ہوا بھاگ جاتا ہے ۔ ہر چیز کی اونچائی ہوتی ہے اور قرآن کی اونچائی سورۃ بقرہ ہے ۔ ہر چیز کا ما حصل ہوتا ہے اور قرآن کا ما حصل مفصل سورتیں ہیں ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فرمان ہے کہ جو شخص سورۃ بقرہ کی پہلی چار آیتیں اور آیت الکرسی اور دو آیتیں اس کے بعد کی اور تین آیتیں سب سے آخر کی ، یہ سب دس آیتیں رات کے وقت پڑھ لے اس گھر میں شیطان اس رات نہیں جا سکتا اور اسے اور اس کے گھر والوں کو اس دن شیطان یا کوئی اور بری چیز ستا نہیں سکتی ۔ یہ آیتیں مجنون پر پڑھی جائیں تو اس کا دیوانہ پن بھی دور ہو جاتا ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جس طرح ہر چیز کی بلندی ہوتی ہے ، قرآن کی بلندی سورۃ بقرہ ہے جو شخص رات کے وقت اسے اپنے گھر میں پڑھے تین راتوں تک شیطان اس گھر میں نہیں جا سکتا اور دن کو اگر گھر میں پڑھ لے تو تین دن تک شیطان اس گھر میں قدم نہیں رکھ سکتا ۔ ( طبرانی ۔ ابن حبان ۔ ابن مردویہ ) ترمذی ۔ نسائی اور ابن ماجہ میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چھوٹا سا لشکر ایک جگہ بھیجا اور اس کی سرداری آپ نے انہیں دی جنہوں نے فرمایا تھا کہ مجھے سورۃ بقرہ یاد ہے ، اس وقت ایک شریف شخص نے کہا میں بھی اسے یاد کر لیتا لیکن ڈرتا ہوں کہیں ایسا نہ ہو کہ میں اس پر عمل نہ کر سکوں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قرآن سیکھو ، قرآن پڑھو جو شخص اسے سیکھتا ہے ، پڑھتا ہے پھر اس پر عمل بھی کرتا ہے ، اس کی مثال ایسی ہے جیسے مشک بھرا ہوا برتن جس کی خوشبو ہر طرف مہک رہی ہے ۔ اسے سیکھ کر سو جانے والے کی مثال اس برتن کی سی ہے جس میں مشک تو بھرا ہوا ہے لیکن اوپر سے منہ بند کر دیا گیا ہے ۔ ( امام ترمذی اسے حسن کہتے ہیں اور مرسل روایت بھی ہے ) واللہ اعلم ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک مرتبہ رات کو سورۃ بقرہ کی تلاوت شروع کی ، ان کا گھوڑا جو ان کے پاس ہی بندھا ہوا تھا ، اس نے اچھلنا کودنا اور بدکنا شروع کیا ۔ آپ نے قرأت چھوڑ دی گھوڑا بھی سیدھا ہو گیا ۔ آپ نے پھر پڑھنا شروع کیا ۔ گھوڑے نے بھی پھر بدکنا شروع کیا ۔ آپ نے پھر پڑھنا موقوف کیا ۔ گھوڑا بھی ٹھیک ٹھاک ہو گیا ۔ تیسری مرتبہ بھی یہی ہوا چونکہ ان کے صاحبزادے یحییٰ گھوڑے کے پاس ہی لیٹے ہوئے تھے اس لئے ڈر معلوم ہوا کہ کہیں بچے کو چوٹ نہ آ جائے ، قرآن کا پڑھنا بند کر کے اسے اٹھا لیا ۔ آسمان کی طرف دیکھا کہ جانور کے بدکنے کی کیا وجہ ہے؟ صبح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آ کر واقعہ بیان کرنے لگے آپ سنتے جاتے اور فرماتے جاتے ہیں پھر اسید پڑھے چلے جاؤ حضرت اسید نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم تیسری مرتبہ کے بعد تو یحییٰ کی وجہ سے میں نے پڑھنا بالکل بند کر دیا ۔ اب جو نگاہ اٹھی تو دیکھتا ہوں کہ ایک نورانی چیز سایہ دار ابر کی طرح ہے اور اس میں چراغوں کی طرح کی روشنی ہے بس میرے دیکھتے ہی دیکھتے وہ اوپر کو اٹھ گئی ۔ آپ نے فرمایا جانتے ہو یہ کیا چیز تھی؟ یہ فرشتے جو تمہاری آواز کو سن کر قریب آ گئے تھے اگر تم پڑھنا موقوف نہ کرتے تو وہ صبح تک یونہی رہتے اور ہر شخص انہیں دیکھ لیتا ، کسی سے نہ چھپتے ۔ یہ حدیث کئی کتابوں میں کئی سندوں کے ساتھ موجود ہے ۔ واللہ اعلم ۔ اس کے قریب قریب واقعہ حضرت ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہے کہ ایک مرتبہ لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ گزشتہ رات ہم نے دیکھا ، ساری رات حضرت ثابت کا گھر نور کا بقعہ بنا رہا اور چمکدار روشن چراغوں سے جگمگاتا رہا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شاید انہوں نے رات کو سورۃ بقرہ پڑھی ہو گی ۔ جب ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا سچ ہے رات کو میں سورۃ بقرہ کی تلاوت میں مشغول تھا ۔ اس کی اسناد تو بہت عمدہ ہے مگر اس میں ابہام ہے اور یہ مرسل بھی ہے ۔ واللہ اعلم ۔ سورۃ بقرہ اور سورۃ آل عمران کی فضیلت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ سیکھو ، اس کو حاصل کرنا برکت ہے اور اس کا چھوڑنا حسرت ہے ۔ جادوگر اس کی طاقت نہیں رکھتے پھر کچھ دیر چپ رہنے کے بعد فرمایا ۔ سورۃ بقرہ اور سورۃ آل عمران سیکھو ، یہ دونوں نورانی سورتیں ہیں اپنے پڑھنے والے پر سائبان یا بادل یا پرندوں کے جھنڈ کی طرح قیامت کے روز سایہ کریں گی ، قرآن پڑھنے والا جب قبر سے اٹھے گا تو دیکھے گا کہ ایک نوجوان نورانی چہرے والا شخص اس کے پاس کھڑا ہوا کہتا ہے کہ کیا آپ مجھے جانتے ہیں یہ کہے گا نہیں تو وہ جواب دے گا کہ میں قرآن ہوں جس نے دن کو تجھے بھوکا پیاسا رکھا تھا اور راتوں کو بستر سے دور بیدار رکھا تھا ۔ ہر تاجر اپنی تجارت کے پیچھے ہے لیکن آج سب تجارتیں تیرے پیچھے ہیں اب اس کے رہنے کے لئے سلطنت اس کے داہنے ہاتھ میں دی جائے گی اور ہمیشہ کے فائدے اس کے بائیں ہاتھ میں ، اس کے سر پر وقار و عزت کا تاج رکھا جائے گا ، اس کے ماں باپ کو دو ایسے عمدہ قیمتی حلے پہنائے جائیں گے کہ ساری دنیا بھی اس کی قیمت کے سامنے ہیچ ہو گی ، وہ حیران ہو کر کہیں گے کہ آخر اس رحم و کرم اور اس انعام و اکرام کی کیا وجہ ہے؟ تو انہیں جواب دیا جائے گا کہ تمہارے بچے کے قرآن حفظ کرنے کی وجہ سے تم پر یہ نعمت انعام کی گئی ۔ پھر اسے کہا جائے گا پڑھتا جا اور جنت کے درجے چڑھتا جا ، چنانچہ وہ پڑھتا جائے گا اور درجے چڑھتا جائے گا ۔ خواہ ترتیل سے پڑھے یا بے ترتیل ۔ ابن ماجہ میں بھی اس حدیث کا بعض حصہ مروی ہے اس کی اسناد حسن ہیں اور شرط مسلم پر ہیں ۔ اس کے راوی بشر ، ابن ماجہ سے امام مسلم بھی روایت لیتے ہیں اور امام ابن معین اسے ثقہ کہتے ہیں ۔ نسائی کا قول ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں ۔ ہاں امام احمد اسے منکر الحدیث بتاتے ہیں اور فرماتے ہیں میں نے تلاش کی تو دیکھا کہ وہ عجب عجب حدیثیں لاتا ہے ۔ امام بخاری فرماتے ہیں اس کی بعض احادیث سے اختلاف کیا جاتا ہے ۔ ابو حاتم رازی کا فیصلہ ہے کہ اس کی حدیثیں لکھی جاتی ہیں لیکن ان سے دلیل نہیں پکڑی جا سکتی ۔ ابن عدی کا قول ہے کہ ان کی ایسی روایتیں بھی ہیں جن کی متابعت نہیں کی جاتی ۔ دارقطنی فرماتے ہیں یہ قوی نہیں ہیں ۔ میں کہتا ہوں کہ اس کی اس روایت کے بعض مضمون دوسری سندوں سے بھی آئے ہیں ۔ مسند احمد میں ہے ۔ قرآن پڑھا کرو یہ اپنے پڑھنے والوں کی قیامت کے دن شفاعت کرے گا ۔ دو نورانی سورتوں بقرہ اور آل عمران کو پڑھتے رہا کرو ۔ یہ دونوں قیامت کے دن اس طرح آئیں گی کہ گویا یہ دو سائبان ہیں یا دو ابر ہیں یا پر کھولے پرندوں کی دو جماعتیں ہیں ۔ اپنے پڑھنے والوں کی طرف سے اللہ تعالیٰ سے سفارش کریں گی ۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ سورہ بقرہ پڑھا کرو ۔ اس کا پڑھنا برکت ہے اور چھوڑنا حسرت ہے ۔ اس کی طاقت باطل والوں کو نہیں صحیح مسلم شریف میں بھی یہ حدیث ہے ۔ مسند احمد کی ایک اور حدیث میں ہے قرآن اور قرآن پڑھنے والوں کو قیامت کے دن بلوایا جائے گا ۔ آگے آگے سورۃ بقرہ اور سورۃ آل عمران ہوں گی ، بادل کی طرح یا سائے اور سائبان کی طرح یا پر کھولے پرندوں کے جھرمٹ کی طرح ۔ یہ دونوں پروردگار سے ڈٹ کر سفارش کریں گی ۔ مسلم اور ترمذی میں بھی یہ حدیث ہے ۔ امام ترمذی اسے حسن غریب کہتے ہیں ۔ ایک شخص نے اپنی نماز میں سورۃ بقرہ اور سورۃ آل عمران پڑھی اس کے فارغ ہونے کے بعد حضرت کعب نے فرمایا اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ان میں اللہ کا وہ نام ہے کہ اس نام کے ساتھ جب کبھی اسے پکارا جائے وہ قبول فرماتا ہے ۔ اب اس شخص نے حضرت کعب سے عرض کی کہ مجھے بتائیے وہ نام کونسا ہے؟ حضرت کعب نے اس سے انکار کیا اور فرمایا اگر میں بتا دوں تو خوف ہے کہ کہیں تو اس نام کی برکت سے ایسی دعا نہ مانگ لے جو میری اور تیری ہلاکت کا سبب بن جائے ۔ حضرت ابو امامہ فرماتے ہیں تمہارے بھائی کو خواب میں دکھلایا گیا کہ گویا لوگ ایک بلند و بالا پہاڑ پر چڑھ رہے ہیں ۔ پہاڑ کی چوٹی پر دو سرسبز درخت ہیں اور ان میں سے آوازیں آ رہی ہیں کہ کیا تم میں کوئی سورۃ بقرہ کا پڑھنے والا ہے؟ کیا تم میں سے کوئی سورۃ آل عمران کا پڑھنے والا ہے؟ جب کوئی کہتا ہے کہ ہاں تو وہ دونوں درخت اپنے پھلوں سمیت اس کی طرف جھک جاتے ہیں اور یہ اس کی شاخوں پر بیٹھ جاتا ہے اور وہ اسے اوپر اٹھا لیتے ہیں ۔ حضرت ام درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتی ہیں کہ ایک قرآن پڑھے ہوئے شخص نے اپنے پڑوسی کو مار ڈالا پھر قصاص میں وہ بھی مارا گیا ۔ پس قرآن کریم ایک ایک سورت ہو ہو کر الگ ہونا شروع ہوا یہاں تک کہ اس کے پاس سورۃ آل عمران اور سورہء بقرہ رہ گئیں ۔ ایک جمعہ کے بعد سورۃ آل عمران چلی گئی پھر ایک جمعہ گزرا تو آواز آئی کہ میری باتیں نہیں بدلا کرتیں اور میں اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا چنانچہ یہ مبارک سورت یعنی سورۃ بقرہ بھی اس سے الگ ہو گئی مطلب یہ ہے کہ یہ دونوں سورتیں اس کی طرف سے بلاؤں اور عذاب کی آڑ بنی رہیں اور اس کی قبر میں اس کی دلجوئی کرتی رہیں اور سب سے آخر اس کے گناہوں کی زیادتی کے سبب ان کی سفارش نہ چلی ۔ یزید بن اسود جرشی کہتے ہیں کہ ان دونوں سورتوں کو دن میں پڑھنے والا دن بھر میں نفاق سے بری رہتا ہے اور رات کو پڑھنے والا ساری رات نفاق سے بری رہتا ہے خود حضرت یزید اپنے معمولی وظیفہ قرآن کے علاوہ ان دونوں سورتوں کو صبح شام پڑھا کرتے تھے ۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں جو شخص ان دونوں سورتوں کو رات بھر پڑھتا رہے گا ۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ فرمانبرداروں میں شمار ہو گا ۔ اس کی سند منقطع ہے ، بخاری و مسلم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مجھ کو سات لمبی سورتیں توریت کی جگہ دی گئی ہیں اور انجیل کی جگہ مجھ کو دو سو آیتوں والی سورتیں ملی ہیں اور زبور کے قائم مقام مجھ کو دو سو سے کم آیتوں والی سورتیں دی گئی ہیں اور پھر مجھے فضیلت میں خصوصاً سورۃ ق سے لے کر آخر تک کی سورتیں ملی ہیں یہ حدیث غریب ہے اور اس کے ایک راوی سعید بن ابو بشیر کے بارہ میں اختلاف ہے ۔ ابو عبید نے اسے دوسری سند سے بھی نقل کیا ہے ۔ واللہ اعلم ۔ ایک اور حدیث میں ہے جو شخص ان سات سورتوں کو حاصل کر لے وہ بہت بڑا عالم ہے ۔ یہ روایت بھی غریب ہے ۔ مسند احمد میں بھی یہ روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر بھیجا اور ان کا امیر انہیں بنایا ، جنہیں سورۃ بقرہ یاد تھی حالانکہ وہ ان سب میں چھوٹی عمر کے تھے ۔ حضرت سعید بن جبیر تو ولقد اتیناک سبعا من المثانی کی تفسیر میں بھی فرماتے ہیں کہ اس سے مراد یہی سات سورتیں ہیں ۔ سورۃ بقرہ ، سورۃ آل عمران ، سورۃ نسائ ، سورۃ مائدہ ، سورۃ انعام ، سورۃ اعراف اور سورہء یونس ، حضرت مجاہد مکحول ، عطیہ بن قیس ، ابو محمد فارسی ، شداد بن اوس ، یحییٰ بن حارث ذماری سے بھی یہی منقول ہے ۔ مقام نزول سورۃ بقرہ ساری کی ساری مدینہ شریف میں نازل ہوئی ہے اور شروع شروع جو سورتیں نازل ہوئیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے البتہ اس کی ایک آیت واتقوا یوما ترجعون فیہ الی اللہ یہ سب سے آخر نازل شدہ بتائی جاتی ہے یعنی قرآن کریم میں سب سے آخر یہ آیت نازل ہوئی ہے ۔ ممکن ہے کہ نازل بعد میں ہوئی ہو لیکن اسی میں ہے ۔ اور اسی طرح سود کی حرمت کی آیتیں بھی آخر میں نازل ہوئی ہیں ۔ حضرت خالد بن معدان سورہء بقرہ کو فسطاط القرآن یعنی قرآن کا خیمہ کہا کرتے تھے ۔ بعض علماء کا فرمان ہے کہ اس میں ایک ہزار خبریں ہیں اور ایک ہزار حکم ہیں اور ایک ہزار کاموں سے ممانعت ہے ۔ اس کی آیتیں دو سو ستاسی ہیں ۔ اس کے کلمات چھ ہزار دو سو اکیس ہیں ۔ اس کے حروف ساڑھے پچیس ہزار ہیں ۔ واللہ اعلم ۔ ابن عباس فرماتے ہیں یہ سورت مدنی ہے ۔ حضرت عبد بن زبیر اور حضرت زید بن ثابت اور بہت سے ائمہ علماء اور مفسرین سے بھی بلا اختلاف یہی مروی ہے ۔ ابن مردویہ کی ایک حدیث میں ہے کہ سورۃ بقرہ سورۃ آل عمران ، سورۃ النساء وغیرہ نہ کہا کرو بلکہ یوں کہو کہ وہ سورت جس میں بقرہ کا ذکر ہے ۔ وہ سورت جس میں آل عمران کا بیان ہے اور اسی طرح قرآن کی سب سورتوں کے نام لیا کرو ۔ لیکن یہ حدیث غریب ہے بلکہ اس کا فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہونا ہی صحیح نہیں ۔ اس کے راوی عیسیٰ بن میمون ابو سلمہ خواص ضعیف ہیں ۔ ان کی روایت سے سند نہیں لی جا سکتی ۔ اس کے برخلاف بخاری و مسلم میں حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے بطن وادی سے شیطان پر کنکر پھینکے ۔ بیت اللہ ان کی بائیں جانب تھا اور منیٰ دائیں طرف ۔ اور فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن پر سورۃ بقرہ اتری ہے ۔ اسی جگہ سے کنکر پھینکے تھے گو اس حدیث سے صاف ثابت ہو گیا ہے کہ سورۃ بقرہ وغیرہ کہنا جائز ہے لیکن مزید سنئے ۔ ابن مردویہ میں ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب میں کچھ سستی دیکھی تو انہیں یا اصحاب سورۃ بقرہ کہہ کر پکارا ۔ غالباً یہ غزوہ حنین والے دن کا ذکر ہے جب لشکر کے قدم اکھڑ گئے تھے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے حضرت عباس نے انہیں درخت والو یعنی اے بیعت الرضوان کرنے والو اور اے سورۃ بقرہ والو کہہ کر پکارا تھا تاکہ ان میں خوشی اور دلیری پیدا ہو ۔ چنانچہ اس آواز کے ساتھ ہی صحابہ ہر طرف سے دوڑ پڑے ۔ مسیلمہ جس نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا تھا ، اس کے ساتھ لڑنے کے وقت بھی جب قبیلہ بنو حنفیہ کی چیرہ دستیوں نے پریشان کر دیا اور قدم ڈگمگا گئے تو صحابہ نے اسی طرح لوگوں کو پکارا یا اصحاب سورۃ البقرہ ، اے سورۃ بقرہ والو ۔ اس آواز پر سب کے سب جمع ہوگئے اور جم کر لڑے یہاں تک کہ ان مرتدوں پر اللہ تعالیٰ نے اپنے لشکر کو فتح دی ۔ اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سب صحابہ سے خوش ہو