Surah

Information

Surah # 6 | Verses: 165 | Ruku: 20 | Sajdah: 0 | Chronological # 55 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 3, revealed at Arafat on Last Hajj
اَوَمَنۡ كَانَ مَيۡتًا فَاَحۡيَيۡنٰهُ وَجَعَلۡنَا لَهٗ نُوۡرًا يَّمۡشِىۡ بِهٖ فِى النَّاسِ كَمَنۡ مَّثَلُهٗ فِى الظُّلُمٰتِ لَـيۡسَ بِخَارِجٍ مِّنۡهَا‌ ؕ كَذٰلِكَ زُيِّنَ لِلۡكٰفِرِيۡنَ مَا كَانُوۡا يَعۡمَلُوۡنَ‏ ﴿122﴾
ایسا شخص جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کر دیا اور ہم نے اس کو ایک ایسا نور دے دیا کہ وہ اس کو لئے ہوئے آدمیوں میں چلتا پھرتا ہے کیا ایسا شخص اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے؟ جو تاریکیوں سے نکل ہی نہیں پاتا اسی طرح کافروں کو ان کے اعمال خوش نما معلوم ہوا کرتے ہیں ۔
او من كان ميتا فاحيينه و جعلنا له نورا يمشي به في الناس كمن مثله في الظلمت ليس بخارج منها كذلك زين للكفرين ما كانوا يعملون
And is one who was dead and We gave him life and made for him light by which to walk among the people like one who is in darkness, never to emerge therefrom? Thus it has been made pleasing to the disbelievers that which they were doing.
Aisa shaks jo pehlay murda tha phir hum ney uss ko zinda ker diya aur hum ney uss ko aik aisa noor dey diya kay woh iss ko liye huye aadmiyon mein chalta phirta hai. Kiya aisa shaks uss shaks ki tarah ho sakta hai? Jo tareekiyon say nikal hi nahi pata. Issi tarah kafiron ko unn kay aemaal khushnuma maloom hua kertay hain.
ذرا بتاؤ کہ جو شخص مردہ ہو ، پھر ہم نے اسے زندگی دی ہو ، اور اس کو ایک روشنی مہیا کردی ہو جس کے سہارے وہ لوگوں کے درمیان چلتا پھرتا ہو ( ٥٤ ) کیا وہ اس شخص کی طرح ہوسکتا ہے جس کا حال یہ ہو کہ وہ اندھیروں میں گھرا ہوا ہو جن سے کبھی نکل نہ پائے ؟ اسی طرح کافروں کو یہ سجھا دیا گیا ہے وہ جو کچھ کرتے رہے ہیں ، وہ بڑا خوشنما کام ہے ۔
اور کیا وہ کہ مردہ تھا تو ہم نے اسے زندہ کیا ( ف۲٤۳ ) اور اس کے لیے ایک نور کردیا ( ف۲٤٤ ) جس سے لوگوں میں چلتا ہے ( ف۲٤۵ ) وہ اس جیسا ہوجائے گا جو اندھیریوں میں ہے ( ف۲٤٦ ) ان سے نکلنے والا نہیں ، یونہی کافروں کی آنکھ میں ان کے اعمال بھلے کردیے گئے ہیں ،
کیا وہ شخص جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اسے زندگی بخشی 88 اور اس کو وہ روشنی عطا کی جس کے اجالے میں وہ لوگوں کے درمیان زندگی کی راہ طے کرتا ہے اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جو تاریکیوں میں پڑا ہوا ہو اور کسی طرح ان سے نہ نکلتا ہو؟ 89 کافروں کے لیے تو اسی طرح ان کے اعمال خوشنما بنا دیے گئے ہیں ، 90
بھلا وہ شخص جو مُردہ ( یعنی ایمان سے محروم ) تھا پھر ہم نے اسے ( ہدایت کی بدولت ) زندہ کیا اور ہم نے اس کے لئے ( ایمان و معرفت کا ) نور پیدا فرما دیا ( اب ) وہ اس کے ذریعے ( بقیہ ) لوگوں میں ( بھی روشنی پھیلانے کے لئے ) چلتا ہے اس شخص کی مانند ہو سکتا ہے جس کا حال یہ ہو کہ ( وہ جہالت اور گمراہی کے ) اندھیروں میں ( اس طرح گھِرا ) پڑا ہے کہ اس سے نکل ہی نہیں سکتا ۔ اسی طرح کافروں کے لئے ان کے وہ اعمال ( ان کی نظروں میں ) خوش نما دکھائے جاتے ہیں جو وہ انجام دیتے رہتے ہیں
سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :88 یہاں موت سے مراد جہالت و بے شعوری کی حالت ہے ، اور زندگی سے مراد علم و ادراک اور حقیقت شناسی کی حالت ۔ جس شخص کو صحیح اور غلط کی تمیز نہیں اور جسے معلوم نہیں کہ راہ راست کیا ہے وہ طبیعیات کے نقطہ نظر سے چاہے ذی حیات ہو مگر حقیقت کے اعتبار سے اس کو انسانیت کی زندگی میسر نہیں ہے ۔ وہ زندہ حیوان تو ضرور ہے مگر زندہ انسان نہیں ۔ زندہ انسان درحقیقت صرف وہ شخص ہے جسے حق اور باطل ، نیکی اور بدی ، راستی اور ناراستی کا شعور حاصل ہے ۔ سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :89 یعنی تم کس طرح یہ توقع کر سکتے ہو کہ جس انسان کو انسانیت کا شعور نصیب ہو چکا ہے اور جو علم کی روشنی میں ٹیڑھے راستوں کے درمیان حق کی سیدھی راہ کو صاف دیکھ رہا ہے وہ ان بے شعور لوگوں کی طرح دنیا میں زندگی بسر کرے گا جو نادانی و جہالت کی تاریکیوں میں بھٹکتے پھر رہے ہیں ۔ سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :90 یعنی جن لوگوں کے سامنے روشنی پیش کی جائے اور وہ اس کو قبول کرنے سے انکار کر دیں ، جنھیں راہ راست کی طرف دعوت دی جائے اور وہ اپنے ٹیڑھے راستوں ہی پر چلتے رہنے کو ترجیح دیں ، ان کے لیے اللہ کا قانون یہی ہے کہ پھر انہیں تاریکی ہی اچھی معلوم ہونے لگتی ہے ۔ وہ اندھوں کی طرح ٹٹول ٹٹول کر چلنا اور ٹھوکریں کھا کھا کر گرنا ہی پسند کرتے ہیں ۔ ان کو جھاڑیاں ہی باغ اور کانٹے ہی پھول نظر آتے ہیں ۔ انہیں ہر بدکاری میں مزا آتا ہے ، ہر حماقت کو وہ تحقیق سمجھتے ہیں ، اور ہر فساد انگیز تجربہ کے بعد اس سے بڑھ کر دوسرے فساد انگیز تجربے کے لیے وہ اس امید پر تیار ہو جاتے ہیں کہ پہلے اتفاق سے دہکتے ہوئے انگارے پر ہاتھ پڑ گیا تھا تو اب کے لعل بدخشاں ہاتھ آجائے گا ۔
مومن اور کافر کا تقابلی جائزہ مومن اور کافر کی مثال بیان ہو رہی ہے ایک تو وہ جو پہلے مردہ تھا یعنی کفر و گمراہی کی حالت میں حیران و سرگشتہ تھا اللہ نے اسے زندہ کیا ، ایمان و ہدایت بخشی اتباع رسول کا چسکا دیا قرآن جیسا نور عطا فرمایا جس کے منور احکام کی روشنی میں وہ اپنی زندگی گزارتا ہے اسلام کی نورانیت اس کے دل میں رچ گئی ہے ، دوسرا وہ جو جہالت و ضلالت کی تاریکیوں میں گھرا ہوا ہے جو ان میں سے نکلنے کی کوئی راہ نہیں پاتا کیا یہ دونوں برابر ہو سکتے ہیں؟ اسی طرح مسلم و کافر میں بھی تفاوت ہے نور و ظلمت کا فرق اور ایمان و کفر کا فرق ظاہر ہے اور آیت میں ہے ( اَللّٰهُ وَلِيُّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ۙيُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ ) 2 ۔ البقرۃ:257 ) ایمان داروں کا ولی اللہ تعالیٰ ہے وہ انہیں اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لاتا ہے اور کافروں کے ولی طاغوت ہیں جو انہیں نور سے ہٹا کر اندھیروں میں لے جاتے ہیں یہ ابدی جہنمی ہیں اور آیت میں ہے ( افمن یمشی مکبا علی وجھہ ) یعنی خمیدہ قامت والا ٹیڑھی راہ چلنے والا اور سیدھے قامت والا سیدھی راہ چلنے والا کیا برابر ہے؟ اور آیت میں ہے ان دونوں فرقوں کی مثال اندھے بہرے اور سنتے دیکھتے کی طرح ہے کہ دونوں میں فرق نمایاں ہے افسوس پھر بھی تم عبرت حاصل نہیں کرتے اور جگہ فرمان ہے اندھا اور بینا ، اندھیرا اور روشنی ، سایہ اور دوپ ، زندے اور مردے برابر نہیں ۔ اللہ جسے چاہے سنا دے لیکن تو قبر والوں کو سنا نہیں سکتا تو تو صرف آگاہ کر دینے والا ہے اور بھی آیتیں اس مضمون کی بہت سی ہیں اس سورت کے شروع میں ظلمات اور نور کا ذکر تھا اسی مناسبت سے یہاں بھی مومن اور کافر کی یہی مثال بیان فرمائی گئی بعض کہتے ہیں مراد اس سے وہ خاص معین شخص ہیں جیسے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہ یہ پہلے گمراہ تھے اللہ نے انہیں اسلامی زندگی بخشی اور انہیں نور عطا فرمایا جسے لے کر لوگوں میں چلتے پھرتے ہیں اور کہا گیا ہے کہ اس سے مراد حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں اور ظلمات میں جو پھنسا ہوا ہے اس سے مراد ابو جہل ہے ۔ صحیح یہی ہے کہ آیت عام ہے ہر مومن اور کافر کی مثال ہے ، کافروں کی نگاہ میں ان کی اپنی جہالت و ضلالت اسی طرح آراستہ و پیراستہ کر کے دکھائی جاتی ہے ۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر ہے کہ وہ اپنی برائیوں کو ہی اچھائیاں سمجھتے ہیں ۔ مسند کی ایک حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو اندھیرے میں پیدا کر کے پھر اپنا نور ان پر ڈالا جسے اس نور کا حصہ ملا اس نے دنیا میں آ کر راہ پائی اور جو وہاں محروم رہا وہ یہاں بھی بہکا ہی رہا ، جیسے فرمان ہے کہ اللہ نے اپنے بندوں کو اندھیروں سے اجالے کی طرف لے جاتا ہے اور جیسے فرمان ہے اندھا اور دیکھتا اور اندھیرا اور روشنی برابر نہیں ۔