Surah

Information

Surah # 7 | Verses: 206 | Ruku: 24 | Sajdah: 1 | Chronological # 39 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 163-170, from Madina
وَبَيۡنَهُمَا حِجَابٌ‌ۚ وَعَلَى الۡاَعۡرَافِ رِجَالٌ يَّعۡرِفُوۡنَ كُلًّاۢ بِسِيۡمٰٮهُمۡ‌ ۚ وَنَادَوۡا اَصۡحٰبَ الۡجَـنَّةِ اَنۡ سَلٰمٌ عَلَيۡكُمۡ‌ لَمۡ يَدۡخُلُوۡهَا وَهُمۡ يَطۡمَعُوۡنَ‏ ﴿46﴾
اور ان دونوں کے درمیان ایک آڑ ہوگی اور اعراف کے اوپر بہت سے آدمی ہونگے وہ لوگ ہر ایک کو ان کے قیافہ سے پہچانیں گے اور اہل جنت کو پکار کر کہیں گے السلامُ علیکم! ابھی یہ اہل اعراف جنت میں داخل نہیں ہوئے ہونگے اور اس کے امیدوار ہونگے ۔
و بينهما حجاب و على الاعراف رجال يعرفون كلا بسيمىهم و نادوا اصحب الجنة ان سلم عليكم لم يدخلوها و هم يطمعون
And between them will be a partition, and on [its] elevations are men who recognize all by their mark. And they call out to the companions of Paradise, "Peace be upon you." They have not [yet] entered it, but they long intensely.
Aur inn dono kay darmiyan aik aarr hogi aur aeyraaf kay upper boht say aadmi hongay woh log her aik ko unn kay qayafa say pehchaney gay aue ehal-e-jannat ko pukar ker kahen gay asslam-o-alaikum! Abhi yeh ehal-e-aeyraaf jannat mein dakhil nahi huye hongay aur iss kay umeed waar hongay.
اور ان دونوں گروہوں ( یعنی جنتیوں اور دوزخیوں ) کے درمیان ایک آڑ ہوگی اور اعراف پر ( یعنی اس آڑ کی بلندیوں پر ) کچھ لوگ ہوں گے جو ہر گروہ کے لوگوں کو ان کی علامتوں سے پہچانتے ہوں گے ۔ ( ٢٥ ) اور وہ جنت والوں کو آواز دے کر کہیں گے کہ : سلام ہو تم پر ۔ وہ ( اعراف والے ) خود تو اس میں داخل نہیں ہوئے ہوں گے ، البتہ اشتیاق کے ساتھ امید لگائے ہوئے ہوں گے ۔
اور جنت و دوزخ کے بیچ میں ایک پردہ ہے ( ف۸۰ ) اور اعراف پر کچھ مرد ہوں گے ( ف۸۱ ) کہ دونوں فریق کو ان کی پیشانیوں سے پہچانیں گے ( ف۸۲ ) اور وہ جنتیوں کو پکاریں گے کہ سلام تم پر یہ ( ف۸۳ ) جنت میں نہ گئے اور اس کی طمع رکھتے ہیں ،
ان دونوں گروہوں کے درمیان ایک اوٹ حائل ہوگی جس کی بلندیوں ﴿اَعراف﴾ پر کچھ اور لوگ ہوں گے ۔ یہ ہر ایک کو اس کے قیافہ سے پہچانیں گے اور جنّت والوں سے پکار کر کہیں گے کہ سلامتی ہو تم پر یہ لوگ جنّت میں داخل تو نہیں ہوئے مگر اس کے امیدوار ہوں گے ۔ 34
اور ( ان ) دونوں ( یعنی جنتیوں اور دوزخیوں ) کے درمیان ایک حجاب ( یعنی فصیل ) ہے ، اور اَعراف ( یعنی اسی فصیل ) پر کچھ مرد ہوں گے جو سب کو ان کی نشانیوں سے پہچان لیں گے ۔ اور وہ اہلِ جنت کو پکار کر کہیں گے کہ تم پر سلامتی ہو ۔ وہ ( اہلِ اَعراف خود ابھی ) جنت میں داخل نہیں ہوئے ہوں گے حالانکہ وہ ( اس کے ) امیدوار ہوں گے
سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :34 یعنی یہ اصحاب الاعراف وہ لوگ ہوں گے جن کی زندگی کا نہ تو مثبت پہلو ہی اتنا قوی ہوگا کہ جنت میں داخل ہو سکیں اور نہ منفی پہلو ہی اتنا خراب ہوگا کہ دوزخ میں جھونک دیے جائیں ۔ اس لیے وہ جنت اور دوزخ کے درمیان ایک سرحد پر رہیں گے ۔
جنت اور جہنم میں دیوار و حجاب جنتیوں اور دوزخیوں کی بات بیان فرما کر ارشاد ہوتا ہے کہ جنت دوزخ کے درمیان ایک اور حجاب حد فاصل اور دیوار ہے کہ دوزخیوں کو جنت سے فاصلے پر رکھے اسی دیوار کا ذکر آیت ( فَضُرِبَ بَيْنَهُمْ بِسُوْرٍ لَّهٗ بَابٌ ۭ بَاطِنُهٗ فِيْهِ الرَّحْمَةُ وَظَاهِرُهٗ مِنْ قِبَلِهِ الْعَذَاب13 ) 57- الحديد ) ، میں ہے یعنی ان کے درمیان ایک دیوار ہائل کر دی جائے گی جس میں ایک دروازہ ہے ۔ اس کے اندر رحمت ہے اور باہر عذاب ہے ۔ اسی کا نام ( اعراف ) ہے ۔ ( اعراف ) ( عرف ) کی جمع ہے ہر اونچی زمین کو عرب میں عرفہ کہتے ہیں اسی لئے مرغ کے سر کی کلنگ کو بھی عرب میں ( عرف الدیک ) کہا جاتا ہے کیونکہ اونچی جگہ ہوتا ہے ۔ ابن عباس فرماتے ہیں یہ ایک اونچی جگہ ہے جنت دوزخ کے درمیان جہاں کچھ لوگ روک دیئے جائیں گے ۔ سدی فرماتے ہیں اس کا نام اعراف اس لئے رکھا گیا ہے کہ یہاں کے لوگ اور لوگوں کو جانتے پہچانتے ہیں ۔ یہاں کون لوگ ہوں گے؟ اس میں بہت سے اقوال ہیں سب کا حاصل یہ ہے کہ وہ یہ لوگ ہوں گے جن کے گناہ اور نیکیاں برباد ہوں گی بعض سلف سے بھی یہی منقول ہے ۔ حضرت حذیفہ حضرت ابن عباس حضرت ابن مسعود وغیرہ نے یہی فرمایا ہے ۔ یہی بعد والے مفسرین کا قول ہے ۔ ایک مرفوع حدیث میں بھی ہے لیکن سنداً وہ حدیث غریب ہے اور سند سے مروی ہے کہ حضور سے جب ان لوگوں کی بابت جن کی نیکیاں بدیاں برابر ہوں اور جو اعراف والے ہیں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا یہ وہ نافرمان لوگ ہیں جو اپنے باپ کی اجازت بغیر پھر اللہ کی راہ میں قتل کر دیئے گئے اور روایت میں ہے کہ یہ لوگ اللہ کی راہ میں قتل کئے گئے اور اپنے والدین کے نافرمان تھے تو جنت میں جانے سے باپ کی نافرمانی نے روک دیا اور جہنم میں جانے سے شہادت نے روک دیا ۔ ابن ماجہ وغیرہ میں بھی یہ روایتیں ہیں ۔ اب اللہ ہی کو ان کی صحت کا علم ہے بہت ممکن ہے کہ یہ موقوف روایتیں ہوں ۔ بہر صورت ان سے اصحاب اعراف کا حال معلوم ہو رہا ہے ۔ حضرت حذیفہ سے جب ان کی بابت سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا یہ وہ لوگ ہیں جن کی نیکیاں بدیاں برابر برابر تھیں ۔ برائیوں کی وجہ سے جنت میں نہ جا سکے اور نیکیوں کی وجہ سے جہنم سے بچ گئے پس یہاں آڑ میں روک دیئے جائیں گے یہاں تک کہ اللہ کا فیصلہ ان کے بارے میں سرزد ہو اور آیت میں آپ سے مروی ہے کہ یہ دوزخیوں کو دیکھ دیکھ کر ڈر رہے ہوں گے اور اللہ سے نجات طلب کر رہے ہوں گے کہ ناگاہ انکا رب ان کی طرف دیکھے گا اور فرمائے گا جاؤ جنت میں داخل ہو جاؤ میں نے تمہیں بخشا ۔ حضرت ابن مسعود فرماتے ہیں قیامت کے دن لوگوں کا حساب ہو گا ایک نیکی بھی اگر برائیوں سے بڑھ گئی تو داخل جنت ہو گا اور ایک برائی بھی اگر نیکیوں سے زیادہ ہو گئی تو دوزخ میں جائے گا پھر آپ نے آیت ( فمن ثقلت موازینہ ) سے دو آیتوں تک تلاوت کیں اور فرمایا ایک رائی کے دانے کے برابر کی کمی زیادتی ہے میزان کا پلڑا ہلکا بھاری ہو جاتا ہے اور جن کی نیکیاں بدیاں برابر برابر ہوئیں یہ اعراف والے ہیں یہ ٹھہرا لئے جائیں گے اور جنتی دوزخی مشہور ہو جائیں گے یہ جب جنت کو دیکھیں گے تو اہل جنت پر سلام کریں گے اور جب جہنم کو دیکھیں گے تو اللہ سے پناہ طلب کریں گے ۔ نیک لوگوں کو نور ملے گا جو ان کے آگے اور ان کے داہنے موجود رہے گا ہر انسان کو وہ مرد ہوں خواہ عورتیں ہوں ایک نور ملے گا لیکن پل صراط پر منافقوں کا نور چھین لیا جائے گا اس وقت سچے مومن اللہ سے اپنے نور کے باقی رہنے کی دعائیں کریں گے ۔ اعراف والوں کا نور چھینا نہیں جائے گا وہ ان کے آگے آگے موجود ہو گا انہیں جنت میں جانے کی طمع ہو گی ، لوگوں ایک نیکی دس گنی کر کے لکھی جاتی ہے اور برائی اتنی ہی لکھی جاتی ہے جتنی ہو ، افسوس ان پر جن کی اکائیاں دہائیوں پر غالب آ جائیں ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ اعراف ایک دیوار ہے جو جنت دوزخ کے درمیان ہے اصحاب اعراف وہیں ہوں گے ۔ جب انہیں عافیت دینے کا اللہ کا ارادہ ہو گا تو حکم ملے گا انہیں ہر حیات کی طرف لے جاؤ اس کے دونوں کناروں پر سونے کے خیمے ہوں گے جو موتیوں سے مرصع ہوں گے اس کی مٹی مشک خالص ہو گی اس میں غوطہ لگاتے ہی ان کی رنگتیں نکھر جائیں گی اور ان کی گردنوں پر ایک سفید چمکیلا نشان ہو جائے گا جس سے وہ پہچان لئے جائیں یہ اللہ کے سامنے لائے جائیں گے اللہ تعالیٰ فرمائے گا جو چاہو مانگو یہ مانگیں گے یہاں تک کہ ان کی تمام تمنائیں اللہ تعالیٰ پوری کر دے گا پھر فرمائے گا ان جیسی ستر گنا اور نعمتیں بھی میں نے تمہیں دیں ۔ پھر یہ جنت میں جائیں گے ، وہ علامت ان پر موجود ہو گی جنت میں ان کا نام مساکین اہل جنت ہو گا ، یہی روایت حضرت مجاہد کے اپنے قول سے بھی مروی ہے اور یہی زیادہ صحیح ہے ۔ واللہ اعلم ۔ ایک حسن سند کی مرسل حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اعراف والوں کی نسبت دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ ان کا فیصلہ سب سے آخر میں ہو گا ، رب العالمیں جب اپنے بندوں کے فیصلے کر چکے گا تو ان سے فرمائے گا کہ تم لوگوں کو تمہاری نیکیوں نے دوزخ سے تو محفوظ کر لیا لیکن تم جنت میں جانے کے حقدار ثابت نہیں ہوئے اب تم کو میں اپنی طرف سے آزاد کرتا ہوں جاؤ جنت میں رہو سہو اور جہاں چاہو کھاؤ پیو ، یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ زنا کی اولاد ہیں ۔ ابن عساکر میں فرمان نبی ہے کہ مومن جنوں کو ثواب ہے اور ان میں سے جو برے ہیں انہیں عذاب بھی ہو گا ، ہم نے ان کے ثواب اور ان کے ایمانداروں کے بابت حضور سے دریافت کیا تو آپ نے فرمایا وہ اعراف میں ہوں گے جنت میں میری امت کے ساتھ نہ ہوں گے ہم نے پوچھا یا رسول اللہ اعراف کیا ہے؟ فرمایا جنت کا ایک باغ جہاں نہریں جاری ہیں اور پھل پک رہے ہیں ( بیہقی ) حضرت مجاہد فرماتے ہیں یہ صالح دینار فقہاء علما لوگ ہوں گے ابو مجاز فرماتے ہیں یہ فرشتے ہیں جنت دوزخ والوں کو جانتے ہیں پھر آپ نے ان آیتوں کے تلاوت کی اور فرمایا سب جنتی جنت میں جانے لگیں گے تو کہا جائے گا کہ تم امن و امان کے ساتھ بےخوف و خطر ہو کر جنت میں جاؤ ۔ اس کی سند گو ٹھیک ہے لیکن یہ قول بہت غریب ہے کیونکہ روانی عبارت بھی اس کے خلاف ہے اور جمہور کا قول ہی مقدم ہے کیونکہ آیت کے ظاہری الفاظ کے مطابق ہے ۔ حضرت مجاہد کا قول بھی جو اوپر بیان ہوا غرابت سے خالی نہیں واللہ اعلم ۔ قرطبی رحمتہ اللہ علیہ نے اس میں بارہ قول نقل کئے ہیں ۔ صلحاء ، انبیاء ، ملائیکہ وغیرہ ۔ یہ جنتیوں کو ان کے چہرے کی رونق اور سفیدی سے اور دوزخیوں کو ان کے چہرے کی سیاہی سے پہچان لیں گے یہ یہاں اسی لئے ہیں کہ ہر ایک کا امتیاز کرلیں اور سب کو پہچان لیں یہ جنتیوں سے سلام کریں گے جنتیوں کو دیکھ دیکھ کر اللہ کی پناہ چائیں گے اور طمع رکھیں گے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے انہیں بھی بہشت بریں میں پہنچا دے یہ طمع ان کے دل میں اللہ نے اسی لئے ڈالا ہے کہ اس کا ارادہ انہیں جنت میں لے جانے کا ہو چکا ہے ۔ جب وہ اہل دوزخ کو دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں کہ پروردگار ہمیں ظالموں میں سے نہ کر ۔ جب کوئی جماعت جہنم میں پہنچائی جاتی ہے تو یہ اپنے بچاؤ کی دعائیں کرنے لگتے ہیں جہنم سے ان کے چہرے کوئلے جیسے ہو جائیں گے لیکن جب جنت والوں کو دیکھیں گے تو یہ چیز چہروں سے دور ہو جائے گی جنتیوں کے چہروں کی پہچان نورانیت ہو گی اور دوزخیوں کے چہروں پر سیاہی اور آنکھوں میں بھینگا پن ہو گا ۔