Surah

Information

Surah # 7 | Verses: 206 | Ruku: 24 | Sajdah: 1 | Chronological # 39 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 163-170, from Madina
هَلۡ يَنۡظُرُوۡنَ اِلَّا تَاۡوِيۡلَهٗ‌ؕ يَوۡمَ يَاۡتِىۡ تَاۡوِيۡلُهٗ يَقُوۡلُ الَّذِيۡنَ نَسُوۡهُ مِنۡ قَبۡلُ قَدۡ جَآءَتۡ رُسُلُ رَبِّنَا بِالۡحَـقِّ‌ۚ فَهَلْ لَّـنَا مِنۡ شُفَعَآءَ فَيَشۡفَعُوۡا لَـنَاۤ اَوۡ نُرَدُّ فَنَعۡمَلَ غَيۡرَ الَّذِىۡ كُنَّا نَـعۡمَلُ‌ؕ قَدۡ خَسِرُوۡۤا اَنۡفُسَهُمۡ وَضَلَّ عَنۡهُمۡ مَّا كَانُوۡا يَفۡتَرُوۡنَ‏ ﴿53﴾
ان لوگوں کو اور کسی بات کا انتظار نہیں صرف اس کے اخیر نتیجہ کا انتظار ہے جس روز اس کا اخیر نتیجہ پیش آئے گا اور اس روز جو لوگ اس کو پہلے سے بھولے ہوئے تھے یوں کہیں گے کہ واقعی ہمارے رب کے پیغمبر سچی سچی باتیں لائے تھے سو اب کیا کوئی ہمارا سفارشی ہے کہ وہ ہماری سفارش کر دے یا کیا ہم پھر واپس بھیجے جاسکتے ہیں تاکہ ہم لوگ ان اعمال کے جن کو ہم کیا کرتے تھے برخلاف دوسرے اعمال کریں بیشک ان لوگوں نے اپنے آپ کو خسارہ میں ڈال دیا اور یہ جو جو باتیں تراشتے تھے سب گم ہوگئیں ۔
هل ينظرون الا تاويله يوم ياتي تاويله يقول الذين نسوه من قبل قد جاءت رسل ربنا بالحق فهل لنا من شفعاء فيشفعوا لنا او نرد فنعمل غير الذي كنا نعمل قد خسروا انفسهم و ضل عنهم ما كانوا يفترون
Do they await except its result? The Day its result comes those who had ignored it before will say, "The messengers of our Lord had come with the truth, so are there [now] any intercessors to intercede for us or could we be sent back to do other than we used to do?" They will have lost themselves, and lost from them is what they used to invent.
Inn logon ko aur kissi baat ka intizar nahi sirf iss kay akheet nateejay ka intizar hai jiss roz iss ka akheet nateeja paish aaye ga aur uss roz jo log iss ko pehlay say bhoolay huye thay yun kahen gay kay waqaee humaray rab kay payghumbar sachi sachi baaten laye thay so abb kiya koi humara sifarshi hai kay woh humari sifarish ker dey ya kiya hum phir wapis bhejay jaa saktay hain takay hum log unn aemaal kay jo hum kiya kertay thay bar khilaf doosray aemaal keren. Be-shak inn logon ney apney aap ko khasaray mein daal diya aur yeh jo jo baaten tarashtay thay sab gum hogaeen.
۔ ( اب ) یہ ( کافر ) اس آخری انجام کے سوا کس بات کے منتظر ہیں جو اس کتاب میں مذکور ہے ؟ ( ٢٧ ) ( حالانکہ ) جس دن وہ آخری انجام آگیا جو اس کتاب نے بتایا ہے ، اس دن یہ لوگ جو اس انجام کو پہلے بھلا چکے تھے ، یہ کہیں گے کہ : ہمارے پروردگار کے پیغمبر واقعی سچی خبر لائے تھے ، اب کیا ہمیں کچھ سفارشی میسر آسکتے ہیں جو ہماری سفارش کریں ، یا کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ ہمیں دوبارہ وہیں ( دنیا میں ) بھیج دیا جائے ، تاکہ ہم جو ( برے ) کام پہلے کرتے رہے ہیں ، ان کے برخلاف دوسرے ( نیک ) عمل کریں؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ اپنی جانوں کے لیے سخت گھاٹے کا سودا کرچکے ہیں ، اور جو ( دیوتا ) انہوں نے گھڑ رکھے ہیں ، انہیں ( اس دن ) ان کا کہیں سراغ نہیں ملے گا ۔
کاہے کی راہ دیکھتے ہیں مگر اس کی کہ اس کتاب کا کہا ہوا انجام سامنے آئے جس دن اس کا بتایا انجام واقع ہوگا ( ف۹۳ ) بول اٹھیں گے وہ جو اسے پہلے سے بھلائے بیٹھے تھے ( ف۹٤ ) کہ بیشک ہمارے رب کے رسول حق لائے تھے تو ہیں کوئی ہمارے سفارشی جو ہماری شفاعت کریں یا ہم واپس بھیجے جائیں کہ پہلے کاموں کے خلاف کام کریں ( ف۹۵ ) بیشک انہوں نے اپنی جانیں نقصان میں ڈالیں اور ان سے کھوئے گئے جو بہتان اٹھاتے تھے ( ف۹٦ )
اب کیا یہ لوگ اس کے سوا کسی اور بات کے منتظر ہیں کہ وہ انجام سامنے آجائے جس کی یہ کتاب خبر دے رہی ہے؟ 38 جس روز وہ انجام سامنے آگیا تو وہی لوگ جنہوں نے پہلے اسے نظر انداز کر دیا تھا کہیں گے کہ واقعی ہمارے رب کے رسول حق لے کر آئے تھے ، پھر کیا اب ہمیں کچھ سفارشی ملیں گے جو ہمارے حق میں سفارش کریں؟ یا ہمیں دوبارہ واپس ہی بھیج دیا جائے تاکہ جو کچھ ہم پہلے کرتے تھے اس کے بجائے اب دوسرے طریقے پر کام کر کے دکھائیں 39 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انہوں نے اپنے آپ کو خسارے میں ڈال دیا اور وہ سارے جھوٹ جو انہوں نے تصنیف کر رکھے تھے آج ان سے گم ہوگئے ۔ ؏ ٦
وہ صرف اس ( کہی ہوئی بات ) کے انجام کے منتظر ہیں ، جس دن اس ( بات ) کا انجام سامنے آجائے گا وہ لوگ جو اس سے قبل اسے بھلا چکے تھے کہیں گے: بیشک ہمارے رب کے رسول حق ( بات ) لے کر آئے تھے ، سو کیا ( آج ) ہمارے کوئی سفارشی ہیں جو ہمارے لئے سفارش کر دیں یا ہم ( پھر دنیا میں ) لوٹا دیئے جائیں تاکہ ہم ( اس مرتبہ ) ان ( اعمال ) سے مختلف عمل کریں جو ( پہلے ) کرتے رہے تھے ۔ بیشک انہوں نے اپنے آپ کو نقصان پہنچایا اور وہ ( بہتان و افتراء ) ان سے جاتا رہا جو وہ گھڑا کرتے تھے
سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :38 دوسرے الفاظ میں اس مضمون کو یوں سمجھیے کہ جس شخص کو صحیح اور غلط کا فرق نہایت معقول طریقہ سے صاف صاف بتایا جاتا ہے مگر وہ نہیں مانتا ، پھر اس کے سامنے کچھ لوگ صحیح راستہ پر چل کر مشاہدہ بھی کرا دیتے ہیں کہ غلط روی کے زمانے میں وہ جیسے کچھ تھے اس کی بہ نسبت راست روی اختیار کر کے ان کی زندگی کتنی بہتر ہو گئی ہے ، مگر اس سے بھی وہ کوئی سبق نہیں لیتا ، تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اب وہ صرف اپنی غلط روی کی سزا پا کر ہی مانے گا کہ ہاں یہ غلط روی تھی ۔ جو شخص نہ حکیم کے عاقلانہ مشوروں کو قبول کرتا ہے اور نہ اپنے جیسے بکثرت بیماروں کو حکیم کی ہدایات پر عمل کرنے کی وجہ سے شفایاب ہوتے دیکھ کر ہی کوئی سبق لیتا ہے ، وہ اب بستر مرگ پر لیٹ جانے کے بعد ہی تسلیم کرے گا کہ جن طریقوں پر وہ زندگی بسر کر رہا تھا وہ اس کے لیے واقعی مہلک تھے ۔ سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :39 یعنی وہ دوبارہ اس دنیا میں واپس آنے کی خواہش کریں گے اور کہیں گے کہ جس حقیقت کی ہمیں خبر دی گئی تھی اور اس وقت ہم نےنہ مانا تھا ، اب وہ مشاہدہ کر لینے کے بعد ہم اس سے واقف ہو گئے ہیں ، لہٰذا اگر ہمیں دنیا میں پھر بھیج دیا جائے تو ہمارا طرز عمل وہ نہ ہو گا جو پہلے تھا ۔ اس درخواست اور اس کےجوابات کے لیے ملاحظہ ہو الانعام ، آیات۲۷ ۔ ۲۸ ابراہیم ٤٤ ۔ ٤۵ السجدہ ١۲ ۔ ١۳ فاطر ۳۷ ۔ الزمر ۵٦ تا۵۹ ۔ المومن ۔ ١١ ۔ ١۲ ۔