Surah

Information

Surah # 7 | Verses: 206 | Ruku: 24 | Sajdah: 1 | Chronological # 39 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 163-170, from Madina
اِنَّ رَبَّكُمُ اللّٰهُ الَّذِىۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ فِىۡ سِتَّةِ اَيَّامٍ ثُمَّ اسۡتَوٰى عَلَى الۡعَرۡشِ يُغۡشِى الَّيۡلَ النَّهَارَ يَطۡلُبُهٗ حَثِيۡثًا ۙ وَّالشَّمۡسَ وَالۡقَمَرَ وَالنُّجُوۡمَ مُسَخَّرٰتٍۢ بِاَمۡرِهٖ ؕ اَلَا لَـهُ الۡخَـلۡقُ وَالۡاَمۡرُ‌ ؕ تَبٰرَكَ اللّٰهُ رَبُّ الۡعٰلَمِيۡنَ‏ ﴿54﴾
بیشک تمہارا رب اللہ ہی ہے جس نے سب آسمانوں اور زمین کو چھ روز میں پیدا کیا ہے پھر عرش پر قائم ہوا وہ شب سے دن کو ایسے طور پر چھپا دیتا ہے کہ کہ وہ شب اس دن کو جلدی سے آ لیتی ہے اور سورج اور چاند اور دوسرے ستاروں کو پیدا کیا ایسے طور پر کہ سب اس کے حکم کے تابع ہیں ۔ یاد رکھو اللہ ہی کے لئے خاص ہے خالق ہونا اور حاکم ہونا بڑی خوبیوں سے بھرا ہوا ہے اللہ جو تمام عالم کا پروردگار ہے ۔
ان ربكم الله الذي خلق السموت و الارض في ستة ايام ثم استوى على العرش يغشي اليل النهار يطلبه حثيثا و الشمس و القمر و النجوم مسخرت بامره الا له الخلق و الامر تبرك الله رب العلمين
Indeed, your Lord is Allah , who created the heavens and earth in six days and then established Himself above the Throne. He covers the night with the day, [another night] chasing it rapidly; and [He created] the sun, the moon, and the stars, subjected by His command. Unquestionably, His is the creation and the command; blessed is Allah , Lord of the worlds.
Be-shak tumhara rab Allah hi hai jiss ney sab aasmanon aur zamin ko cheh roz mein peda kiya hai phir arsh per qaeem hua. Woh shab say din ko aisay tor per chupa deta hai kay woh shab uss din ko jaldi aa leti hai aur sooraj aur chand aur doosray sitaron ko peda kiya aisay tor per kay sab uss kay hukum kay tabey hain. Yaad rakho Allah hi kay liye khas hai khaliq hona aur haakim hona bari khoobiyon say bhara hua hai Allah jo tamam aalam ka perwerdigar hai.
یقینا تمہارا پروردگار وہ اللہ ہے جس نے سارے آسمان اور زمین چھ دن میں بنائے ۔ ( ٢٨ ) پھر اس نے عرش پر استواء فرمایا ۔ ( ٢٩ ) وہ دن کو رات کی چادر اڑھا دیتا ہے ، جو تیز رفتاری سے چلتی ہوئی اس کو آدبوچتی ہے ۔ اور اس نے سورج اور چاند تارے پیدا کیے ہیں جو سب اس کے حکم کے آگے رام ہیں ۔ یاد رکھو کہ پیدا کرنا اور حکم دینا سب اسی کا کام ہے ۔ بڑی برکت والا ہے اللہ جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے ۔
بیشک تمہارا رب اللہ ہے جس نے آسمان اور زمین ( ف۹۷ ) چھ دن میں بنائے ( ف۹۸ ) پھر عرش پر استواء فرمایا جیسا اس کی شان کے لائق ہے ( ف۹۹ ) رات دن کو ایک دوسرے سے ڈھانکتا ہے کہ جلد اس کے پیچھے لگا آتا ہے اور سورج اور چاند اور تاروں کو بنایا سب اس کے حکم کے دبے ہوئے ، سن لو اسی کے ہاتھ ہے پیدا کرنا اور حکم دینا ، بڑی برکت والا ہے اللہ رب سارے جہان کا ،
درحقیقت تمہارا ربّ اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا 40 ، پھر اپنے تختِ سلطنت پر جلوہ فرما ہوا ۔ 41 جو رات کو دن پر ڈھانک دیتا ہے اور پھر دن رات کے پیچھے دوڑا چلا آتا ہے ۔ جس نے سورج اور چاند اور تارے پیدا کیے ۔ سب اس کے فرمان کے تابع ہیں ۔ خبردار رہو ! اسی کی خلق ہے اور اسی کا امر ہے 42 ۔ بڑا با برکت ہے اللہ 43 سارے جہانوں کا مالک و پروردگار ۔
بیشک تمہارا رب اﷲ ہے جس نے آسمانوں اور زمین ( کی کائنات ) کو چھ مدتوں ( یعنی چھ اَدوار ) میں پیدا فرمایا پھر ( اپنی شان کے مطابق ) عرش پر استواء ( یعنی اس کائنات میں اپنے حکم و اقتدار کے نظام کا اجراء ) فرمایا ۔ وہی رات سے دن کو ڈھانک دیتا ہے ( درآنحالیکہ دن رات میں سے ) ہر ایک دوسرے کے تعاقب میں تیزی سے لگا رہتا ہے اور سورج اور چاند اور ستارے ( سب ) اسی کے حکم ( سے ایک نظام ) کے پابند بنا دیئے گئے ہیں ۔ خبردار! ( ہر چیز کی ) تخلیق اور حکم و تدبیر کا نظام چلانا اسی کا کام ہے ۔ اﷲ بڑی برکت والا ہے جو تمام جہانوں کی ( تدریجاً ) پرورش فرمانے والا ہے
سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :40 یہاں دن کا لفظ یا تو اسی چوبیس گھنٹے کے دن کا ہم معنی ہے جسے دنیا کے لوگ دن کہتے ہیں ، یا پھر یہ لفظ دور ( Period ) کے معنی میں استعمال ہوا ہے ، جیسا کہ سورة الحج آیت نمبر ٤۷ میں فرمایا وَاِنَّ یَوْمًاعِنْدَرَبِّکِ کَاَلْفِ سَنَةٍمِمَّاتَعُدُّوْنَ ( اور حقیقت یہ ہے کہ تیرے رب کے ہاں ایک دن ہزار سال کے برابر ہے اس حساب سے جو تم لوگ لگاتے ہو ) ، اور سورة مارج کی آیت ٤ میں فرمایا کہ تَعْرُجُ الْمَلٰئِکَةُوَالرُّوْحُ اِلَیْہِ فِیْ یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہ خَمْسِیْنَ اَلْفَ سَنَةٍ ( فرشتے اور جبرائیل اس کی طرف ایک دن میں چڑھتے ہیں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کی ہے ) ۔ اس کا صحیح مفہوم اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو حٰم السجدہ حواشی ١١ تا ١۵ ) سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :41 خد ا کے استواء علی العرش ( تخت سلطنت پر جلوہ فرما ہونے ) کی تفصیلی کیفیت کو سمجھنا ہمارے لیے مشکل ہے ۔ بہت ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات کی تخلیق کے بعد کسی مقام کو اپنی اس لامحدود سلطنت کا مرکز قرار دے کر اپنی تجلیات کو وہاں مرتکز فرمادیا ہو اور اسی کا نام عرش ہو جہاں سے سارے عالم پر موجود اور قوت کا فیضان بھی ہو رہا ہے اور تدبیر امر بھی فرمائی جا رہی ہے ۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ عرش سے مراد اقتدار فرماں روائی ہو اور اس پر جلوہ فرما ہونے سے مراد یہ ہو کہ اللہ نے کائنات کو پیدا کر کے اس کی زمام سلطنت اپنے ہاتھ میں لی ۔ بہر حال استواء علی العرش کا تفصیلی مفہوم خواہ کچھ بھی ہو ، قرآن میں اس کے ذکر کا اصل مقصد یہ ذہن نشین کرنا ہے کہ اللہ تعالیٰ محض خالق کائنات ہی نہیں ہے بلکہ مدبّر کائنات بھی ہے ۔ وہ دنیا کو وجود میں لانے کے بعد اس سے بے تعلق ہو کر کہیں بیٹھ نہیں گیا ہے بلکہ عملاً وہی سارے جہان کے جز و کل پر فرماں روائی کر رہا ہے ۔ سلطانی و حکمرانی کے تمام اختیارات بالفعل اس کے ہاتھ میں ہیں ہر چیز اس کے امر کی تابع ہے ، ذرّہ ذرّہ اس کے فرمان کا مطیع ہے اور موجودات کی قسمتیں دائماً اس کے حکم سے وابستہ ہیں ۔ اس طرح قرآن اس کی بنیادی غلط فہمی کی جڑ کاٹنا چاہتا ہے جس کی وجہ سے انسان کبھی شرک کی گمراہی میں مبتلا ہوا ہے اور کبھی خود مختیاری و خود سری کی ضلالت میں ۔ خدا کو کائنات کے انتظام سے عملاً بے تعلق سمجھ لینے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ آدمی یا تو اپنی قسمت کو دوسرں سے وابستہ سمجھے اور ان کے آگے سر جھکادے ، یا بھر اپنی قسمت کا مالک خود اپنے آپ کو سمجھے اور خود مختار بن بیٹھے ۔ یہاں ایک اور بات اور قابل توجہ ہے ۔ قرآن مجید میں خدا اور خلق کے تعلق کو واضح کرنے کے لیے انسانی زبان میں سے زیادہ تر وہ الفاظ ، مصطلحات ، استعارے اور انداز بیان انتخاب کیے گئے ہیں جو سلطنت و بادشاہی سے تعلق رکھتے ہیں ۔ یہ طرز بیان قرآن میں اس قدر نمایاں ہے کہ کوئی شخص جو سمجھ کر قرآن کو پڑھتا ہو اسے محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ بعض کم فہم ناقدین کے معکوس دماغوں نے اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ یہ کتاب جس عہد کی ”تصنیف “ہے اس زمانہ میں انسان کے ذہن پر شاہی نظام کا تسلط تھا اس لیے مصنف نے ( جس سے مراد ان ظالموں کے نزدیک محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ) خدا کو بادشاہ کے رنگ میں پیش کیا ۔ حالانکہ دراصل قرآن جس دائمی و ابدی حقیقت کو پیش کر رہا ہے وہ اس کے برعکس ہے ۔ وہ حقیقت یہ ہے کہ زمین اور آسمانوں میں پادشاہی صرف ایک ذات کی ہے ، اور حاکمیت ( Sovereignity ) جس شے کا نام ہے وہ اسی ذات کے لیے خاص ہے ، اور یہ نظام کائنات ایک کامل مرکزی نظام ہے جس میں تمام اختیارات کو وہی ایک ذات استعمال کر رہی ہے ، لہذا اس نظام میں جو شخص یا گروہ اپنی یا کسی اور کی جزوی یا کُلّی حاکمیت کا مدعی ہے وہ محض فریب میں مبتلا ہے ۔ نیز یہ کہ اس نظام کے اندر رہتے ہوئے انسان کے لیے اس کے سوا کوئی دوسرا رویہ صحیح نہیں ہو سکتا کہ اسی ایک ذات کو مذہبی معنوں میں واحد معبود بھی مانے اور سیاسی و تمدنی معنوں میں واحد سلطان ( Sovereign ) بھی تسلیم کرے ۔ سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :42 یہ اسی مضمون کی مزید تشریح ہے جو”استواء علی العرش“ کے الفاظ میں مجملاً بیان کیا گیا تھا ۔ یعنی یہ کہ خدا محض خالق ہی نہیں آمر اور حاکم بھی ہے ۔ اس نے اپنی خلق کو پیدا کر کے نہ تو دوسروں کے حوالے کر دیا کہ وہ اس میں حکم چلائیں ، اور نہ پوری خلق کو یا اس کے کسی حصّے کو خود مختار بنا دیا ہے کہ جس طرح چاہے خود کام کرے ۔ بلکہ عملاً تمام کائنات کی تدبیر خدا کے اپنے ہاتھ میں ہے ۔ لیل ونہار کی گردش آپ سے آپ نہیں ہو رہی ہے بلکہ خدا کے حکم سے ہو رہی ہے ، جب چاہے اسے روک دے اور جب چاہے اس کے نظام کو تبدیل کر دے ۔ سورج اور چاند اور تارے خود کسی طاقت کے مالک نہیں ہیں بلکہ خدا کے ہاتھ میں بالکل مسخّر ہیں اور مجبور غلاموں کی طرح بس وہی کام کیے جا رہے ہیں جو خدا ان سے لے رہا ہے ۔ سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :43 برکت کے اصل معنی ہیں نمو ، افزائش اور بڑھوتری کے ، اور اسی کے ساتھ اس لفظ میں رفعت و عظمت کا مفہوم بھی ہے اور ثبات اور جماؤ کا بھی ۔ پھر ان سب مفہومات کے ساتھ خیر اور بھلائی کا تصورّ لازماً شامل ہے ۔ پس اللہ کے نہایت بابرکت ہونے کا مطلب یہ ہوا کہ اس کی خوبیوں اور بھلائیوں کی کوئی حد نہیں ہے ، بے حد و حساب خیرات اس کی ذات سے پھیل رہی ہیں ، اور وہ بہت بلند و برتر ہستی ہے ، کہیں جا کر اس کی بلندی ختم نہیں ہوتی ، اور اس کی یہ بھلائی اور رفعت مستقل ہے ، عارضی نہیں ہے کہ کبھی اس کو زوال ہو ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو ، الفرقان ، حواشی ۔ ١ ۔ ١۹ ) ۔
اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بہت سی آیتوں میں یہ بیان ہوا ہے کہ آسمان و زمین اور کل مخلوق اللہ تعالیٰ نے چھ دن میں بنائی ہے یعنی اتوار سے جمعہ تک ۔ جمعہ کے دن ساری مخلوق پیدا ہو چکی ۔ اسی دن حضرت آدم پیدا ہوئے یا تو یہ دن دنیا کے معمولی دنوں کے برابر ہی تھے جیسے کہ آیت کے ظاہری الفاظ سے فی الفور سمجھا جاتا ہے یا ہر دن ایک ہزار سال کا تھا جیسے کہ حضرت مجاہد کا قول ہے اور حضرت امام احمد بن حنبل کا فرمان ہے اور بروایت ضحاک ابن عباس کا قول ہے ۔ ہفتہ کے دن کوئی مخلوق پیدا نہیں ہوئی ۔ اسی لئے اس کا نام عربی میں ( یوم السبت ) ہے ( سبت ) کے معنی قطع کرنے ختم کرنے کے ہیں ۔ ہاں مسند احمد نسائی اور صحیح مسلم میں جو حدیث ہے کہ اللہ نے مٹی کو ہفتہ کے دن پیدا کیا اور پہاڑوں کو اتوار کے دن اور درختوں کو پیر کے دن اور برائیوں کو منگل کے دن اور نور کو بدھ کے دن اور جانوروں کو جمعرات کے دن اور آدم کو جمعہ کے دن عصر کے بعد دن کی آخری گھڑی میں عصر سے لے کر مغرب تک ۔ حضور نے حضرت ابو ہریرہ کا ہاتھ پکڑ کر یہ گنوایا ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سات دن تک پیدائش کا سلسلہ جاری رہا حالانکہ قرآن میں موجود ہے کہ چھ دن میں پیدائش ختم ہوئی ۔ اسی وجہ سے امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ وغیرہ زبردست حفاظ حدیث نے اس حدیث پر کلام کیا ہے اور فرمایا ہے کہ یہ عبارت حضرت ابو ہریرہ نے کعب احبار سے لی ہے فرمان رسول نہیں ہے واللہ اعلم ۔ پھر فرماتا ہے کہ وہ اپنے عرش پر مستوی ہوا ۔ اس پر لوگوں نے بہت کچھ چہ میگوئیاں کی ہیں ۔ جنہیں تفصیل سے بیان کرنے کی یہ جگہ نہیں ۔ مناسب یہی ہے کہ اس مقام میں سلف صالحین کی روش اختیار کی جائے ۔ جیسے امام مالک ، امام اوزاعی ، امام ثوری ، امام لیث ، امام شافعی ، امام احمد ، امام اسحاق بن راہویہ وغیرہ وغیرہ ائمہ سلف وخلف رحمہم اللہ ۔ ان سب بزرگان دین کا مذہب یہی تھا کہ جیسی یہ آیت ہے اسی طرح اسے رکھا جائے بغیر کیفیت کے ، بغیر تشبیہ کے اور بغیر مہمل چھوڑنے کے ، ہاں مشبہین کے ذہنوں میں جو چیز آ رہی ہے اس سے اللہ تعالیٰ پاک اور بہت دور ہے اللہ کے مشابہ اس کی مخلوق میں سے کوئی نہیں ۔ فرمان ہے آیت ( لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ ۚ وَهُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ 11 ؀ ) 42- الشورى:11 ) اس کے مثل کوئی نہیں اور وہ سننے دیکھنے والا ہے ۔ بلکہ حقیقت یہی ہے جو ائمہ کرام رحمتہ اللہ علیہم نے فرمائی ہے انہی میں سے حضرت نعیم بن حماد خزاعی رحمتہ اللہ علیہ ہیں ۔ آپ حضرات امام بخاری کے استاد ہیں فرماتے ہیں جو شخص اللہ کو مخلوق سے تشبیہ دے وہ کافر ہے اور جو شخص اللہ کے اس وصف سے انکار کرے جو اس نے اپنی ذات پاک کیلئے بیان فرمایا ہے وہ بھی کافر ہے ۔ خود اللہ تعالیٰ نے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو اوصاف ذات باری تعالیٰ جل شانہ کے بیان فرمائے ہیں ان میں ہرگز تشبیہ نہیں ۔ پس صحیح ہدایت کے راستے پر وہی ہے جو آثار صحیحہ اور اخبار صریحہ سے جو اوصاف رب العزت وحدہ لاشریک لہ کے ثابت ہیں انہیں اسی طرح جانے جو اللہ کی جلالت شان کے شیان ہے اور ہر عیب و نقصان سے اپنے رب کو پاک اور مبرا و منزہ سمجھے ۔ پھر فرمان ہے کہ رات کا اندھیرا دن کے اجالے سے اور دن کا اجالا رات کے اندھیرے سے دور ہو جاتا ہے ، ہر ایک دوسرے کے پیچھے لپکا چلا آتا ہے یہ گیا وہ آیا وہ گیا یہ آیا ۔ جیسے فرمایا آیت ( وایتہ لھم الیل ) الخ ، ان کے سمجھنے کیلئے ہماری ایک نشانی رات ہے کہ اس میں سے ہم دن کو نکالتے ہیں جس سے یہ اندھیرے میں آ جاتے ہیں ۔ سورج اپنے ٹھکانے کی طرف برابر جا رہا ہے یہ ہے اندازہ اللہ کا مقرر کیا ہوا جو غالب اور باعلم ہے ۔ ہم نے چاند کی بھی منزلیں ٹھہرا دی ہیں یہاں تک کہ وہ کھجور کی پرانی ٹہنی جیسا ہو کر رہ جاتا ہے ۔ نہ آفتاب ماہتاب سے آگے نکل سکتا ہے نہ رات دن سے پہلے آ سکتی ہے ۔ سب کے سب اپنے اپنے مدار میں تیرتے پھرتے ہیں ۔ رات دن میں کوئی فاصلہ نہیں ایک کا جانا ہی دوسرے کا آجانا ہے ہر ایک دوسرے کے برابر پیچھے ہے آیت ( والشمس والقمر والنجوم ) کو بعض نے پیش سے بھی پڑھا ہے ۔ معنی مطلب دونوں صورتوں میں قریب قریب برابر ہے ۔ یہ سب اللہ کے زیر فرمان ، اس کے ماتحت اور اس کے ارادے میں ہیں ۔ ملک اور تصرف اسی کا ہے ۔ وہ برکتوں والا اور تمام جہان کا پالنے والا ہے ۔ فرمان ہے آیت ( تَبٰرَكَ الَّذِيْ جَعَلَ فِي السَّمَاۗءِ بُرُوْجًا وَّجَعَلَ فِيْهَا سِرٰجًا وَّقَمَرًا مُّنِيْرًا 61؀ ) 25- الفرقان:61 ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جس کسی نے کسی نیک پر اللہ کی حمد نہ کی بلکہ اپنے نفس کو سراہا اس نے کفر کیا اور اس کے اعمال غارت ہوئے اور جس نے یہ عقیدہ رکھا کہ اللہ نے کچھ اختیارات اپنے بندوں کو بھی دیئے ہیں اس نے اس کے ساتھ کفر کیا جو اللہ نے اپنے نبیوں پر نازل فرمایا ہے کیونکہ اس کا فرمان ہے آیت ( اَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ ۭ تَبٰرَكَ اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ 54؀ ) 7- الاعراف:54 ) ( ابن جریر ) ایک مرفوع دعا رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بھی مروی ہے کہ آپ فرماتے تھے دعا ( اللھم لک الملک کلہ ولک الحمد کلہ والیک یرجع الامر کلہ اسألک من الخیر کلہ و اعوذ بک من الشر کلہ ) یا اللہ سارا ملک تیرا ہی ہے سب حمد تیرے لئے ہی ہے سب کام تیری ہی طرف لوٹتے ہیں میں تجھ سے تمام بھلائیاں طلب کرتا ہوں اور ساری برائیوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں ۔