Surah

Information

Surah # 7 | Verses: 206 | Ruku: 24 | Sajdah: 1 | Chronological # 39 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 163-170, from Madina
اُدۡعُوۡا رَبَّكُمۡ تَضَرُّعًا وَّخُفۡيَةً‌ ؕ اِنَّهٗ لَا يُحِبُّ الۡمُعۡتَدِيۡنَ‌ ۚ‏ ﴿55﴾
تم لوگ اپنے پروردگار سے دعا کیا کرو گڑ گڑا کر بھی اور چپکے چپکے بھی واقعی اللہ تعالٰی ان لوگوں کو نا پسند کرتا ہے جو حد سے نکل جائیں ۔
ادعوا ربكم تضرعا و خفية انه لا يحب المعتدين
Call upon your Lord in humility and privately; indeed, He does not like transgressors.
Tum log apney perwerdigar say dua kiya kero girr gira kerkay bhi aur chupkay chupkay bhi. Waqaee Allah Taalaa unn logon ko na pasand kerta hai jo hadd say nikal jayen.
تم اپنے پروردگار کو عاجزی کے ساتھ چپکے چپکے پکارا کرو ۔ یقینا وہ حد سے گذرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔ ( ٣٠ )
اپنے رب سے دعا کرو گڑگڑاتے اور آہستہ ، بیشک حد سے بڑھنے والے اسے پسند نہیں ، ( ف۱۰۰ )
اپنے رب کو پکارو گِڑ گِڑاتے ہوئے اور چپکے چپکے ، یقینا وہ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔
تم اپنے رب سے گڑگڑا کر اور آہستہ ( دونوں طریقوں سے ) دعا کیا کرو ، بیشک وہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا
انسان دعا مانگے قبول ہوگی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو دعا کی ہدایت کرتا ہے جس میں ان کی دنیا اور آخرت کی بھلائی ہے ۔ فرماتا ہے کہ اپنے پروردگار کو عاجزی ، مسکینی اور آہستگی سے پکارو جیسے فرمان ہے آیت ( واذکر ربک فی نفسک ) الخ ، اپنے رب کو اپنے نفس میں یاد کر ۔ بخاری و مسلم میں حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ لوگوں نے دعا میں اپنی آوازیں بہت بلند کر دیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگو اپنی جانوں پر رحم کرو تم کسی بہرے کو یا غائب کو نہیں پکار رہے جسے تم پکار رہے ہو وہ بہت سننے والا اور بہت نزدیک ہے ۔ ابن عباس سے مروی ہے کہ پوشیدگی مراد ہے ، امام ابن جریر فرماتے ہیں ( تضرعا ) کے معنی ذلت مسکینی اور اطاعت گذاری کے ہیں اور ( خفیتہ ) کے معنی دلوں کے خشوع خضوع سے ، یقین کی صحت سے ، اس کی وحدانیت اور ربوبیت کا اس کے اور اپنے درمیان یقین رکھتے ہوئے پکارو نہ کہ ریا کاری کے ساتھ بہت بلند آواز سے ۔ حضرت حسن رحمتہ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ لوگ حافظ قرآن ہوتے تھے اور کسی کو معلوم بھی نہیں ہوتا تھا ، لوگ بہت بڑے فقیہہ ہو جاتے تھے اور کوئی جانتا بھی نہ تھا لوگ لمبی لمبی نمازیں اپنے گھروں میں پڑھتے تھے اور مہمانوں کو بھی پتہ نہ چلتا تھا ۔ یہ وہ لوگ تھے کہ جہاں تک ان کے بس میں ہوتا تھا اپنی کسی نیکی کو لوگوں پر ظاہر نہیں ہونے دیتے تھے ۔ پوری کوشش سے دعائیں کرتے تھے لیکن اس طرح جیسے کوئی سرگوشی کر رہا ہو یہ نہیں کہ چیخیں چلائیں ۔ یہی فرمان رب ہے کہ اپنے رب کو عاجزی اور آہستگی سے پکارو ۔ دیکھو اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک نیک بندے کا ذکر کیا جس سے وہ خوش تھا کہ اس نے اپنے رب کو خفیہ طور پر پکارا ۔ امام ابن جریج فرماتے ہیں دعا میں بلند آواز ، ندا اور چیخنے کو مکروہ سمجھا جاتا تھا بلکہ گریہ وزاری اور آہستگی کا حکم دیا جاتا تھا ۔ ابن عباس فرماتے ہیں دعا وغیرہ میں حد سے گذر جانے والون کو اللہ دوست نہیں رکھتا ۔ ابو مجاز کہتے ہیں مثلاً اپنے لئے نبی بن جانے کی دعا کرنا وغیرہ ۔ حضرت سعد نے سنا کہ ان کا لڑکا اپنی دعا میں کہہ رہا ہے کہ اے اللہ میں تجھ سے جنت اور اس کی نعمتیں اور اس کے ریشم و حریر وغیرہ وغیرہ طلب کرتا ہوں اور جہنم ، اس کی زنجیروں اور اس کے طوق وغیرہ سے تیری پناہ چاہتا ہوں ۔ تو آپ نے فرمایا تو نے اللہ سے بہت سی بھلائیاں طلب کیں اور بہت سی برائیوں سے پناہ چاہی ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ فرماتے تھے کہ عنقریب کچھ لوگ ہوں گے جو دعا میں حد سے گذر جایا کریں گے ۔ ایک سند سے مروی ہے کہ وہ دعا مانگنے میں اور وضو کرنے میں حد سے نکل جائیں گے پھر آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی اور فرمایا تجھے اپنی دعا میں یہی کہنا کافی ہے کہ اے اللہ میں تجھ سے جنت اور جنت سے قریب کرنے والے قول و فعل کی توفیق طلب کرتا ہوں اور جہنم اور اس سے نزدیک کرنے والے قول و فعل سے تیری پناہ چاہتا ہوں ( ابو داؤد ) ابن ماجہ وغیرہ میں ہے ان کے صاحبزادے اپنی دعا میں یہ کہہ رہے تھے کہ یا اللہ جنت میں داخل ہونے کے بعد جنت کی دائیں جانب کا سفید رنگ کا عالیشان محل میں تجھ سے طلب کرتا ہوں ۔ پھر زمین پر امن و امان کے بعد فساد کرنے کو منع فرما رہا ہے کیونکہ اس وقت کا فساد خصوصیت سے زیادہ برائیاں پیدا کرتا ہے ۔ پس اللہ اسے حرام قرار دیتا ہے اور اپنی عبادت کرنے کا ، دعا کرنے کا ، مسکینی اور عاجزی کرنے کا حکم دیتا ہے کہ اللہ کو اس کے عذابوں سے ڈر کر اور اس کی نعمتوں کے امیدوار بن کر پکارو ۔ اللہ کی رحمت نیکو کاروں کے سروں پر منڈلا رہی ہے ۔ جو اس کے احکام بجا لاتے ہیں اس کے منع کردہ کاموں سے باز رہتے ہیں جیسے فرمایا آیت ( وَرَحْمَتِيْ وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ ۭ فَسَاَكْتُبُهَا لِلَّذِيْنَ يَتَّقُوْنَ وَيُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَالَّذِيْنَ هُمْ بِاٰيٰتِنَا يُؤْمِنُوْنَ ١٥٦؀ۚ ) 7- الاعراف:156 ) یوں تو میری رحمت تمام چیزوں کو گھیرے ہوئے ہے لیکن میں اسے مخصوص کر دونگا پرہیزگار لوگوں کے لئے ۔ چونکہ رحمت ثواب کی ضامن ہوتی ہے اس لئے قریب کہا قریبتہ نہ کہا یا اس لئے کہ وہ اللہ کی طرف مضاف ہے ۔ انہوں نے اللہ کے وعدوں کا سہارا لیا ۔ اللہ نے اپنا فیصلہ کر دیا کہ اس کی رحمت بالکل قریب ہے ۔