Surah

Information

Surah # 7 | Verses: 206 | Ruku: 24 | Sajdah: 1 | Chronological # 39 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 163-170, from Madina
وَلَا تُفۡسِدُوۡا فِى الۡاَرۡضِ بَعۡدَ اِصۡلَاحِهَا وَادۡعُوۡهُ خَوۡفًا وَّطَمَعًا‌ ؕ اِنَّ رَحۡمَتَ اللّٰهِ قَرِيۡبٌ مِّنَ الۡمُحۡسِنِيۡنَ‏ ﴿56﴾
اور دنیا میں اس کے بعد کہ اس کی درستی کر دی گئی ہے فساد مت پھیلاؤ اور تم اللہ کی عبادت کرو اس سے ڈرتے ہوئے اور امیدوار رہتے ہوئے بیشک اللہ تعالٰی کی رحمت نیک کام کرنے والوں کے نزدیک ہے
و لا تفسدوا في الارض بعد اصلاحها و ادعوه خوفا و طمعا ان رحمت الله قريب من المحسنين
And cause not corruption upon the earth after its reformation. And invoke Him in fear and aspiration. Indeed, the mercy of Allah is near to the doers of good.
Aur duniya mein iss kay iss ki durusti kerdi gaee hai fasaad mat phelao aur tum Allah ki ibadat kero uss say dartay huye aur umeed waar rehtay huye. Be-shak Allah Taalaa ki rehmat nek kaam kerney walon kay nazdik hai.
اور زمین میں اس کی اصلاح کے بعد فساد برپا نہ کرو ، ( ٣١ ) اور اس کی عبادت اس طرح کرو کہ دل میں خوف بھی ہو اور امید بھی ۔ ( ٣٢ ) یقینا اللہ کی رحمت نیک لوگوں سے قریب ہے ۔
اور زمین میں فساد نہ پھیلاؤ ( ف۱۰۱ ) اس کے سنورنے کے بعد ( ف۱۰۲ ) اور اس سے دعا کرو ڈرتے اور طمع کرتے ، بیشک اللہ کی رحمت نیکوں سے قریب ہے ،
زمین میں فساد برپا نہ کرو جبکہ اس کی اصلاح ہو چکی ہے 44 اور خدا ہی کو پکارو خوف کے ساتھ اور طمع کے ساتھ ، 45 یقیناً اللہ کی رحمت نیک کردار لوگوں سے قریب ہے ۔
اور زمین میں اس کے سنور جانے ( یعنی ملک کا ماحولِ حیات درست ہو جانے ) کے بعد فساد انگیزی نہ کرو اور ( اس کے عذاب سے ) ڈرتے ہوئے اور ( اس کی رحمت کی ) امید رکھتے ہوئے اس سے دعا کرتے رہا کرو ، بیشک اﷲ کی رحمت احسان شعار لوگوں ( یعنی نیکوکاروں ) کے قریب ہوتی ہے
سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :44 زمین میں فساد برپا نہ کرو ، یعنی زمین کے انتظام کو خراب نہ کرو ۔ انسان کا خدا کی بنگی سے نکل کر اپنے نفس کی یا دوسروں کی بندگی اختیار کرنا اور خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنے اخلاق ، معاشرت اور تمدن کو ایسے اصول وقوانین پر قائم کرنا جو خدا کے سوا کسی اور کی رہنمائی سے ماخوذ ہوں ، یہی وہ بنیادی فساد ہے جس سے زمین کے انتظام میں خرابی کے بے شمار صورتیں رونما ہوتی ہیں اور اسی فساد کو روکنا قرآن کا مقصود ہے ۔ پھر اس کے قرآن اس حقیقت پر بھی متنبہ کرتا ہے کہ زمین کے انتظام میں اصل چیز فساد نہیں ہے جس پر صلاح عارض ہوئی ہو بلکہ اصل چیز صلاح ہے جس پر فساد محض انسان کی جہالت اور سرکشی سے عارض ہوتا رہا ہے ۔ بالفاظ دیگر یہاں انسان کی زندگی کی ابتدا جہالت و وحشت اور شرک و بغاوت اور اخلاقی بدنظمی سے نہیں ہوئی ہے جس کو دور کرنے کے لیے بعد میں بتدریج اصلاح کی گئی ہوں ، بلکہ فی الحقیقت انسانی زندگی کا آغاز صلاح سے ہوا ہے اور بعد میں اس درست نظام کو غلط کار انسان اپنی حماقتوں اور شرارتوں سے خراب کرتے رہے ہیں ۔ اسی فساد کو مٹانے اور نظام حیات کو از سرنو درست کردینے کے لیے اللہ تعالی وقتاً فوقتاً اپنے پیغمبر بھیجتا رہا ہے اور انہوں نے ہر زمانے میں انسان کو یہی دعوت دی ہے کہ زمین کا انتظام جس صلاح پر قائم کیا گیا تھا اس میں فساد برپا کرنے سے باز آؤ ۔ اس معاملہ میں قرآن کا نقطہ نظر ان لوگوں کے نقطہ نظر سے بالکل مختلف ہے جنہوں نے ارتقاء کا ایک غلط تصور لے کر یہ نظریہ قائم کیا ہے کہ انسان ظلمت سے نکل کر بتدریج روشنی میں آیا ہے اور اس کی زندگی بگاڑ اور اس کی زندگی بگاڑ سے شروع ہو کر رفتہ رفتہ بنی اور بنتی جارہی ہے ۔ اس کے برعکس قرآن کہتا ہے کہ خدا نے انسان کو پوری روشنی میں زمین پر بسایا تھا اور ایک صالح نظام سے اس کی زندگی کی ابتدا کی تھی ۔ پھر انسان خود شیطانی رہنمائی قبول کر کے بار بار تاریکی میں جاتا رہا اور اس صالح نظام کو بگاڑتا رہا اور خدا بار بار اپنے پیغمبر کو اس غرض کے لیے بھیجتا رہا کہ اسے تاریکی سے روشنی کی طرف آنے اور فساد سے باز رہنے کی دعوت دیں ۔ ( سورہ براۃ ، حاشیہ نمبر۲۳۰ ) سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :45 اس فقرے سے واضح ہو گیا کہ اوپر کے فقرے میں جس چیز کو فساد سے تعبیر کیا گیا ہے وہ دراصل یہی ہے کہ انسان خدا کے بجائے کسی اور کو اپنا ولی و سرپرست اور کارساز اور کارساز اور کار فرما قرار دے کر مدد کے لیے پکارے ۔ اور اصلاح اس کے سوا کسی دوسری چیز کا نام نہیں ہے کہ انسان کی اس پکار کا مرجع پھر سے محض اللہ کی ذات ہی ہو جائے ۔ خوف اور طمع کے ساتھ پکارنے کا مطلب یہ ہے کہ تمہیں خوف بھی ہو تو اللہ سے ہو اور تمہاری اُمیدیں بھی اگر کسی سے وابستہ ہوں تو صرف اللہ سے ہوں ۔ اللہ کو پکارو تو اس احساس کے ساتھ پکارو کہ تمہاری قسمت بالکلیہ اس کی نظر عنایت پر منحصر ہے ، فلاح و سعادت کو پہنچ سکتے ہو تو صرف اس کی مدد اور رہنمائی سے ، ورنہ جہاں تم اس کی اعانت سے محروم ہوئے پھر تمہارے لیے تباہی و نامرادی کے سوا کوئی دوسرا انجام نہیں ہے ۔