Surah

Information

Surah # 7 | Verses: 206 | Ruku: 24 | Sajdah: 1 | Chronological # 39 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 163-170, from Madina
لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا نُوۡحًا اِلٰى قَوۡمِهٖ فَقَالَ يٰقَوۡمِ اعۡبُدُوا اللّٰهَ مَا لَـكُمۡ مِّنۡ اِلٰهٍ غَيۡرُهٗ ؕ اِنِّىۡۤ اَخَافُ عَلَيۡكُمۡ عَذَابَ يَوۡمٍ عَظِيۡمٍ‏ ﴿59﴾
ہم نے نوح ( علیہ السلام ) کو ان کی قوم کی طرف بھیجا تو انہوں نے فرمایا اے میری قوم تم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا کوئی تمہارا معبود ہونے کے قابل نہیں مجھ کو تمہارے لئے ایک بڑے دن کے عذاب کا اندیشہ ہے ۔
لقد ارسلنا نوحا الى قومه فقال يقوم اعبدوا الله ما لكم من اله غيره اني اخاف عليكم عذاب يوم عظيم
We had certainly sent Noah to his people, and he said, "O my people, worship Allah ; you have no deity other than Him. Indeed, I fear for you the punishment of a tremendous Day.
Hum ney nooh ( alh-e-salam ) ko unn ki qom ki taraf bheja to unhon ney farmaya aey meri qom! Tum Allah ki ibadat kero uss kay siwa koi mabood honey kay qabil nahi mujh ko tumharay liye aik baray din kay azab ka andesha hai.
ہم نے نوح کو ان کی قوم کے پاس بھیجا ( ٣٥ ) چنانچہ انہوں نے کہا : اے میری قوم کے لوگو ! اللہ کی عبادت کرو ، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے ۔ یقین جانو مجھے سخت اندیشہ ہے کہ تم پر ایک زبردست دن کا عذاب نہ آکھڑا ہو ۔
بیشک ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا ( ف۱۰۹ ) تو اس نے کہا میری قوم اللہ کو پوجو ( ف۱۱۰ ) اسکے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ( ف۱۱۱ ) بیشک مجھے تم پر بڑے دن کے عذاب کا ڈر ہے ( ف۱۱۲ )
ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا ۔ 47 اس نے کہا اے برادرانِ قوم ، اللہ کی بندگی کرو ، اسکے سوا تمہارا کوئی خدا نہیں ہے ۔ 48 میں تمہارے حق میں ایک ہولناک دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں ۔
بیشک ہم نے نوح ( علیہ السلام ) کو ان کی قوم کی طرف بھیجا سو انہوں نے کہا: اے میری قوم ( کے لوگو! ) تم اﷲ کی عبادت کیا کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ، یقیناً مجھے تمہارے اوپر ایک بڑے دن کے عذاب کا خوف آتا ہے
سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :47 اس تاریخی بیان کی ابتدا حضرت نوح علیہ السلام اور ان کی قوم سے کی گئی ہے ، کیونکہ قرآن کی رو سے جس صالح نظام ِ زندگی پر حضرت آدم علیہ السلام اپنی اولاد کو چھوڑ گئے تھے اس میں سب سے پہلا بگاڑ حضرت نوح علیہ السلام کے دور میں رونما ہوا اور اس کی اصلاح کے لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو مامور فرمایا ۔ قرآن کے ارشادات اور بائیبل کی تصریحات سے یہ بات متحقق ہو جاتی ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کی قوم اس سر زمین میں رہتی تھی جس کو آج ہم عراق کے نام سے جانتے ہیں ۔ بابل کے آثارِ قدیمہ میں بائیبل سے قدیم تر جو کتبات ملے ہیں ان سے ملے ہیں ان سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے ، ان میں تقریباً اسی قسم کا ایک قصہ مذکور ہے جس کا ذکر قرآن اور تورات میں بیان ہوا ہے اور اس کی جائے وقوع موصل کے نواح میں بتائی گئی ہے ۔ پھر جو روایات کُردستان اور آرمینیہ میں قدیم ترین زمانے سے نسلاً بعد نسلِ چلی آرہی ہیں ان سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ طوفان کے بعد حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی اسی علاقہ میں کسی مقام پر ٹھہری تھی ۔ موصل کے شمال میں جزیرہ ابنِ عمر کے آس پاس ، آرمینیہ کی سرحد پر کوہِ اراراط کے انواح میں نوح علیہ السلام کے مختلف آثار کی نشان دہی اب بھی کی جاتی ہے ، اور شہر نخچیوان کے باشندوں میں آج تک مشہور ہے کہ اس شہر کی نبا حضرت نوح علیہ السلام نے ڈالی تھی ۔ حضرت نوح علیہ السلام کے اس قصے سے ملتی جُلتی روایات یونان ، مصر ، ہندوستان اور چین کے قدیم لٹیریچر میں بھی ملتی ہیں اور اس کے علاوہ برما ، ملایا ، جزائر شرق الہند ، آسٹریلیا ، نیوگنی اور امریکہ و یورپ کے مختلف حصوں میں بھی ایسی ہی روایات قدیم زمانہ سے چلی آرہی ہیں ۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ قصہ اس عہد سے تعلق رکھتا ہے جبکہ پوری نسلِ آدم کسی ایک ہی خطہ زمین میں رہتی تھی اور پھر وہاں سے نکل کر دنیا کے مختلف حصوں میں پھیلی ۔ اسی وجہ سے تمام قومیں اپنی ابتدائی تاریخ میں ایک ہمہ گیر طوفان کی نشان دہی کرتی ہیں ، اگرچہ مرورِ ایام سے اس کی حقیقی تفصیلات انہوں نے فراموش کر دیں اور اصل واقعہ پر ہر ایک نے اپنے اپنے تخیل کے مطابق افسانوں کا ایک بھاری خول چڑھادیا ۔ سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :48 یہاں اور دوسرے مقامات پر حضرت نوح علیہ السلام اور ان کی قوم کا جو حال قرآن مجید میں بیان کیا گیا ہے اس سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ یہ قوم نہ تو اللہ کے وجود کی منکر تھی ، نہ اس سے ناواقف تھی ، نہ اسے اللہ کی عبادت سے انکار تھا ، بلکہ اصل گمراہی جس میں وہ مبتلا ہو گئی تھی ، شرک کی گمراہی تھی ۔ یعنی اس نے اللہ کے ساتھ دوسری ہستیوں کو خدائی میں شریک اور عبادت کے استحقاق میں حصہ دار قرار دے دیا تھا ۔ پھر اس بنیادی گمراہی سے بے شمار خرابیاں اس قوم میں رونما ہوگئیں ۔ جو خود ساختہ معبود خدائی میں شریک ٹھیرا لیے گئے تھے ان کی نمائندگی کرنے کے لیے قوم میں ایک خاص طبقہ پیدا ہوگیا جو تمام مذہبی سیاسی اور معاشی اقتدار کا مالک بن بیٹھا اور اس نے انسانوں میں اُونچ اور نیچ کی تقسیم پیدا کر دی ، اجتماعی زندگی کو ظلم و فساد سے بھر دیا اور اخلاقی فسق و فجور سے انسانیت کی جڑیں کھوکھلی کر دیں ۔ حضرت نوح علیہ السلام نے اس حالت کو بدلنے کے لیے ایک زمانہ دراز تک انتہائی صبر و حکمت کے ساتھ کوشش کی مگر عامتہ الناس کو ان لوگوں نے اپنے مکر کے جال میں ایسا پھانس رکھا تھا کہ اصلاح کی کوئی تدبیر کارگر نہ ہوئی ۔ آخرکار حضرت نوح علیہ السلام نے خدا سے دعا کی کہ ان کافروں میں سے ایک کو بھی زمین نہ چھوڑ ، کیونکہ اگر تو نے ان میں سے کسی کو بھی چھوڑ دیا تو یہ تیرے بندوں کو گمراہ کر یں گے اور ان کی نسل سے جو بھی پیدا ہوگا بدکار اور نمک حرام ہی پیدا ہو گا ۔ ( تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو سورہ ہود ، رکوع۳ ۔ سورہ شعراء رکوع٦ ۔ اور سورہ نوح مکمل ) ۔
پھر تذکرہ انبیاء چونکہ سورت کے شروع میں حضرت آدم علیہ السلام کا قصہ بیان ہوا تھا پھر اس کے متعلقات بیان ہوئے اور اس کے متصل اور بیانات فرما کر اب پھر اور انبیاء علیہم السلام کے واقعات کے بیان کا آغاز ہوا اور پے در پے ان کے بیانات ہوئے سب سے پہلے حضرت نوح علیہ السلام کا ذکر ہوا کیونکہ آدم علیہ السلام کے بعد سب سے پہلے پیغمبر اہل زمین کی طرف آپ ہی آئے تھے ۔ آپ نوح بن ملک بن مقوشلخ بن اخنوخ ( یعنی ادریس علیہ السلام یہی پہلے وہ شخص ہیں جنہوں نے قلم سے لکھا ) بن برد بن مہلیل بن قنین بن یانشن بن شیث بن آدم علیہ السلام ۔ ائمہ نسب جیسے امام محمد بن اسحاق وغیرہ نے آپ کا نسب نامہ اسی طرح بیان فرمایا ہے ۔ امام صاحب فرماتے ہیں حضرت نوح جیسا کوئی اور نبی امت کی طرف سے ستایا نہیں گیا ۔ ہاں انبیاء قتل ضرور کئے گئے ۔ انہیں نوح اسی لئے کہا گیا کہ یہ اپنے نفس کا رونا بہت روتے تھے ۔ حضرت آدم اور حضرت نوح کے درمیان دس زمانے تھے جو اسلام پر گذرے تھے ۔ اصنام پرستی کا رواج اسی طرح شروع ہوا کہ جب اولیاء اللہ فوت ہوگئے تو ان کی قوم نے ان کی قبروں پر مسجدیں بنا لیں اور ان میں ان بزرگوں کی تصویریں بنا لیں تاکہ ان کا حال اور ان کی عبادت کا نقشہ سامنے رہے اور اپنے آپ کو ان جیسا بنانے کی کوشش کریں لیکن کچھ زمانے کے بعد ان تصویروں کے مجسمے بنا لئے کچھ اور زمانے کے بعد انہی بتوں کو پوجا کرنے لگے اور ان کے نام انہی اولیاء اللہ کے ناموں پر رکھ لئے ۔ ود ، سواع ، یغوث ، یعوق ، نسر وغیرہ ۔ جب بت پرستی کا رواج ہو گیا ، اللہ نے اپنے رسول حضرت نوح کو بھیجا آپ نے انہیں اللہ واحد کی عبادت کی تلقین کی اور کہا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں مجھے تو ڈر ہے کہ کہیں قیامت کے دن تمہیں عذاب نہ ہو ۔ قوم نوح کے بڑوں نے ، ان کے سرداروں نے اور ان کے چودھریوں نے حضرت نوح کو جواب دیا کہ تم تو بہک گئے ہو ہمیں اپنے باپ دادا کے دین سے ہٹا رہے ہو ۔ ہر بد شخص نیک لوگوں کو گمراہ سمجھا کرتا ہے ۔ قرآن میں ہے کہ جب یہ بدکار ان نیک کاروں کو دیکھتے ہیں کہتے ہیں کہ یہ تو بہکے ہوئے ہیں ۔ کہا کرتے تھے کہ اگر یہ دین اچھا ہوتا تو ان سے پہلے ہم نہ مان لیتے؟ یہ تو بات ہی غلط اور جھوٹ ہے ۔ حضرت نوح نبی علیہ السلام نے جواب دیا کہ میں بہکا ہوا نہیں ہوں بلکہ میں اللہ کا رسول ہوں تمہیں پیغام رب پہنچا رہا ہوں ۔ تمہارا خیر خواہ ہوں اور اللہ کی وہ باتیں جانتا ہوں جنہیں تم نہیں جانتے ۔ ہر رسول مبلغ ، فصیح ، بلیغ ، ناصح ، خیر خواہ اور عالم باللہ ہوتا ہے ۔ ان صفات میں اور کوئی ان کی ہمسری اور برابری نہیں کر سکتا ۔ صحیح مسلم شریف میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفے کے دن اپنے اصحاب سے فرمایا جبکہ وہ بہت بڑی تعداد میں بہت زیادہ تھے کہ اے لوگو تم میری بابت اللہ کے ہاں پوچھے جاؤ گے تو بتاؤ کیا جواب دو گے؟ سب نے کہا ہم کہیں گے کہ آپ نے تبلیغ کر دی تھی اور حق رسالت ادا کر دیا تھا اور پوری خیر خواہی کی تھی پس آپ نے اپنی انگلی آسمان کی طرف اٹھائی اور پھر نیچے زمین کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا یا اللہ تو گواہ رہ ، اے اللہ تو شاہد رہ ، یا اللہ تو گواہ رہ ۔