Surah

Information

Surah # 7 | Verses: 206 | Ruku: 24 | Sajdah: 1 | Chronological # 39 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 163-170, from Madina
وَالۡبَلَدُ الطَّيِّبُ يَخۡرُجُ نَبَاتُهٗ بِاِذۡنِ رَبِّهٖ ‌ۚ وَالَّذِىۡ خَبُثَ لَا يَخۡرُجُ اِلَّا نَكِدًا ‌ؕ كَذٰلِكَ نُصَرِّفُ الۡاٰيٰتِ لِقَوۡمٍ يَّشۡكُرُوۡنَ‏ ﴿58﴾
اور جو ستھری سرزمین ہوتی ہے اس کی پیداوار تو اللہ کے حکم سے خوب نکلتی ہے اور جو خراب ہے اس کی پیداوار بہت کم نکلتی ہے اس طرح ہم دلائل کو طرح طرح سے بیان کرتے ہیں ان لوگوں کے لئے جو شکر کرتے ہیں ۔
و البلد الطيب يخرج نباته باذن ربه و الذي خبث لا يخرج الا نكدا كذلك نصرف الايت لقوم يشكرون
And the good land - its vegetation emerges by permission of its Lord; but that which is bad - nothing emerges except sparsely, with difficulty. Thus do We diversify the signs for a people who are grateful.
Aur jo suthri sir zamin hoti hai uss ki peda waar to Allah kay hukum say khoob nikalti hai aur jo kaharab hai ussi ki peda waar boht kum nikalti hai issi tarah hum dalaeel ko tarah tarah say biyan kertay hain unn logon kay liye jo shukar kertay hain.
اور جو زمین اچھی ہوتی ہے اس کی پیداوار تو اپنے رب کے حکم سے نکل آتی ہے اور جو زمین خراب ہوگئی ہو اس سے ناقص پیداوار کے سوا کچھ نہیں نکلتا ۔ ( ٣٤ ) اسی طرح ہم اپنی نشانیوں کے مختلف رخ دکھاتے رہتے ہیں ، ( مگر ) ان لوگوں کے لیے جو قدردانی کریں ۔
اور جو اچھی زمین ہے اس کا سبزہ اللہ کے حکم سے نکلتا ہے ( ف۱۰٦ ) اور جو خراب ہے اس میں نہیں نکلتا مگر تھوڑا بمشکل ( ف۱۰۷ ) ہم یونہی طرح طرح سے آیتیں بیان کرتے ہیں ( ف۱۰۸ ) ان کے لیے جو احسان مانیں ،
جو زمین اچھی ہوتی ہے وہ اپنے رب کے حکم سے خوب پھل پھول لاتی ہے اور جو زمین خراب ہوتی ہے اس سے ناقص پیداوار کے سوا کچھ نہیں نکلتا ۔ 46 اس طرح ہم نشانیوں کو بار بار پیش کرتے ہیں ان لوگوں کے لیے جو شکر گزار ہونے والے ہیں ۔ ؏ ۷
اور جو اچھی ( یعنی زرخیز ) زمین ہے اس کا سبزہ اﷲ کے حکم سے ( خوب ) نکلتا ہے اور جو ( زمین ) خراب ہے ( اس سے ) تھوڑی سی بے فائدہ چیز کے سوا کچھ نہیں نکلتا ۔ اسی طرح ہم ( اپنی ) آیتیں ( یعنی دلائل اور نشانیاں ) ان لوگوں کے لئے بار بار بیان کرتے ہیں جو شکرگزار ہیں
سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :46 یہاں ایک لطیف مضمون ارشاد ہوا ہے جس پر متنبہ ہو جانا اصل مدعا کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے ۔ بارش اور اس کی برکتوں کے ذکر سے اس مقام پر خدا کی قدرت کا بیان اور حیات بعد الممات کا اثبات بھی مقصود ہے اور اس کے ساتھ ساتھ تمثیل کے پیرا یہ میں رسالت اور اس کی برکتوں کا اور اس کے ذریعہ سے خوب و زشت میں فرق اور خبیث و طیّب میں امتیاز نمایاں ہو جانے کا نقشہ دکھانا بھی پیش نظر ہے ۔ رسول کی آمد اور خدائی تعلیم و ہدایت کے نزول کو بارانی ہواؤں کے چلنے اور ابرِ رحمت کے چھا جانے اور امرت بھری بوندوں کے برسنے سے تشبیہ دی گئی ہے ۔ پھر بارش کے ذریدہ سے مردہ پڑی ہوئی زمین کےیکایک جی اُٹھنے اور اس کے بطن سے زندگی کے خزانے اُبل پڑنے کو اس حالت کے لیے بطور مثال پیش کیا گیا ہے جو نبی کی تعلیم و تربیت اور رہنمائی سے مردہ پڑی ہوئی انسانیت کے یکایک جاگ اُٹھنے اور اس کے سینے سے بھلائیوں کے خزانے اُبل پڑنے کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے اور پھر یہ بتا یا گیا ہے کہ جس طرح بارش کے نزول سے یہ ساری برکتیں صرف اسی زمین کو حاصل ہوتی ہیں جو حقیقت ذرخیز ہوتی ہے اور محض پانی نہ ملنے کی وجہ سےجس کی صلاحیتیں دبی رہتی ہیں ، اسی طرح رسالت کی ان برکتوں سے بھی صرف وہی انسان فائدہ اُٹھاتے ہیں جو حقیقت میں صالح ہوتے ہیں اور جن کی صلاحیتوں کو محض رہنمائی نہ ملنے کی وجہ سے نمایاں ہونے اور برسر کار آنے کا موقع نہیں ملتا ۔ رہے شرارت پسند اور خبیث انسان تو جس طرح شوریلی زمین بارانِ رحمت سے کوئی فائدہ نہیں اُٹھاتی بلکہ پانی پڑتے ہی اپنے پیٹ کے چھپے ہوئے زہر کو کانٹوں اور جھاڑیوں کی صورت میں اُگل دیتی ہے ، اسی طرح رسالت کے ظہور سے انہیں بھی کوئی نفع نہیں پہنچتا بلکہ اس کے برعکس ان کے اندر دبی ہوئی تمام خباثتیں اُبھر کر پوری طرف برسر کار آجاتی ہیں ۔ اسی تمثیل کو بعد کے کئی رکوعوں میں مسلسل تاریخی شواہد پیش کر کے واضح کیا گیا ہے کہ ہر زمانے میں نبی کی بعثت کے بعد انسانیت دو حِصّوں میں تقسیم ہوتی رہی ہے ۔ ایک طیّب حصہ جو فیضِ رسالت سے پھلا اور پھولا اور بہتر برگ و بار لایا ۔ دوسرا خبیث حصہ جس نے کسوٹی کے سامنے آتے ہی اپنی ساری کھوٹ نمایاں کر کے رکھ دی اور آخر کار اس کو ٹھیک اسی طرح چھانٹ کر پھینک دیا گیا جس طرح سنار چاندی سونے کے کھوٹ کو چھانٹ پھینکتا ہے ۔