Surah

Information

Surah # 7 | Verses: 206 | Ruku: 24 | Sajdah: 1 | Chronological # 39 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 163-170, from Madina
فَتَوَلّٰى عَنۡهُمۡ وَقَالَ يٰقَوۡمِ لَقَدۡ اَبۡلَغۡتُكُمۡ رِسَالَةَ رَبِّىۡ وَنَصَحۡتُ لَـكُمۡ وَلٰـكِنۡ لَّا تُحِبُّوۡنَ النّٰصِحِيۡنَ‏ ﴿79﴾
اس وقت ( صالح علیہ السلام ) ان سے منہ موڑ کر چلے اور فرمانے لگے کہ اے میری قوم میں !نے تو تم کو اپنے پروردگار کا حکم پہنچا دیا تھا اور میں نے تمہاری خیر خواہی کی لیکن تم لوگ خیر خواہوں کو پسند نہیں کرتے ۔
فتولى عنهم و قال يقوم لقد ابلغتكم رسالة ربي و نصحت لكم و لكن لا تحبون النصحين
And he turned away from them and said, "O my people, I had certainly conveyed to you the message of my Lord and advised you, but you do not like advisors."
Uss waqt ( saleh alh-e-salam ) unn say mun mor ker chalay aur farmaney lagay aey meri qom! Mein to tum ko apney perwerdigar ka hukum phoncha diya tha aur mein ney tumhari khair khuwahi ki lekin tum log khair khuwahon ko pasand nahi kertay.
اس موقع پر صالح ان سے منہ موڑ کر چل دیے ، اور کہنے لگے : اے میری قوم ! میں نے تمہیں اپنے رب کا پیغام پہنچایا اور تمہاری خیر خواہی کی ، مگر ( افسوس کہ ) تم خیر خواہوں کو پسند ہی نہیں کرتے تھے ۔
تو صالح نے ان سے منہ پھیرا ( ف۱٤۸ ) اور کہا اے میری قوم! بیشک میں نے تمہیں اپنے رب کی رسالت پہنچادی اور تمہارا بھلا چاہا مگر تم خیر خواہوں کے غرضی ( پسند کرنے والے ) ہی نہیں ،
اور صالح یہ کہتا ہوا ان کی بستیوں سے نکل گیا کہ اے میری قوم ، میں نے اپنے رب کا پیغام تجھے پہنچا دیا اور میں نے تیری بہت خیر خواہی کی ، مگر میں کیا کروں کہ تجھے اپنے خیر خواہ پسند ہی نہیں ہیں ۔
پھر ( صالح علیہ السلام نے ) ان سے منہ پھیر لیا اور کہا: اے میری قوم! بیشک میں نے تمہیں اپنے رب کا پیغام پہنچا دیا تھا اور نصیحت ( بھی ) کر دی تھی لیکن تم نصیحت کرنے والوں کو پسند ( ہی ) نہیں کرتے
صالح علیہ السلام ہلاکت کے اسباب کی نشاندہی کرتے ہیں قوم کی ہلاکت دیکھ کر افسوس حسرت اور آخری ڈانٹ ڈپٹ کے طور پر پیغمبر حق حضرت صالح علیہ السلام فرماتے ہیں کہ نہ تمہیں رب کی رسالت نے فائدہ پہنچایا نہ میری خیر خواہی ٹھکانے لگی تم اپنی بےسمجھی سے دوست کو دشمن سمجھ بیٹھے اور آخر اس روز بد کو دعوت دے لی چنانچہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی جب بدری کفار پر غالب آئے وہیں تین دن تک ٹھہرے رہے پھر رات کے آخری وقت اونٹنی پر زین کس کر آپ تشریف لے چلے اور جب اس گھاٹی کے پاس پہنچے جہاں ان کافروں کی لاشیں ڈالی گئی تھیں تو آپ ٹھہر گئے اور فرمانے لگے اے ابو جہل ، اے عتبہ ، اے شیبہ ، اے فلاں ، اے فلاں ، بتاؤ رب کے وعدے تم نے درست پائے؟ میں نے تو اپنے رب کے فرمان کی صداقت اپنی آنکھوں دیکھ لی ۔ حضرت عمر نے کہا یا رسول اللہ آپ ان جسموں سے باتیں کر رہے ہیں جو مردار ہوگئے؟ آپ نے فرمایا اس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ میں جو کچھ ان سے کہہ رہا ہوں اسے یہ تم سے زیادہ سن رہے ہیں لیکن جواب کی طاقت نہیں ۔ سیرت کی کتابوں میں ہے کہ آپ نے فرمایا تم نے میرا خاندان ہونے کے باوجود میرے ساتھ وہ برائی کی کہ کسی خاندان نے اپنے پیغمبر کے ساتھ نہ کی ۔ تم نے میرے ہم قبیلہ ہونے کے باوجود مجھے جھٹلایا اور دوسرے لوگوں نے مجھے سچا سمجھا ۔ تم نے رشتہ داری کے باوجود مجھے دیس نکالا دیا اور دوسرں نے مجھے اپنے ہاں جگہ دی ۔ افسوس تم اپنے ہو کر مجھ سے برسر جنگ رہے اور دوسروں نے میری امداد کی ۔ پس تم اپنے نبی کے بدترین قبیلے ہو ۔ یہی حضرت صالح علیہ السلام اپنی قوم سے فرما رہے ہیں کہ میں نے تو ہمدردی کی انتہا کر دی اللہ کے پیغام کی تبلیغ میں تمہاری خیر خواہی میں کوئی کوتاہی نہیں کی لیکن آہ نہ تم نے اس سے کوئی فائدہ اٹھایا نہ حق کی پیروی کی نہ اپنے خیر خواہ کی مانی ۔ بلکہ اسے اپنا دشمن سمجھ بعض مفسرین کا قول ہے کہ ہر نبی جب دیکھتا کہ اب میری امت پر عام عذاب آنے والا ہے انہیں چھوڑ کر نکل کھڑا ہوتا ہے اور حرم مکہ میں پناہ لیتا ۔ واللہ اعلم ۔ مسند احمد میں ہے کہ حج کے موقعہ پر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم وادی عسفان پہنچے تو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے دریافت فرمایا کہ یہ کونسی وادی ہے؟ آپ نے جواب دیا وادی عسفان فرمایا میرے سامنے سے حضرت ہود اور حضرت صالح علیہما السلام ابھی ابھی گذرے اونٹنیوں پر سوار تھے جن کی نکیلیں کھجور کے پتوں کی تھیں کمبلوں کے تہ بند بندھے ہوئے اور موٹی چادریں اوڑھے ہوئے تھے ۔ لبیک پکارتے ہوئے بیت اللہ شریف کی طرف تشریف لے جا رہے تھے ۔ یہ حدیث غریب ہے ۔ صحاح ستہ میں نہیں ۔