Surah

Information

Surah # 7 | Verses: 206 | Ruku: 24 | Sajdah: 1 | Chronological # 39 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 163-170, from Madina
فَاَنۡجَيۡنٰهُ وَاَهۡلَهٗۤ اِلَّا امۡرَاَتَهٗ ‌ۖ كَانَتۡ مِنَ الۡغٰبِرِيۡنَ‏ ﴿83﴾
سو ہم نے لوط ( علیہ السلام ) کو اور ان کے گھر والوں کو بچا لیا بجز ان کی بیوی کے کہ وہ ان ہی لوگوں میں رہی جو عذاب میں رہ گئے تھے
فانجينه و اهله الا امراته كانت من الغبرين
So We saved him and his family, except for his wife; she was of those who remained [with the evildoers].
So hum ney loot ( alh-e-salam ) ko aur unn kay ghar walon ko bacha liya ba-juz unn ki biwi kay, kay woh unn hi logon mein rahi jo azab mein reh gaye thay.
پھر ہوا یہ کہ ہم نے ان کو ( یعنی لوط علیہ السلام کو ) اور ان کے گھر والوں کو ( بستی سے نکال کر ) بچا لیا ، البتہ ان کی بیوی تھی جو باقی لوگوں میں شامل رہی ( جو عذاب کا نشانہ بنے )
تو ہم نے اسے ( ف۱۵٤ ) اور اس کے گھر والوں کو نجات دی مگر اس کی عورت وہ رہ جانے والوں میں ہوئی ( ف۱۵۵ )
آخرِکار ہم نے لوط اور اس کے گھر والوں کو ۔ ۔ ۔ ۔ بجز اس کی بیوی کے جو پیچھے رہ جانے والوں میں تھی ۔ ۔ ۔ ۔ 66
پس ہم نے ان کو ( یعنی لوط علیہ السلام کو ) اور ان کے اہلِ خانہ کو نجات دے دی سوائے ان کی بیوی کے ، وہ عذاب میں پڑے رہنے والوں میں سے تھی
سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :66 دوسرے مقامات پر تصریح ہے کہ حضرت لوط کی یہ بیوی ، جو غالباً اسی قوم کی بیٹی تھی ، اپنے کافر رشتہ داروں کی ہمنوا رہی اور آخر وقت تک اس نے ان کا ساتھ نہ چھوڑا ۔ اس لیے عذاب سے پہلے جب اللہ تعالیٰ نے حضرت لوط اور ان کے ایمان دار ساتھیوں کو ہجرت کر جانے کا حکم دیا تو ہدایت فرما دی کہ اس عورت کو ساتھ نہ لیا جائے ۔
لوطی تباہ ہوگئے حضرت لوط اور ان کا گھرانا اللہ کے ان عذابوں سے بچ گیا جو لوطیوں پر نازل ہوئے بجز آپ کے گھرانے کے اور کوئی آپ پر ایمان نہ لایا جیسے فرمان رب ہے آیت ( فما وجدنا فیھا غیر بیت من المسلمین ) یعنی وہاں جتنے مومن تھے ہم نے سب کو نکال دیا ۔ لیکن بجز ایک گھر والوں کے وہاں ہم نے کسی مسلمان کو پایا ہی نہیں ۔ بلکہ خاندان لوط میں سے بھی خود حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی ہلاک ہوئی کیونکہ یہ بد نصیب کافرہ ہی تھی بلکہ قوم کے کافروں کی طرف دار تھی اگر کوئی مہمان آتا تو اشاروں سے قوم کو خبر پہنچا دیتی اسی لئے حضرت لوط سے کہدیا گیا تھا کہ اسے اپنے ساتھ نہ لے جانا بلکہ اسے خبر بھی نہ کرنا ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ ساتھ تو چلی تھی لیکن جب قوم پر عذاب آیا تو اس کے دل میں ان کی محبت آ گئی اور رحم کی نگاہ سے انہیں دیکھنے لگی وہیں اسی وقت وہی عذاب اس بد نصیب پر بھی آ گیا لیکن زیادہ ظاہر قول پہلا ہی ہے یعنی نہ اسے حضرت لوط نے عذاب کی خبر کی نہ اسے اپنے ساتھ لے گئے یہ یہیں باقی رہ گئی اور پھر ہلاک ہو گئی ۔ ( غابرین ) کے معنی بھی باقی رہ جانے والے ہیں ۔ جن بزرگوں نے اس کے معنی ہلاک ہونے والے کئے ہیں وہ بطور لزوم کے ہیں ۔ کیونکہ جو باقی تھے وہ ہلاک ہونے والے ہی تھے ۔ حضرت لوط علیہ السلام اور ان کے مسلمان صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے شہر سے نکلتے ہی عذاب الٰہی ان پر بارش کی طرح برس پڑا وہ بارش پتھروں اور ڈھیلوں کی تھی جو ہر ایک پر بالخصوص نشان زدہ اسی کیلئے آسمان سے گر رہے تھے ۔ گو اللہ کے عذاب کو بے انصاف لوگ دور سمجھ رہے ہوں لیکن حقیقتاً ایسا نہیں ۔ اے پیغمبر آپ خود دیکھ لیجئے کہ اللہ کی نافرمایوں اور رسول اللہ کی تکذیب کرنے والوں کا کیا انجام ہوتا ہے؟ امام ابو حنفیہ فرماتے ہیں لوطی فعل کرنے والے کو اونچی دیوار سے گرا دیا جائے پھر اوپر سے پتھراؤ کر کے اسے مار ڈالنا چاہیے کیونکہ لوطیوں کو اللہ کی طرف سے یہی سزا دی گئی اور علماء کرام کا فرمان ہے کہ اسے رجم کر دیا جائے خواہ وہ شادی شدہ ہو یا بےشادی ہو ۔ امام شافعی کے دو قول میں سے ایک یہی ہے ۔ اس کی دلیل مسند احمد ، ابو داؤد و ترمذی اور ابن ماجہ کی یہ حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم لوطی فعل کرتے پاؤ اسے اور اس کے نیچے والے دونوں کو قتل کر دو ۔ علماء کی ایک جماعت کا قول ہے کہ یہ بھی مثل زنا کاری کے ہے شادی شدہ ہوں تو رجم ورنہ سو کوڑے ۔ امام شافعی کا دوسرا قول بھی یہی ہے ۔ عورتوں سے اس قسم کی حرکت کرنا بھی چھوٹی لواطت ہے اور بہ اجماع امت حرام ہے ۔ بجز ایک شاذ قول کے اور بہت سی احادیث میں اس کی حرمت موجود ہے اسکا پورا بیان سورۃ بقرہ کی تفسیر میں گذر چکا ہے ۔