Surah

Information

Surah # 7 | Verses: 206 | Ruku: 24 | Sajdah: 1 | Chronological # 39 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 163-170, from Madina
وَلَوۡ اَنَّ اَهۡلَ الۡقُرٰٓى اٰمَنُوۡا وَاتَّقَوۡا لَـفَتَحۡنَا عَلَيۡهِمۡ بَرَكٰتٍ مِّنَ السَّمَآءِ وَالۡاَرۡضِ وَلٰـكِنۡ كَذَّبُوۡا فَاَخَذۡنٰهُمۡ بِمَا كَانُوۡا يَكۡسِبُوۡنَ‏ ﴿96﴾
اور اگر ان بستیوں کے رہنے والے ایمان لے آتے اور پرہیزگاری اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکتیں کھول دیتے لیکن انہوں نے تکذیب کی تو ہم نے ان کے اعمال کی وجہ سے ان کو پکڑ لیا ۔
و لو ان اهل القرى امنوا و اتقوا لفتحنا عليهم بركت من السماء و الارض و لكن كذبوا فاخذنهم بما كانوا يكسبون
And if only the people of the cities had believed and feared Allah , We would have opened upon them blessings from the heaven and the earth; but they denied [the messengers], so We seized them for what they were earning."
Aur agar unn bastiyon kay rehney walay eman ley aatay aur perhezgari ikhtiyar kertay to hum unn per aasman aur zamin ki barkaten khol detay lekin unhon ney takzeeb ki to hum ney unn kay aemaal ki waja say unn ko pakar liya.
اور اگر یہ بستیوں والے ایمان لے آتے اور تقوی اختیار کرلیتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین دونوں طرف سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے ۔ لیکن انہوں نے ( حق کو ) جھٹلایا ، اس لیے ان کی مسلسل بدعملی کی پاداش میں ہم نے ان کو اپنی پکڑ میں لے لیا ۔
اور اگر بستیوں والے ایمان لاتے اور ڈرتے ( ف۱۸۳ ) تو ضرور ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتیں کھول دیتے ( ف۱۸٤ ) مگر انہوں نے تو جھٹلایا ( ف۱۸۵ ) تو ہم نے انہیں ان کے کیے پر گرفتار کیا ( ف۱۸٦ )
اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقوٰی کی روش اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے ، مگر انہوں نے تو جھٹلایا ، لہٰذا ہم نے اس بری کمائی کے حساب میں انہیں پکڑ لیا جو وہ سمیٹ رہے تھے ۔
اور اگر ( ان ) بستیوں کے باشندے ایمان لے آتے اور تقوٰی اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتیں کھول دیتے لیکن انہوں نے ( حق کو ) جھٹلایا ، سو ہم نے انہیں ان اَعمالِ ( بد ) کے باعث جو وہ انجام دیتے تھے ( عذاب کی ) گرفت میں لے لیا
عوام کی فطرت لوگوں سے عام طور پر جو غلطی ہو رہی ہے اس کا ذکر ہے کہ عموماً ایمان سے اور نیک کاموں سے بھاگتے رہتے ہیں ۔ صرف حضرت یونس علیہ السلام کی پوری بستی ایمان لائی تھی اور وہ بھی اس وقت جبکہ عذابوں کو دیکھ لیا اور یہ بھی صرف ان کے ساتھ ہی ہوا کہ آئے ہوئے عذاب واپس کر دیئے گئے اور دنیا و آخرت کی رسوائی سے بچ گئے یہ لوگ ایک لاکھ بلکہ زائد تھے ۔ اپنی پوری عمر تک پہنچے اور دنیوی فائدے بھی حاصل کرتے رہے تو فرماتا ہے کہ اگر نبیوں کے آنے پر ان کے امتی صدق دل سے ان کی تابعداری کرتے ، برائیوں سے رک جاتے اور نیکیاں کرنے لگتے تو ہم ان پر کشادہ طور پر بارشیں برساتے اور زمین سے پیداوار اگاتے ۔ لیکن انہوں نے رسولوں کی نہ مانی بلکہ انہیں جھوٹا سمجھا اور روبرو جھوٹا کہا ۔ برائیوں سے حرام کاریوں سے ایک انچ نہ ہٹے ، اس وجہ سے تباہ کر دیے گئے ۔ کیا کافروں کو اس بات کا خوف نہیں کہ راتوں رات ان کی بےخبری میں ان کے سوتے ہوئے عذاب الٰہی آ جائے اور یہ سوئے کے سوئے رہ جائیں ؟ کیا انہیں ڈر نہیں لگتا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ دن دہاڑے ان کے کھیل کود اور غفلت کی حالت میں اللہ جل جلالہ کا عذاب آ جائے؟ اللہ کے عذابوں سے ، اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے ، اس کی بےپایاں قدرت کے اندازے سے غافل وہی ہوتے ہیں جو اپنے آپ بربادی کی طرف بڑھے چلے جاتے ہوں ۔ امام حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ کا قول ہے کہ مومن نیکیاں کرتا ہے اور پھر ڈرتا رہتا ہے اور فاسق فاجر شخص برائیاں کرتا ہے اور بےخوف رہتا ہے ۔ نتیجے میں مومن امن پاتا ہے اور فاجر پیس دیا جاتا ہے ۔