Surah

Information

Surah # 7 | Verses: 206 | Ruku: 24 | Sajdah: 1 | Chronological # 39 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 163-170, from Madina
ثُمَّ بَدَّلۡـنَا مَكَانَ السَّيِّئَةِ الۡحَسَنَةَ حَتّٰى عَفَوْا وَّقَالُوۡا قَدۡ مَسَّ اٰبَآءَنَا الضَّرَّآءُ وَالسَّرَّآءُ فَاَخَذۡنٰهُمۡ بَغۡتَةً وَّهُمۡ لَا يَشۡعُرُوۡنَ‏ ﴿95﴾
پھر ہم نے اس بد حالی کی جگہ خوش حالی بدل دی ، یہاں تک کہ ان کو خوب ترقی ہوئی اور کہنے لگے کہ ہمارے آباؤ اجداد کو بھی تنگی اور راحت پیش آئی تھی تو ہم نے ان کو دفعتًا پکڑ لیا اور ان کو خبر بھی نہ تھی ۔
ثم بدلنا مكان السية الحسنة حتى عفوا و قالوا قد مس اباءنا الضراء و السراء فاخذنهم بغتة و هم لا يشعرون
Then We exchanged in place of the bad [condition], good, until they increased [and prospered] and said, "Our fathers [also] were touched with hardship and ease." So We seized them suddenly while they did not perceive.
Phir hum ney uss bad haali ki jagah khushaali badal di yahan tak kay unn ko khoob taraqqi hui aur kehney lagay kay humaray aaba-o-ajdaad ko bhi tangi aur rahat paish aaee thi to hum ne unn ko dafatan pkara liya aur unn ko khabar bhi na thi.
پھر ہم نے کیفیت بدلی ، بدحالی کی جگہ خوشحالی عطا فرمائی ، یہاں تک کہ وہ خوب پھلے پھولے ، اور کہنے لگے کہ دکھ سکھ تو ہمارے باپ دادوں کو بھی پہنچتے رہے ہیں ۔ پھر ہم نے انہیں اچانک اس طرح پکڑ لیا کہ انہیں ( پہلے سے ) پتہ بھی نہیں چلا سکا ۔
پھر ہم نے برائی کی جگہ بھلائی بدل دی ( ف۱۷۹ ) یہاں تک کہ وہ بہت ہوگئے ( ف۱۸۰ ) اور بولے بیشک ہمارے باپ دادا کو رنج و راحت پہنچے تھے ( ف۱۸۱ ) تو ہم نے انہیں اچانک ان کی غفلت میں پکڑ لیا ( ف۱۸۲ )
پھر ہم نے ان کی بدحالی کو خوشحالی سے بدل دیا یہاں تک کہ وہ خوب پھلے پھولے اور کہنے لگے کہ ہمارے اسلاف پر بھی اچھے اور برے دن آتے ہی رہے ہیں ۔ آخرِکار ہم نے انہیں اچانک پکڑ لیا اور انہیں خبر تک نہ ہوئی ۔ 77
پھر ہم نے ( ان کی ) بدحالی کی جگہ خوش حالی بدل دی ، یہاں تک کہ وہ ( ہر لحاظ سے ) بہت بڑھ گئے ۔ اور ( نا شکری سے ) کہنے لگے کہ ہمارے باپ دادا کو بھی ( اسی طرح ) رنج اور راحت پہنچتی رہی ہے سو ہم نے انہیں اس کفرانِ نعمت پر اچانک پکڑ لیا اور انہیں ( اس کی ) خبر بھی نہ تھی
سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :77 ایک ایک نبی اور ایک ایک قوم کا معاملہ الگ الگ بیان کرنے کے بعد اب وہ جامع ضابطہ بیان کیا جا رہا ہے جو ہر زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام کی بعثت کے موقع پر اختیار فرمایا ہے ۔ اور وہ یہ ہے کہ جب کسی قوم میں کوئی نبی بھیجا گیا تو پہلے اس قوم کے خارجی ماحول کو قبول دعوت کے لیے نہایت سازگار بنایا گیا ۔ یعنی اس کو مصائب اور آفات میں مبتلا کیا گیا ۔ قحط ، وبا ، تجارتی خسارے ، جنگی شکست اور اسی طرح کی تکلیفیں اس پر ڈالی گئیں ۔ تا کہ اس کا دل نرم پڑے ، اس کی شیخی اور تکبّر سے اکڑی ہوئی گردن ڈھیلی ہو ، اس کا غرور طاقت اور نشہ دولت ٹوٹ جائے ، اپنے ذرائع و وسائل اور اپنی قوتوں اور قابلیتوں پر اس کا اعتماد شکست ہو جائے ، اسے محسوس ہو کہ اُوپر کوئی اور طاقت بھی ہے جس کے ہاتھ میں اس کی قسمت کی باگیں ہیں ، اور اس طرح اس کے کان نصیحت کے لیے کھل جائیں اور وہ اپنے خدا کے سامنے عاجزی کے ساتھ جھک جانے پر آمادہ ہو جائے ۔ پھر جب اس سازگار ماحول میں بھی اس کا دل قبول ِ حق کی طرف مائل نہیں ہوتا تو اس کو خوش حالی کے فتنہ میں مبتلا کر دیا جاتا ہے اور یہاں سے اس کی بربادی کی تمہید شروع ہو جاتی ہے ۔ جب وہ نعمتوں سے مالا مال ہونے لگتی ہے تو اپنے برے دن بھول جاتی ہے اور اس کے کج فہم رہنما اس کے ذہن میں تاریخ کا یہ احمقانہ تصوّر بٹھاتے ہیں کے حالات کا اُتار چڑھاؤ اور قسمت کا بناؤ اور بگاڑ کسی حکیم کے انتظام میں اخلاقی بنیادوں پر نہیں ہو رہا ہے بلکہ ایک اندھی طبیعت بالکل غیر اخلاقی اسباب سے کبھی اچھے اور کبھی برے دن لاتی ہی رہتی ہے ، لہٰذا مصائب اور آفات کے نزول سے کوئی اخلاقی سبق لینا اور کسی ناصح کی نصیحت قبول کر کے خدا کے آگے زاری و تضرُّع کرنے لگنا بجز ایک طرح کی نفسی کمزوری کے اور کچھ نہیں ہے ۔ یہی وہ احمقانہ ذہنیت ہے جس کا نقشہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں کھینچا ہے: لایزال البلا بالمؤمن حتٰی یخرجَ نقیاً من ذنوبہٖ ، والمنافقُ مَثَلہُ کمثلِ الحِمار لا یدری فیمَ رَبَطہ اھلہ ولاَ فِیمَ ارسلوہ ۔ یعنی”مصیبت مومن کی تو اصلاح کرتی چلی جاتی ہے یہاں تک کہ جب وہ اس بھٹی سے نکلتا ہے تو ساری کھوٹ سے صاف ہو کر نکلتا ہے ، لیکن منافق کی حالت بالکل گدھے کی سی ہوتی ہے جو کچھ نہیں سمجھتا کہ اس کے مالک نے کیوں اسے باندھا تھا اور کیوں اسے چھوڑ دیا ۔ “پس جب کسی قوم کا حال یہ ہوتا ہے کہ نہ مصائب سے اس کا دل خدا کے آگے جھکتا ہے ، نہ نعمتوں پر وہ شکرگزار ہوتی ہے ، اور نہ کسی حال میں اصلاح کرتی ہے تو پھر اس کی بربادی اس طرح اس کے سر پر منڈلانے لگتی ہے جیسے پورے دن کی حاملہ عورت کہ کچھ نہیں کہا جاسکتا کب اس کا وضع حمل ہو جائے ۔ یہاں یہ بات اور جان لینی چاہیے کہ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے جس ضابطہ کا ذکر فرمایا ہے ٹھیک یہی ضابطہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے موقع پر بھی برتا گیا اور شامت زدہ قوموں کے جس طرزِ عمل کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے ، ٹھیک وہی طرزِ عمل سورہ اعراف کے نزول کے زمانہ میں قریش والوں سے ظاہر ہو رہا تھا ۔ حدیث میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ دونوں کی متفقہ روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعثت کے بعد جب قریش کے لوگوں نے آپ کی دعوت کے خلاف سخت رویہ اختیار کرنا شروع کیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی کہ خدایا ، یوسف کے زمانہ میں جیسا ہفت سالہ قحط پڑا تھا ویسے ہی قحط سے ان لوگوں کے مقابلہ میں میری مدد کر ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انہیں سخت قحط میں مبتلا کر دیا اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ لوگ مردار کھانے لگے ، چمڑے اور ہڈیاں اور اُون تک کھا گئے ۔ آخر کار مکہ کے لوگوں نے ، جن میں ابو سفیان پیش پیش تھا ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ ہمارے لیے خدا سے دعا کیجیے ۔ مگر جب آپ کی دعا سے اللہ نے وہ بُرا وقت ٹال دیا ور بھلے دن آئے تو ان لوگوں کی گردنیں پہلے سے زیادہ اکڑ گئیں ، اور جن کے دل تھوڑے بہت پسیج گئے تھے ان کو بھی اشرارِ قوم نے یہ کہہ کہہ کر ایمان سے روکنا شروع کر دیا کہ میاں ، یہ تو زمانے کا اتار چڑھاؤ ہے ۔ پہلے بھی آخر قحط آتے ہی رہے ہیں ، کوئی نئی بات تو نہیں ہے کہ اس مرتبہ ایک لمبا قحط پڑگیا ، لہٰذا ان چیزوں سے دھوکا کھا کر محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے پھندے میں نہ پھنس جانا ۔ یہ تقریریں اس زمانے میں ہو رہی تھیں جب یہ سورہ اعراف نازل ہوئی ہے ۔ اس لیے قرآن مجید کی یہ آیات ٹھیک اپنے موقع پر چسپاں ہوئی ہیں اور اسی پس منظر کو نگاہ میں رکھنے سے ان کی معنویت پوری طرح سمجھ میں آسکتی ہے ۔ ( تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو یونس ، آیت ۲١ ۔ النحل ١١۲ ۔ المومنون ۵ ۔ ۷٦ ۔ الدخان ۹ ۔ ١٦ ) ۔