Surah

Information

Surah # 7 | Verses: 206 | Ruku: 24 | Sajdah: 1 | Chronological # 39 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 163-170, from Madina
وَمَاۤ اَرۡسَلۡنَا فِىۡ قَرۡيَةٍ مِّنۡ نَّبِىٍّ اِلَّاۤ اَخَذۡنَاۤ اَهۡلَهَا بِالۡبَاۡسَآءِ وَالضَّرَّآءِ لَعَلَّهُمۡ يَضَّرَّعُوۡنَ‏ ﴿94﴾
اور ہم نے کسی بستی میں کوئی نبی نہیں بھیجا کہ وہاں کے رہنے والوں کو ہم نے سختی اور تکلیف میں نہ پکڑا ہوتا کہ وہ گڑگڑائیں
و ما ارسلنا في قرية من نبي الا اخذنا اهلها بالباساء و الضراء لعلهم يضرعون
And We sent to no city a prophet [who was denied] except that We seized its people with poverty and hardship that they might humble themselves [to Allah ].
Aur hum ney kissi basti mein koi nabi nahi bheja kay wahan kay rehney walon ko hum ney sakhti aur takleef mein na pakra hota kay woh girr girayen.
اور ہم نے جس کسی بستی میں کوئی پیغمبر بھیجا ، اس میں رہنے والوں کو بدحالی اور تکلیفوں میں گرفتار ضرور کیا ، تاکہ وہ عاجزی اختیار کریں ۔ ( ٤٩ )
اور نہ بھیجا ہم نے کسی بستی میں کوئی نبی ( ف۱۷٦ ) مگر یہ کہ اس کے لوگوں کو سختی اور تکلیف میں پکڑا ( ف۱۷۷ ) کہ وہ کسی طرح زاری کریں ( ف۱۷۸ )
کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ہم نے کسی بستی میں نبی بھیجا ہو اور اس بستی کے لوگوں کو پہلے تنگی اور سختی میں مبتلا نہ کیا ہو ، اس خیال سے کہ شاید وہ عاجزی پر اتر آئیں ۔
اور ہم نے کسی بستی میں کوئی نبی نہیں بھیجا مگر ہم نے اس کے باشندوں کو ( نبی کی تکذیب و مزاحمت کے باعث ) سختی و تنگی اور تکلیف و مصیبت میں گرفتار کرلیا تاکہ وہ آہ و زاری کریں
ادوارماضی اگلی امتوں میں بھی اللہ تعالیٰ کے رسول آئے اور ان کے انکار پر وہ امتیں مختلف بلاؤں میں مبتلا کی گئیں مثلاً بیماریاں ، فقیری ، مفلسی ، تنگی ۔ تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے اکڑنا چھوڑ دیں اور اس کے سامنے جھک جائیں ۔ مصیبتوں کے ٹالنے کی دعائیں کریں اور اس کے رسول کی مان لیں ۔ لیکن انہوں نے اس موقعہ کو ہاتھ سے نکال دیا باوجود بری حالت ہونے کے دل کا کفر نہ ٹوتا ، اپنی ضد سے نہ ہٹے تو ہم نے دوسری طرح پھر ایک موقہ دیا ۔ سختی کو نرمی سے ، برائی کو بھلائی سے ، بیماری کو تندرستی سے ، فقیری کو امیری سے بدل دیا تاکہ شکر کریں اور ہماری حکمرانی کے قائل ہو جائیں لیکن انہوں نے اس موقعہ سے بھی فائدہ نہ اٹھایا ، جیسے جیسے بڑھے ویسے ویسے کفر میں پھنسے ، بد مستی میں اور بڑھے اور مغرور ہوگئے اور کہنے لگے کہ یہ زمانہ کے اتفاقات ہیں ۔ پہلے سے یہی ہوتا چلا آیا ہے کبھی کے دن بڑے کبھی کی راتیں بڑی ۔ زمانہ ہمیشہ ایک حالت پر نہیں رہتا ، الغرض اتفاق پر محمول کر کے معمولی سی بات سمجھ کر دونوں موقع ٹال دیئے ۔ ایمان والے دونوں حالتوں میں عبرت پکڑتے ہیں ۔ مصیبت پر صبر ، راحت پر شکر ان کا شیوہ ہوتا ہے ، بخاری و مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مومن پر تعجب ہے اس کی دونوں حالتیں انجام کے لحاظ سے اس کیلئے بہتر ہوتی ہیں ۔ یہ دکھ پر صبر کرتا ہے ، انجام بہتر ہوتا ہے ، سکھ پر شکر کرتا ہے ، نیکیاں پاتا ہے ، پس مومن رنج و راحت دونوں میں اپنی آزمائش کو سمجھ لیتا ہے ۔ ایک اور حدیث میں ہے بلاؤں کی وجہ سے مومن کے گناہ بالکل دور ہو جاتے ہیں اور وہ پاک صاف ہو جاتا ہے ۔ ہاں منافق کی مثال گدھے جیسی ہے جسے نہیں معلوم کہ کیوں باندھا گیا اور کیوں کھولا گیا ؟ ( اوکمال قال ) پس ان لوگوں کو اس کے بعد اللہ کے عذاب نے اچانک آ پکڑا یہ محض بےخبر تھے اپنی خرمستیوں میں لگے ہوئے تھے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اچانک موت مومن کے لئے رحمت ہے اور کافروں کے لئے حسرت ہے ۔