Surah

Information

Surah # 7 | Verses: 206 | Ruku: 24 | Sajdah: 1 | Chronological # 39 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 163-170, from Madina
فَتَوَلّٰى عَنۡهُمۡ وَقَالَ يٰقَوۡمِ لَقَدۡ اَبۡلَغۡتُكُمۡ رِسٰلٰتِ رَبِّىۡ وَنَصَحۡتُ لَـكُمۡ‌ۚ فَكَيۡفَ اٰسٰی عَلٰى قَوۡمٍ كٰفِرِيۡنَ‏ ﴿93﴾
اس وقت شعیب ( علیہ السلام ) ان سے منہ موڑ کر چلے اور فرمانے لگے کہ اے میری قوم! میں نے تم کو اپنے پروردگار کے احکام پہنچا دئیے تھے اور میں نے تو تمہاری خیر خواہی کی ۔ پھر میں ان کافر لوگوں پر کیوں رنج کروں
فتولى عنهم و قال يقوم لقد ابلغتكم رسلت ربي و نصحت لكم فكيف اسى على قوم كفرين
And he turned away from them and said, "O my people, I had certainly conveyed to you the messages of my Lord and advised you, so how could I grieve for a disbelieving people?"
Uss waqt shoaib ( alh-e-salam ) unn say mun mor ker chalay aur farmaney lagay kay aey meri qom! Mein ney tum ko apney perwerdigar kay ehkaam phoncha diye thay aur mein ney tumhari khair khuwahi ki. Phir mein inn kafir logon per kiyon ranj keroon.
چنانچہ وہ ( یعنی شعیب علیہ السلام ) ان سے منہ موڑ کر چل دیے ، اور کہنے لگے : اے قوم ! میں نے تجھے اپنے رب کے پیغامات پہنچا دیے تھے ، اور تیرا بھلا چاہا تھا ۔ ( مگر ) اب میں اس قوم پر کیا افسوس کروں جو ناشکری تھی ۔
تو شعیب نے ان سے منہ پھیرا ( ف۱۷٤ ) اور کہا اے میری قوم! میں تمہیں رب کی رسالت پہنچا چکا اور تمہارے بھلے کو نصیحت کی ( ف۱۷۵ ) تو کیونکر غم کروں کافروں کا ،
اور شعیب یہ کہہ کر ان کی بستیوں سے نِکل گیا کہ اے برادرانِ قوم ، میں نے اپنے رب کے پیغامات تمہیں پہنچا دیے اور تمہاری خیر خواہی کا حق ادا کر دیا ۔ اب میں اس قوم پر کیسے افسوس کروں جو قبولِ حق سے انکار کرتی ہے ۔ 76 ؏ ١١
تب ( شعیب علیہ السلام ) ان سے کنارہ کش ہوگئے اور کہنے لگے: اے میری قوم! بیشک میں نے تمہیں اپنے رب کے پیغامات پہنچا دیئے تھے اور میں نے تمہیں نصیحت ( بھی ) کردی تھی پھر میں کافر قوم ( کے تباہ ہونے ) پر افسوس کیونکر کروں
سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :76 یہ جتنے قصے یہاں بیان کیے گئے ہیں ان سب میں ”سرِّ دلبراں در حدیث دیگراں“کا انداز اختیار کیا گیا ہے ۔ ہر قصہ اس معاملہ پر پورا پورا چسپاں ہوتا ہے جو اس وقت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی قوم کے درمیان پیش آ رہا تھا ۔ ہر قصہ میں ایک فریق بنی ہے جس کی تعلیم ، جس کی دعوت ، جس کی نصیحت و خیر خواہی ، اور جس کی ساری باتیں بعینہ وہی ہیں جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تھیں ۔ ور دوسرا فریق حق سے منہ موڑنے والی قوم ہے جس کی اعتقادی گمراہیاں ، جس کی اخلاقی خرابیاں ، جس کی جاہلانہ ہٹ دھرمیاں ، جس کے سرداروں کا استکبار ، جس کے منکروں کا اپنی ضلالت پر اصرار ، غرض سب کچھ وہی ہے جو قریش میں پایا جاتا تھا ۔ پھر ہر قصے میں منکر قوم کا جو انجام پیش کیا گیا ہے اس سے دراصل قریش کو عبرت دلائی گئی ہے کہ اگر تم نے خدا کے بھیجے ہوئے پیغمبر کی بات نہ مانی اور اصلاح حال کا جو موقع تمہیں دیا جا رہا ہے اسے اندھی ضد میں مبتلا ہو کر کھو دیا تو آخر کار تمہیں بھی اسی تباہی و بربادی سے دوچار ہونا پڑے گا جو ہمیشہ سے گمراہی و فساد پر اصرار کرنے والی قوموں کے حصہ میں آتی رہی ہے ۔
قوم پر اللہ تعالیٰ کا عذاب آ چکنے کے بعد حضرت شعیب علیہ السلام وہاں سے چلے اور بطور ڈانٹ ڈپٹ کے فرمایا کہ میں سبکدوش ہو چکا ہوں ۔ اللہ کا پیغام سنا چکا ، سمجھا بجھا چکا ، غم خواری ہمدردی کر چکا ۔ لیکن تم کافر کے کافر ہی رہے اب مجھے کیا پڑی کہ تمہارے افسوس میں اپنی جان ہلکان کروں؟