Surah

Information

Surah # 7 | Verses: 206 | Ruku: 24 | Sajdah: 1 | Chronological # 39 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 163-170, from Madina
اَوَلَمۡ يَهۡدِ لِلَّذِيۡنَ يَرِثُوۡنَ الۡاَرۡضَ مِنۡۢ بَعۡدِ اَهۡلِهَاۤ اَنۡ لَّوۡ نَشَآءُ اَصَبۡنٰهُمۡ بِذُنُوۡبِهِمۡ‌ ۚ وَنَطۡبَعُ عَلٰى قُلُوۡبِهِمۡ فَهُمۡ لَا يَسۡمَعُوۡنَ‏ ﴿100﴾
اور کیا ان لوگوں کو جو زمین کے وارث ہوئے وہاں کے لوگوں کی ہلاکت کے بعد ( ان واقعات مذکورہ نے ) یہ بات نہیں بتلائی کہ اگر ہم چاہیں تو ان کے جرائم کے سبب ان کو ہلاک کر ڈالیں اور ہم ان کے دلوں پر بند لگادیں ، پس وہ نہ سن سکیں
او لم يهد للذين يرثون الارض من بعد اهلها ان لو نشاء اصبنهم بذنوبهم و نطبع على قلوبهم فهم لا يسمعون
Has it not become clear to those who inherited the earth after its [previous] people that if We willed, We could afflict them for their sins? But We seal over their hearts so they do not hear.
Aur kiya unn logon ko jo zamin kay waris huye wahan kay logon ki halakat kay baad ( inn waqiyaat-e-mazkoor ney ) yeh baat nahi batlaee kay agar hum chahayen to inn kay jurm kay sabab inn ko halak ker dalen aur hum inn kay dilon per band laga denpus woh na sunn saken.
جو لوگ کسی زمین ( کے باشندوں کی ہلاکت ) کے بعد اس کے وارث بن جاتے ہیں ، بھلا کیا ان کو یہ سبق نہیں ملا کہ اگر ہم چاہیں تو ان کو ( بھی ) ان کے گناہوں کی وجہ سے کسی مصیبت میں مبتلا کردیں؟ اور ( جو لوگ اپنی ضد کی وجہ سے یہ سبق نہیں لیتے ) ہم ان کے دلوں پر مہر لگا دیتے ہیں ، جس کے نتیجے میں وہ کوئی بات نہیں سنتے ۔
اور کیا وہ جو زمین کے ما لکوں کے بعد اس کے وارث ہوئے انہیں اتنی ہدایت نہ ملی کہ ہم چاہیں تو انہیں ان کے گناہوں پر آفت پہنچائیں ( ف۱۹۱ ) اور ہم ان کے دلوں پر مہر کرتے ہیں کہ وہ کچھ نہیں سنتے ( ف۱۹۲ )
اور کیا ان لوگوں کو جو سابق اہل زمین کے بعد زمین کے وارث ہوتے ہیں ، اس امر ِواقعی نے کچھ سبق نہیں دیا کہ اگر ہم چاہیں تو ان کے قصوروں پر انہیں پکڑ سکتے ہیں؟ 79 ﴿ مگر وہ سبق آموز حقائق سے تغافل برتتے رہے﴾ اور ہم ان کےدِلوں پر مہر لگا دیتے ہیں ، پھر وہ کچھ نہیں سنتے ۔ 80
کیا ( یہ بات بھی ) ان لوگوں کو ( شعور و ) ہدایت نہیں دیتی جو ( ایک زمانے میں ) زمین پر رہنے والوں ( کی ہلاکت ) کے بعد ( خود ) زمین کے وارث بن رہے ہیں کہ اگر ہم چاہیں تو ان کے گناہوں کے باعث انہیں ( بھی ) سزا دیں ، اور ہم ان کے دلوں پر ( ان کی بداَعمالیوں کی وجہ سے ) مُہر لگا دیں گے سو وہ ( حق کو ) سن ( سمجھ ) بھی نہیں سکیں گے
سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :79 یعنی ایک گرنے والی قوم کی جگہ جو دوسری قوم اُٹھتی ہے اس کے لیے اپنی پیش رو قوم کے زوال میں کافی رہنمائی موجود ہوتی ہے ۔ وہ اگر عقل سے کام لے تو سمجھ سکتی ہے کہ کچھ مدّت پہلے جو لوگ اسی جگہ داد عیش دے رہے تھے اور جن کی عظمت کا جھنڈا یہاں لہرا رہا تھا انہیں فکر وعمل کی کن غلطیوں نے برباد کیا ، اور یہ بھی محسوس کر سکتی ہے کہ جس بالا تر اقتدار نے کر اُنہیں ان کی غلطیوں پر پکڑا تھا اور ان سے یہ جگہ خالی کرالی تھی ، وہ آج کہیں چلا نہیں گیا ہے ، نہ اس سے کسی نے یہ مقدرت چھین لی ہے کہ اس جگہ کے موجودہ ساکنین اگر وہی غلطیاں کریں جو سابق ساکنین کر رہے تھے تو وہ ان سے بھی اسی طرح جگہ خالی نہ کراسکے گا جس طرح اس نے ان سے خالی کرائی تھی ۔ سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :80 یعنی جب وہ تاریخ سے اور عبرتناک آثار کے مشاہدے سے سبق نہیں لیتے اور اپنے آپ کو خود بھلاوے میں ڈالتے ہیں تو پھر خدا کی طرف سے بھی انہیں سوچنے سمجھنے اور کسی ناصح کی بات سننے کی توفیق نہیں ملتی ۔ خدا کا قانونِ فطرت یہی ہے کہ جو اپنی آنکھیں بند کر لیتا ہے اس کی بینائی تک آفتاب روشن کی کوئی کرن نہیں پہنچ سکتی اور جو خود نہیں سننا چاہتا اسے پھر کوئی کچھ نہیں سنا سکتا ۔
گناہوں میں ڈوبے لوگ؟ ارشاد ہے کہ ایک گروہ نے ہمارا مقابلہ کیا اور ہم نے انہیں تاخت و تاراج کیا ۔ دوسرا گروہ ان کے قائم مقام ہوا تو کیا اس پر بھی یہ بات واضح نہیں ہوتی کہ اگر وہ بداعمالیاں کریں گے تو اپنے سے اگلوں کی طرح کھو دیئے جائیں گے جیسے فرمان ہے آیت ( اَفَلَمْ يَهْدِ لَهُمْ كَمْ اَهْلَكْنَا قَبْلَهُمْ مِّنَ الْقُرُوْنِ يَمْشُوْنَ فِيْ مَسٰكِنِهِمْ ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّاُولِي النُّهٰى ١٢٨؀ۧ ) 20-طه:128 ) یعنی کیا انہیں اب تک سمجھ نہیں آئی کہ ہم نے ان سے پہلے بہت سی آباد بستیاں اجاڑ کر رکھ دیں جن کے مکانوں میں اب یہ رہتے سہتے ہیں ۔ اگر یہ عقل مند ہوتے تو ان کے لئے بہت سی عبرتیں تھیں اور اس بیان کے بعد کی آیت میں ہے کہ اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ۔ کیا یہ سن نہیں رہے ؟ ایک آیت میں فرمایا تم اس سے پہلے پورے یقین سے کہتے تھے کہ تمہیں زوال آنے کا ہی نہیں حالانکہ تم جن کے گھروں میں تھے وہ خود بھی اپنے مظالم کے سبب تباہ کر دیئے گئے تھے ۔ خالی گھر رہ گئے ۔ ایک اور آیت میں ہے آیت ( وَكَمْ اَهْلَكْنَا قَبْلَهُمْ مِّنْ قَرْنٍ هُمْ اَحْسَنُ اَثَاثًا وَّرِءْيًا 74؀ ) 19-مريم:74 ) ان سے پہلے ہم نے بہت سی بستیاں تباہ کر دیں نہ ان میں سے اب کوئی نظر آئے نہ کسی کی آواز سنائی دے اور آیت میں ہے کہ وہ لوگ تو ان سے زیادہ مست تھے ، مال دار تھے ، عیش و عشرت میں تھے ، راحت و آرام میں تھے ، اوپر سے ابر برستا تھا نیچے سے چشمے بہتے تھے لیکن گناہوں میں ڈوبے رہے کہ آخر تہس نہس ہوگئے اور دوسرے لوگ ان کے قائم مقام آئے ۔ عادیوں کی ہلاکت کا بیان فرما کر ارشاد ہوا کہ ایسے عذاب اچانک آ گئے کہ ان کے وجود کی دھجیاں اڑ گئیں ، کھنڈر کھڑے رہ گئے اور کسی چیز کا نام و نشان نہ بچا ۔ مجرموں کا یہی حال ہوتا ہے ۔ حالانکہ دنیوی و جاہت بھی ان کے پاس تھی آنکھ ، کان ، ھاتھ سب تھا لیکن اللہ جل شانہ کی باتوں کا تمسخر کرنے پر اور ان کے انکار پر جب عذاب آیا تو حیران و ششدر رہ گئے ، نہ عقل آئی نہ اسباب بچے ۔ اپنے آس پاس کی ویران بستیاں دیکھ کر عبرت حاصل کرو ۔ اگلوں نے جھٹلایا تو دیکھ لو کہ کس طرح برباد ہوئے ؟ تم تو ابھی تک ان کے دسویں حصے کو بھی نہیں پہنچے ۔ تم سے پہلے کے منکروں پر میرے عذاب آئے انہیں غور سے سنو ۔ ظالموں کی بستیاں میں نے الٹ دیں اور ان کے محلات کھنڈر بنا دیئے ۔ زمین میں چل پھر کر ، آنکھیں کھول کر ، کان لگا کر ذرا عبرت حاصل کرو ۔ جس کی آنکھیں نہ ہوں وہی اندھا نہیں بلکہ سچ مچ اندھا وہ ہے جس کی دلی آنکھیں بیکار ہوں ۔ اگلے نبیوں کے ساتھ بھی مذاق اڑائے گئے لیکن نتیجہ یہی ہوا کہ ایسے مذاق کرنے والوں کا نشان مٹ گیا ۔ ایسے گھیرے آگئے کہ ایک بھی نہ بچا ۔ اللہ تعالیٰ کی باتیں سچی ہیں ، اس کے وعدے اٹل ہیں وہ ضرور اپنے دوستوں کی مدد کرتا ہے اور اپنے دشمنوں کو نیچا دکھاتا ہے ۔