Surah

Information

Surah # 7 | Verses: 206 | Ruku: 24 | Sajdah: 1 | Chronological # 39 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 163-170, from Madina
تِلۡكَ الۡقُرٰى نَقُصُّ عَلَيۡكَ مِنۡ اَنۡۢبَآٮِٕهَا‌ ۚ وَلَقَدۡ جَآءَتۡهُمۡ رُسُلُهُمۡ بِالۡبَيِّنٰتِ‌ ۚ فَمَا كَانُوۡا لِيُؤۡمِنُوۡا بِمَا كَذَّبُوۡا مِنۡ قَبۡلُ‌ ؕ كَذٰلِكَ يَطۡبَعُ اللّٰهُ عَلٰى قُلُوۡبِ الۡكٰفِرِيۡنَ‏ ﴿101﴾
ان بستیوں کے کچھ کچھ قصے ہم آپ سے بیان کر رہے ہیں اور ان سب کے پاس ان کے پیغمبر معجزات لے کر آئے پھر جس چیز کو انہوں نے ابتدا میں جھوٹا کہہ دیا یہ بات نہ ہوئی کہ پھر اس کو مان لیتے اللہ تعالٰی اسی طرح کافروں کے دلوں پر بند لگا دیتا ہے ۔
تلك القرى نقص عليك من انباىها و لقد جاءتهم رسلهم بالبينت فما كانوا ليؤمنوا بما كذبوا من قبل كذلك يطبع الله على قلوب الكفرين
Those cities - We relate to you, [O Muhammad], some of their news. And certainly did their messengers come to them with clear proofs, but they were not to believe in that which they had denied before. Thus does Allah seal over the hearts of the disbelievers.
Inn bastiyon kay kuch kuch qissay hum aap say biyan ker rahey hain aur inn sab kay pass unn kay payghumbar mojzaat ley ker aaye phir jiss cheez ko enhon ney ibtidaa mein jhoota keh diya yeh baat nahi hui kay phir iss ko maan letay Allah Taalaa issi tarah kafiron kay dilon per band laga deta hai.
یہ ہیں وہ بستیاں جن کے واقعات ہم تمہیں سنا رہے ہیں ۔ اور حقیقت یہ ہے کہ ان سب کے پاس ان کے پیغمبر کھلے کھلے دلائل لے کر آئے تھے ، مگر جس بات کو وہ پہلے جھٹلا چکے تھے ، اس پر کبھی ایمان لانے کو تیار نہیں ہوئے ۔ جو لوگ کفر کو اپنا چکے ہوتے ہیں ، ان کے دلوں پر اللہ اسی طرح مہر لگا دیتا ہے ۔
یہ بستیاں ہیں ( ف۱۹۳ ) جن کے احوال ہم تمہیں سناتے ہیں ( ف۱۹٤ ) اور بیشک ان کے پاس ان کے رسول روشن دلیلیں ( ف۱۹۵ ) لے کر آئے تو وہ ( ف۱۹٦ ) اس قابل نہ ہوئے کہ وہ اس پر ایمان لاتے جسے پہلے جھٹلاچکے تھے ( ف۱۹۷ ) اللہ یونہی چھاپ لگادیتا ہے کافروں کے دلوں پر ( ف۱۹۸ )
یہ قومیں جن کے قصے ہم تمہیں سنا رہے ہیں ﴿تمہارے سامنے مثال میں موجود ہیں﴾ ان کے رسول ان کے پاس کھلی کھلی نشانیاں لے کر آئے ، مگر جس چیز کو وہ ایک دفعہ جھٹلا چکے تھے پھر اسے وہ ماننے والے نہ تھے ۔ دیکھو اس طرح ہم منکرین حق کے دلوں پر مہر لگا دیتے ہیں ۔ 81
یہ وہ بستیاں ہیں جن کی خبریں ہم آپ کو سنا رہے ہیں ، اور بیشک ان کے پاس ان کے رسول روشن نشانیاں لے کر آئے تو وہ ( پھر بھی ) اس قابل نہ ہوئے کہ اس پر ایمان لے آتے جسے وہ پہلے جھٹلا چکے تھے ، اس طرح اللہ کافروں کے دلوں پر مہر لگا دیتا ہے
سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :81 پچھلی آیت میں جو ارشاد ہوا تھا کہ” ہم ان کے دلوں پر مُہر لگا دیتے ہیں ، پھر وہ کچھ نہیں سنتے “ ، اس کی تشریح اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں خود فرمادی ہے ۔ اس تشریح سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ دلوں پر مہر لگانے سے مراد ذہنِ انسانی کا اس نفسیاتی قانون کی زد میں آجانا ہے جس کی رُو سے ایک دفعہ جاہلی تعصبات یا نفسانی اغراض کی بنا پر حق سے مُنہ موڑ لینے کے بعد پھر انسان اپنی ضد اور ہٹ دھرمی کے اُلجھاؤ میں اُلجھتا ہی چلا جاتا ہے اور کسی دلیل ، کسی مشاہدے اور کسی تجر بے سے اس کے دل کے دروازے قبول ِ حق کے لیے نہیں کُھلتے ۔
عہد شکن لوگوں کی طے شدہ سزا پہلے قوم نوح ، ہود ، صالح ، لوط اور قوم شعیب کا بیان گذر چکا ہے ۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ ان سب کے پاس ہمارے رسول حق لے کر پہنچے ، معجزے دکھائے ، سمجھایا ، بجھایا ، دلیلیں دیں لیکن وہ نہ مانے اور اپنی بد عادتوں سے باز نہ آئے ۔ جس کی پاداش میں ہلاک ہوگئے ، صرف ماننے والے بچ گئے ۔ اللہ کا طریقہ اسی طرح جاری ہے کہ جب تک رسول نہ آ جائیں ، خبردار نہ کر دیئے جائیں عذاب نہیں دیئے جاتے ، ہم ظالم نہیں لیکن جبکہ لوگ خود ظلم پر کمر کس لیں تو پھر ہمارے عذاب انہیں آ پکڑتے ہیں ۔ ان سب نے جن چیزوں کا انکار کر دیا تھا ان پر باوجود دلیلیں دیکھ لینے کے بھی ایمان نہ لائے ۔ آیت ( بما کذبوا ) میں ب سببیہ ہے جیسے آیت ( واذا سمعوا ) کے پارے کے آخر میں فرمایا ہے کہ تم کیا جانو؟ یہ لوگ تو معجزے آنے پر بھی ایمان نہ لائیں گے ، ہم ان کے دلوں اور آنکھوں کو الٹ دیں گے جیسے کہ یہ اس قرآن پر پہلی بار ایمان نہ لائے تھے اور ہم انہیں ان کی سرکشی کی حالت میں بھٹکتے ہوئے جھوڑ دیں گے ، یہاں بھی فرمان ہے کہ کفار کے دلوں پر اسی طرح ہم مہریں لگا دیا کرتے ہیں ۔ ان میں سے اکثر بد عہد ہیں بلکہ عموماً فاسق ہیں ۔ یہ عہد وہ ہے جو روز ازل میں لیا گیا اور اسی پر پیدا کئے گئے اسی فطرت اور جبلت میں رکھا گیا اسی کی تاکید انبیاء علیہم السلام کرتے کرتے رہے ۔ لیکن انہوں نے اس عہد کو پس پشت ڈال دیا یا مطلق پروا نہ کی اور اس عہد کے خلاف غیر اللہ کی پرستش شروع کر دی ۔ اللہ کو مالک خالق اور لائق عبادت مان کر آئے تھے لیکن یہاں اس کے سراسر خلاف کرنے لگے اور بےدلیل ، خلاف عقل و نقل ، خلاف فطرت اور خلاف شرع ، اللہ کے سوا دوسروں کی عبادت میں لگ گئے ۔ صحیح مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں نے اپنے بندوں کو موحد اور یکطرفہ پیدا کیا لیکن شیطان نے آ کر انہیں بہکا دیا اور میری حلال کردہ چیزین ان پر حرام کر دیں ۔ بخاری و مسلم میں ہے ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے پھر اسے اس کے ماں باپ یہودی نصرانی مجوسی بنا لیتے ہیں ۔ خود قرآن کریم میں ہے ہم نے تجھ سے پہلے جتنے رسول بھیجے تھے سب کی طرف یہی وحی کی تھی کہ میرے سوا اور کوئی معبود نہیں ۔ اے دنیا کے لوگو تم سب صرف میری ہی عبادت کرتے رہو ۔ اور آیت میں ہے تو اپنے سے پہلے کے رسولوں سے دریافت کر لو کیا ہم نے اپنے سوا اور معبود ان کے لئے مقرر کئے تھے؟ اور فرمان ہے آیت ( وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ ۚ فَمِنْهُمْ مَّنْ هَدَى اللّٰهُ وَمِنْهُمْ مَّنْ حَقَّتْ عَلَيْهِ الضَّلٰلَةُ ۭ فَسِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِيْنَ 36؀ ) 16- النحل:36 ) ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ لوگو صرف اللہ ہی کی عبادت کرو اور اس کے سوا ہر ایک کی عبادت سے الگ رہو ۔ اس مضمون کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں ۔ اس جملے کے معنی یہ بھی کئے گئے ہیں کہ چونکہ پہلے ہی سے اللہ کے علم میں یہ بات مقرر ہو گئی تھی کہ انہیں ایمان نصیب نہیں ہوگا ۔ یہی ہو کر رہا کہ باوجود دلائل سامنے آ جانے کے ایمان نہ لائے ۔ میثاق والے دن گو یہ ایمان قبول کر بیٹھے لیکن ان کے دلوں کی حالت اللہ جل شانہ کو معلوم تھی کہ ان کا ایمان جبراً اور ناخوشی سے ہے ۔ جیسے فرمان ہے کہ یہ اگر دوبارہ دنیا کی طرف لوٹائے جائیں تو پھر بھی وہی کام نئے سرے سے کرنے لگیں گے جن سے انہیں روکا گیا ہے ۔