Surah

Information

Surah # 7 | Verses: 206 | Ruku: 24 | Sajdah: 1 | Chronological # 39 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 163-170, from Madina
وَّنَزَعَ يَدَهٗ فَاِذَا هِىَ بَيۡضَآءُ لِلنّٰظِرِيۡنَ‏ ﴿108﴾
اور اپنا ہاتھ باہر نکالا سو وہ یکا یک سب دیکھنے والوں کے روبرو بہت ہی چمکتا ہوا ہوگیا ۔
و نزع يده فاذا هي بيضاء للنظرين
And he drew out his hand; thereupon it was white [with radiance] for the observers.
Aur apna haath bhair nikala so woh yakayak sab dekhney walon kay roo baroo boht hi chamkta hua hogaya.
اور اپنا ہاتھ ( گریبان سے ) کھینچا تو وہ سارے دیکھنے والوں کے لیے سامنے یکایک چمکنے لگا ۔ ( ٥٣ )
اور اپنا ہاتھ گریبان میں ڈال کر نکا لا تو وہ دیکھنے والوں کے سامنے جگمگانے لگا ( ف۲۰۷ )
اس نے اپنی جیب سے ہاتھ نکالا اور سب دیکھنے والوں کے سامنے وہ چمک رہا تھا ۔ 87 ؏ ١۳
اور اپنا ہاتھ ( گریبان میں ڈال کر ) نکالا تو وہ ( بھی ) اسی وقت دیکھنے والوں کے لئے ( چمک دار ) سفید ہوگیا
سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :87 یہ دو نشانیاں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اس امر کے ثبوت میں دی گئی تھیں کہ وہ اس خدا کے نمائندے ہیں جو کائنات کا خالق اور فرماں روا ہے ۔ جیسا کہ اس سے پہلے بھی ہم اشارہ کر چکے ہیں ، پیغمبروں نے جب کبھی اپنے آپ کو فرستادہ رب العالمٰین کی حیثیت سے پیش کیا تو لوگوں نے ان سے یہی مطالبہ کیا کہ اگر تم واقعی رب العالمٰین کے نمائندے ہو تو تمہارے ہاتھوں سے کوئی ایسا واقعہ ظہور میں آنا چاہیے جو قوانین فطرت کی عام روش سے ہٹا ہوا ہو اور جس سےصاف ظاہر ہو رہا ہو کہ رب العالمٰین نے تمہاری صداقت ثابت کرنے کے لیے اپنی براہ راست مداخلت سے یہ واقعہ نشانی کے طور پر صادر کیا ہے ۔ اسی مطالبہ کے جواب میں انبیاء نے وہ نشانیاں دکھائی ہیں جس کو قرآن کی اصطلاح میں ”آیات “اور متکلمین کی اصطلاح میں”معجزات“کہا جاتا ہے ۔ ایسے نشانات یا معجزات کو جو لوگ قوانین فطرت کے تحت صادر ہونے والے عام واققعات قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں وہ درحقیقت کتاب اللہ کو ماننے اور نہ ماننے کے درمیان ایک ایسا موقف اختیار کرتے ہیں جو کسی طرح معقول نہیں سمجھا جا سکتا ۔ اس لیے کہ قرآن جس جگہ صریح طور پر خارق عادت واقعہ کا ذکر کر رہا ہو وہاں سیاق و سباق کے بالکل خلاف ایک عادی واقع بنانے کی جدوجہد محض ایک بھونڈی سخن سازی ہے جس کی ضرورت صرف ان لوگوں کو پیش آتی ہے جو ایک طرف تو کسی ایسی کتاب پر ایمان نہیں لانا چاہتے جو خارق عادت واقعات کا ذکر کرتی ہو اور دوسری طرف آبائی مذہب کے پیدائشی معتقد ہونے کی وجہ سے اس کتاب کا انکار بھی نہیں کرنا چاہتے جو فی الواقع خارق عادت واقعات کا ذکر کرتی ہے ۔ معجزات کے باب میں اصل فیصلہ کن سوال صرف یہ ہے کہ آیا اللہ تعالیٰ نظام کائنات کو ایک قانون پر چلا دینے کے بعد معطل ہو چکا ہے اور اب اس چلتے ہوئے نظام میں کبھی کسی موقع پر مداخلت نہیں کرسکتا ؟ یا وہ بالفعل اپنی سلطنت کو زمام تدبیر و انتظام اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے اور ہر آن اس کے احکام اس سلطنت میں نافذ ہوتے ہیں اور اس کو ہر وقت اختیار حاصل ہے کہ اشیا کی شکلوں اور واقعات کی عادی رفتار میں جزئی طور پر یا کلّی طور پر جیسا چاہے اور جب چاہے تغیر کر دے؟ جو لوگ اس سوال کے جواب میں پہلی بات کے قائل ہیں ان کے لیےمعجزات کو تسلیم کرنا غیرممکن ہے ، کیونکہ معجزہ نہ ان کے تصّور خدا سے میل کھاتا ہے اور نہ تصور کائنات سے ۔ لیکن ایسے لوگوں کے لیے مناسب یہی ہے کہ وہ قرآن کی تفسیر و تشریح کرنے کی بجائے اس کا صاف صاف انکار کر دیں کیونکہ قرآن نے تو اپنا زور بیان ہی خدا کے مقدم الذکر تصور کا ابطال اور موخر الذکر تصور کا اثبات کرنے پر صرف کیا ہے ۔ بخلاف اس کے جو شخص قرآن کے دلائل سے مطمئن ہو کر دوسرے تصور کو قبول کر لے اس کے لیے معجزے کو سمجھنا اور تسلیم کرنا کچھ مشکل نہیں رہتا ۔ ظاہر ہے کہ جب آپ کا عقیدہ ہی یہ ہوگا کہ اژد ہے جس طرح پیدا ہوا کرتے ہیں اسی طرح وہ پیدا ہوسکتے ہیں ، اس کے سوا کسی دوسرے ڈھنگ پر کوئی اژدہا پیدا کر دینا خدا کی قدرت سے باہر ہےتو آپ مجبور ہیں ایسے بیان کو قطعی طور پر جھٹلا دیں جو آپ کو خبر دے رہا ہو کہ ایک لاٹھی اژد ہے میں تبدیل ہوئی اور پھر اژد ہے سے لاٹھی بن گئی ۔ لیکن اس کے برعکس اگر آپ کا عقیدہ یہ ہو کہ بے جان مادے میں خدا کے حکم سے زندگی پیدا ہوتی ہے اور خدا جس مادے کو جیسی چاہے زندگی عطا کر سکتا ہے ، اس کے لیے خدا کے حکم سے لاٹھی کا اژدہا بننا اتنا ہی غیر عجیب واقعہ ہے جتنا اسی خدا کے حکم سے انڈے کے اندر بھرے ہوئے چند بے جان مادوں کا اژدہا بن جانا غیر عجیب ہے ۔ مجرد یہ فرق کہ ایک واقعہ ہمیشہ پیش آتا رہتا ہے اور دوسرا واقعہ صرف تین مرتبہ پیش آیا ، ایک کو غیر عجیب اور دوسرے کو عجیب بنا دینے کے لیے کافی نہیں ہے ۔