Surah

Information

Surah # 2 | Verses: 286 | Ruku: 40 | Sajdah: 0 | Chronological # 87 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 281 from Mina at the time of the Last Hajj
وَلَمَّا جَآءَهُمۡ رَسُوۡلٌ مِّنۡ عِنۡدِ اللّٰهِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَهُمۡ نَبَذَ فَرِيۡقٌ مِّنَ الَّذِيۡنَ اُوۡتُوا الۡكِتٰبَۙ کِتٰبَ اللّٰهِ وَرَآءَ ظُهُوۡرِهِمۡ كَاَنَّهُمۡ لَا يَعۡلَمُوۡنَ‏ ﴿101﴾
جب کبھی ان کے پاس اللہ کا کوئی رسول ان کی کتاب کی تصدیق کرنے والا آیا ، ان اہل کتاب کے ایک فرقہ نے اللہ کی کتاب کو اس طرح پیٹھ پیچھے ڈال دیا گو جانتے ہی نہ تھے ۔
و لما جاءهم رسول من عند الله مصدق لما معهم نبذ فريق من الذين اوتوا الكتب كتب الله وراء ظهورهم كانهم لا يعلمون
And when a messenger from Allah came to them confirming that which was with them, a party of those who had been given the Scripture threw the Scripture of Allah behind their backs as if they did not know [what it contained].
Jab kabhi inn kay pass Allah ka koi rasool inn ki kitab ki tasdeeq kerney wala aaya inn ehal-e-kitab kay aik firqay ney Allah ki kitab ko iss tarah peeth peechay daal diya goya jantay hi na thay.
اور جب ان کے پاس اللہ کی طرف سے ایک رسول آئے جو اس ( تورات ) کی تصدیق کر رہے تھے جو ان کے پاس ہے ، تو اہل کتاب میں سے ایک گروہ نے اللہ کی کتاب ( تورات و انجیل ) کو اس طرح پس پشت ڈال دیا گویا وہ کچھ جانتے ہی نہ تھے ( کہ اس میں نبی آخر الزماں ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے بارے میں کیا ہدایات دی گئی تھیں )
اور جب ان کے پاس تشریف لایا اللہ کے یہاں سے ایک رسول ( ف۱۷٤ ) ان کی کتابوں کی تصدیق فرماتا ( ف۱۷۵ ) تو کتاب والوں سے ایک گروہ نے اللہ کی کتاب پیٹھ پیچھے پھینک دی ( ف۱۷٦ ) گویا وہ کچھ علم ہی نہیں رکھتے ۔ ( ف۱۷۷ )
اور جب ان کے پاس اللہ کی طرف سے کو ئی رسول اس کتاب کی تصدیق و تائید کرتا ہوا آیا جو ان کے ہاں پہلے سے موجود تھی ، تو ان اہل کتاب میں سے ایک گروہ نے کتاب اللہ کو اس طرح پسِ پشت ڈالا ، گویا کہ وہ کچھ جانتے ہی نہیں ۔
اور ( اسی طرح ) جب ان کے پاس اللہ کی جانب سے رسول ( حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) آئے جو اس کتاب کی ( اصلاً ) تصدیق کرنے والے ہیں جو ان کے پاس ( پہلے سے ) موجود تھی تو ( انہی ) اہلِ کتاب میں سے ایک گروہ نے اللہ کی ( اسی ) کتاب ( تورات ) کو پسِ پشت پھینک دیا ، گویا وہ ( اس کو ) جانتے ہی نہیں ( حالانکہ اسی تورات نے انہیں نبی آخرالزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری کی خبر دی تھی )
جادو اور شعر کبھی شیاطین کا نام لے کر شیطانی کام سے بھی لوگ کرتے ہیں کبھی دواؤں وغیرہ کے ذریعہ سے بھی جادو کیا جاتا ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کے مطابق کہ بعض بیان جادو ہیں دو مطلب ہو سکتے ہیں ایک تو یہ کہ بطور تعریف کے آپ نے فرمایا ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ بطور مذمت کے یہ ارشاد ہوا ہو کہ وہ اپنی غلط بات اس طرح بیان کرتا ہے کہ سچ معلوم ہوتی ہے جیسے ایک اور حدیث میں ہے کہ کبھی میرے پاس تم مقدمہ لے کر آتے ہو تو ایک اپنی چرب زبانی سے اپنے غلط دعویٰ کو صحیح ثابت کر دیتا ہے وزیر ابو المظفر یحییٰ بن محمد بن ہبیر رحمتہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب الاشراف علی مذاہب الاشراف میں سحر کے باپ میں کہا ہے کہ اجماع ہے کہ جادو ایک حقیقت ہے لیکن ابو حنیفہ اس کے قائل نہیں جادو کے سیکھنے والے اور اسے استعمال میں لانے والے کو امام ابو حنیفہ امام مالک اور امام احمد رحمہم اللہ تو کافر بتاتے ہیں امام ابو حنیفہ کے بعض شاگردوں کا قول ہے کہ اگر جادو کو بچاؤ کے لئے سیکھے تو کافر نہیں ہوتا ہاں جو اس کا اعتقاد رکھے اور نفع دینے والا سمجھے ۔ وہ کافر ہے ۔ اور اسی طرح جو یہ خیال کرتا ہے کہ شیاطین یہ کام کرتے ہیں اور اتنی قدرت رکھتے ہیں وہ بھی کافر ہے ۔ امام شافعی فرماتے ہیں جادوگر سے دریافت کیا جائے اگر وہ بابل والوں کا سا عقیدہ رکھتا ہو اور سات سیارہ ستاروں کو تاثیر پیدا کرنے والا جانتا ہو تو کافر ہے اور اگر یہ نہ ہو تو بھی اگر جادو کو جائز جانتا ہو تو بھی کافر ہے امام مالک اور امام احمد کا قول یہ بھی ہے کہ جادوگر نے جب جادو کیا اور جادو کو استعمال میں لایا وہیں اسے قتل کر دیا جائے امام شافعی اور امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں کہ اس کا قتل بوجہ حد کے ہے مگر امام شافعی کا بیان ہے کہ بوجہ قصاص کے ہے امام مالک امام ابو حنفیہ اور ایک مشہور قول میں امام احمد کا فرمان ہے کہ جادوگر سے توبہ بھی نہ کرائی جائے اس کی توبہ سے اس پر سے حد نہیں ہٹے گی اور امام شافعی کا قول ہے کہ اس کی توبہ مقبول ہو گی ۔ امام احمد کا ہی صحیح قول ہے ۔ ایک روایت میں یہ ہے کہ اہل کتاب کا جادوگر بھی امام ابو حنیفہ کے نزدیک قتل کر دیا جائے گا لیکن تینوں اور اماموں کا مذہب اس کے برخلاف ہے لبید ین اعصم یہودی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیا تھا اور آپ نے اس کے قتل کرنے کو نہیں فرمایا اگر کوئی مسلمان عورت جادوگرنی ہو تو اس کے بارے میں امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں کہ وہ قید کر دی جائے اور تینوں کہتے ہیں اسے بھی مرد کی طرح قتل کر دیا جائے واللہ اعلم حضرت زہری کا قول ہے کہ مسلمان جادوگر قتل کر دیا جائے اور مشرک قتل نہ کیا جائے ۔ امام مالک فرماتے ہیں اگر ذمی کے جادو سے کوئی مر جائے تو ذمی کو بھی مار ڈالنا چاہئے یہ بھی آپ سے مروی ہے کہ پہلے تو اسے کہا جائے کہ توبہ کر اگر وہ کر لے اور اسلام قبول کرے تو خیر ورنہ قتل کر دیا ائے اور یہ بھی آپ سے مروی ہے کہ اگرچہ اسلام قبول کر لے تاہم قتل کر دیا جائے اس جادوگر کو جس کے جادو میں شرکیہ الفاظ ہوں اسے چاروں امام کافر کہتے ہیں کیونکہ قرآن میں ہے فلاتکفر امام مالک فرماتے ہیں جب اس پر غلبہ پا لیا جائے پھر وہ توبہ کرے تو توبہ قبول نہیں ہو گی جس طرح زندیق کی توبہ قبول نہیں ہو گی ہاں اس سے پہلے اگر توبہ کر لے تو قبول ہو گی اگر اس کے جادو سے کوئی مر گیا پھر تو بہر صورت مارا جائے گا امام شافعی فرماتے ہیں اگر وہ کہے کہ میں نے اس پر جادو مار ڈالنے کے لئے نہیں کیا تو قتل کی خطا کی دیت ( جرمانہ ) لے لیا جائے ۔ جادوگر سے اس کے جادو کو اتروانے کی حضرت سعید بن مسیب نے اجازت دی ہے جیسے صحیح بخاری شریف میں ہے عامر شعبی بھی اس میں کوئی حرج نہیں بتلاتے لیکن خواجہ حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ اسے مکروہ بتاتے ہیں ۔ حضرت عائشہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا تھا کہا آپ کیوں جادو کو افشاء نہیں کرتے؟ تو آپ نے فرمایا مجھے تو اللہ تعالیٰ نے شفا دے دی اور میں لوگوں پر برائی افشاء کرنے سے ڈرتا ہوں ۔ حضرت وہب فرماتے ہیں بیری کے سات پتے لے کر سل بٹے پر کوٹ لئے جائیں اور پانی ملا لیا جائے پھر آیت الکرسی پڑھ کر اس پر دم کر دیا جائے اور جس پر جادو کیا گیا ہے اسے تین گھونٹ پلا دیا جائے اور باقی پانی سے غسل کر دیا جائے انشاء اللہ جادو کا اثر جاتا رہے گا یہ عمل خصوصیت سے اس شخص کے لئے بہت ہی اچھا ہے جو اپنی بیوی سے روک دیا گیا ہو جادو کو دور کرنے اور اس کے اثر کو زائل کرنے کے لئے سب سے اعلیٰ چیز آیت ( قل اعوذ برب الناس ) اور آیت ( قل اعوذب برب الفلق ) کی سورتیں ہیں حدیث میں ہے کہ ان جیسا کوئی تعویذ نہیں اسی طرح آیت الکرسی بھی شیطان کو دفع کرنے میں اعلیٰ درجہ کی چیز ہے ۔