Surah

Information

Surah # 2 | Verses: 286 | Ruku: 40 | Sajdah: 0 | Chronological # 87 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 281 from Mina at the time of the Last Hajj
وَاتَّبَعُوۡا مَا تَتۡلُوا الشَّيٰطِيۡنُ عَلٰى مُلۡكِ سُلَيۡمٰنَ‌‌ۚ وَمَا کَفَرَ سُلَيۡمٰنُ وَلٰـكِنَّ الشَّيٰـطِيۡنَ كَفَرُوۡا يُعَلِّمُوۡنَ النَّاسَ السِّحۡرَ وَمَآ اُنۡزِلَ عَلَى الۡمَلَـکَيۡنِ بِبَابِلَ هَارُوۡتَ وَمَارُوۡتَ‌ؕ وَمَا يُعَلِّمٰنِ مِنۡ اَحَدٍ حَتّٰى يَقُوۡلَاۤ اِنَّمَا نَحۡنُ فِتۡنَةٌ فَلَا تَكۡفُرۡؕ‌ فَيَتَعَلَّمُوۡنَ مِنۡهُمَا مَا يُفَرِّقُوۡنَ بِهٖ بَيۡنَ الۡمَرۡءِ وَ زَوۡجِهٖ‌ؕ وَمَا هُمۡ بِضَآرِّيۡنَ بِهٖ مِنۡ اَحَدٍ اِلَّا بِاِذۡنِ اللّٰهِ‌ؕ وَيَتَعَلَّمُوۡنَ مَا يَضُرُّهُمۡ وَلَا يَنۡفَعُهُمۡ‌ؕ وَلَقَدۡ عَلِمُوۡا لَمَنِ اشۡتَرٰٮهُ مَا لَهٗ فِى الۡاٰخِرَةِ مِنۡ خَلَاقٍ‌ؕ وَلَبِئۡسَ مَا شَرَوۡا بِهٖۤ اَنۡفُسَهُمۡ‌ؕ لَوۡ کَانُوۡا يَعۡلَمُوۡنَ‏ ﴿102﴾
ا ور اس چیز کے پیچھے لگ گئے جسے شیاطین ( حضرت ) سلیمان کی حکومت میں پڑھتے تھے ۔ سلیمان نے تو کفر نہ کیا تھا ، بلکہ یہ کفر شیطانوں کا تھا ، وہ لوگوں کو جادو سکھایا کرتے تھے اور بابل میں ہاروت ماروت دو فرشتوں پر جو اتارا گیا تھا وہ دونوں بھی کسی شخص کو اس وقت تک نہیں سکھاتے تھے جب تک یہ نہ کہہ دیں کہ ہم تو ایک آزمائش ہیں تو کفر نہ کر پھر لوگ ان سے وہ سیکھتے جس سے خاوند و بیوی میں جدائی ڈال دیں اور دراصل وہ بغیر اللہ تعالٰی کی مرضی کے کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے یہ لوگ وہ سیکھتے ہیں جو انہیں نقصان پہنچائے اور نفع نہ پہنچا سکے ، اور وہ با یقین جانتے ہیں کہ اس کے لینے والے کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ۔ اور وہ بدترین چیز ہے جس کے بدلے وہ اپنے آپ کو فروخت کر رہے ہیں ، کاش کہ یہ جانتے ہوتے ۔
و اتبعوا ما تتلوا الشيطين على ملك سليمن و ما كفر سليمن و لكن الشيطين كفروا يعلمون الناس السحر و ما انزل على الملكين ببابل هاروت و ماروت و ما يعلمن من احد حتى يقولا انما نحن فتنة فلا تكفر فيتعلمون منهما ما يفرقون به بين المرء و زوجه و ما هم بضارين به من احد الا باذن الله و يتعلمون ما يضرهم و لا ينفعهم و لقد علموا لمن اشترىه ما له في الاخرة من خلاق و لبس ما شروا به انفسهم لو كانوا يعلمون
And they followed [instead] what the devils had recited during the reign of Solomon. It was not Solomon who disbelieved, but the devils disbelieved, teaching people magic and that which was revealed to the two angels at Babylon, Harut and Marut. But the two angels do not teach anyone unless they say, "We are a trial, so do not disbelieve [by practicing magic]." And [yet] they learn from them that by which they cause separation between a man and his wife. But they do not harm anyone through it except by permission of Allah . And the people learn what harms them and does not benefit them. But the Children of Israel certainly knew that whoever purchased the magic would not have in the Hereafter any share. And wretched is that for which they sold themselves, if they only knew.
Aur uss cheez kay peechay parr gaye jissay shayateen ( hazrat ) suleman ki hukoomat mein parhtay thay. Suleman ney to kufur na kiya tha bulkay yeh kufur shetanon ka tha woh logon ko jadoo sikhaya kertay thay aur babul mein haroot maroot do farishton per jo utaara gaya tha woh dono bhi kissi shaks ko uss waqt tak nahi sikhatay thay jab tak yeh na keh den kay hum to aik aazmaeesh hain tu kufur na ker phir log inn say woh seekhtay jiss say khawind-o-biwi mein judaee daal den aur dar-asal woh baghair Allah Taalaa ki marzi kay kissi ko koi nuksan nahi phoncha saktay yeh log woh seekhtay hain jo enhen nuksan phonchaye aur nafa na phoncha sakay aur woh bil yaqeen jantay hain kay iss key lenay walay ka aakhirat mein koi hissa nahi. Aur woh bad tareen cheez hai jiss kay badlay mein woh apney aap ko farokht ker rahey hain kaash kay yeh jantay hotay.
اور یہ ( بنی اسرائیل ) ان ( منتروں ) کے پیچھے لگ گئے جو سلیمان ( علیہ السلام ) کی سلطنت کے زمانے میں شیاطین پڑھا کرتے تھے ۔ اور سلیمان ( علیہ السلام ) نے کوئی کفر نہیں کیا تھا ، البہ شیاطین لوگوں کو جادو کی تعلیم دے کر کفر کا ارتکاب کرتے تھے ۔ ( ٦٦ ) نیز ( یہ بنی اسرائیل ) اس چیز کے پیچھے لگ گئے جو شہر بابل میں ہاروت اور ماروت نامی دو فرشتوں پر نازل کی گئی تھی ۔ ( ٦٧ ) یہ دو فرشتے کسی کو اس وقت تک کوئی تعلیم نہیں دیتے تھے جب تک اس سے یہ نہ کہہ دیں گے کہ : ہم محض آزمائش کے لیے ( بھیجے گئے ) ہیں ، لہذا تم ( جادو کے پیچھے لگ کر ) کفر اختیار نہ کرنا ۔ پھر بھی یہ لوگ ان سے وہ چیزیں سیکھتے تھے جس کے ذریعے مرد اور اس کی بیوی میں جدائی پیدا کردیں ۔ ( ویسے یہ واضح رہے کہ ) وہ اس کے ذریعے کسی کو اللہ کی مشیت کے بغیر کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے تھے ۔ ( ٦٨ ) ( مگر ) وہ ایسی باتیں سیکھتے تھے جو ان کے لیے نقصان دہ تھیں اور فائدہ مند نہ تھیں ۔ اور وہ یہ بھی خوب جانتے تھے کہ جو شخص ان چیزوں کا خریدار بنے گا ، آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہوگا ۔ اور حقیقت یہ ہے کہ وہ چیز بہت بری تھی جس کے بدلے انہوں نے اپنی جانیں بیچ ڈالیں ۔ کاش کہ ان کو ( اس بات کا حقیقی ) علم ہوتا ۔ ( ٦٩ )
اور اس کے پیرو ہوئے جو شیطان پڑھا کرتے تھے سلطنت سلیمان کے زمانہ میں ( ف۱۷۸ ) اور سلیمان نے کفر نہ کیا ( ف۱۷۹ ) ہاں شیطان کافر ہوئے ( ف۱۸۰ ) لوگوں کو جادو سکھاتے ہیں اور وہ ( جادو ) جو بابل میں دو فرشتوں ہاروت و ماروت پر اترا اور وہ دونوں کسی کو کچھ نہ سکھاتے جب تک یہ نہ کہہ لیتے کہ ہم تو نری آزمائش ہیں تو اپنا ایمان نہ کھو ( ف۱۸۱ ) تو ان سے سیکھتے وہ جس سے جدائی ڈالیں مرد اور اس کی عورت میں اور اس سے ضرر نہیں پہنچا سکتے کسی کو مگر خدا کے حکم سے ( ف۱۸۲ ) اور وہ سیکھتے ہیں جو انہیں نقصان دے گا نفع نہ دے گا اور بیشک ضرور انہیں معلوم ہے کہ جس نے یہ سودا لیا آخرت میں اس کا کچھ حصہ نہیں اور بیشک کیا بری چیز ہے وہ جس کے بدلے انہوں نے اپنی جانیں بیچیں کسی طرح انہیں علم ہوتا ۔ ( ف۱۸۳ )
اور لگے ان چیزوں کی پیروی کرنے ، جو شیاطین سلیمان علیہ السلام کی سلطنت کا نام لے کر پیش کیا کرتے تھے104 ، حالانکہ سلیمان علیہ السلام نے کبھی کفر نہیں کیا ، کفر کے مرتکب تو وہ شیا طین تھے جو لوگوں کو جادوگری کی تعلیم دیتے تھے ۔ اور پیچھے پڑے اس چیز کے جو بابل میں دو فرشتوں ، ھاروت و ماروت پر نازل کی گئی تھی ، حالانکہ وہ ﴿فرشتے﴾ جب بھی کسی کو اس کی تعلیم دیتے تھے ، تو پہلے صاف طور پر متنبہ کر دیا کرتے تھے کہ’’ دیکھ ، ہم محض ایک آزمائش ہیں ، تو کفر میں مبتلا نہ ہو‘‘105 پھر بھی یہ لوگ ان سے وہ چیز سیکھتے تھے جس سے شوہر اور بیوی میں جدائی ڈال دیں106 ۔ ظاہر تھا کہ اذنِ الٰہی کہ بغیر وہ اس ذریعے سے کسی کو بھی ضرر نہ پہنچا سکتے تھے ، مگر اس کے با وجود وہ ایسی چیز سیکھتے تھے جو خود ان کے لیے نفع بخش نہیں ، بلکہ نقصان دہ تھی اور انھیں خوب معلوم تھا کہ جو اس چیز کا خریدار بنا ، اس کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ۔ کتنی بری متاع تھی جس کے بدلہ انھوں نے اپنی جانوں کو بیچ ڈالا ، کاش انھیں معلوم ہوتا!
اور وہ ( یہود تو ) اس چیز ( یعنی جادو ) کے پیچھے ( بھی ) لگ گئے تھے جو سلیمان ( علیہ السلام ) کے عہدِ حکومت میں شیاطین پڑھا کرتے تھے حالانکہ سلیمان ( علیہ السلام ) نے ( کوئی ) کفر نہیں کیا بلکہ کفر تو شیطانوں نے کیا جو لوگوں کو جادو سکھاتے تھے اور اس ( جادو کے علم ) کے پیچھے ( بھی ) لگ گئے جو شہر بابل میں ہاروت اور ماروت ( نامی ) دو فرشتوں پر اتارا گیا تھا ، وہ دونوں کسی کو کچھ نہ سکھاتے تھے یہاں تک کہ کہہ دیتے کہ ہم تو محض آزمائش ( کے لئے ) ہیں سو تم ( اس پر اعتقاد رکھ کر ) کافر نہ بنو ، اس کے باوجود وہ ( یہودی ) ان دونوں سے ایسا ( منتر ) سیکھتے تھے جس کے ذریعے شوہر اور اس کی بیوی کے درمیان جدائی ڈال دیتے ، حالانکہ وہ اس کے ذریعے کسی کو بھی نقصان نہیں پہنچا سکتے مگر اللہ ہی کے حکم سے اور یہ لوگ وہی چیزیں سیکھتے ہیں جو ان کے لئے ضرر رساں ہیں اور انہیں نفع نہیں پہنچاتیں اور انہیں ( یہ بھی ) یقینا معلوم تھا کہ جو کوئی اس ( کفر یا جادو ٹونے ) کا خریدار بنا اس کے لئے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ( ہوگا ) ، اور وہ بہت ہی بری چیز ہے جس کے بدلے میں انہوں نے اپنی جانوں ( کی حقیقی بہتری یعنی اُخروی فلاح ) کو بیچ ڈالا ، کاش! وہ اس ( سودے کی حقیقت ) کو جانتے
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :104 شیاطین سے مراد شیاطینِ جِنّ اور شیاطینِ اِنس دونوں ہوسکتے ہیں اور دونوں ہی یہاں مراد ہیں ۔ جب بنی اسرائیل پر اخلاقی و مادّی انحطاط کا دَور آیا اور غلامی ، جہالت ، نَکبَت و اِفلاس اور ذِلَّت و پستی نے ان کے اندر کوئی بلند حوصلگی و اُولوا العزمی نہ چھوڑی ، تو ان کی توجہّات جادُو ٹونے اور طلسمات و ”عملیات“ اور تعویذ گنڈوں کی طرف مبذول ہونے لگیں ۔ وہ تو ایسی تدبیریں ڈھونڈنے لگے ، جن سے کسی مشَقّت اور جدّوجہد کے بغیر محض پُھونکوں اور منتروں کے زور پر سارے کام بن جایا کریں ۔ اس وقت شیاطین نے ان کو بہکانا شروع کیا کہ سلیمان ؑ کی عظیم الشان سلطنت اور ان کی حیرت انگیز طاقتیں تو سب کچھ چند نقوش اور منتروں کا نتیجہ تھیں ، اور وہ ہم تمہیں بتائے دیتے ہیں ۔ چنانچہ یہ لوگ نعمت غیر مترقبہ سمجھ کر ان چیزوں پر ٹوٹ پڑے اور پھر نہ کتاب اللہ سے ان کو کوئی دلچسپی رہی اور نہ کسی داعی حق کی آواز انہوں نے سُن کردی ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :105 اس آیت کی تاویل میں مختلف اقوال ہیں ، مگر جو کچھ میں نے سمجھا ہے وہ یہ ہے کہ جس زمانے میں بنی اسرائیل کی پُوری قوم بابل میں قیدی اور غلام بنی ہوئی تھی ، اللہ تعالیٰ نے دو فرشتوں کو انسانی شکل میں ان کی آزمائش کے لیے بھیجا ہوگا ۔ جس طرح قوم لُوط کے پاس فرشتے خوبصورت لڑکوں کی شکل میں گئے تھے ، اسی طرح ان اسرائیلیوں کے پاس وہ پیروں اور فقیروں کی شکل میں گئے ہوں گے ۔ وہاں ایک طرف انہوں نے بازارِ ساحری میں اپنی دکان لگائی ہوگی اور دُوسری طرف وہ اتمامِ حُجَّت کے لیے ہر ایک کو خبردار بھی کردیتے ہوں گے کہ دیکھو ، ہم تمہارے لیے آزمائش کی حیثیت رکھتے ہیں ، تم اپنی عاقبت خراب نہ کرو ۔ مگر اس کے باوجود لوگ ان کے پیش کردہ عملیات اور نقوش اور تعویزات پر ٹوٹے پڑتے ہوں گے ۔ فرشتوں کے انسانی شکل میں آکر کام کرنے پر کسی کو حیرت نہ ہو ۔ وہ سلطنتِ الٰہی کے کار پرداز ہیں ۔ اپنے فرائضِ منصبی کے سلسلے میں جس وقت جو صُورت اختیار کرنے کی ضرورت ہوتی ہے وہ اسے اختیار کرسکتے ہیں ۔ ہمیں کیا خبر کہ اس وقت بھی ہمارے گردوپیش کتنے فرشتے انسانی شکل میں آکر کام کرجاتے ہوں گے ۔ رہا فرشتوں کا ایک ایسی چیز سِکھانا جو بجائے خود بری تھی ، تو اس کی مثال ایسی ہے جیسے پولیس کے بے وردی سپاہی کسی رشوت خوار حاکم کو نشان زدہ سِکّے اور نوٹ لے جاکر رشوت کے طور پر دیتے ہیں تاکہ اسے عین حالتِ ارتکابِ جُرم میں پکڑیں اور اس کے لیے بے گناہی کے عذر کی گنجائش باقی نہ رہنے دیں ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :106 مطلب یہ ہے کہ اس منڈی میں سب سے زیادہ جس چیز کی مانگ تھی وہ یہ تھی کہ کوئی ایسا عمل یا تعویذ مِل جائے جس سے ایک آدمی دُوسرے کی بیوی کو اس سے توڑ کر اپنے اوپر عاشق کر لے ۔ یہ اخلاقی زوال کا وہ انتہائی درجہ تھا ، جس میں وہ لوگ مبتلا ہو چکے تھے ۔ پست اخلاقی کا اس سے زیادہ نیچا مرتبہ اور کوئی نہیں ہو سکتا کہ ایک قوم کے افراد کا سب سے زیادہ دلچسپ مشغلہ پرائی عورتوں سے آنکھ لڑانا ہو جائے اور کسی منکوحہ عورت کو اس کے شوہر سے توڑ کر اپنا کر لینے کو وہ اپنی سب سے بڑی فتح سمجھنے لگیں ۔ ازدواجی تعلق در حقیقت انسانی تمدّن کی جڑ ہے ۔ عورت اور مرد کے تعلق کی درستی پر پورے انسانی تمدّن کی درستی کا اور اس کی خرابی پر پورے انسانی تمدّن کی خرابی کا مدار ہے ۔ لہٰذا وہ شخص بدترین مُفْسِد ہے جو اس درخت کی جڑ پر تیشہ چلاتا ہو جس کے قیام پر خود اس کا اور پوری سوسائٹی کا قیام منحصر ہے ۔ حدیث میں آتا ہے کہ ابلیس اپنے مرکز سے زمین کے ہر گوشے میں اپنے ایجنٹ روانہ کرتا ہے ۔ پھر وہ ایجنٹ واپس آکر اپنی اپنی کارروائیاں سُناتے ہیں ۔ کوئی کہتا ہے : میں نے فلاں شر کھڑا کیا ۔ مگر ابلیس ہر ایک سے کہتا جاتا ہے کہ تو نے کچھ نہ کیا ۔ پھر ایک آتا ہے اور اطلاع دیتا ہے کہ میں ایک عورت اور اس کے شوہر میں جُدائی ڈال آیا ہوں ۔ یہ سُن کر ابلیس اس کو گلے لگا لیتا ہے اور کہتا ہے کہ تو کام کر کے آیا ہے ۔ اس حدیث پر غور کرنے سے یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آجاتی ہے کہ بنی اسرائیل کی آزمائش کو جو فرشتے بھیجے گئے تھے ، انہیں کیوں حکم دیا گیا کہ عورت اور مرد کے درمیان جدائی ڈالنے کا ”عمل“ ان کے سامنے پیش کریں ۔ دراصل یہی ایک ایسا پیمانہ تھا جس سے ان کے اخلاقی زوال کو ٹھیک ٹھیک ناپا جا سکتا تھا ۔