Surah

Information

Surah # 7 | Verses: 206 | Ruku: 24 | Sajdah: 1 | Chronological # 39 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 163-170, from Madina
وَاتَّخَذَ قَوۡمُ مُوۡسٰى مِنۡۢ بَعۡدِهٖ مِنۡ حُلِيِّهِمۡ عِجۡلًا جَسَدًا لَّهٗ خُوَارٌ‌ ؕ اَلَمۡ يَرَوۡا اَنَّهٗ لَا يُكَلِّمُهُمۡ وَلَا يَهۡدِيۡهِمۡ سَبِيۡلًا ۘ اِتَّخَذُوۡهُ وَكَانُوۡا ظٰلِمِيۡنَ‏ ﴿148﴾
اور موسیٰ ( علیہ السلام ) کی قوم نے ان کے بعد اپنے زیوروں کا ایک بچھڑا معبود ٹھہرا لیا جو کہ ایک قالب تھا جس میں ایک آواز تھی ۔ کیا انہوں نے یہ نہ دیکھا کہ وہ ان سے بات نہیں کرتا تھا اور نہ ان کو کوئی راہ بتلاتا تھا اس کو انہوں نے معبود قرار دیا اور بڑی بے انصافی کا کام کیا ۔
و اتخذ قوم موسى من بعده من حليهم عجلا جسدا له خوار الم يروا انه لا يكلمهم و لا يهديهم سبيلا اتخذوه و كانوا ظلمين
And the people of Moses made, after [his departure], from their ornaments a calf - an image having a lowing sound. Did they not see that it could neither speak to them nor guide them to a way? They took it [for worship], and they were wrongdoers.
Aur musa ( alh-e-salam ) ki qom ney unn kay baad apney zewaron ka aik bachra mabood thehra liya jo kay aik qalib tha jiss mein aik aawaz thi. Kiya enhon ney yeh na dekha kay woh inn say baat nahi kerta tha aur na inn ko koi raah batlata tha uss ko enhon ney mabood qarar diya aur bari bey insafi ka kaam kiya.
اور موسیٰ کی قوم نے ان کے جانے کے بعد اپنے زیوروں سے ایک بچھڑا بنا لیا ( بچھڑا کیا تھا؟ ) ایک بے جان جسم جس سے بیل کی سی آواز نکلتی تھی ۔ ( ٦٩ ) بھلا کیا انہوں نے اتنا بھی نہیں دیکھا کہ وہ نہ ان سے بات کرسکتا ہے ، اور نہ انہیں کوئی راستہ بتا سکتا ہے؟ ( مگر ) اسے معبود بنا لیا ، اور ( خود اپنی جانوں کے لیے ) ظالم بن بیٹھے ۔
اور موسیٰ کے ( ف۲۷۲ ) بعد اس کی قوم اپنے زیوروں سے ( ف۲۷۳ ) ایک بچھڑا بنا بیٹھی بےجان کا دھڑ ( ف۲۷٤ ) گائے کی طرف آواز کرتا ، کیا نہ دیکھا کہ وہ ان سے نہ بات کرتا ہے اور نہ انہیں کچھ راہ بتائے ( ف۲۷۵ ) اسے لیا اور وہ ظالم تھے ( ف۲۷٦ )
موسیٰ کے پیچھے 106 اس کی قوم کےلوگوں نے اپنے زیوروں سے ایک بچھڑے کا پتلا بنایا جس میں سے بیل کی سی آواز نکلتی تھی ۔ کیا انہیں نظر نہ آتا تھا کہ وہ نہ ان سے بولتا ہے نہ کسی معاملہ میں ان کی رہنمائی کرتا ہے ؟ مگر پھر بھی انہوں نے اسے معبود بنا لیا اور وہ سخت ظالم تھے ۔ 107
اور موسٰی ( علیہ السلام ) کی قوم نے ان کے ( کوہِ طور پر جانے کے ) بعد اپنے زیوروں سے ایک بچھڑا بنا لیا ( جو ) ایک جسم تھا ، اس کی آواز گائے کی تھی ، کیا انہوں نے یہ نہیں دیکھا کہ وہ نہ ان سے بات کرسکتا ہے اور نہ ہی انہیں راستہ دکھا سکتا ہے ۔ انہوں نے اسی کو ( معبود ) بنا لیا اور وہ ظالم تھے
سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :106 یعنی ان چالیس دِنوں کے دوران میں جب کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی طلبی پر کوہ سینا گئے ہوئے تھے اور یہ قوم پہاڑ کے نیچے میدانُ الرَّاحَہ میں ٹھیری ہوئی تھی ۔ سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :107 یہ اس مصریّت زدگی کا دوسرا ظہور تھا جسے لیے ہوئے بنی اسرائیل مصر سے نکلے تھے ۔ مصر میں گائے کی پرستش اور تقدیس کا جو رواج تھا اس سے یہ قوم اتنی شدّت کے ساتھ متاثر ہو چکی تھی کہ قرآن کہتا ہے وَاُشْرِبُوْا فِیْ قُلُوْبِھِمُ العِجْلَ ۔ یعنی ان کے دلوں میں بچھڑا بس کر رہ گیا تھا ۔ سب سے زیادہ حیرت کا مقام یہ ہے کہ ابھی مصر سے نکلے ہوئے ان کو صرف تین مہینے ہی گزرے تھے ۔ سمندر کا پھٹنا ، فرعون کا غرق ہونا ، ان لوگوں کا بخیریت اس بند غلامی سے نکل آنا جس کے ٹوٹنے کی کوئی امید نہ تھی ، اور اس سلسلے کے دوسرے واقعات ابھی بالکل تازہ تھے ، اور انہیں خوب معلوم تھا کہ یہ جو کچھ ہوا محض اللہ کی قدرت سے ہوا ہے ، کسی دوسرے کی طاقت و تصرف کا اس میں کچھ دخل نہ تھا ۔ مگر اس پر بھی انہوں نے پہلے تو پیغمبر سے ایک مصنوعی خدا طلب کیا ، اور پھر پیغمبر کے پیٹھ موڑتے ہی خود ایک مصنوعی خدا بنا ڈالا ۔ یہی وہ حرکت ہے جس پر بعض انبیاء بنی اسرا ئیل نے اپنی قوم کو اس بدکار عورت سے تشبیہ دی ہے جو اپنے شوہر کے سوا ہر دوسرے مرد سے دل لگاتی ہو اور جو شب اوّل میں بھی بے وفائی سے نہ چُوکی ہو ۔
بنی اسرائیل کا بچھڑے کو پوجنا حضرت موسیٰ علیہ السلام تو اللہ کے وعدے کے مطابق تورات لینے گئے ادھر فرعونیوں کے جو زیور بنی اسرائیل کے پاس رہ گئے تھے سامری نے انہیں جمع کیا اور اپنے پاس سے اس میں خاک کی مٹھی ڈال دی جو حضرت جبرائیل علیہ السلام کے گھوڑے کی ٹاپ تلے سے اس نے اٹھالی تھی اللہ کی قدرت سے وہ سونا گل کر مثل ایک گائے کے جسم کے ہو گیا اور چونکہ کھو کھلا تھا اس میں سے آواز بھی آنے لگی اور وہ بالکل ہو بہو گائے کی سی آواز تھی ۔ اس نے بنی اسرائیل کو بہکا کر اس کی عبادت کرانی شروع کر دی بہت سے لوگ اسے پوجنے لگے ۔ اللہ تعالیٰ نے طور پر حضرت موسیٰ کو اس فتنے کی خبر دی ۔ یہ بچھڑا یا تو سچ مچ خون گوشت کا بن گیا تھا یا سونے کا ہی تھا مگر شکل گائے کی تھی یہ اللہ ہی جانے ۔ بنی اسرائیل تو آواز سنتے ہی ناچنے لگے اور اس پر ریجھ گئے ۔ سامری نے کہہ دیا کہ اللہ تو یہی ہے موسیٰ بھول گئے ہیں ۔ انہیں اتنی بھی تمیز نہ آئی کہ وہ اللہ تو کسی بات کا جواب بھی نہیں دے سکتا اور کسی نفع نقصان کا اختیار بھی نہیں رکھتا ۔ اس بچھڑے کو اس اللہ کو چھوڑ کر پوجو جو سب کا مالک اور سب کا خالق ہے ۔ اس کی وجہ سوائے اندھے پن اور بےعقلی کے اور کیا ہو سکتی ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا کسی چیز کی محبت انسان کو اندھا بہرا کر دیتی ہے پھر جب اس محبت میں کمی آئی آنکھیں کھلیں تو اپنے اس فعل پر نادم ہونے لگے اور یقین کر لیا کہ واقعی ہم گمراہ ہوگئے تو اللہ سے بخشش مانگنے لگے ۔ ایک قرأت میں تغفر تے سے بھی ہے ۔ جان گئے کہ اگر معافی نہ ملی تو بڑے نقصان سے دو جار ہو جائیں گے ۔ غرض اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ سے جھکے اور التجا کرنے لگے ۔