Surah

Information

Surah # 7 | Verses: 206 | Ruku: 24 | Sajdah: 1 | Chronological # 39 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 163-170, from Madina
وَالَّذِيۡنَ كَذَّبُوۡا بِاٰيٰتِنَا وَلِقَآءِ الۡاٰخِرَةِ حَبِطَتۡ اَعۡمَالُهُمۡ‌ؕ هَلۡ يُجۡزَوۡنَ اِلَّا مَا كَانُوۡا يَعۡمَلُوۡنَ‏ ﴿147﴾
اور یہ لوگ جنہوں نے ہماری آیتوں کو اور قیامت کے پیش آنے کو جھٹلایا ان کے سب کام غارت گئے ۔ ان کو وہی سزا دی جائے گی جو کچھ یہ کرتے تھے ۔
و الذين كذبوا بايتنا و لقاء الاخرة حبطت اعمالهم هل يجزون الا ما كانوا يعملون
Those who denied Our signs and the meeting of the Hereafter - their deeds have become worthless. Are they recompensed except for what they used to do?
Aur yeh log jinon ney humari aayaton ko aur qayamat kay paish aaney ko jhutlaya unn kay sab kaam ghaarat gaye. Inn ko wohi saza di jayegi jo kuch yeh kertay thay.
اور جن لوگوں نے ہماری نشانیوں کو اور آخرت کا سامنا کرنے کو جھٹلایا ہے ، ان کے اعمال غارت ہوگئے ہیں ۔ انہیں جو بدلہ دیا جائے گا ، وہ کسی اور چیز کا نہیں خود ان اعمال کا ہوگا جو وہ کرتے آئے تھے ۔ ( ٦٨ )
اور جنہوں نے ہماری آیتیں اور آخرت کے دربار کو جھٹلایا ان کا سب کیا دھرا اَکارت گیا ، انہیں کیا بدلہ ملے گا مگر وہی جو کرتے تھے ،
ہماری نشانیوں کو جس کسی نے جھٹلایا اور آخرت کی پیشی کا انکار کیا اس کے سارے اعمال ضائع ہوگئے ۔ 105 کیا لوگ اس کے سِوا کچھ اور جزا پا سکتے ہیں کہ جیسا کریں ویسا بھریں؟ ؏ ١۷
اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو اور آخرت کی ملاقات کو جھٹلایا ان کے اعمال برباد ہوگئے ۔ انہیں کیا بدلہ ملے گا مگر وہی جوکچھ وہ کیا کرتے تھے
سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :105 ضائع ہوگئے ، یعنی بار آور نہ ہوئے ، غیر مفید اور لاحاصل نکلے ۔ اس لیے کہ خدا کے ہاں انسانی سعی و عمل کے بار آور ہونے کا انحصار بالکل دو امور پر ہے ۔ ایک یہ کہ وہ سعی و عمل خدا کے قانون شرعی کی پابندی میں ہو ۔ دوسرے یہ کہ اس سعی و عمل میں دنیا کی بجائے آخرت کی کامیابی پیش نظر ہو ۔ یہ دو شرطیں جہاں پوری نہ ہوں گی وہاں لازماً حبطِ عمل واقع ہوگا ۔ جس خدا سے ہدایت لیے بغیر بلکہ اس سے منہ موڑ کر باغیانہ انداز پر دنیا میں کام کیا ، ظاہر ہے کہ وہ خدا سے کسی اجر کی توقع رکھنے کا کسی طرح حقدار نہیں ہو سکتا ۔ اور جس نے سب کچھ دنیا ہی کے لیے کیا ، اور آخرت کے لیے کچھ نہ کیا ، کھلی بات ہے کہ آخرت میں اسے کوئی ثمرہ پانے کی امید نہ رکھنی چاہیے اور کوئی وجہ نہیں کہ وہاں وہ کسی قسم کا ثمرہ پائے ۔ اگر میری مملوکہ زمین میں کوئی شخص میرے منشا کہ خلاف تصرف کرتا رہا ہے تو وہ مجھ سے سزا پانے کے سوا آخر اور کیا پانے کا حق دار ہو سکتا ہے؟ اور اگر اس زمین پر اپنے خاصبانہ قبضہ کے زمانہ میں اس نے سارا کام خود ہی اس ارادہ کے ساتھ کیا ہو کہ جب تک اصل مالک اس کی جرٲت بے جا سے اغماض کر رہا ہے ، اسی وقت تک وہ اس سے فائدہ اُٹھائے گا اور مالک کے قبضہ میں زمین واپس چلے جانے کے بعد وہ خود بھی کسیِ فائدے کا متوقع یا طالب نہیں ہے ، تو آخر کیا وجہ ہے کہ میں اس غاصب سے اپنی زمین واپس لینے کے بعد زمین کی پیداوار میں سے کوئی حصّہ خواہ مخواہ اسے دوں؟