Surah

Information

Surah # 7 | Verses: 206 | Ruku: 24 | Sajdah: 1 | Chronological # 39 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 163-170, from Madina
وَلَمَّا رَجَعَ مُوۡسٰٓى اِلٰى قَوۡمِهٖ غَضۡبَانَ اَسِفًا ۙ قَالَ بِئۡسَمَا خَلَفۡتُمُوۡنِىۡ مِنۡۢ بَعۡدِىۡ ۚ اَعَجِلۡتُمۡ اَمۡرَ رَبِّكُمۡ‌ ۚ وَاَلۡقَى الۡاَلۡوَاحَ وَاَخَذَ بِرَاۡسِ اَخِيۡهِ يَجُرُّهٗۤ اِلَيۡهِ‌ؕ قَالَ ابۡنَ اُمَّ اِنَّ الۡـقَوۡمَ اسۡتَضۡعَفُوۡنِىۡ وَكَادُوۡا يَقۡتُلُوۡنَنِىۡ ‌ۖ  فَلَا تُشۡمِتۡ بِىَ الۡاَعۡدَآءَ وَ لَا تَجۡعَلۡنِىۡ مَعَ الۡقَوۡمِ الظّٰلِمِيۡنَ‏ ﴿150﴾
اور جب موسیٰ ( علیہ السلام ) اپنی قوم کی طرف واپس آئے غصہ اور رنج میں بھرے ہوئے تو فرمایا کہ تم نے میرے بعد یہ بڑی بری جانشینی کی؟ کیا اپنے رب کے حکم سے پہلے ہی تم نے جلد بازی کر لی اور جلدی سے تختیاں ایک طرف رکھیں اور اپنے بھائی کا سر پکڑ کر ان کو اپنی طرف گھسیٹنے لگے ۔ ہارون ( علیہ السلام ) نے کہا کہ اے میرے ماں جائے !ان لوگوں نے مجھ کو بے حقیقت سمجھا اور قریب تھا کہ مجھ کو قتل کر ڈالیں تو تم مجھ پر دشمنوں کو مت ہنساؤ اور مجھ کو ان ظالموں کے ذیل میں مت شمار کرو ۔
و لما رجع موسى الى قومه غضبان اسفا قال بسما خلفتموني من بعدي اعجلتم امر ربكم و القى الالواح و اخذ براس اخيه يجره اليه قال ابن ام ان القوم استضعفوني و كادوا يقتلونني فلا تشمت بي الاعداء و لا تجعلني مع القوم الظلمين
And when Moses returned to his people, angry and grieved, he said, "How wretched is that by which you have replaced me after [my departure]. Were you impatient over the matter of your Lord?" And he threw down the tablets and seized his brother by [the hair of] his head, pulling him toward him. [Aaron] said, "O son of my mother, indeed the people oppressed me and were about to kill me, so let not the enemies rejoice over me and do not place me among the wrongdoing people."
Aur jab musa ( alh-e-salam ) apni qom ki taraf wapis aaye gussay aur ranj mein bharay huye to farmaya kay tum ney meray baad yeh bari buri janasheeni ki? Kiya apney rab kay hukum say pehlay hi tum ney jald baazi ker li aur jaldi say takhtiyan aik taraf rakhin aur apney bhai kay sir pakar ker unn ko apni taraf ghaseetney lagay. Haroon ( alh-e-salam ) ney kaha aey meray maa jaye! Inn logon ney mujh ko bey haqeeqat samjha aur qareeb tha kay mujh ko qatal ker dalen to tum mujh per dushmanon ko mat hansao aur mujh ko inn zalimon kay zail mein mat shumar kero.
اور جب موسیٰ غصے اور رنج میں بھرے ہوئے اپنی قوم کے پاس واپس آئے تو انہوں نے کہا : تم نے میرے بعد میری کتنی بری نمائندگی کی ۔ کیا تم نے اتنی جلد بازی سے کام لیا کہ اپنے رب کے حکم کا بھی انتظار نہیں ؟ اور ( یہ کہہ کر ) انہوں نے تختیاں پھینک دیں ۔ ( ٧٠ ) اور اپنے بھائی ( ہارون علیہ السلام ) کا سر پکڑ کر ان کو اپنی طرف کھینچنے لگے ۔ وہ بولے : اے میری ماں کے بیٹے ! یقین جانیے کہ ان لوگوں نے مجھے کمزور سمجھا ۔ اور قریب تھا کہ مجھے قتل ہی کردیتے ۔ اب آپ دشمنوں کو مجھ پر ہنسنے کا موقع نہ دیجیے ، اور مجھے ان ظالم لوگوں میں شمار نہ کیجیے ۔
اور جب موسیٰ ( ف۲۷۷ ) اپنی قوم کی طرف پلٹا غصہ میں بھرا جھنجلایا ہوا ( ف۲۷۸ ) کہا تم نے کیا بری میری جانشینی کی میرے بعد ( ۲۷۹ ) کیا تم نے اپنے رب کے حکم سے جلدی کی ( ف۲۸۰ ) اور تختیاں ڈال دیں ( ف۲۸۱ ) اور اپنے بھائی کے سر کے بال پکڑ کر اپنی طرف کھینچنے لگا ( ف۲۸۲ ) کہا اے میرے ماں جائے ( ف۲۸۳ ) قوم نے مجھے کمزور سمجھا اور قریب تھا کہ مجھے مار ڈالیں تو مجھ پر دشمنوں کو نہ ہنسا ( ف۲۸٤ ) اور مجھے ظالموں میں نہ ملا ( ف۲۸۵ )
ادھر سے موسیٰ غصّے اور رنج میں بھرا ہوا اپنی قوم کی طرف پلٹا ۔ آتے ہی اس نے کہا بہت بری جانشینی کی تم لوگوں نے میرے بعد! کیا تم سے اتنا صبر نہ ہوا کہ اپنے رب کے حکم کا انتظار کر لیتے؟ اور تختیاں پھینک دیں اور اپنے بھائی ﴿ہارون﴾ کے سر کے بال پکڑ کر اسے کھینچا ۔ ہارون نے کہا اے میری ماں کے بیٹے ، ان لوگوں نے مجھے دبا لیا اور قریب تھا کہ مجھے مار ڈالتے ، پس تو دشمنوں کو مجھ پر ہنسنے کا موقع نہ دے اور اس ظالم گروہ کے ساتھ مجھے نہ شامل کر ۔ 108
اور جب موسٰی ( علیہ السلام ) اپنی قوم کی طرف نہایت غم و غصہ سے بھرے ہوئے پلٹے تو کہنے لگے کہ تم نے میرے ( جانے کے ) بعد میرے پیچھے بہت ہی برا کام کیا ہے ، کیا تم نے اپنے رب کے حکم پر جلد بازی کی؟ اور ( موسٰی علیہ السلام نے تورات کی ) تختیاں نیچے رکھ دیں اور اپنے بھائی کے سر کو پکڑ کر اپنی طرف کھینچا ( تو ) ہارون ( علیہ السلام ) نے کہا: اے میری ماں کے بیٹے! بیشک اس قوم نے مجھے کمزور سمجھا اور قریب تھا کہ ( میرے منع کرنے پر ) مجھے قتل کر ڈالیں ، سو آپ دشمنوں کو مجھ پر ہنسنے کا موقع نہ دیں اور مجھے ان ظالم لوگوں ( کے زمرے ) میں شامل نہ کریں
سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :108 یہاں قرآن مجید نے ایک بہت بڑے الزام سےحضرت ہارون کی براءت ثابت کی ہے جو یہودیوں نے زبردستی ان پر چسپاں کر رکھا تھا ۔ بائیبل میں بچھڑے کی پرستش کا واقعہ اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ جب حضرت موسیٰ کو پہاڑ سے آنے میں دیر لگی تو بنی اسرائیل نے بے صبر ہو کر حضرت ہارون سے کہا کہ ہمارے لیے ایک معبود بنا دو ، حضرت ہارون نے ان کی فرمائش کے مطابق سونے کا ایک بچھڑا بنا دیا جسے دیکھتے ہی بنی اسرائیل پکار اُٹھے کہ اے اسرائیل ، یہی تیرا وہ خدا ہے جو تجھے ملک مصر سے نکال کر لایا ہے ۔ پھر حضرت ہارون نے اس کے لیے ایک قربان گاہ بنائی اور اعلان کر کے دوسرے روز تمام بنی اسرائیل کو جمع کیا اور اس کے آگے قربانیاں چڑھائیں ( خروج ۔ باب۳۲ ۔ آیت١ ۔ ٦ ) ۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر بصراحت اس غلط بیانی کی تردید کی گئی ہے اور حقیقت واقعہ یہ بتائی گئی ہے کہ اس جرم عظیم کا مرتکب خدا کا نبی ہارون نہیں بلکہ خدا کا باغی سامری تھا ۔ ( تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو سورہ طہٰ ، آیات ۹۰ ۔ ۹٤ ) ۔ بظاہر یہ بات بڑی حیرت انگیز معلوم ہوتی ہے کہ بنی اسرائیل جن لوگوں کو خدا کا پیغمبر مانتے ہیں ان میں سے کسی کی سیرت کو بھی انہوں نے داغدار کیے بغیر نہیں چھوڑا ہے ، اور داغ بھی ایسے سخت لگائے ہیں جو اخلاق و شریعت کی نگاہ میں بدترین جرائم شمار ہوتے ہیں ، مثلاً شرک ، جادوگری ، زنا ، جھوٹ ، دغا بازی اور ایسے ہی دوسرے شدید معاصی جن سے آلودہ ہونا پیغمبر تو درکنار ایک معمولی مومن اور شریف انسان کے لیے بھی سخت شرمناک ہے ۔ یہ بات بجائے خود نہایت عجیب ہے لیکن بنی اسرائیل کی اخلاقی تاریخ پر غور کرنے سے معلوم ہو جاتا ہے کہ فی الحقیقت اس قوم کے معاملہ میں یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے ۔ یہ قوم جب اخلاقی و مذہبی انحطاط میں مبتلا ہوئی اور عوام سے گزر کر ان کے خواص تک کو ، حتٰی کہ علماء و مشائخ اور دینی منصب داروں کو بھی گمراہیوں اور بد اخلاقیوں کا سیلاب بہالے گیا تو ان کے مجرم ضمیر نے اپنی اس حالت کے لیے عذرات تراشنے شروع کیے اور اسی سلسلہ میں انہوں نے وہ تمام جرائم جو یہ خود کرتے تھے ، انبیاء علیہم السلام کی طرف منسوب کر ڈالے تا کہ یہ کہا جا سکے کہ جب نبی تک ان چیزوں سے نہ بچ سکے تو بھلا اور کون بچ سکتا ہے ۔ اس معاملہ میں یہودیوں کا حال ہندوؤں سے ملتا جلتا ہے ۔ ہندوؤں میں بھی جب اخلاقی انحطاط انتہا کو پہنچ گیا تو وہ لٹریچر تیار ہوا جس میں دیوتاؤں ، رشیوں ، مُنیوں اور اوتاروں کی ، غرض جو بلند ترین آئیڈیل قوم کے سامنے ہو سکتے تھے ان سب کی زندگیاں بد اخلاقی کے تارکول سے سیاہ کر ڈالی گئیں تا کہ یہ کہا جا سکے کہ جب ایسی ایسی عظیم الشان ہستیاں ان قبائح میں مبتلا ہو سکتی ہیں تو بھلا ہم معمولی فانی انسان ان میں مبتلا ہوئے بغیر کیسے رہ سکتے ہیں ، اور پھر جب یہ افعال اتنے اُونچے مرتبے والوں کے لیے بھی شرمناک نہیں ہیں تو ہمارے لیے کیوں ہوں ۔
موسیٰ علیہ السلام کی کوہ طور سے واپسی حضرت موسیٰ علیہ السلام کو چونکہ طور پر ہی اپنی قوم کا یہ کفر معلوم ہو چکا تھا اس لئے سخت غضبناک ہو کر واپس آئے اور فرمانے لگے کہ تم نے تو میرے بعد سخت نالائقی کی ۔ تم نے میرا انتظار بھی نہ کیا میری ذرا سی تاخیر میں یہ ظلم ڈھایا غصے کے مارے تختیاں ہاتھ سے پھینک دیں ۔ کہا گیا ہے کہ یہ زمرد یا یا قوت یا کسی اور چیز کی تھیں ۔ سچ ہے جو حدیث میں ہے کہ دیکھنا سننا برابر نہیں ، اپنی قوم پر غصے ہو کر الواح ہاتھ سے گرا دیں ۔ ٹھیک بات یہی ہے جمہور سلف و خلف کا قول بھی یہی ہے لیکن ابن جریر نے قتادہ سے ایک عجیب قول نقل کیا ہے جس کی سند بھی صحیح نہیں ۔ ابن عطیہ وغیرہ نے اس کی بہت تردید کی ہے اور واقعی وہ تردید کے قابل بھی ہے ۔ بہت ممکن ہے کہ قتادہ نے یہ اہل کتاب سے لیا ہو اور ان کا کیا اعتبار ہے؟ ان میں جھوٹے ، بناوٹ کرنے والے ، گھڑ لینے والے ، بد دین ، بےدین ہر طرح کے لوگ ہیں اس خوف سے کہ کہیں حضرت ہارون علیہ السلام نے انہیں باز رکھنے کی پوری کوشش نہ کی ہو آپ نے ان کے سر کے بالوں کے بل انہیں گھسیٹ لیا اور فرمانے لگے انہیں گمراہ ہوتے ہوئے دیکھ کر بھی تونے میری ما تحتی میں انہیں کیوں نہ روکا ؟ کیا تو بھی میرے فرمان کا منکر بن گیا ؟ اس پر حضرت ہارون علیہ السلام نے جواب دیا کہ بھائی جان میرے سر کے اور داڑھی کے بال نہ پکڑیں میں نے تو ہر ممکن طریقے سے انہیں روکا زیادہ اس لئے نہ الجھا کہ کہیں آپ یہ نہ فرما دیں کہ تو نے بنی اسرائیل میں تفریق ڈال دی ؟ تو نے میرا انتظار کیوں نہ کیا ؟ ورنہ میں تو ان گمراہوں سے اب تک زمین کو پاک کر چکا ہوتا ۔ انہوں نے تو مجھے کچھ بھی نہ سمجھا بلکہ میرے قتل کے درپے ہوگئے ۔ آپ مجھے ان ہی کی طرح نہ سمجھیں نہ ان میں ملائیں ۔ حضرت ہارون کا یہ فرمانا کہ اے میرے ماں جائے بھائی یہ صرف اس لئے تھا کہ حضرت موسیٰ کو رحم آ جائے ، ماں باپ دونوں کے ایک ہی تھے ۔ جب آپ کو اپنے بھائی ہارون کی برات کی تحقیق ہو گئی اللہ کی طرف سے بھی ان کی پاک دامنی اور بےقصوری معلوم ہو گئی کہ انہوں نے اپنی قوم سے پہلے ہی یہ فرما دیا تھا کہ افسوس تم فتنے میں پڑ گئے اب بھی کچھ نہیں بگڑا پروردگار بڑا ہی رحیم و کریم ہے تم میری مان لو اور پھر سے میرے تابع دار بن جاؤ تو آپ اللہ سے دعائیں کرنے لگے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ موسیٰ پر رحم کرے واقعی دیکھنے والے میں اور خبر سننے والے میں بہت فرق ہوتا ہے ۔ قوم کی گمراہی کی خبر سنی تو تختیاں ہاتھ سے نہ گرائیں لیکن اسی منظر کو دیکھ کر قابو میں نہ رہے تختیاں پھینک دیں ۔