Surah

Information

Surah # 7 | Verses: 206 | Ruku: 24 | Sajdah: 1 | Chronological # 39 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 163-170, from Madina
وَ مِنۡ قَوۡمِ مُوۡسٰٓى اُمَّةٌ يَّهۡدُوۡنَ بِالۡحَـقِّ وَبِهٖ يَعۡدِلُوۡنَ‏ ﴿159﴾
اور قوم موسیٰ میں ایک جماعت ایسی بھی ہے جو حق کے مطابق ہدایت کرتی ہے اور اسی کے مطابق انصاف بھی کرتی ہے ۔
و من قوم موسى امة يهدون بالحق و به يعدلون
And among the people of Moses is a community which guides by truth and by it establishes justice.
Aur qom-e-musa mein aik jamat aisi bhi hai jo haq kay mutabiq hidayat kerti hai aur issi kay mutabiq insaf bhi kerti hai.
اور موسیٰ کی قوم میں ایک جماعت ایسی بھی ہے جو لوگوں کو حق کا راستہ دکھاتی ہے اور اسی ( حق ) کے مطابق انصاف سے کام لیتی ہے ۔ ( ٧٨ )
اور موسیٰ کی قوم سے ایک گروہ ہے کہ حق کی راہ بتاتا اور اسی سے ( ف۳۰٤ ) انصاف کرتا ،
موسٰی کی قوم میں ایک گروہ ایسا بھی تھا جو حق کے مطابق ہدایت کرتا اور حق ہی کے مطابق انصاف کرتا تھا ۔ 117
اور موسٰی ( علیہ السلام ) کی قوم میں سے ایک جماعت ( ایسے لوگوں کی بھی ) ہے جو حق کی راہ بتاتے ہیں اور اسی کے مطابق عدل ( پر مبنی فیصلے ) کرتے ہیں
سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :117 بیشتر مترجمین نے اس آیت کا ترجمہ یوں کیا ہے کہ موسیٰ کی قوم میں ایک گروہ ایسا ہے جو حق کے مطابق ہدایت اور انصاف کرتا ہے ، یعنی ان کے نزدیک اس آیت میں بنی اسرائیل کی وہ اخلاقی و ذہنی حالت بیان کی گئی ہے جو نزولِ قرآن کے وقت تھی ۔ لیکن سیاق و سباق پر نظر کرتے ہوئے ہم اس بات کو ترجیح دیتے ہیں کہ اس آیت میں بنی اسرائیل کا وہ حال بیان ہوا ہے جو حضرت موسیٰ کے زمانے میں تھا ، اور اس سے مدعا یہ ظاہر کرنا ہے کہ جب اس قوم میں گوسالہ پرستی کے جرم کا ارتکاب کیا گیا اور حضرت حق کی طرف سے اس پر گرفت ہوئی تو اس وقت ساری قوم بگڑی ہوئی نہ تھی بلکہ اس میں ایک اچھا خاصا صالح عنصر موجود تھا ۔
انبیاء کا قاتل گروہ خبر ہے کہ امت موسیٰ میں بھی ایک گروہ حق کا ماننے والا ہے ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( لَيْسُوْا سَوَاۗءً ۭ مِنْ اَھْلِ الْكِتٰبِ اُمَّةٌ قَاۗىِٕمَةٌ يَّتْلُوْنَ اٰيٰتِ اللّٰهِ اٰنَاۗءَ الَّيْلِ وَھُمْ يَسْجُدُوْنَ ١١٣؁ ) 3-آل عمران:113 ) ، اہل کتاب میں سے ایک جماعت حق پر قائم ہے ، راتوں کو اللہ کے کلام کی تلاوت کرتی رہتی ہے اور برابر سجدے کیا کرتی ہے اور آیت میں ہے ( وَاِنَّ مِنْ اَھْلِ الْكِتٰبِ لَمَنْ يُّؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْھِمْ خٰشِعِيْنَ لِلّٰهِ ۙ لَا يَشْتَرُوْنَ بِاٰيٰتِ اللّٰهِ ثَـمَنًا قَلِيْلًا ۭ اُولٰۗىِٕكَ لَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّھِمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ سَرِيْعُ الْحِسَابِ ١٩٩؁ ) 3-آل عمران:199 ) ، یعنی اہل کتاب میں ایسے لوگ بھی ہیں جو اللہ پر اور اس پر جو تمہاری طرف نازل کیا گیا ہے اور اس پر جو ان کی طرف اتارا گیا ہے ایمان کا اور اس کی حقانیت کا اعلان کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم اس سے پہلے ہی مسلمان تھے انہیں ان کے صبر کا دوہرا اجر ہے اور آیت میں ہے ( اَلَّذِيْنَ اٰتَيْنٰھُمُ الْكِتٰبَ يَتْلُوْنَهٗ حَقَّ تِلَاوَتِهٖ ۭ اُولٰۗىِٕكَ يُؤْمِنُوْنَ بِهٖ ۭ وَمَنْ يَّكْفُرْ بِهٖ فَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَ ١٢١۝ۧ ) 2- البقرة:121 ) ، جو لوگ ہماری کتاب پائے ہوئے ہیں اور اسے حق تلاوت کی ادائیگی کے ساتھ پڑھتے ہیں وہ اس قرآن پر بھی ایمان رکھتے ہیں اور فرمان ہے آیت ( قُلْ اٰمِنُوْا بِهٖٓ اَوْ لَا تُؤْمِنُوْا ۭ اِنَّ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِهٖٓ اِذَا يُتْلٰى عَلَيْهِمْ يَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ سُجَّدًا ١٠٧؀ۙ{السجدہ} ) 17- الإسراء:107 ) جو لوگ پہلے علم دیئے گئے ہیں وہ ہمارے پاک قرآن کی آیتیں سن کر سجدوں میں گر پڑتے ہیں ۔ ہماری پاکیزگی کا اظہار کر کے ہمارے وعدوں کی سچائی بیان کرتے ہیں ۔ اپنی ٹھوڑیوں کے بل روتے ہوئے سجدے کرتے ہیں اور عاجزی اور اللہ سے خوف کھانے میں سبقت لے جاتے ہیں امام ابن جریر نے اپنی تفسیر میں اس جگہ ایک عجیب خبر لکھی ہے کہ ابن جریج فرماتے ہیں جب بنی اسرائیل نے کفر کیا اور اپنے نبیوں کو قتل کیا ان کے بارہ گروہ تھے ان میں سے ایک گروہ اس نالائق گروہ سے الگ رہا اللہ تعالیٰ سے معذورت کی اور دعا کی کہ ان میں اور ان گیارہ گروہوں میں وہ تفریق کر دے ۔ چنانچہ زمین میں ایک سرنگ ہو گئی یہ اس میں چلے گئے اور چین کے پرلے پار نکل گئے وہاں پر سچے سیدھے مسلمان انہیں ملے جو ہمارے قبلہ کی طرف نمازیں پڑھتے تھے ۔ کہتے ہیں کہ آیت ( وَّقُلْنَا مِنْۢ بَعْدِهٖ لِبَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ اسْكُنُوا الْاَرْضَ فَاِذَا جَاۗءَ وَعْدُ الْاٰخِرَةِ جِئْنَا بِكُمْ لَفِيْفًا ١٠٤؀ۭ ) 17- الإسراء:104 ) کا یہی مطلب ہے ۔ اس آیت میں جس دوسرے وعدے کا ذکر ہے یہ آخرت کا وعدہ ہے ۔ کہتے ہیں اس سرنگ میں ڈیڑھ سال تک وہ چلتے رہے ۔ کہتے ہیں اس قوم کے اور تمہارے درمیان ایک نہر ہے ۔