Surah

Information

Surah # 7 | Verses: 206 | Ruku: 24 | Sajdah: 1 | Chronological # 39 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 163-170, from Madina
وَقَطَّعۡنٰهُمُ اثۡنَتَىۡ عَشۡرَةَ اَسۡبَاطًا اُمَمًا‌ ؕ وَاَوۡحَيۡنَاۤ اِلٰى مُوۡسٰٓى اِذِ اسۡتَسۡقٰٮهُ قَوۡمُهٗۤ اَنِ اضۡرِبْ بِّعَصَاكَ الۡحَجَرَ‌ ۚ فَاْنۢبَجَسَتۡ مِنۡهُ اثۡنَتَا عَشۡرَةَ عَيۡنًا‌ ؕ قَدۡ عَلِمَ كُلُّ اُنَاسٍ مَّشۡرَبَهُمۡ‌ؕ وَظَلَّلۡنَا عَلَيۡهِمُ الۡغَمَامَ وَاَنۡزَلۡنَا عَلَيۡهِمُ الۡمَنَّ وَالسَّلۡوٰىؕ كُلُوۡا مِنۡ طَيِّبٰتِ مَا رَزَقۡنٰكُمۡ‌ؕ وَ مَا ظَلَمُوۡنَا وَلٰـكِنۡ كَانُوۡۤا اَنۡفُسَهُمۡ يَظۡلِمُوۡنَ‏ ﴿160﴾
اور ہم نے ان کو بارہ خاندانوں میں تقسیم کرکے سب کی الگ الگ جماعت مقرر کردی اور ہم نے موسیٰ ( علیہ السلام ) کو حکم دیا جب کہ ان کی قوم نے ان سے پانی مانگا کہ اپنے عصا کو فلاں پتھر پر مارو پس فوراً اس سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے ۔ ہر ہر شخص نے اپنے پانی پینے کا موقع معلوم کر لیا ۔ اور ہم نے ان پر ابر کو سایہ فگن کیا اور ان کو من و سلوٰی ( ترنجبین اور بٹیر یں ) پہنچائیں ، کھاؤ نفیس چیزوں سے جو کہ ہم نے تم کو دی ہیں اور انہوں نے ہمارا کوئی نقصان نہیں کیا لیکن اپنا ہی نقصان کرتے تھے ۔
و قطعنهم اثنتي عشرة اسباطا امما و اوحينا الى موسى اذ استسقىه قومه ان اضرب بعصاك الحجر فانبجست منه اثنتا عشرة عينا قد علم كل اناس مشربهم و ظللنا عليهم الغمام و انزلنا عليهم المن و السلوى كلوا من طيبت ما رزقنكم و ما ظلمونا و لكن كانوا انفسهم يظلمون
And We divided them into twelve descendant tribes [as distinct] nations. And We inspired to Moses when his people implored him for water, "Strike with your staff the stone," and there gushed forth from it twelve springs. Every people knew its watering place. And We shaded them with clouds and sent down upon them manna and quails, [saying], "Eat from the good things with which We have provided you." And they wronged Us not, but they were [only] wronging themselves.
Aur hum ney unn ko baara khaandanon mein taqseem ker kay sab ki alag alag jamat muqarrar ker di aur hum ney musa ( alh-e-salam ) ko hukum diya jabkay unn ki qom ney unn say pani maanga kay apney asa ko falan pathar per maaro pus foran uss say baara chashmay phoot niklay. Her her shaks ney apney pani peenay ka moqa maloom ker liya aur hum ney unn per abar ko saya figan kiya aur unn ko mann-o-salwa ( taran jabeen aur bateren ) phonchaen khao nafees cheezon say jo hum ney tum ko di hain aur unhon ney humara koi nuksan nahi kiya lekin apna hi nuksan kertay thay.
اور ہم نے ان کو ( یعنی بنی اسرائیل کو ) بارہ خاندانوں میں اس طرح تقسیم کردیا تھا کہ وہ الگ الگ ( انتظامی ) جماعتوں کی صورت اختیار کر گئے تھے ۔ اور جب موسیٰ کی قوم نے ان سے پانی مانگا تو ہم نے ان کو وحی کے ذریعے حکم دیا کہ اپنی لاٹھی فلاں پتھر پر مارو ۔ ( ٧٩ ) چنانچہ اس پتھر سے بارہ چشمے پھوٹ پڑے ۔ ہر خاندان کو اپنی پانی پینے کی جگہ معلوم ہوگئی ۔ اور ہم نے ان کو بادل کا سایہ دیا ، اور ہم نے ان پر من و سلوی ( یہ کہہ کر ) اتارا کہ : کھاؤ وہ پاکیزہ رزق جو ہم نے تمہیں دیا ہے ۔ اور ( اس کے باوجود انہوں نے ناشکری کی تو ) انہوں نے ہمارا کوئی نقصان نہیں کیا ، بلکہ وہ خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے رہے ۔
اور ہم نے انہیں بانٹ دیا بارہ قبیلے گروہ گروہ ، اور ہم نے وحی بھیجی موسیٰ کو جب اس سے اس کی قوم نے ( ف۳۰۵ ) پانی ما نگا کہ اس پتھر پر اپنا عصا مارو تو اس میں سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے ( ف۳۰٦ ) ہر گروہ نے اپنا گھاٹ پہچان لیا ، اور ہم نے ان پر ابر کا سائبان کیا ( ف۳۰۷ ) اور ان پر من و سلویٰ اتارا ، کھاؤ ہماری دی ہوئی پاک چیزیں اور انہوں نے ( ف۳۰۸ ) ہمارا کچھ نقصان نہ کیا لیکن اپنی ہی جانوں کا برا کرتے ہیں ،
اور ہم نے اس قوم کو بارہ گھرانوں میں تقسیم کر کے انہیں مستقل گروہوں کی شکل دے دی تھی ۔ 118 اور جب موسٰی سے اس کی قوم نے پانی مانگا تو ہم نے اس کو اشارہ کیا کہ فلاں چٹان پر اپنی لاٹھی مارو ۔ چناچہ اس چٹان سے یکایک بارہ چشمے پھوٹ نِکلے اور ہرگروہ نے اپنےپانی لینے کی جگہ متعیّن کرلی ، ہم نے ان پر بادل کا سایہ کیا اور ان پر من و سلوٰی اتارا ۔ 119 کھاؤ وہ پاک چیزیں جو ہم نے تم کو بخشی ہیں ۔ مگر اس کے بعد انہوں نے جو کچھ کیا تو ہم پر ظلم نہیں کیا بلکہ آپ اپنے ہی اوپر ظلم کرتے رہے ۔ 120
اور ہم نے انہیں گروہ در گروہ بارہ قبیلوں میں تقسیم کر دیا ، اور ہم نے موسٰی ( علیہ السلام ) کے پاس ( یہ ) وحی بھیجی جب اس سے اس کی قوم نے پانی مانگا کہ اپنا عصا پتھر پر مارو ، سو اس میں سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے ، پس ہر قبیلہ نے اپنا گھاٹ معلوم کرلیا ، اور ہم نے ان پر اَبر کا سائبان تان دیا ، اور ہم نے ان پر منّ و سلوٰی اتارا ، ( اور ان سے فرمایا: ) جن پاکیزہ چیزوں کا رزق ہم نے تمہیں عطا کیا ہے اس میں سے کھاؤ ، ( مگر نافرمانی اور کفرانِ نعمت کر کے ) انہوں نے ہم پر ظلم نہیں کیا بلکہ وہ اپنی ہی جانوں پر ظلم کر رہے تھے
سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :118 اشارہ ہے بنی اسرائیل کی اس تنظیم کی طرف جو سورہ مائدہ آیت ١۲ میں بیان ہوئی ہے اور جس کی پوری تفصیل بائیبل کی کتاب گنتی میں ملتی ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے کوہ سینا کے بیابان میں بنی اسرائیل کی مردم شماری کرائی ، پھر ان کے ١۲ گھرانوں کو جو حضرت یعقوب کے دس بیٹوں اور حضرت یوسف کے دو بیٹوں کی نسل سے تھے الگ الگ گروہوں کی شکل میں منظم کیا ، اور ہر گروہ پر ایک ایک سردار مقرر کیا تاکہ وہ ان کے اندر اخلاقی ، مذہبی ، تمدنی و معاشرتی اور فوجی حیثیت سے نظم قائم رکھے اور احکامِ شریعت کا اجراء کرتا رہے ۔ نیز حضرت یعقوب کے بارھویں بیٹے لاوِی کی اولاد کو جس کی نسل سے حضرت موسیٰ اور ہارون تھے ، ایک الگ جماعت کی شکل میں منظم کیا تاکہ وہ ان سب قبیلوں کےدرمیان شمع حق روشن رکھنے کی خدمت انجام دیتی رہے ۔ سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :119 اوپر جس تنظیم کا ذکر کیا گیا ہے وہ منجملہ ان احسانات کے تھی جو اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر کیے ۔ اس کے بعد اب مزید تین احسانات کا ذکر فرمایا گیا ہے ۔ ایک یہ کہ جزیرہ نمائے سینا کے بیابانی علاقہ میں ان کے لیے پانی کی بہم رسانی کا غیر معمولی انتظام کیا گیا ۔ دوسرے یہ کہ ان کو دھوپ کی تپش سے بچانے کے لیے آسمان پر بادل چھا دیا گیا ۔ تیسرے یہ کہ ان کے لیے خوراک کی بہم رسانی کا غیر معمولی انتظام من و سلویٰ کے نزول کی شکل میں کیا گیا ۔ ظاہر ہے کہ اگر ان تین اہم ترین ضروریات زندگی کا بندوبست نہ کیا جاتا تو یہ قوم جس کی تعداد کئی لاکھ تک پہنچی ہوئی تھی ، اس علاقہ میں بھوک پیاس سے بالکل ختم ہو جائی ۔ آج بھی کوئی شخص وہاں جائے تو یہ دیکھ کر حیران رہ جائے گا کہ اگر یہاں پندرہ بیس لاکھ آدمیوں کا ایک عظیم الشان قافلہ یکایک آ ٹھہرے تو اس کے لیے پانی ، خوراک اور سائے کا آخر کیا انتظام ہو سکتا ہے ۔ موجودہ زمانے میں پورے جزیرہ نما کی آبادی ۵۵ ہزار سے زیادہ نہیں ہے اور آج اس بیسویں صدی میں بھی اگر کوئی سلطنت وہاں پانچ چھ لاکھ فوج لے جانا چاہے تو اس کے مُدَبِّروں کو رسد کے انتظام کی فکر میں دردِ سر لاحق ہو جائے ۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ زمانہ کے بہت سے محققین نے ، جو نہ کتاب کو مانتے ہیں اور نہ معجزات کو تسلیم کرتے ہیں ، یہ ماننے سے انکار کر دیا ہے کہ بنی اسرائیل جزیرہ نمائے سینا کے اس حصہ سے گزرے ہونگے جس کا ذکر بائیبل اور قرآن میں ہوا ہے ۔ ان کا گمان ہے کہ شاید یہ واقعات فلسطین کے جنوبی اور عرب کے شمالی حصہ میں پیش آئے ہوں گے ۔ جزیرہ نمائے سینا کے طبعی اور معاشی جغرافیہ کو دیکھتے ہوئے وہ اس بات کو بالکل ناقابل تصور سمجھتے ہیں کہ اتنی بڑی قوم یہاں برسوں ایک ایک جگہ پڑاؤ کرتی ہوئی گزر سکی تھی ، خصوصاً جب کہ مصر کی طرف سے اس کی رسد کا راستہ بھی منقطع تھا اور دوسری طرف خود اس جزیرہ نما کے مشرق اور شمال میں عَمالِقَہ کے قبیلے اس کی مزاحمت پر آمادہ تھے ۔ ان امور کو پیش نظر رکھنے سے صحیح طور پر اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ان چند مختصر آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر اپنے جن احسانات کا ذکر فرمایا ہے وہ درحقیقت کتنے بڑے احسانات تھے اور اس کے بعد یہ کتنی بڑی احسان فراموشی تھی کہ اللہ کے فضل و کرم کی ایسی صریح نشانیاں دیکھ لینے پر بھی یہ قوم مسلسل ان نافرمانیوں اور غداریوں کی مرتکب ہوتی رہی جن سے اس کی تاریخ بھری پڑی ہے ۔ ( تقابل کے لیے ملاحظہ ہو سورہ بقرہ۷ حواشی نمبر ۷۲ ، ۷۳ ، ۷٦ ) سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :120 اب تاریخ بنی اسرائیل کے ان واقعات کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مذکورہ بالا احسانات کو جواب یہ لوگ کیسی کیسی مجرمانہ بے باکیوں کے ساتھ دیتے رہے اور پھر کس طرح مسلسل تباہی کے گڑھے میں گرتے چلے گئے ۔
یہ سب آیتیں سورۃ بقرہ میں گذر چکی ہیں اور وہیں ان کی پوری تفسیر بھی بحمد اللہ ہم نے بیان کر دی ہے وہ سورت مدنیہ ہے اور یہ مکیہ ہے ۔ ان آیتوں اور ان آیتوں کا فرق بھی مع لطافت کے ہم نے وہیں ذکر کر دیا ہے دوبارہ کی ضرورت نہیں ۔