Surah

Information

Surah # 7 | Verses: 206 | Ruku: 24 | Sajdah: 1 | Chronological # 39 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 163-170, from Madina
وَسۡـــَٔلۡهُمۡ عَنِ الۡـقَرۡيَةِ الَّتِىۡ كَانَتۡ حَاضِرَةَ الۡبَحۡرِ‌ۘ اِذۡ يَعۡدُوۡنَ فِى السَّبۡتِ اِذۡ تَاۡتِيۡهِمۡ حِيۡتَانُهُمۡ يَوۡمَ سَبۡتِهِمۡ شُرَّعًا وَّيَوۡمَ لَا يَسۡبِتُوۡنَ‌ ۙ لَا تَاۡتِيۡهِمۡ‌‌ ۛۚ كَذٰلِكَ ‌ۛۚ نَبۡلُوۡهُمۡ بِمَا كَانُوۡا يَفۡسُقُوۡنَ‏ ﴿163﴾
اور آپ ان لوگوں سے اس بستی والوں کا جو کہ دریائے ( شور ) کے قریب آباد تھے اس وقت کا حال پوچھئے! جب کہ وہ ہفتہ کے بارے میں حد سے نکل رہے تھے جب کہ انکے ہفتہ کے روز تو ان کی مچھلیاں ظاہر ہو ہو کر ان کے سامنے آتی تھیں اور جب ہفتہ کا دن نہ ہوتا تو ان کے سامنے نہ آتی تھیں ، ہم ان کی اس طرح پر آزمائش کرتے تھے اس سبب سے کہ وہ بے حکمی کیا کرتے تھے ۔
و سلهم عن القرية التي كانت حاضرة البحر اذ يعدون في السبت اذ تاتيهم حيتانهم يوم سبتهم شرعا و يوم لا يسبتون لا تاتيهم كذلك نبلوهم بما كانوا يفسقون
And ask them about the town that was by the sea - when they transgressed in [the matter of] the sabbath - when their fish came to them openly on their sabbath day, and the day they had no sabbath they did not come to them. Thus did We give them trial because they were defiantly disobedient.
Aur aap inn logon say uss basti walon ka jo kay darya-e ( -shor ) kay qarib aabad thay uss waqt ka haal poochiye! Jabkay woh haftay kay baray mein hadd say nikal rahey thay jabkay unn kay haftay kay roz to unn ki machliyan zahir ho ho ker unn kay samney aati thin aur jab haftay ka din na hota to unn kay samney na aati thin hum unn ki iss tarah per aazmaeesh kertay thay iss sabab say kay woh bey hukmi kiya kertay thay.
اور ان سے اس بستی کے بارے میں پوچھو جو سمندر کے کنارے آباد تھی ، جب وہ سبت ( سینچر ) کے معاملے میں زیادتیاں کرتے تھے ۔ ( ٨٠ ) جب ان ( کے سمندر ) کی مچھلیاں سینچر کے دن تو اچھل اچھل کر سامنے آتی تھیں ، اور جب وہ سینچر کا دن نہ منا رہے ہوتے تو وہ نہیں آتی تھیں ۔ اس طرح ان کی مسلسل نافرمانیوں کی وجہ سے ہم انہیں آزماتے تھے ۔ ( ٨١ )
اور ان سے حال پوچھو اس بستی کا کہ دریا کنارے تھی ( ف۳۱۳ ) جب وہ ہفتے کے بارے میں حد سے بڑھتے ( ف۳۱٤ ) جب ہفتے کے دن ان کی مچھلیاں پانی پر تیرتی ان کے سامنے آتیں اور جو دن ہفتے کا نہ ہوتا نہ آتیں اس طرح ہم انہیں آزمانتے تھے ان کی بےحکمی کے سبب ،
اور ذرا ان سے اس بستی کا حال بھی پوچھو جو سمندر کے کنارے واقع تھی 122 ۔ اِنہیں یاد دلاؤ وہ واقعہ کہ وہاں کے لوگ سَبْت ﴿ہفتہ﴾ کے دن احکامِ الٰہی کی خلاف ورزی کرتے تھے اور یہ کہ مچھلیاں سبت ہی کے دن ابھر ابھر کر سطح پر ان کے سامنے آتی تھیں 123 اور سَبْت کے سوا باقی دنوں میں نہیں آتی تھیں ۔ یہ اس لیے ہوتا تھا کہ ہم ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے ان کو آزمائش میں ڈال رہے 124 تھے ۔
اور آپ ان سے اس بستی کا حال دریافت فرمائیں جو سمندر کے کنارے واقع تھی ، جب وہ لوگ ہفتہ ( کے دن کے احکام ) میں حد سے تجاوز کرتے تھے ( یہ اس وقت ہوا ) جب ( ان کے سامنے ) ان کی مچھلیاں ان کے ( تعظیم کردہ ) ہفتہ کے دن کو پانی ( کی سطح ) پر ہر طرف سے خوب ظاہر ہونے لگیں اور ( باقی ) ہر دن جس کی وہ یومِ شنبہ کی طرح تعظیم نہیں کرتے تھے ( مچھلیاں ) ان کے پاس نہ آتیں ، اس طرح ہم ان کی آزمائش کر رہے تھے بایں وجہ کہ وہ نافرمان تھے
سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :122 محققین کا غالب میلان اس طرف ہے کہ یہ مقام اَیلہ یا اَیلات یا اَیلوت تھا جہاں اب اسرائیل کی یہودی ریاست نے اسی نام کی ایک بندرگاہ بنائی ہے اور جس کے قریب ہی اُردن کی مشہور بندرگاہ عَقَبہ واقع ہے ۔ اس کی جائے وقوع بحرِ قلزم کی اس شاخ کے انتہائی سرے پر پے جو جزیرہ نمائے سینا کے مشرقی اور عرب کے مغربی ساحل کے درمیان ایک لمبی خلیج کی صورت میں نظر آتی ہے ۔ بنی اسرائیل کے زمانہ عروج میں یہ بڑا اہم تجارتی مرکز تھا ۔ حضرت سلیمان نے اپنے بحرِ قلزم کے جنگی و تجارتی بیڑے کا صدر مقام اسی شہر کو بنایا تھا ۔ جس واقعہ کی طرف یہاں اشارہ کیا گیا ہے اس کے متعلق یہودیوں کی کتب مقدسہ میں کوئی ذکر ہمیں نہیں ملتا اور ان کی تاریخیں بھی اس باب میں خاموش ہیں ، مگر قرآن مجید میں جس انداز سے اس واقعہ کو یہاں اور سورہ بقرہ میں بیان کیا گیا ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ نزول قرآن کے دور میں بنی اسرائیل بالعموم اس واقعہ سے خوب واقف تھے ، اور یہ حقیقت ہے کہ مدینہ کے یہودیوں نے ، جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے دیتے تھے ، قرآن کے اس بیان پر قطعاً کوئی اعتراض نہیں کیا ۔ سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :123 ”سبت“ ہفتہ کے دن کو کہتے ہیں ۔ یہ دن بنی اسرائیل کے لیے مقدس قرار دیا گیا تھا اور اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے اور اولادِ اسرائیل کے درمیان پشت در پشت تک دائمی عہد کا نشان قرار دیتے ہوئے تاکید کی تھی کہ اس روز کوئی دنیوی کام نہ کیا جائے ، گھروں میں آگ تک نہ جلائی جائے ، جانوروں اور لونڈی غلاموں تک سے کوئی خدمت نہ لی جائے اور یہ کہ جو شخص اس ضابطہ کی خلاف ورزی کرے اسے قتل کر دیا جائے ۔ لیکن بنی اسرائیل نے آگے چل کر اس قانون کی علانیہ خلاف ورزی شروع کر دی ۔ یرمیاہ نبی کے زمانہ میں ( جو ٦۲۸ اور ۵۸٦ء قبل مسیح کے درمیان گزرے ہیں ) خاص یروشلم کے پھاٹکوں سے لوگ سبت کے دن مال اسباب لے لے کر گزرتے تھے ۔ اس پر نبی موصوف نے خدا کی طرف سے یہودیوں کو دھمکی دی کہ اگر تم لوگ شریعت کی اس کھلم کھلا خلاف ورزی سے باز نہ آئے تو یردشلم نذر آتش کردیا جائے گا ( یرمیاہ ١۷:۲١ ۔ ۲۷ ) ۔ اسی کی شکایت حزقی ایل نبی بھی کرتے ہیں جن کا دور۵۹۵ء اور۵۳٦ قبل مسیح کے درمیان گزرا ہے ، چنانچہ ان کی کتاب میں سبت کی بے حرمتی کو یہودیوں کے قومی جرائم میں سے ایک بڑا جرم قرار دیا گیا ہے ( حزقی ایل۲۰:١۲ ۔ ۲٤ ) ۔ ان حوالوں سے یہ گمان کیا جاسکتا ہے کہ قرآن مجید یہاں جس واقعہ کا ذکر کر رہا ہے وہ بھی غالباً اسی دور کا واقعہ ہوگا ۔ سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :124 اللہ تعالیٰ بندوں کی آزمائش کے لیے جو طریقے اختیار فرماتا ہے ان میں سے ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ جب کسی شخص یا گروہ کے اندر فرماں برداری سے انحراف اور نافرمانی کی جانب میلان بڑھنے لگتا ہے تو اس کے سامنے نافرمانی کے مواقع کا دروازہ کھول دیا جاتا ہے تاکہ اس کے وہ میلانات جو اندر چھپے ہوئے ہیں کھل کر پوری طرح نمایاں ہو جائیں اور جن جرائم سے وہ اپنے دامن کو خود داغ دار کرنا چاہتا ہے ان سے وہ صرف اس لیے باز نہ رہ جائے کہ ان کے ارتکاب کے مواقع اسے نہ مل رہے ہوں ۔
تصدیق رسالت سے گریزاں یھودی علماء پہلے آیت ( وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ الَّذِيْنَ اعْتَدَوْا مِنْكُمْ فِى السَّبْتِ فَقُلْنَا لَھُمْ كُوْنُوْا قِرَدَةً خٰسِـــِٕيْنَ 65۝ۚ ) 2- البقرة:65 ) گذر چکی ہے اسی واقعہ کا تفصیلی بیان اس آیت میں ہے اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلوات اللہ وسلامہ علیہ کو حکم دیتا ہے کہ آپ اپنے زمانے کے یہودیوں سے ان کے پہلے باپ دادوں کی بابت سوال کیجئے جنہوں نے اللہ کے فرمان کی مخالفت کی تھی پس ان کی سرکشی اور حیلہ جوئی کی وجہ سے ہماری اچانک پکڑ ان پر مسلط ہوئی ۔ اس واقعہ کو یاد دلا کہ یہ بھی میری ناگہانی سزا سے ڈر کر اپنی اس ملعون صفت کو بدل دیں اور آپ کے جو اوصاف ان کی کتابوں میں ہیں انہیں نہ چھپائیں ایسا نہ ہو کہ ان کی طرح ان پر بھی ہمارے عذاب ان کی بےخبری میں برس پڑیں ۔ ان لوگوں کی یہ بستی بحر قلزم کے کنارے واقع تھی جس کا نام آئلہ تھا ۔ مدین اور طور کے درمیان یہ شہر تھا ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس بستی کا نام مدین تھا ۔ ایک قول یہ ہے کہ اس کا نام متنا تھا ۔ یہ مدین اور عینوں کے درمیان تھا ۔ انہیں حکم ملا کہ یہ ہفتہ کے دن کی حرمت کریں اور اس دن شکار نہ کھیلیں ، مچھلی نہ پکڑیں ۔ ادھر مچھلیوں کی بحکم الٰہی یہ حالت ہوئی کہ ہفتے والے دن تو چڑھی چلی آتیں کھلم کھلا ہاتھ لگتیں تیرتی پھرتیں سب طرف سے سمٹ کر آ جاتیں اور جب ہفتہ نہ ہوتا ایک مچھلی بھی نظر نہ آتی بلکہ تلاش پر بھی ہاتھ نہ لگتی ۔ یہ ہماری آزمائش تھی کہ مچھلیاں ہیں تو شکار منع اور شکار جائز ہے تو مچھلیاں ندارد ۔ چونکہ یہ لوگ فاسق اور بےحکم تھے اس لئے ہم نے بھی ان کو اس طرح آزمایا آخر ان لوگوں نے حیلہ جوئی شروع کی ایسے اسباب جمع کرنے شروع کئے جو باطن میں اس حرام کام کا ذریعہ بن جائیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ یہودیوں کی طرح حیلے کر کے ذرا سی دیر کے لئے اللہ کے حرام کو حلال نہ کر لینا ۔ اس حدیث کو امام ابن بطو لائے ہیں اور اس کی سند نہایت عمدہ ہے اس کے راوی احمد ہیں ۔ محمد بن مسلم کا ذکر امام خطیب رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی تاریخ میں کیا ہے اور انہیں ثقہ کہا ہے باقی اور سب راوی بہت مشہور ہیں اور سب کے سب ثقہ ہیں ایسی بہت سی سندوں کو امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ نے صحیح کہا ہے ۔