Surah

Information

Surah # 7 | Verses: 206 | Ruku: 24 | Sajdah: 1 | Chronological # 39 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 163-170, from Madina
وَاِذۡ تَاَذَّنَ رَبُّكَ لَيَبۡعَثَنَّ عَلَيۡهِمۡ اِلٰى يَوۡمِ الۡقِيٰمَةِ مَنۡ يَّسُوۡمُهُمۡ سُوۡٓءَ الۡعَذَابِ‌ ؕ اِنَّ رَبَّكَ لَسَرِيۡعُ الۡعِقَابِ ‌ ‌ۖۚ وَاِنَّهٗ لَـغَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ‏ ﴿167﴾
اور وہ وقت یاد کرنا چاہیے کہ آپ کے رب نے یہ بات بتلادی کہ وہ ان یہود پر قیامت تک ایسے شخص کو ضرور مسلط کرتا رہے گا جو ان کو سزائے شدید کی تکلیف پہنچاتا رہے گا بلاشبہ آپ کا رب جلدی ہی سزا دے دیتا ہے اور بلاشبہ وہ واقعی بڑی مغفرت اور بڑی رحمت والا ہے ۔
و اذ تاذن ربك ليبعثن عليهم الى يوم القيمة من يسومهم سوء العذاب ان ربك لسريع العقاب و انه لغفور رحيم
And [mention] when your Lord declared that He would surely [continue to] send upon them until the Day of Resurrection those who would afflict them with the worst torment. Indeed, your Lord is swift in penalty; but indeed, He is Forgiving and Merciful.
Aur woh waqt yaad kerna chahaiye kay aap kay rab ney yeh baat batla di kay woh inn yahud per qayamat tak aisay shaks ko zaroor musallat kerta rahey ga jo inn ko sazay-e-shadeed ki takleef phonchata rahey ga bila shuba aap ka rab jaldi hi saza dey deta hai aur bila shuba woh waqaee bari maghfirat aur bari rehmat wala hai.
اور ( یاد کرو وہ وقت ) جب تمہارے رب نے اعلان کیا کہ وہ ان پر قیامت کے دن تک کوئی نہ کوئی ایسا شخص مسلط کرتا رہے گا جو ان کو بری بری تکلیفیں پہنچائے گا ۔ ( ٨٥ ) بیشک تمہارا رب جلد ہی سزا دینے والا بھی ہے ، اور یقینا وہ بہت بخشنے والا ، بڑا مہربان بھی ہے ۔
اور جب تمہارے رب نے حکم سنادیا کہ ضرور قیامت کے دن تک ان ( ف۳۱۸ ) پر ایسے کو بھیجتا رہوں گا جو انہیں بری مار چکھائے ( ف۳۱۹ ) بیشک تمہارا رب ضرور جلد عذاب والا ہے ( ف۳۲۰ ) اور بیشک وہ بخشنے والا مہربان ہے ( ف۳۲۱ )
اور یاد کرو جبکہ تمہارے رب نے اعلان کر دیا 127 کہ وہ قیامت تک برابر ایسے لوگ بنی اسرائیل پر مسلّط کرتا رہے گا جو ان کو بدترین عذاب دیں گے ، 128 یقیناً تمہارا رب سزا دینے میں تیز دست ہے اور یقیناً وہ درگزر اور رحم سے بھی کام لینے والا ہے ۔
اور ( وہ وقت بھی یاد کریں ) جب آپ کے رب نے ( یہود کو یہ ) حکم سنایا کہ ( اللہ ) ان پر روزِ قیامت تک ( کسی نہ کسی ) ایسے شخص کو ضرور مسلّط کرتا رہے گا جو انہیں بری تکلیفیں پہنچاتا رہے ۔ بیشک آپ کا رب جلد سزا دینے والا ہے ، اور بیشک وہ بڑا بخشنے والا مہربان ( بھی ) ہے
سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :127 اصل میں لفظ تَاذَّن استعمال ہوا ہے جس کا مفہوم تقریباً وہی ہے جو نوٹس دینے یا خبردار کر دینے کا ہے ۔ سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :128 یہ تنبیہ بنی اسرائیل کو تقریباً آٹھویں صدی قبل مسیح سے مسلسل کی جا رہی تھی ۔ چنانچہ یہودیوں کے مجموعہ کتب مقدسہ میں یسعیاہ اور یرمیاہ اور ان کے بعد آنے والے انبیاء کی تمام کتابیں اسی تنبیہ پر مشتمل ہیں پھر یہی تنبیہ مسیح علیہ السلام نے انہیں کی جیسا کہ اناجیل میں ان کی متعدد تقریروں سے ظاہر ہے ۔ آخر میں قرآن نے اس کی توثیق کی ۔ اب یہ بات قرآن اور اس سے پہلے صحیفوں کی صداقت پر ایک بین شہادت ہے کہ اس وقت سے لے کر آج تک تاریخ میں کوئی دور ایسا نہیں گزرا ہے جس میں یہودی قوم دنیا میں کہیں نہ کہیں روندی اور پامال نہ کی جاتی رہی ہو ۔
اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا انجام ذلت و رسوائی اللہ تعالیٰ نے یہود کو اطلاع کر دی کہ ان کی اس سخت نافرمانی و بار بار کی بغاوت اور ہر موقعہ پر نافرمانی ، رب سے سرکشی اور اللہ کے حرام کو اپنے کام میں لانے کیلئے حیلہ جوئی کر کے اسے حلال کی جامہ پوشی کا بدلہ یہ ہے کہ قیامت تک تم دبے رہو ذلت میں رہو لوگ تمہیں پست کرتے چلے جائیں ۔ خود حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی ان پر تاوان مقرر کر دیا تھا سات سال یا تیرہ سال تک یہ اسے ادا کرتے رہے ، سب سے پہلے خراج کا طریقہ آپ نے ہی ایجاد کیا پھر ان پر یونانیوں کی حکومت ہوئی پھر کسرانیوں کلدانیوں اور نصرانیوں کی ۔ سب کے زمانے میں ذلیل اور حقیر رہے ان سے جزیہ لیا جاتا رہا اور انہیں پستی سے ابھرنے کا کوئی موقعہ نہ ملا ۔ پھر اسلام آیا اور اس نے بھی انہیں پست کیا جزیہ اور خراج برابر ان سے وصول ہوتا رہا ۔ غرض یہ ذلیل رہے اس امت کے ہاتھوں بھی حقارت کے گڑھے میں گرے رہے ۔ بالآخر یہ دجال کے سات مل جائیں گے لیکن مسلمان حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ جا کر ان کی تخم ریزی کر دیں گے ، جو بھی شریعت الہ کی مخالفت کرتا ہے ، اللہ کے فرمان کی تحقیر کرتا ہے اللہ اسے جلدی ہی سزا دے دیتا ہے ۔ ہاں جو اس کی طرف رغبت و رجوع کرے ، توبہ کرے ، جھکے تو وہ بھی اس کے ساتھ بخشش و رحمت سے پیش آتا ہے چونکہ ایمان نام ہے خوف اور امید کا اسی لئے یہاں اور اکثر جگہ عذاب و ثواب ، پکڑ دکڑ اور بخشش اور لالچ دونوں کا ایک ساتھ بیان ہوا ہے ۔