Surah

Information

Surah # 7 | Verses: 206 | Ruku: 24 | Sajdah: 1 | Chronological # 39 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 163-170, from Madina
فَخَلَفَ مِنۡۢ بَعۡدِهِمۡ خَلۡفٌ وَّرِثُوا الۡكِتٰبَ يَاۡخُذُوۡنَ عَرَضَ هٰذَا الۡاَدۡنٰى وَيَقُوۡلُوۡنَ سَيُغۡفَرُ لَـنَا‌ ۚ وَاِنۡ يَّاۡتِهِمۡ عَرَضٌ مِّثۡلُهٗ يَاۡخُذُوۡهُ‌ ؕ اَلَمۡ يُؤۡخَذۡ عَلَيۡهِمۡ مِّيۡثَاقُ الۡـكِتٰبِ اَنۡ لَّا يَقُوۡلُوۡا عَلَى اللّٰهِ اِلَّا الۡحَـقَّ وَدَرَسُوۡا مَا فِيۡهِ‌ ؕ وَالدَّارُ الۡاٰخِرَةُ خَيۡرٌ لِّـلَّذِيۡنَ يَتَّقُوۡنَ‌ ؕ اَفَلَا تَعۡقِلُوۡنَ‏ ﴿169﴾
پھر ان کے بعد ایسے لوگ ان کے جانشین ہوئے کہ کتاب کو ان سے حاصل کیا وہ اس دنیائے فانی کا مال متاع لے لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہماری ضرور مغفرت ہو جائے گی حالانکہ اگر ان کے پاس ویسا ہی مال متاع آنے لگے تو اس کو بھی لے لیں گے کیا ان سے اس کتاب کے اس مضمون کا عہد نہیں لیا گیا کہ اللہ کی طرف سے بجز حق بات کے اور کسی بات کی نسبت نہ کریں اور انہوں نے اس کتاب میں جو کچھ تھا اس کو پڑھ لیا اور آخرت والا گھر ان لوگوں کے لئے بہتر ہے جو تقوٰی رکھتے ہیں ، پھر کیا تم نہیں سمجھتے ۔
فخلف من بعدهم خلف ورثوا الكتب ياخذون عرض هذا الادنى و يقولون سيغفر لنا و ان ياتهم عرض مثله ياخذوه الم يؤخذ عليهم ميثاق الكتب ان لا يقولوا على الله الا الحق و درسوا ما فيه و الدار الاخرة خير للذين يتقون افلا تعقلون
And there followed them successors who inherited the Scripture [while] taking the commodities of this lower life and saying, "It will be forgiven for us." And if an offer like it comes to them, they will [again] take it. Was not the covenant of the Scripture taken from them that they would not say about Allah except the truth, and they studied what was in it? And the home of the Hereafter is better for those who fear Allah , so will you not use reason?
Phir inn kay baad aisay log inn kay janasheen huye kay kitab ko inn say hasil kiya woh iss duniya-e-faani ka maal mataa ley letay hain aur kehtay hain kay humari zaroor maghfirat hojaye gi halankay agar inn kay pass wesa hi maal mataa aaney lagay to iss ko bhi ley len gay. Kiya inn say iss kitab kay iss mazmoon ka ehad nahi liya gaya kay Allah ki taraf ba-juz haq baat kay aur kissi baat ki nisbat na keren aur enhon ney iss kitab mein jo kuch tha uss ko parh liya aur aakhirat wala ghar unn logon kay liye behtar hai jo taqwa rakhtay hain phri kiya tum nahi samajhtay.
پھر ان کے بعد ان کی جگہ ایسے جانشین آئے جو کتاب ( یعنی تورات ) کے وارث بنے ، مگر ان کا حال یہ تھا کہ اس ذلیل دنیا کا سازو سامان ( رشوت میں ) لیتے ، اور یہ کہتے کہ : ہماری بخشش ہوجائے گی ۔ حالانکہ اگر اسی جیسا سازوسامان دوبارہ ان کے پاس آتا تو وہ اسے بھی ( رشوت میں ) لے لیتے ۔ ( ٨٦ ) کیا ان سے کتاب میں مذکور یہ عہد نہیں لیا گیا تھا کہ وہ اللہ کی طرف حق کے سوا کوئی بات منسوب نہ کریں؟ اور اس ( کتاب ) میں جو کچھ لکھا تھا وہ انہوں نے باقاعدہ پڑھا بھی تھا ۔ اور آخرت والا گھر ان لوگوں کے لیے کہیں بہتر ہے جو تقوی اختیار کرتے ہیں ۔ ( اے یہود ) کیا پھر بھی تم عقل سے کام نہیں لیتے؟
پھر ان کی جگہ ان کے بعد وہ ( ف۳۲۵ ) ناخلف آئے کہ کتاب کے وارث ہوئے ( ف۳۲٦ ) اس دنیا کا مال لیتے ہیں ( ف۳۲۷ ) اور کہتے اب ہماری بخشش ہوگی ( ف۳۲۸ ) اور اگر ویسا ہی مال ان کے پاس اور آئے تو لے لیں ( ف۳۲۹ ) کیا ان پر کتاب میں عہد نہ لیا گیا کہ اللہ کی طرف نسبت نہ کریں مگر حق اور انہوں نے اسے پڑھا ( ف۳۳۰ ) اور بیشک پچھلا گھر بہتر ہے پرہیزگاروں کو ( ف۳۳۱ ) تو کیا تمہیں عقل نہیں ،
پھر اگلی نسلوں کے بعد ایسے ناخلف لوگ ان کے جانشین ہوئے جو کتاب الٰہی کے وارث ہوکر اسی دنیائے دَنی کے فائدے سمیٹتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ توقع ہے ہمیں معاف کر دیا جائے گا ، اور اگر وہی متاع دنیا پھر سامنے آتی ہے تو پھر لپک کر اسے لے لیتے ہیں ۔ 129 کیا ان سے کتاب کا عہد نہیں لیا جا چکا ہے کہ اللہ کے نام پر وہی بات کہیں جو حق ہو؟ اور یہ خود پڑھ چکے ہیں جو کتاب میں لکھا ہے ۔ 130 آخرت کی قیام گاہ تو خدا ترس لوگوں کے لیے ہی بہتر ہے 131 ، کیا تم اتنی سی بات نہیں سمجھتے؟
پھر ان کے بعد ناخلف ( ان کے ) جانشین بنے جو کتاب کے وارث ہوئے ، یہ ( جانشین ) اس کم تر ( دنیا ) کا مال و دولت ( رشوت کے طور پر ) لے لیتے ہیں اور کہتے ہیں: عنقریب ہمیں بخش دیا جائے گا ، حالانکہ اسی طرح کا مال و متاع اور بھی ان کے پاس آجائے ( تو ) اسے بھی لے لیں ، کیا ان سے کتابِ ( الٰہی ) کا یہ عہد نہیں لیا گیا تھا کہ وہ اللہ کے بارے میں حق ( بات ) کے سوا کچھ اور نہ کہیں گے؟ اور وہ ( سب کچھ ) پڑھ چکے تھے جو اس میں ( لکھا ) تھا؟ اور آخرت کا گھر ان لوگوں کے لئے بہتر ہے جو پرہیزگاری اختیار کرتے ہیں ، کیا تم سمجھتے نہیں ہو
سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :129 یعنی گناہ کرتے ہیں اور جانتے ہیں کہ گناہ ہے مگر اس بھروسے پر اس کا ارتکاب کرتے ہیں کہ ہماری تو کسی نہ کسی طرح بخشش ہو ہی جائے گی کیونکہ ہم خدا کے چہیتے ہیں اور خواہ ہم کچھ ہی کریں بہرحال ہماری مغفرت ہونی ضروری ہے ۔ اسی غلط فہمی کا نتیجہ ہے کہ گناہ کرنے کے بعد وہ نہ شرمندہ ہوتے ہیں نہ توبہ کرتے ہیں بلکہ جب پھر ویسے ہی گناہ کا موقع سامنے آتا ہے تو پھر اس میں مبتلا ہو جاتے ہیں ۔ بدنصیب لوگ ! اس کتاب کے وارث ہوئے جو ان کو دنیا کا امام بنانے والی تھی ، مگر ان کی کم ظرفی اور پست خیالی نے اس نسخہ کیمیا کو لے کر دنیا کی متاع حقیر کمانے سے زیادہ بلند کسی چیز کا حوصلہ نہ کیا اور بجائے اس کے کہ دنیا میں عدل و راستی کے علمبردار اور خیر و صلاح کے رہنما بنتے ، محض دنیا کے کُتے بن کر رہ گئے ۔ سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :130 یعنی یہ خود جانتے ہیں کہ توراة میں کہیں بھی بنی اسرائیل کے لیے نجات کے غیر مشروط پروانے کا ذکر نہیں ہے ۔ نہ خدا نے کبھی ان سے یہ کہا اور نہ ان کے پیغمبروں نے کبھی ان کو یہ اطمینان دلایا کہ تم جو چاہو کرتے پھرو بہرحال تمہاری مغفرت ضرور ہوگی ۔ پھر آخر انہیں کیا حق ہے کہ خدا کی طرف وہ بات منسوب کریں جو خود خدا نے کبھی نہیں کہی حالانکہ ان سے یہ عہد لیا گیا تھا کہ خدا کے نام سے کوئی بات خلاف ِ حق نہ کہیں گے ۔ سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :131 اس آیت کے دو ترجمے ہوسکتے ہیں ۔ ایک وہ جو ہم نے متن میں اختیار کیا ہے ۔ دوسرا یہ کہ ”خدا ترس لوگوں کے لیے تو آخرت کی قیام گاہ ہی بہتر ہے“ ۔ پہلے ترجمہ کے لحاظ سے مطلب یہ ہوگا کہ مغفرت کسی کا ذاتی یا خاندانی اجارہ نہیں ہے ، یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ تم کام تو وہ کرو جو سزا دینے کے لائق ہوں مگر تمہیں آخرت میں جگہ مل جائے اچھی محض اس لیے کہ تم یہودی یا اسرائیلی ہو ۔ اگر تم میں کچھ بھی عقل موجود ہو تو تم خود سمجھ سکتے ہو کہ آخرت میں اچھا مقام صرف اُنہی لوگوں کو مل سکتا جو دنیا میں خدا ترسی کے ساتھ کام کریں ۔ رہا دوسرا ترجمہ تو اس کے لحاظ سے مطلب یہ ہو گا کہ دنیا اور اس کے فائدوں کو آخرت پر ترجیح دینا تو صرف ان لوگوں کا کام ہے جو ناخدا ترس ہوں ، خدا ترس لوگ تو لازماً دنیا کی مصلحتوں پر آخرت کی مصلحت کو اور دنیا کے عیش پر آخرت کی بھلائی کو ترجیح دیتے ہیں ۔