Surah

Information

Surah # 7 | Verses: 206 | Ruku: 24 | Sajdah: 1 | Chronological # 39 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 163-170, from Madina
وَلِلّٰهِ الۡاَسۡمَآءُ الۡحُسۡنٰى فَادۡعُوۡهُ بِهَا‌ وَذَرُوا الَّذِيۡنَ يُلۡحِدُوۡنَ فِىۡۤ اَسۡمَآٮِٕهٖ‌ ؕ سَيُجۡزَوۡنَ مَا كَانُوۡا يَعۡمَلُوۡنَ‏ ﴿180﴾
اور اچھے اچھے نام اللہ ہی کیلئے ہیں سو ان ناموں سے اللہ ہی کو موسوم کیا کرو اور ایسے لوگوں سے تعلق بھی نہ رکھو جو اس کے ناموں میں کج روی کرتے ہیں ان لوگوں کو ان کے کئے کی ضرور سزا ملے گی ۔
و لله الاسماء الحسنى فادعوه بها و ذروا الذين يلحدون في اسماىه سيجزون ما كانوا يعملون
And to Allah belong the best names, so invoke Him by them. And leave [the company of] those who practice deviation concerning His names. They will be recompensed for what they have been doing.
Aur achay achay naam Allah hi kay liye hain so unn naamon say Allah hi ko mossom kiya kero aur aisay logon say talluq bhi na rakho jo uss kay naamon mein kuj ravi kertay hain unn logon ko unn kay kiye ki zaroor saza milay gi.
اور اسمائے حسنی ( اچھے اچھے نام ) اللہ ہی کے ہیں ۔ لہذا اس پر انہی ناموں سے پکارو ۔ ( ٩٢ ) اور ان لوگوں کو چھوڑ دو جو اس کے ناموں میں ٹیڑھا راستہ اختیار کرتے ہیں ۔ ( ٩٣ ) وہ جو کچھ کر رہے ہیں ، اس کا بدلہ انہیں دیا جائے گا ۔
اور اللہ ہی کے ہیں بہت اچھے نام ( ف۳۵۳ ) تو اسے ان سے پکارو اور انہیں چھوڑ دو جو اس کے ناموں میں حق سے نکلتے ہیں ( ف۳۵٤ ) وہ جلد اپنا کیا پائیں گے ،
اللہ اچھے ناموں کا مستحق ہے ، اس کو اچھے ہی ناموں سے پکارو اور ان لوگوں کو چھوڑ دو جو اس کے نام رکھنے میں راستی سے منحرف ہو جاتے ہیں ۔ جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں اس کا بدلہ وہ پا کر رہیں گے ۔ 142
اور اللہ ہی کے لئے اچھے اچھے نام ہیں ، سو اسے ان ناموں سے پکارا کرو اور ایسے لوگوں کو چھوڑ دو جو اس کے ناموں میں حق سے انحراف کرتے ہیں ، عنقریب انہیں ان ( اعمالِ بد ) کی سزا دی جائے گی جن کا وہ ارتکاب کرتے ہیں
سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :141 اب تقریر اپنے اختتام کو پہنچ رہی ہے اس لیے خاتمہ کلام پر نصیحت اور ملامت کے ملے جلے انداز میں لوگوں کو ان کی چند نمایاں ترین گمراہیوں پر متنبہ کیا جارہا ہے اور ساتھ ہی پیغمبر کی دعوت کے مقابلہ میں انکار و استہزا کا جو رویّہ انہوں نے اختیار کر رکھا تھا اس کی غلطی سمجھاتے ہوئے اس کے برے انجام سے اُنہیں خبردار کیا جارہا ہے ۔ سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :142 انسان اپنی زبان میں اشیاء کے جو نام رکھتا ہے وہ دراصل اس تصور پر مبنی ہوتے ہیں جو اس کے ذہن میں ان اشیاء کے متعلق ہوا کرتا ہے ۔ تصور کا نقص نام کے نقص کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے اور نام کا نقص تصوّر کے نقص پر دلالت کرتا ہے ۔ پھر اشیاء کے ساتھ انسان کا تعلق اور معاملہ بھی لازماً اس تصور پر ہی مبنی ہوا کرتا ہے جو اپنے ذہن میں اس کے متعلق رکھتا ہے ۔ تصور کی خرابی تعلق کی خرابی میں رونما ہوتی ہے اور تصور کی صحت و درستی میں نمایاں ہو کر رہتی ہے ۔ یہ حقیقت جس طرح دنیا کی تمام چیزوں کے معاملہ میں صحیح ہے اسی طرح اللہ کے معاملہ میں بھی صحیح ہے ۔ اللہ کے لیے نام ( خواہ وہ اسماء ذات ہوں یا اسماء صفات ) تجویز کرنے میں انسان جو غلطی بھی کرتا ہے وہ دراصل اللہ کی ذات و صفات کے متعلق اس کے عقیدے کی غلطی کا نتیجہ ہوتی ہے ۔ پھر خدا کے متعلق اپنے تصور و اعتقاد میں انسان جتنی اور جیسی غلطی کرتا ہے ، اتنی ہی اور ویسی ہی غلطی اس سے اپنی زندگی کے پورے اخلاقی رویہ کی تشکیل میں سرزد ہوتی ہے ، کیونکہ انسان کے اخلاقی رویہ کی تشکیل تمام تر منحصر ہے اس تصور پر جو اس نے خدا کے بارے میں اور خدا کے ساتھ اپنے اور کائنات کے تعلق کے بارے میں قائم کیا ہو ۔ اسی لیے فرمایا کہ خدا کے نام رکھنے میں غلطی کرنے سے بچو ، خدا کے لیے اچھے نام ہی موزوں ہیں اور اسے اُنہی ناموں سے یاد کرنا چاہیے ، اس کے نام تجویز کرنے میں الحاد کا انجام بہت بُرا ہے ۔ ”اچھے ناموں“سے مراد وہ نام ہیں جن سے خدا کی عظمت و برتری ، اس کے تقدس اور پاکیزگی ، اور اس کی صفات کمالیہ کا اظہار ہوتا ہو ۔ ”الحاد“کے معنی ہیں وسط سے ہٹ جانا ، سیدھے رخ سے منحرف ہو جانا ۔ تیر جب ٹھیک نشانے پر بیٹھنے کے بجائٕے کسی دوسری طرف جا لگتا ہے تو عربی میں کہتے ہیں اَلحد السہمُ الھدفَ ، یعنی تیر نے نشانے سے الحاد کیا ۔ خدا کے نام رکھنے میں الحاد یہ ہے کہ خدا کو ایسے نام دیے جائیں گو اس کے مرتبے سے فروتر ہوں ، جو اس کے ادب کے منافی ہوں ، جن سے عیوب اور نقائص اس کی طرف منسوب ہوتے ہوں ، یا جن سے اس کی ذات اقدس و اعلیٰ کے متعلق کسی غلط عقیدے کا اظہار ہوتا ہو ۔ نیز یہ بھی الحاد ہی ہے کہ مخلوقات میں کسی کے لیے ایسا نام رکھا جائے جو صرف خدا ہی کے لیے موزوں ہو ۔ پھر یہ فرمایا کہ اللہ کے نام رکھنے میں جو لوگ الحاد کرتے ہیں ان کو چھوڑ دو ۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر یہ لوگ سیدھی طرح سمجھانے سے نہیں سمجھتے تو ان کی کج بحثیوں میں تم کو اُلجھنے کی کوئی ضرورت نہیں ، اپنی گمراہی کا انجام وہ خود دیکھ لیں گے ۔
اسماء الحسنیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ کے ایک کم ایک سو نام ہیں انہیں جو محفوظ کر لے وہ جنتی ہے وہ وتر ہے طاق کو ہی پسند فرماتا ہے ( بخاری وغیرہ ) ترمذی میں ہے ننانوے نام اس طرح ہیں دعا ( اللہ الذی لا الہ الا ھو الرحمن الرحیم الملک القدوس السلام المومن المھیمن العزیز الجبار المتکبر الاخالق الباری المصور الغفار القھار الوھاب الرزاق الفتاح العلیم القابض الباسط الخافض الرافع المعز المذل السمیع البصیر الحکم العدل اللطیف الخبیر الحلیم العظیم الغفور الشکور العلی الکبیر الحفیظ المقیت الہسیب الجلیل الکریم الرقیب المجیب الواسع الحکیم الودود المجید الباعث الشھید الحق الوکیل القوی المتین الولی الحمید المحصی المبدی المعید المحی الممیت الحی القیوم الواجد الواحد الا حد الفرد الصمد القادر المقتدر المقدم الموخر الا ول الاخر الظاہر الباطن الوالی المتعالیٰ البر التواب المنتقم العفو الروف مالک الملک ذوالجلال والا کرام المقسط الجامع الغنی المغنی المانع الضار النافع النور الھادی البدیع الباقی الوارث الرشید الصبور ) ۔ یہ حدیث غریب ہے کچھ کمی زیادتی کے ساتھ اسی طرح یہ نام ابن ماجہ کی حدیث میں بھی وارد ہیں ۔ بعض بزرگوں کا خیال ہے کہ یہ نام راویوں نے قرآن میں چھانٹ لئے ہیں ۔ واللہ اعلم ۔ یہ یاد رہے کہ یہی ننانوے نام اللہ کے ہوں اور نہ ہوں یہ بات نہیں ۔ مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جسے کبھی بھی کوئی غم و رنج پہنچے اور وہ یہ دعا کرے ( اللھم انی عبدک ابن عبدک ابن امتک ناصیتی بیدک ماض فی حکمک عدل فی قصاوک اسالک بکل اسم ھولک سمیت بہ نفسک وانزلتہ فی کتابک اوعلمتہ احد امن خقک اواستاثرت بہ فی علم الغیب عندک ان تجعل القران العظیم ربیع قلبی ونور صدری و جلاء حزنی و ذھاب ہمی ) ۔ تو اللہ تعالیٰ اس کے غم و رنج کو دور کر دے گا اور اس کی جگہ راحت و خوشی عطا فرمائے گا ۔ آپ سے سوال کیا گیا کہ پھر کیا ہم اسے اوروں کو بھی سکھائیں؟ آپ نے فرمایا ہاں بیشک جو اسے سنے اسے چاہئے کہ دوسروں کو بھی سکھائے ۔ امام ابو حاتم بن حبان بستی بھی اس روایت کو اسی طرح اپنی صحیح میں لائے ہیں ۔ امام ابو بکر بن عربی بھی اپنی کتاب الاحوذی فی شرح الترمذی میں لکھتے ہیں کہ بعض لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنی کتاب و سنت سے جمع کئے ہیں جن کی تعداد ایک ہزار تک پہنچ گئی ہے ، واللہ اعلم ۔ اللہ کے ناموں سے الحاد کرنے والوں کو چھوڑ دو جیسے کہ لفظ اللہ سے کافروں نے اپنے بت کا نام لات رکھا اور عزیز سے مشتق کر کے عزی نام رکھا ۔ یہ بھی معنی ہیں کہ جو اللہ کے ناموں میں شریک کرتے ہیں انہیں چھوڑو ۔ جو انہیں جھٹلاتے ہیں ان سے منہ موڑ لو ۔ الحاد کے لفظی معنی ہیں درمیانہ سیدھے راستے سے ہٹ جانا اور گھوم جانا ۔ اسی لئے بغلی قبر کو لحد کہتے ہیں کیونکہ سیدھی کھدائی سے ہٹا کر بنائی جاتی ہے ۔