Surah

Information

Surah # 7 | Verses: 206 | Ruku: 24 | Sajdah: 1 | Chronological # 39 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 163-170, from Madina
وَاِخۡوَانُهُمۡ يَمُدُّوۡنَهُمۡ فِى الۡغَىِّ ثُمَّ لَا يُقۡصِرُوۡنَ‏ ﴿202﴾
اور جو شیاطین کے تابع ہیں وہ ان کو گمراہی میں کھینچے لے جاتے ہیں پس وہ باز نہیں آتے ۔
و اخوانهم يمدونهم في الغي ثم لا يقصرون
But their brothers - the devils increase them in error; then they do not stop short.
Aur jo shetan kay tabey hain woh inn ko gumrahi mein kheenchay ley jatay hain pus woh baaz nahi aatay.
اور جو ان شیاطین کے بھائی ہیں ان کو یہ شیاطین گمراہی میں گھسیٹے لے جاتے ہیں ، نتیجہ یہ کہ وہ ( گمراہی سے ) باز نہیں آتے ۔
اور وہ جو شیطانوں کے بھائی ہیں ( ف۳۸۸ ) شیطان انہیں گمراہی میں کھینچتے ہیں پھر کمی نہیں کرتے ،
رہے ان کے ﴿یعنی شیاطین کے﴾ بھائی بند تو وہ انہیں ان کی کج روی میں کھینچے لیے چلے جاتے ہیں اور انہیں بھٹکانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے ۔ 150
اور ( جو ) ان شیطانوں کے بھائی ( ہیں ) وہ انہیں ( اپنی وسوسہ اندازی کے ذریعہ ) گمراہی میں ہی کھینچے رکھتے ہیں پھر اس ( فتنہ پروری اور ہلاکت انگیزی ) میں کوئی کوتاہی نہیں کرتے
سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :150 ان آیات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دعوت تبلیغ اور ہدایت و اصلاح کی حکمت کے چند اہم نکات بتائے گئے ہیں اور مقصود صرف حضور ہی کو تعلیم دینا نہیں ہے بلکہ حضور کے ذریعہ سے ان سب لوگوں کو بھی حکمت سکھانا ہے جو حضور کے قائم مقام بن کر دنیا کو سیدھی راہ دکھانے کے لیے اُٹھیں ۔ ان نکات کو سلسلہ وار دیکھنا چاہیے: ۔ ( ١ ) داعی حق کے لیے جو صفات سب سے زیادہ ضروری ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ اسے نرم خو متحمل اور عالی ظرف ہونا چاہیے ۔ اس کو اپنے ساتھیوں کے لیے شفیق ، عامتہ الناس کے لیے رحیم اور اپنے مخالفوں کے لیے حلیم ہونا چاہیے ۔ اس کو اپنے رفقا کی کمزوریوں کو بھی برداشت کرنا چاہیے اور اپنے مخالفین کی سختیوں کو بھی ۔ اسے شدید سے شدید اشتعال انگیز مواقع پر بھی اپنے مزاج کو ٹھنڈا رکھنا چاہیے ، نہایت ناگوار باتوں کو بھی عالی ظرفی کے ساتھ ٹال دینا چاہیے ، مخالفوں کی طرف سے کیسی ہی سخت کلامی بہتان تراشی ، ایذا رسانی اور شریرانہ مزاحمت کا اظہار ہو ، اس کو درگزر ہی سے کام لینا چاہیے ۔ سخت گیری ، درشت خوئی ، تلخ گفتاری اور منتقمانہ اشتعال طبع اس کام کے لیے زہر کا حکم رکھتا ہے اور اس سے کام بگڑتا ہے بنتا نہیں ہے ۔ اسی چیز کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں بیان فرمایا ہے کہ میرے رب نے مجھے حکم دیا ہے کہ ” غضب اور رضا ، دونوں حالتوں میں انصاف کی بات کہوں ، جو مجھ سے کٹے میں اس سے جڑوں ، جو مجھے میرے حق سے محروم کرے میں اسے اس کا حق دوں ، جو میرے ساتھ ظلم کرے میں اس کو معاف کردوں“ ۔ اور اسی چیز کی ہدایت آپ ان لوگوں کو کرتے تھے جنہیں آپ دین کے کام پر اپنی طرف سے بھیجتے تھے کہ بشروا ولا تنفروا و یسرواولا تعسروا ، یعنی”جہاں تم جاؤ وہاں تمہاری آمد لوگوں کے لیے مژدہ جانفزا ہو نہ کہ باعث نفرت ، اور لوگوں کے لیے تم سہولت کے موجب بنو نہ کہ تنگی و سختی کے “ ۔ اور اسی چیز کی تعریف اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں فرمائی ہے کہ فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللہِ لِنْتَ لَھُمْ وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَا نْفَضُّوْ ا مِنْ حَوْ لکَ ۔ یعنی”یہ اللہ کی رحمت ہے کہ تم ان لوگوں کے لیے نرم ہو ورنہ اگر تم درشت خو اور سنگدل ہوتےتو یہ سب لوگ تمہارے گردو پیش سے چَھٹ جاتے“ ۔ ( آل عمران ، ١۵۹ ) ( ۲ ) دعوت حق کی کامیابی کا گُر یہ ہے کہ آدمی فلسفہ طرازی اور دقیقہ سنجی کے بجائے لوگوں کو معروف یعنی ان سیدھی اور صاف بھلائیوں کی تلقین کرے جنہیں بالعموم سارے ہی انسان بھلا جانتے ہیں یا جن کی بھلائی کو سمجھنے کے لیے وہ عقلِ عام ( Common sense ) کافی سونی ہے جو ہر انسان کو حاصل ہے ۔ اس طرح داعی حق کا اپیل عوام و خواص سب کو متاثر کرتا ہے اور ہر سامع کے کان سے دل تک پہنچنے کی راہ اب نکال لیتا ہے ۔ ایسی معروف دعوت کے خلاف جو لوگ شورش برپا کرتے ہیں وہ خود اپنی ناکامی اور اس دعوت کی کامیابی کا سامان فراہم کرتے ہیں ۔ کیونکہ عام انسان ، خواہ وہ کتنے ہی تعصبات میں مبتلا ہوں ، جب یہ دیکھتے ہیں کہ ایک طرف ایک شریف النفس اور بلند اخلاق انسان ہے جو سیدھی سیدھی بھلائیوں کی دعوت دے رہا ہے اور دوسری طرف بہت سے لوگ اس کی مخالفت میں ہر قسم کی اخلاق و انسانیت سے گری ہوئی تدبیریں استعمال کر رہے ہیں ، تو رفتہ رفتہ ان کے دل خود بخود مخالفینِ حق سے پھرتے اور داعی حق کی طرف متوجہ ہوتے چلے جاتے ہیں ، یہاں تک کہ آخر کار میدان مقابلہ میں صرف وہ لوگ رہ جاتے ہی جن کے ذاتی مفاد نظام باطل کے قیام ہی سے وابستہ ہوں ، یا پھر جن کے دلوں میں تقلیدِ اسلاف اور جاہلانہ تعصبات نے کسی روشنی کے قبول کرنے کی صلاحیت باقی ہی نہ چھوڑی ہو ۔ یہی وہ حکمت تھی جس کی بدولت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عرب میں کامیابی حاصل ہوئی اور پھر آپ کے بعد تھوڑی ہی مدت میں اسلام کا سیلاب قریب کے ملکوں پر اس طرح پھیل گیا کہ کہیں سوفی صدی اور کہیں ۸۰ اور ۹۰ فی صدی باشندے مسلمان ہو گئے ۔ ( ۳ ) اس دعوت کے کام میں جہاں یہ بات ضروری ہے کہ طالبینِ خیر کو معروف کی تلقین کی جائے وہاں یہ بات بھی اتنی ہی ضروری ہے کہ جاہلوں سے نہ اُلجھا جائے خواہ وہ اُلجھنے اور اُلجھانے کی کتنی ہی کوشش کریں ۔ داعی کو اس معاملہ میں سخت محتاط ہونا چاہیے کہ اس کا خطاب صرف ان لوگوں سے رہے جو معقولیت کے ساتھ بات کو سمجھنے کے لیے تیار ہوں ۔ اور جب کوئی شخص جہالت پر اُتر آئے اور حجت بازی ، جھگڑالو پن اور طعن و تشنیع شروع کر دے تو داعی کو اس کا حریف بننے سے انکار کر دینا چاہیے ۔ اس لیے کہ اس جھگڑے میں اُلجھنے کا حاصل کچھ نہیں ہے اور نقصان یہ ہے کہ داعی کی جس قوت کو اشاعتِ دعوت اور اصلاح نفوس میں خرچ ہونا چاہیے وہ اس فضول کام میں ضائع ہوجاتی ہے ۔ ( ٤ ) نمبر ۳ میں جو ہدایت کی گئی ہے اسی کے سلسلہ میں مزید ہدایت یہ ہے کہ جب کبھی داعی حق مخالفین کے ظلم اور ان کی شرارتوں اور ان کے جاہلانہ اعتراضات و الزامات پر اپنی طبیعت میں اشتعال محسوس کرے تو اسے فوراً سمجھ لینا چاہیے کہ یہ نزغِ شیطانی ( یعنی شیطان کی اکساہٹ ) ہے اور اسی وقت خدا سے پناہ مانگنی چاہیے کہ اپنے بندے کو اس جوش میں بہ نکلنے سے بچائے ور ایسا بے قابو نہ ہونے دے کہ اس سے دعوت حق کو نقصان پہنچانے والی کوئی حرکت سرزد ہو جائے ۔ دعوت حق کا کام بہر حال ٹھنڈے دل سے ہی ہو سکتا ہے اور وہی قدم صحیح اٹھ سکتا ہے جو جذبات سے مغلوب ہو کر نہیں بلکہ موقع و محل کو دیکھ کر ، خوب سوچ سمجھ کر اُٹھایا جائے ۔ لیکن شیطان ، جو اس کام کو فروغ پاتے ہوئے کبھی نہیں دیکھ سکتا ، ہمیشہ اس کوشش میں لگا رہتا ہے کہ اپنے بھائی بندوں سے داعی حق پر طرح طرح کے حملے کرائے اور پھر ہر حملے پر داعی حق کو اکسائے کہ اس حملے کا جواب تو ضرور ہونا چاہیے ۔ یہ اپیل جو داعی کے نفس سے کرتا ہے ، اکثر بڑی بڑی پر فریب تاویلوں اور مذہبی اصلاحوں کے غلاف میں لپٹا ہوا ہوتا ہے لیکن اس کی تہ میں بجز نفسانیت کے اور کوئی چیز نہیں ہوتی ۔ اسی لیے آخری دو آیتوں میں فرمایا کہ جو لوگ متقی ( یعنی خدا ترس اور بدی سے بچنے کے خواہشمند ) ہیں وہ تو اپنے نفس میں کسی شیطانی تحریک کا اثر اور کسی برے خیال کی کھٹک محسوس کرتے ہی فوراً چوکنے ہو جاتے ہیں اور پھر انہیں صاف نظر آجاتا ہے کہ اس موقع پر دعوت دین کا مفاد کس طرزِ عمل کے اختیار کرنے میں ہے اور حق پرستی کا تقاضا کیا ہے ۔ رہے وہ لوگ جن کے کام میں نفسانیت کی لاگ لگی ہوئی ہے اور اس وجہ سے جن کا شیاطین کے ساتھ بھائی چارے کا تعلق ہے ، تو وہ شیطانی تحریک کے مقابلہ میں نہیں ٹھہر سکتے اور اس سے مغلوب ہو کر غلط راہ پر چل نکلتے ہیں ۔ پھر جس جس وادی میں شیطان چاہتا ہے انہیں لیے پھرتا ہے اور کہیں جا کر ان کے قدم نہیں رُکتے ۔ مخالف کی ہر گالی کے جواب میں ان کے پاس گالی اور ہر چال کے جواب میں اس سے بڑھ کر چال موجود ہوتی ہے ۔ اس ارشاد کا ایک عمومی محمل بھی ہے اور وہ یہ کہ اہل تقویٰ کا طریقہ بالعموم اپنی زندگی میں غیر متقی لوگوں سے مختلف ہوتا ہے ۔ جو لوگ حقیقت میں خدا سے ڈرنے والے ہیں اور دل سے چاہتے ہیں کہ برائی سے بچیں ان کا حال یہ ہوتا ہے کہ برے خیال کا ایک ذرا سا غبار بھی اگر ان کے دال کو چھو جاتا ہے تو انہیں ویسی ہی کھٹک محسوس ہونے لگتی ہے جیسی کھٹک اُنگلی میں پھانس چُبھ جانے یا آنکھ میں کسی ذرے کے گر جانے سے محسوس ہوتی ہے ۔ چونکہ وہ برے خیالات ، بری خواہشات اور بری نیتوں کے خوگر نہیں ہوتے اس وجہ سے یہ چیزیں ان کے لیے اسی طرح خلاف مزاج ہوتی ہے ۔ چونکہ وہ برے خیالات ، بری خواہشات اور بری نیتوں کے خوگر نہیں ہوتے اس وجہ سے یہ چیزیں ان کے لیے اسی طرح خلاف مزاج ہوتی ہیں جس طرح اُنگلی کے لیے پھانس یا آنکھ کے لیے ذرہ یا ایک نفیس طبع اور صفائی پسند آدمی کے لیے کپڑوں پر سیاہی کا ایک داغ یا گندگی کی ایک چھینٹ ۔ پھر جب یہ کھٹک انہیں محسوس ہو جاتی ہے تو ان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں اور ان کا ضمیر بیدار ہو کر اس غبار شر کو اپنے اوپر سے جھاڑ دینے میں لگ جاتا ہے ۔ بخلاف اس کے جو لوگ نہ خدا سے ڈرتے ہیں ، نہ بدی سے بچنا چاہتے ہیں ، اور جن کی شیطان سے لاگ لگی ہوئی ہے ، ان کے نفس میں برے خیالات ، برے ارادے ، برے مقاصد پکتے رہتے ہیں اور وہ ان گندی چیزوں سے کوئی اُپراہٹ اپنے اندر محسوس نہیں کرتے ، بالکل اسی طرح جیسے کسی دیگچی میں سور کا گوشت پک رہا ہو اور وہ بے خبر ہو کہ اس کے اندر کیا پک رہا ہے ، یا جیسے کسی بھنگی کا جسم اور اس کے کپڑے غلاظت میں لتھڑے ہوئے ہوں اور اسے کچھ احساس نہ ہو کہ وہ کن چیزوں میں آلودہ ہے ۔