Surah

Information

Surah # 7 | Verses: 206 | Ruku: 24 | Sajdah: 1 | Chronological # 39 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 163-170, from Madina
وَاذۡكُرْ رَّبَّكَ فِىۡ نَفۡسِكَ تَضَرُّعًا وَّخِيۡفَةً وَّدُوۡنَ الۡجَـهۡرِ مِنَ الۡقَوۡلِ بِالۡغُدُوِّ وَالۡاٰصَالِ وَلَا تَكُنۡ مِّنَ الۡغٰفِلِيۡنَ‏ ﴿205﴾
اور اے شخص! اپنے رب کی یاد کیا کر اپنے دل میں عاجزی کے ساتھ اور خوف کے ساتھ اور زور کی آواز کی نسبت کم آوازکے ساتھ صبح اور شام اور اہل غفلت میں سے مت ہونا ۔
و اذكر ربك في نفسك تضرعا و خيفة و دون الجهر من القول بالغدو و الاصال و لا تكن من الغفلين
And remember your Lord within yourself in humility and in fear without being apparent in speech - in the mornings and the evenings. And do not be among the heedless.
Aur aey shaks! Apney rab ki yaad kiya ker apney dil mein aajzi kay sath aur khof kay sath aur zor ki aawaz ki nisbat kum aawaz kay sath subha aur shaam aur ehal-e-ghaflat mein say mat hona.
اور اپنے رب کا صبح و شام ذکر کیا کرو ، اپنے دل میں بھی ، عاجزی اور خوف کے ( جذبات کے ) ساتھ اور زبان سے بھی ، آواز بہت بلند کیے بغیر ! اور ان لوگوں میں شامل نہ ہوجانا جو غفلت میں پڑے ہوئے ہیں ۔
اور اپنے رب کو اپنے دل میں یاد کرو ( ف۳۹۰ ) زاری اور ڈر سے اور بے آواز نکلے زبان سے صبح اور شام ( ف۳۹۱ ) اور غافلوں میں نہ ہونا ،
اے نبی ، اپنے رب کو صبح و شام یاد کیا کرو دل ہی دل میں زاری اور خوف کے ساتھ اور زبان سے بھی ہلکی آواز کے ساتھ ۔ تم ان لوگوں میں سے نہ ہو جاؤ جو غفلت میں پڑے ہوئے ہیں ۔ 154
اور اپنے رب کا اپنے دل میں ذکر کیا کرو عاجزی و زاری اور خوف و خستگی سے اور میانہ آواز سے پکار کر بھی ، صبح و شام ( یادِ حق جاری رکھو ) اور غافلوں میں سے نہ ہوجاؤ
سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :154 یاد کرنے سے مراد نماز بھی ہے اور دوسری قسم کی یاد بھی ، خواہ وہ زبان سے ہو یا خیال سے ۔ صبح و شام سے مراد یہی دونوں وقت بھی ہیں اور ان اوقات میں اللہ کی یاد سے مقصود نماز ہے ، اور صبح و شام کا لفظ”دائماً“ کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے اور اس سے مقصود ہمیشہ خدا کی یاد میں مشغول رہنا ہے ۔ یہ آخری نصیحت ہے جو خطبہ کو ختم کرتے ہوئے ارشاد فرمائی گئی ہے اور اس کی غرض یہ بیان کی گئی ہے کہ تمہارا حال کہیں غافلوں کا سا نہ ہو جائے ۔ دنیا میں جو کچھ گمراہی پھیلی ہے اور انسان کے اخلاق و اعمال میں جو فساد بھی رونما ہوا ہے اس کا سبب صرف یہ ہے کہ انسان اس بات کو بھول جاتا ہے کہ خدا اس کا رب ہے اور وہ خدا کا بندہ ہے اور دنیا میں اس کو آزمائش کے لیے بھیجا گیا ہے اور دنیا کی زندگی ختم ہونے کے بعد اسے اپنے رب کو حساب دینا ہوگا ۔ پس جو شخص راہ راست پر چلنا اور دنیا اس پر چلانا چاہتا ہو اس کو سخت اہتمام کرنا چاہیے کہ یہ بھول کہیں خود اس کو لاحق نہ ہو جائے ۔ اسی لیے نماز اور ذکر الہٰی اور دائمی توجہ الی اللہ کی بار بار تاکید کی گئی ہے ۔
اللہ کی یاد بکثرت کرو مگر خاموشی سے اللہ تعالیٰ حکم فرماتا ہے کہ صبح شام اس کی بکثرت یاد کر ۔ یہاں بھی یہ فرمایا اور جگہ بھی ہے آیت ( فسبح بحمد ربک قبل طلوع الشمس وقبل الغروب ) یعنی اپنے رب کی تسبیح اور حمد بیان کیا کرو سورج طلوع اور سورج غروب ہونے سے پہلے ۔ یہ آیت مکیہ ہے اور یہ حکم معراج سے پہلے کا ہے غدو کہتے ہیں دن کے ابتدائی حصے کو اصال جمع ہے اصیل کی ۔ جیسے کہ ایمان جمع ہے یمین کی ۔ حکم دیا کہ رغبت ، لالچ اور ڈر خوف کے ساتھ اللہ کی یاد اپنے دل میں اپنی زبان سے کرتے رہو چیخنے چلانے کی ضرورت نہیں ۔ اسی لئے مستحب یہی ہے کہ پکار کے ساتھ اللہ کی یاد اپنے دل میں اپنی زبان سے کرتے رہو چیخنے چلانے کی ضرورت نہیں ۔ اسی لئے مستحب یہی ہے کہ پکار کے ساتھ اور چلا چلا کر اللہ کا ذکر نہ کیا جائے ۔ صحابہ نے جب حضور سے سوال کیا کہ کیا ہمارا رب قریب ہے کہ ہم اس سے سرگوشی چپکے چپکے کر لیا کریں یا دور ہے کہ ہم پکار پکار کر آوازیں دیں ؟ تو اللہ تعالیٰ جل و علا نے یہ آیت اتاری ( واذا سألک عبادی عنی الخ ) ، جب میرے بندے تجھ سے میری بابت سوال کریں تو جواب دے کہ میں بہت ہی نزدیک ہوں ۔ دعا کرنے والے کی دعا کو جب بھی وہ مجھ سے دعا کرے قبول فرمالیا کرتا ہوں ۔ بخاری و مسلم میں ہے کہ لوگوں نے ایک سفر میں باآواز بلند دعائیں کرنی شروع کیں تو آپ نے فرمایا لوگو اپنی جانوں پر ترس کھاؤ تم کسی بہرے کو یا کسی غائب کو نہیں پکار رہے جسے تم پکارتے ہو وہ تو بہت ہی پست آواز سننے والا اور بہت ہی قریب ہے تمہاری سواری کی گردن جتنی تم سے قریب ہے اس سے بھی زیادہ وہ تم سے نزدیک ہے ، ہو سکتا ہے کہ مراد اس آیت سے بھی وہی ہو جو آیت ( ولا تجھر بصلاتک الخ ) ، سے ہے ۔ مشرکین قرآن سن کر قرآن کو جبرائل کو ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور خود اللہ تعالیٰ کو گالیاں دینے لگتے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا کہ نہ تو آپ اس قدر بلند آواز سے پڑھیں کہ مشرکین چڑ کر بکنے جھکنے لگیں نہ اس قدر پست آواز سے پڑھیں کہ آپ کے صحابہ بھی نہ سن سکیں بلکہ اس کے درمیان کا راستہ ڈھونڈ نکالیں یعنی نہ بہت بلند نہ بہت آہستہ ۔ یہاں بھی فرمایا کہ بہت بلند آواز سے نہ ہو اور غافل نہ بننا ۔ امام ابن جریر اور ان سے پہلے حضرت عبدالرحمن بن زید بن اسلم نے فرمایا ہے کہ مراد اس سے یہ ہے کہ اوپر کی آیت میں قرآن کے سننے والے کو جو خاموشی کا حکم تھا اسی کو دہرایا جا رہا ہے کہ اللہ کا ذکر اپنی زبان سے اپنے دل میں کیا کرو ۔ لیکن یہ بعید ہے اور انصاف کے منافی ہے جس کا حکم فرمایا گیا ہے اور یہ کہ مراد اس سے یا تو نماز میں ہے یا نماز اور خطبے میں اور یہ ظاہر ہے کہ اس وقت خاموشی بہ نسبت ذکر ربانی کے افضل ہے ۔ خواہ وہ پوشیدہ ہو خواہ ظاہر پس ان دونوں کی متابعت نہیں کی گئی ۔ پس مراد اس سے بندوں کو صبح شام ذکر کی کثرت کی رغبت دلانا ہے تاکہ وہ غافلوں میں سے نہ ہو جائیں ۔ ( ان دونوں بزرگوں کے علاوہ حضرت عبداللہ بن عباس وغیرہ کا بھی یہی فرمان ہے ۔ تفسیر بیضاوی وغیرہ میں بھی یہی ہے دونوں آیتوں کے ظاہری ربط کا تقاضا بھی یہی ہے واللہ اعلم ) اسی لئے فرشتوں کی تعریف بیان ہوئی کہ وہ رات دن اللہ کی تسبیح میں لگے رہتے ہیں بالکل تھکتے نہیں ۔ پس فرماتا ہے کہ جو تیرے رب کے پاس ہیں وہ اس کی عبادت سے تکبر نہیں کرتے ۔ ان کا ذکر اس لئے کیا کہ اس کثرت عبادت و اطاعت میں ان کی اقتدا کی جائے ، اسی لئے ہمارے لئے بھی شریعت نے سجدہ مقرر کیا فرشتے بھی سجدہ کرتے رہتے ہیں ۔ حدیث شریف میں ہے تم اسی طرح صفیں کیوں نہیں باندھتے جیسے کہ فرشتے اپنے رب کے پاس صفیں باندھتے ہیں کہ وہ پہلے اول صف کو پورا کرتے ہیں اور صفوں میں ذرا سی بھی گنجائش اور جگہ باقی نہیں چھوڑتے ۔ اس آیت پر اجماع کے ساتھ سجدہ واجب ہے پڑھنے والے پر بھی اور سننے والے پر بھی ۔ قرآن میں تلاوت کا پہلا سجدہ یہی ہے ۔ ابن ماجہ میں حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کو سجدے کی آیتوں میں سے گنا ۔ الحمد اللہ سورہ اعراف کی تفسیر ختم ہوئی ۔