Surah

Information

Surah # 7 | Verses: 206 | Ruku: 24 | Sajdah: 1 | Chronological # 39 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 163-170, from Madina
اِنَّ الَّذِيۡنَ عِنۡدَ رَبِّكَ لَا يَسۡتَكۡبِرُوۡنَ عَنۡ عِبَادَتِهٖ وَيُسَبِّحُوۡنَهٗ وَلَهٗ يَسۡجُدُوۡنَ۩‏ ﴿206﴾
یقیناً جو تیرے رب کے نزدیک ہیں وہ اس کی عبادت سے تکبر نہیں کرتے اور اس کی پاکی بیان کرتے ہیں اور اس کو سجدہ کرتے ہیں ۔
ان الذين عند ربك لا يستكبرون عن عبادته و يسبحونه و له يسجدون
Indeed, those who are near your Lord are not prevented by arrogance from His worship, and they exalt Him, and to Him they prostrate.
Yaqeenan jo teray rab kay nazdeek hain woh uss ki ibadat say takabbur nahi kertay aur uss ki paki biyan kertay hain aur uss ko sajda kertay hain.
یاد رکھو کہ جو ( فرشتے ) تمہارے رب کے پاس ہیں وہ اس کی عبادت سے تکبر کر کے منہ نہیں موڑتے ، اور اس کی تسبیح کرتے ہیں ، اور اسی کے آگے سجدہ ریز ہوتے ہیں ۔ ( ١٠٥ )
بیشک وہ جو تیرے رب کے پاس ہیں ( ف۳۹۲ ) اس کی عبادت سے تکبر نہیں کرتے اور اس کی پاکی بولتے اور اسی کو سجدہ کرتے ہیں ( ف۳۹۳ ) السجدة ۔ ۵
جو فرشتے تمہارے رب کے حضور تقرب کا مقام رکھتے ہیں وہ کبھی اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں آکر اس کی عبادت سے منہ نہیں موڑتے ، 155 اور اس کی تسبیح کرتے ہیں ، 156 اور اس کے آگے جھکے رہتے ہیں ۔ 157 ؏۲٤ السجدة ١
بیشک جو ( ملائکہ مقربین ) تمہارے رب کے حضور میں ہیں وہ ( کبھی بھی ) اس کی عبادت سے سرکشی نہیں کرتے اور ( ہمہ وقت ) اس کی تسبیح کرتے رہتے ہیں اور اس کی بارگاہ میں سجدہ ریز رہتے ہیں
سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :155 مطلب یہ ہے کہ بڑائی کا گھمنڈ اور بندگی سے منہ موڑنا شیاطین کا کام ہے اور اس کا نتیجہ پستی و تنزل ہے ۔ بخلاف اس کے خدا کے آگے جھکنا اور بندگی میں ثابت قدم رہنا ملکوتی فعل ہے اور اس کا نتیجہ ترقی و بلندی اور خدا سے تقرب ہے ۔ اگر تم اس ترقی کے خواہشمند ہو تو اپنے طرزِ عمل کو شیاطین کے بجائے ملائکہ کے طرزِ عمل کے مطابق بناؤ ۔ سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :156 تسبیح کرتے ہیں ، یعنی وہ اللہ تعالیٰ کا بے عیب اور بے تقص اور بے خطا ہونا ، ہر قسم کی کمزوریوں سے اس کا منزہ ہونا ، اور اس کا لا شریک اور بے مثل اور بے ہمتا ہونا دل سے مانتے ہیں ، اس کا اقرار و اعتراف کرتے ہیں اور دائماً اس کے اظہار و اعلان میں مشعول رہتے ہیں ۔ سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :157 اس مقام پر حکم ہے کہ جو شخص اس آیت کو پڑھے یا سنے وہ سجدہ کرے تا کہ اس کا حال ملائکہ مقربین کے حال سے مطابق ہو جائے اور ساری کائنات کا انتظام چلانے والے کارکن جس خدا کے آگے جھکے ہوئے ہیں اسی کے آگے وہ بھی اس سب کے ساتھ جھک جائے اور اپنے عمل سے فوراً یہ ثابت کر دے کہ وہ نہ تو کسی گھمنڈ میں مبتلا ہے اور نہ خدا کی بندگی سے منہ موڑنے والا ہے ۔ قرآن مجید میں ایسے ١٤ مقامات ہیں جہاں آیات سجدہ آئی ہیں ۔ ان آیات پر سجدہ کا مشروع ہونا تو متفق علیہ ہے مگر اس کے وجوب میں اختلاف ہے ۔ امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ سجدہ تلاوت کو واجب کہتے ہیں اور دوسرے علماء نے اس کو سنت قرار دیا ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بسا اوقات ایک بڑے مجمع میں قرآن پڑھتے اور اس میں جب آیت سجدہ آتی تو آپ خود بھی سجدہ میں گر جاتے تھے اور جو شخص جہاں ہوتا وہیں سجدہ ریز ہوجاتا تھا ، حتیٰ کہ کسی کو سجدہ کرنے کے لیے جگہ نہ ملتی تو وہ اپنے آگے والے شخص کی پیٹھ پر سر رکھ دیتا ۔ یہ بھی روایات میں آیا ہے کہ آپ نے فتح مکہ کے موقع پر قرآن پڑھا اور اس میں جب آیت سجدہ آئی تو جو لوگ زمین پرکھڑے تھے انہوں نے زمین پر سجدہ کیا اور جو گھوڑوں اور اونٹوں پر سوار تھے وہ اپنی سواریوں پر ہی جھک گئے ۔ کبھی آپ نے دوران خطبہ میں آیت سجدہ پڑھی ہے تو منبر سے اتر کر سجدہ کیا ہے اور پھر اوپر جا کر خطبہ شروع کر دیا ہے ۔ اس سجدہ کے لیے جمہور اُنہی شرائط کے قائل ہیں جو نماز کی شرطیں ہیں ، یعنی یا وضو ہونا ، قبلہ رخ ہونا ، اور نماز کی طرح سجدے میں سر زمین پر رکھنا ۔ لیکن جتنی احایث سجود تلاوة کے باب میں ہم کو ملی ہیں ان میں کہیں ان شرطوں کے لئے کو ئی دلیل موجود نہیں ہے ۔ ان سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ آیت سجدہ سن کر جو شخص جہاں جس حال میں ہو جھک جائے ، خواہ با وضو ہو یا نہ ہو ، خواہ استقبالِ قبلہ ممکن ہو یا نہ ہو ، خواہ زمین پر سر رکھنے کا موقع ہو یا نہ ہو ، سلف میں بھی ہم کو ایسی شخصیتیں ملتی ہیں جن کا عمل اس طریقے پر تھا ۔ چنانچہ امام بخاری نے حضرت عبداللہ بن عمر کے متعلق لکھا ہے کہ وہ وضو کے بغیر سجدہ تلاوت کرتے تھے ۔ اور ابو عبدالرحمٰن سُلّمی کے متعلق فتح الباری میں لکھا ہے کہ وہ راستہ چلتے ہوئے قرآن مجید پڑھتے جاتے تھے اور اگر کہیں آیت سجدہ آجاتی تو بس سر جھکا لیتے تھے ، خواہ وضو ہو یا نہ ہو ، اور خواہ قبلہ رخ ہوں یا نہ ہوں ۔ ان وجوہ سے ہم سمجھتے ہیں کہ اگرچہ زیادہ مبنی بر احتیاط مسلک جمہور ہی کا ہے ، لیکن اگر کوئی شخص جمہور کے مسلک کے خلاف عمل کرے تو اسے ملامت بھی نہیں کی جا سکتی ، کیونکہ جمہور کی تائید میں کوئی سنت ثابتہ موجود نہیں ہے ، اور سلف میں ایسے لوگ پائے گئے ہیں جن کا عمل جمہور کے مسلک سے مختلف تھا ۔