Surah

Information

Surah # 8 | Verses: 75 | Ruku: 10 | Sajdah: 0 | Chronological # 88 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 30-36 from Makkah
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوا اسۡتَجِيۡبُوۡا لِلّٰهِ وَلِلرَّسُوۡلِ اِذَا دَعَاكُمۡ لِمَا يُحۡيِيۡكُمۡ‌ۚ وَاعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰهَ يَحُوۡلُ بَيۡنَ الۡمَرۡءِ وَقَلۡبِهٖ وَاَنَّهٗۤ اِلَيۡهِ تُحۡشَرُوۡنَ‏ ﴿24﴾
اے ایمان والو! تم اللہ اور رسول کے کہنے کو بجا لاؤ جب کہ رسول تم کو تمہاری زندگی بخش چیز کی طرف بلاتے ہوں اور جان رکھو کہ اللہ تعالٰی آدمی کے اور اس کے قلب کے درمیان آڑ بن جایا کرتا ہے اور بلاشبہ تم سب کو اللہ ہی کے پاس جمع ہونا ہے ۔
يايها الذين امنوا استجيبوا لله و للرسول اذا دعاكم لما يحييكم و اعلموا ان الله يحول بين المرء و قلبه و انه اليه تحشرون
O you who have believed, respond to Allah and to the Messenger when he calls you to that which gives you life. And know that Allah intervenes between a man and his heart and that to Him you will be gathered.
Aey eman walo! Tum Allah aur rasool kay kehney ko baja lao jabkay rasool tum ko tumhari zindagi bakhsh cheez ki taraf bulatay hon. Aur jaan rakho kay Allah Taalaa aadmi kay aur uss kay qalb kay darmiyan aarr bann jaya kerta hai aur bila shuba tum sab ko Allah hi kay pass jama hona hai.
اے ایمان والو ! اللہ اور رسول کی دعوت قبول کرو ، جب رسول تمہیں اس بات کے کی طرف بلائے جو تمہیں زندگی بخشنے والی ہے ۔ ( ١٣ ) اور یہ بات جان رکھو کہ اللہ انسان اور اس کے دل کے درمیان آڑ بن جاتا ہے ( ١٤ ) ۔ اور یہ کہ تم سب کو اسی کی طرف اکٹھا کر کے لے جایا جائے گا ۔
اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کے بلانے پر حاضر ہو ( ف٤۰ ) جب رسول تمہیں اس چیز کے لیے بلائیں جو تمہیں زندگی بخشے گی ( ف٤۱ ) اور جان لو کہ اللہ کا حکم آدمی اور اس کے دلی ارادوں میں حائل ہوجاتا ہے اور یہ کہ تمہیں اس کی طرف اٹھنا ہے ،
اے ایمان لانے والو ، اللہ اور اس کے رسول کی پکار پر لبیّک کہو جبکہ رسول تمہیں اس چیز کی طرف بلائے جو تمہیں زندگی بخشنے والی ہے ، اور جان رکھو کہ اللہ آدمی اور اس کے دل کے درمیان حائل ہے اور اسی کی طرف تم سمیٹے جاؤ گے ۔ 19
اے ایمان والو! جب ( بھی ) رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) تمہیں کسی کام کے لئے بلائیں جو تمہیں ( جاودانی ) زندگی عطا کرتا ہے تو اللہ اور رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو فرمانبرداری کے ساتھ جواب دیتے ہوئے ( فوراً ) حاضر ہو جایا کرو ، اور جان لو کہ اللہ آدمی اور اس کے قلب کے درمیان ( شانِ قربتِ خاصہ کے ساتھ ) حائل ہوتا ہے اور یہ کہ تم سب ( بالآخر ) اسی کی طرف جمع کئے جاؤ گے
سورة الْاَنْفَال حاشیہ نمبر :19 نفاق کی روش سے انسان کو بچانے کے لیے اگر کوئی سب سے زیادہ موثر تدبیر ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ وہ عقیدے انسان کے ذہن نشین ہوجائیں ۔ ایک یہ کہ معاملہ اس خدا کے ساتھ ہے جو دلوں کے حال تک جانتا ہے اور ایسا رازدان ہے کہ آدمی اپنے دل میں جو نیتیں ، جو خواہشیں ، جو اغراض و مقاصد اور جو خیالات چھپا کر رکھتا ہے وہ بھی اس پر عیاں ہیں ۔ دوسرے یہ کہ جانا بہرحال خدا کے سامنے ہے ۔ اس سے بچ کر کہیں بھاگ نہیں سکتے ۔ یہ وہ عقیدے ہیں کہ جتنے زیادہ پختہ ہوں گے اتنا ہی انسان نفاق سے دور رہے گا ۔ اسی لیے منافقت کے خلاف وعظ و نصیحت کے سلسلہ میں قرآن ان دو عقیدوں کا ذکر بار بار کرتا ہے ۔
دل رب کی انگلیوں میں ہیں صحیح بخاری شریف میں ہے استجیبوا معنی میں اجیبوا کے ہے لما بحییکم معنی بما بصلحکم کے ہے یعنی اللہ اور اس کا رسول تمہیں جب آواز دے تم جواب دو اور مان لو کیونکہ اس کے فرمان کے ماننے میں ہی تمہاری مصلحت ہے ۔ حضرت ابو سعید بن معلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نماز میں تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس سے گذرے ۔ مجھے آواز دی ، میں آپ کے پاس نہ آیا ۔ جب نماز پڑھ چکا تو حاضر خدمت ہو ا ۔ آپ نے فرمایا تجھے کس نے روکا تھا کہ تو میرے پاس چلا آئے ؟ کیا اللہ تعالیٰ نے نہیں فرمایا کہ اے ایمان والو اللہ اور اللہ کا رسول تمہیں جب آواز دیں تم قبول کر لیا کرو کیونکہ اسی میں تمہاری زندگی ہے ۔ سنیں اس مسجد سے نکلنے سے پہلے ہی میں تمہیں قرآن کی سب سے بڑی سورت سکھاؤں گا ۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد سے جانے کا ارادہ کیا تو میں نے آپ کو آپ کا وعدہ یاد دلایا اور روایت میں ہے کہ یہ واقعہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کا ہے اور آپ نے وہ سورت فاتحہ بتلائی اور فرمایا سات آیتیں دوہرائی ہوئی یہی ہیں ۔ اس حدیث کا پورا پورا بیان سورہ فاتحہ کی تفسیر میں گذر چکا ہے ۔ زندگی ، آخرت میں جات ، عذاب سے بچاؤ اور چھٹکارا قرآن کی تعلیم ، حق کو تسلیم کرنے اور اسلام لانے اور جہاد میں ہے ۔ ان ہی چیزوں کا حکم اللہ اور اس کے رسول نے دیا ہے ۔ اللہ انسان اور اس کے دل میں حائل ہے ۔ یعنی مومن میں اور کفر میں کافر میں اور ایمان میں ۔ یہ معنی ایک مرفوع حدیث میں بھی ہیں لیکن ٹھیک یہی ہے کہ یہ قول ابن عباس کا ہے مرفوع حدیث نہیں ۔ مجاہد کہتے ہیں یعنی اسے اس حال میں چھوڑنا ہے کہ وہ کسی چیز کو سمجھتا نہیں ۔ سدی کہتے ہیں اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے بغیر نہ ایمان لا سکے نہ کفر کر سکے ۔ قتادہ کہتے ہیں یہ آیت مثل آیت ( وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيْدِ 16؀ ) 50-ق:16 ) کے ہے یعنی بندے کی رگ جان سے بھی زیادہ نزدیک ہم ہیں ۔ اس آیت کے مناسب حدیثیں بھی ہیں ۔ مسند احمد میں ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اکثر فرمایا کرتے تھے کہ اے دلوں کے پھیرنے والے میرے دل کو اپنے دین پر ثابت رکھ تو ہم نے عرض کی یارسول اللہ ہم آپ پر اور آپ پر اتری ہوئی وحی پر ایمان لا چکے ہیں کیا پھر بھی آپ کو ہماری نسبت خطرہ ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں اللہ کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان دل ہیں وہ جس طرح چاہتا ہے ان کا تغیر و تبدل کرتا رہتا ہے ۔ ترمذی میں بھی یہ روایت کتاب القدر میں موجود ہے ۔ مسند احمد میں ہے کہ حضور یہ دعا پڑھا کرتے تھے دعا ( با مقلب القلوب ثبت قلبی علی دینک ) اے دلوں کے پھیر نے والے میرے دل کو اپنے دین پر مضبوطی سے قائم رکھ ۔ مسند احمد میں ہے آپ فرماتے ہیں ہر دل اللہ تعالیٰ رب العالمیں کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ہے جب سیدھا کرنا چاہتا ہے کر دیتا ہے اور جب ٹیڑھا کرنا چاہتا ہے کر دیتا ہے ، آپ کی دعا تھی کہ اے مقلب القلوب اللہ میرا دل اپنے دین پر ثابت قدم رکھ ، فرماتے ہیں میزان رب رحمان کے ہاتھ میں ہے ، جھکاتا ہے اور اونچی کرتا ہے ، مسند کی اور حدیث میں ہے کہ آپ کی اس دعا کو اکثر سن کر حضرت مائی عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے آپ سے پوچھا کہ بکثرت اس دعا کے کرنے کی کیا وجہ ہے؟ آپ نے فرمایا انسان کا دل اللہ کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ہے جب چاہتا ہے ٹیڑھا کر دیتا ہے اور جب چاہتا ہے سیدھا کر دیتا ہے ۔ مسند احمد میں ہے کہ آپ کی اس دعا کو بکثرت سن کر حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے آپ سے پوچھا کہ کیا دل پلٹ جاتے ہیں؟ آپ نے یہی جواب دیا ۔ ہم اللہ تعالیٰ سے جو ہمارا پروردگار ہے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہدایت کے بعد ہمارے دل ٹیڑھے نہ کر دے اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت و نعمت عطا فرمائے وہ بڑی ہی بخشش کرنے والا اور بہت انعاموں والا یہ ۔ حضرت ام سلمہ کہتی ہیں میں نے حضور سے پھر درخواست کی کہ کیا آپ مجھے میرے لئے بھی کوئی دعا سکھائیں گے؟ آپ نے فرمایا ہاں یہ دعا مانگا کرو دعا ( اللھم رب النبی محمد اغفرلی ذنبی و اذھب غیظ قلبی و اجرنی من مضلات الفتن ما احییتنی ) یعنی اے اللہ اسے محمد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پروردگار میرے گناہ معاف فرما میرے دل کی سختی دور کر دے مجھے گمراہ کرنے والے فتنوں سے بجا لے جب تک بھی تو مجھے زندہ رکھ ۔ مسند احمد میں ہے کہ تمام انسانوں کے دل ایک ہی دل کی طرح اللہ کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ہیں ۔ جس طرح چاہتا ہے انہیں الٹ پلٹ کرتا رہتا ہے پھر آپ نے دعا کی کہ اے دلوں کے پھیر نے والے اللہ ہمارے دلوں کو اپنی اطاعت کی طرف پھیر لے ۔