Surah

Information

Surah # 8 | Verses: 75 | Ruku: 10 | Sajdah: 0 | Chronological # 88 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 30-36 from Makkah
وَمَا كَانَ صَلَاتُهُمۡ عِنۡدَ الۡبَيۡتِ اِلَّا مُكَآءً وَّتَصۡدِيَةً‌  ؕ فَذُوۡقُوا الۡعَذَابَ بِمَا كُنۡتُمۡ تَكۡفُرُوۡنَ‏ ﴿35﴾
اور ان کی نماز کعبہ کے پاس صرف یہ تھی سیٹیاں بجانا اور تالیاں بجانا سو اپنے کفر کے سبب اس عذاب کا مزہ چکھو ۔
و ما كان صلاتهم عند البيت الا مكاء و تصدية فذوقوا العذاب بما كنتم تكفرون
And their prayer at the House was not except whistling and handclapping. So taste the punishment for what you disbelieved.
Aur unn ki namaz kaaba kay sirf yeh thi seetiyan bajana aur taaliyan bajana. So apney kufur kay sabab iss azab ka maza chakho.
اور بیت اللہ کے پاس ان کی نماز سیٹیاں بجانے اور تالیاں پیٹنے کے سوا کچھ نہیں ۔ لہذا ( اے کافرو ) جو کافرانہ باتیں تم کرتے رہے ہو ان کی وجہ سے اب عذاب کا مزہ چکھو ۔
اور کعبہ کے پاس ان کی نماز نہیں مگر سیٹی اور تالی ( ف۵۸ ) تو اب عذاب چکھو ( ف۵۹ ) بدلہ اپنے کفر کا ،
بیت اللہ کے پاس ان لوگوں کی نماز کیا ہوتی ہے ، بس سیٹیاں بجاتے اور تالیاں پیٹتے ہیں 28 ، پس اب لو ، اس عذاب کا مزہ چکھو اپنے اس انکارِحق کی پاداش میں جو تم کرتے رہے ہو ۔ 29
اور بیت اللہ ( یعنی خانہ کعبہ ) کے پاس ان کی ( نام نہاد ) نماز سیٹیاں اور تالیاں بجانے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے ، سو تم عذاب ( کا مزہ ) چکھو اس وجہ سے کہ تم کفر کیا کرتے تھے
سورة الْاَنْفَال حاشیہ نمبر :28 یہ اشارہ اس غلط فہمی کی تردید میں ہے جو لوگوں کے دلوں میں چھپی ہوئی تھی اور جس سے عام طور پر اہل عرب دھوکا کھا رہے تھے ۔ وہ سمجھتے تھے کہ قریش چونکہ بیت اللہ کے مجاور اور متولی ہیں اور وہاں عبادت بجا لاتے ہیں اس لیے ان پر اللہ کا فضل ہے ۔ اس کے رد میں فرمایا کہ محض میراث میں مجاورت اور تولیت پالینے سے کوئی شخص یا گروہ کسی عبادت گاہ کا جائز مجاور ومتولی نہیں ہو سکتا ۔ جائز مجاور و متولی تو صرف خدا ترس اور پرہیزگار لوگ ہی ہو سکتے ہیں ۔ اور ان لوگوں کا حال یہ ہے کہ ایک جماعت کو ، جو خالص خدا کی عبادت کر نے والی ہے ، اس عبادت گاہ میں آنے سے روکتے ہیں جو خا لص خدا کی عبادت ہی کے لیے وقف کی گئی تھی ۔ اس طرح یہ متولی اور خادم بن کر رہنے کے بجائے اس عبادت گاہ کے مالک بن بیٹھے ہیں اور اپنے آپ کو اس بات کا مختار سمجھنے لگے ہیں کہ جس یہ ناراض ہوں اسے عبادت گاہ میں نہ آنے دیں ۔ یہ حرکت ان کے ناخدا ترس اور ناپرہیز گار ہونے کے صریح دلیل ہے ۔ رہی ان کی عبادت جو وہ بیت اللہ میں کرتے ہیں تو اس کے اندر نہ خضوع و خشوع ہے ، نہ تو جہ الی اللہ ہے ، نہ ذکر الہٰی ہے ، بس ایک بے معنی شور و غل اور لہو و لعب ہے جس کا نام انہوں نے عبادت رکھ چھوڑا ہے ۔ ایسی نام و نہاد خدمت بیت اللہ اور ایسی جھوٹی عبادت پر آخر یہ فضلِ الہٰی کے مستحق کیسے ہوگئے اور یہ چیز انہیں عذاب الہٰی سے کیونکر محفوظ رکھ سکتی ہے؟ سورة الْاَنْفَال حاشیہ نمبر :29 وہ سمجھتے تھے کہ عذاب الہٰی صرف آسمان سے پھتروں کی شکل میں یا کسی اور طرح قوائے فطرت کے ہیجان ہی کی شکل میں آیا کرتا ہے ۔ مگر یہاں انہیں بتایا گیا ہے کہ جنگ بدر میں ان کی فیصلہ کن شکست ، جس کی وجہ سے اسلام کے لیے زندگی کا اور قدیم نظام جاہلیت کے لیے موت کا فیصلہ ہوا ہے ، دراصل ان کے حق میں اللہ کا عذاب ہی ہے ۔