Surah

Information

Surah # 8 | Verses: 75 | Ruku: 10 | Sajdah: 0 | Chronological # 88 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 30-36 from Makkah
وَاعۡلَمُوۡۤا اَنَّمَا غَنِمۡتُمۡ مِّنۡ شَىۡءٍ فَاَنَّ لِلّٰهِ خُمُسَهٗ وَ لِلرَّسُوۡلِ وَلِذِى الۡقُرۡبٰى وَالۡيَتٰمٰى وَالۡمَسٰكِيۡنِ وَابۡنِ السَّبِيۡلِ ۙ اِنۡ كُنۡتُمۡ اٰمَنۡتُمۡ بِاللّٰهِ وَمَاۤ اَنۡزَلۡنَا عَلٰى عَبۡدِنَا يَوۡمَ الۡفُرۡقَانِ يَوۡمَ الۡتَقَى الۡجَمۡعٰنِ‌ ؕ وَاللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَىۡءٍ قَدِيۡرٌ‏ ﴿41﴾
جان لو کہ تم جس قسم کی جو کچھ غنیمت حاصل کرو اس میں سے پانچواں حصہ تو اللہ کا ہے اور رسول کا اور قرابت داروں کا اور یتیموں کا اور مسکینوں کا اور مسافروں کا ، اگر تم اللہ پر ایمان لائے ہو اور اس چیز پر جو ہم نے اپنے بندے پر اس دن اتارا ہے جو دن حق و باطل کی جدائی کا تھا جس دن دو فوجیں بھڑ گئی تھیں ۔ اللہ ہرچیز پر قادر ہے ۔
و اعلموا انما غنمتم من شيء فان لله خمسه و للرسول و لذي القربى و اليتمى و المسكين و ابن السبيل ان كنتم امنتم بالله و ما انزلنا على عبدنا يوم الفرقان يوم التقى الجمعن و الله على كل شيء قدير
And know that anything you obtain of war booty - then indeed, for Allah is one fifth of it and for the Messenger and for [his] near relatives and the orphans, the needy, and the [stranded] traveler, if you have believed in Allah and in that which We sent down to Our Servant on the day of criterion - the day when the two armies met. And Allah , over all things, is competent.
Jaan lo kay tum jiss qisam ki aur jo kuch ghanimat hasil kero uss mein say panchwa hissa Allah ka hai aur rasool ka aur qarabat daron ka aur yateemon ka aur miskeenon ka aur musafiron ka agar tum Allah per eman laye ho aur uss cheez per jo hum ney apney banday per uss din utara hai jo din haq-o-baatil ki judaee ka tha jiss din do fojen bhirr gaee thin. Allah her cheez per qadir hai.
اور ( مسلمانو ) یہ بات اپنے علم میں لے آؤ کہ تم جو کچھ مال غنیمت حاصل کرو اس کا پانچواں حصہ اللہ اور رسول اور ان کے قرابت داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کا حق ہے ( ٢٦ ) ( جس کی ادائیگی تم پر واجب ہے ) اگر تم اللہ پر اور اس چیز پر ایمان رکھتے ہو جو ہم نے اپنے بندے پر فیصلے کے دن نازل کی تھی ( ٢٧ ) جس دن دو جماعتیں باہم ٹکرائی تھیں ، اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے ۔
اور جان لو کہ جو کچھ غنیمت لو ( ف٦۹ ) تو اس کا پانچواں حصہ خاص اللہ اور رسول و قرابت داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور مسافروں کا ہے ( ف۷۰ ) اگر تم ایمان لائے ہو اللہ پر اور اس پر جو ہم نے اپنے بندے پر فیصلہ کے دن اتارا جس دن دونوں فوجیں ملیں تھیں ( ف۷۱ ) اور اللہ سب کچھ کرسکتا ہے ،
اور تمہیں معلوم ہو کہ جو کچھ مالِ غنیمت تم نے حاصل کیا ہے اس کا پانچواں حصّہ اللہ اور اس کے رسول اور رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے ، 32 اگر تم ایمان لائے ہو اللہ پر اور اس چیز پر جو فیصلے کے روز ، یعنی دونوں فوجوں کی مڈ بھیڑ کے دن ، ہم نے اپنے بندے پر نازل کی تھی ، 33 ﴿تو یہ حصّہ بخوشی ادا کرو﴾ ۔ اللہ ہر چیز پر قادر ہے ۔
اور جان لو کہ جو کچھ مالِ غنیمت تم نے پایا ہو تو اس کا پانچواں حصہ اللہ کے لئے اور رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے لئے اور ( رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ) قرابت داروں کے لئے ( ہے ) اور یتیموں اور محتاجوں اور مسافروں کے لئے ہے ۔ اگر تم اللہ پر اور اس ( وحی ) پر ایمان لائے ہو جو ہم نے اپنے ( برگزیدہ ) بندے پر ( حق و باطل کے درمیان ) فیصلے کے دن نازل فرمائی وہ دن ( جب میدانِ بدر میں مومنوں اور کافروں کے ) دونوں لشکر باہم مقابل ہوئے تھے ، اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے
سورة الْاَنْفَال حاشیہ نمبر :32 یہاں اس مال غنیمت کی تقسیم کا قانون بتایا ہے جس کے متعلق تقریر کی ابتدا میں کہا گیا تھا کہ یہ اللہ کا انعام ہے جس کے بارے میں فیصلہ کرنے کا اختیار اللہ اور اس کے رسول ہی کو حاصل ہے ۔ اب وہ فیصلہ بیان کر دیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ لڑائی کے بعد تمام سپاہی ہر طرح کا مال غنیمت لا کر امیر یا امام کے سامنے رکھ دیں اور کوئی چیز چھپا کر نہ رکھیں ۔ پھر اس مال میں سے پانچواں حصہ ان اغراض کے لیے نکال لیا جائے جو آیت میں بیان ہوئی ہیں ، اور باقی چار حصے ان سب لوگوں میں تقسیم کر دیے جائیں جنہوں نے جنگ میں حصہ لیا ہو ۔ چنانچہ اس آیت کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ لڑائی کے بعد اعلان فرمایا کرتے تھے کہ ان ھٰذہ غنائمکم و انہ لیس لے فیھا الا نصیبی معکم الخمس ولاخمس مردود علیکم فادوا الخیط المخیط و اکبر من ذٰلک و اصغر ولا تغلوا جان الغلول عار و نار ۔ ”یہ غنائم تمہارے ہی لیے ہیں ، میری اپنی ذات کا ان میں کوئی حصہ نہیں ہے بجز خمس کے اور وہ خمس بھی تمہارے ہی اجتماعی مصالح پر صرف کر دیا جاتا ہے ۔ “ لہٰذا ایک ایک سوئی اور ایک ایک تاگا تک لا کر رکھ دو ، کوئی چھوٹی یا بڑی چیز چھپا کر نہ رکھو کہ ایسا کرنا شرمناک ہے اور اس کا نتیجہ دوزخ ہے ۔ اس تقسیم میں اللہ اور رسول کا حصہ ایک ہی ہے اور اس سے مقصود یہ ہے کہ خمس کا ایک جزء اعلاء کلمۃ اللہ اور اقامت دین حق کے کام میں صرف کیا جائے رشتہ داروں سے مراد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں تو حضور ہی کے رشتہ دار تھے کیونکہ جب آپ اپنا سارا وقت دین کے کام میں صرف فرماتے تھے اور اپنی معاش کے لیے کوئی کام کرنا آپ کے لیے ممکن نہ رہا تھا تو لامحالہ اس کا انتظام ہونا چاہیے تھا کہ آپ کی اور آپ کے اہل و عیال اور ان دوسرے اقربا کی ، جن کی کفالت آپ کے ذمہ تھی ، ضروریات پوری ہوں اس لیے خمس میں آپ کے اقربا کا حصہ رکھا گیا ۔ لیکن اس امر میں اختلاف ہے کہ حضور کی وفات کے بعد ذوی القربیٰ کا یہ حصہ کس کو پہنچتا ہے ۔ ایک گروہ کی رائے یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد یہ حصہ منسوخ ہوگیا ۔ دوسرے گروہ کی رائے ہے کہ حضور کے بعد یہ حصہ اس شخص کے اقربا کو پہنچے گا جو حضور کی جگہ خلافت کی خدمت انجام دے ۔ تیسرے گروہ کے نزدیک یہ حصہ خاندان نبوت کے فقراء میں تقسیم کیا جاتا رہے گا ۔ جہاں تک میں تحقیق کر سکا ہوں خلفاء راشدین کے زمانہ میں اسی تیسری رائے پر عمل ہوتا تھا ۔ سورة الْاَنْفَال حاشیہ نمبر :33 یعنی وہ تائید وہ نصرت جس کی بدولت تمہیں فتح حاصل ہوئی ۔
مال غنیمت کی تقسیم کا بیان تمام اگلی امتوں پر مال غنیمت حرام ہے ۔ لیکن اس امت کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی مہربانی سے اسے حلال کر دیا ۔ اس کی تقسیم کی تفصیل یہاں بیان ہو رہی ہے ۔ مال غنیمت وہ ہے جو مسلمانوں کو جہاد کے بعد کافروں سے ہاتھ لگے اور جو مال بغیر لڑے جنگ کے ہاتھ آئے مثلاً صلح ہو گئی اور مقررہ تاوان جنگ ان سے وصول کیا یا کوئی مر گیا اور لاوارث تھا یا جزئیے اور خراج کی رقم وغیرہ وہ فے ہے ۔ سلف و خلف کی ایک جماعت کا اور حضرت امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کا یہی خیال ہے ۔ بعض لوگ غنیمت کا اطلاق فے پر اور فے کا اطلاق غنیمت پر بھی کرتے ہیں ۔ اسی لئے قتادہ وغیرہ کا قول ہے کہ یہ آیت سورہ حشر کی ( آیت ماافاء اللہ الخ ، ) کی ناسخ ہے ۔ اب مال غنیمت میں فرق کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ وہ آیت تو فے کے بارے میں ہے اور یہ غنیمت کے بارے میں ۔ بعض بزرگوں کا خیال ہے کہ ان دونوں قسم کے مال کی تقسیم امام کی رائے پر ہے ۔ پس مقررہ حشر کی آیت اور اس آیت میں کوئی اختلاف نہیں جبکہ امام کی مرضی ہو واللہ اعلم ۔ آیت میں بیان ہے کہ خمس یعنی پانچواں حصہ مال غنیمت میں سے نکال دینا چاہئے ۔ چاہے وہ کم ہو یا زیادہ ہو ۔ گو سوئی ہو یا دھاگہ ہو ۔ پروردگار عالم فرماتا ہے جو خیانت کرے گا وہ اسے لے کر قیامت کے دن پیش ہو گا اور ہر ایک کو اس عمل کا پورا بدلہ ملے گا کسی پر ظلم نہ کیا جائے گا کہتے ہیں کہ خمس میں سے اللہ کے لئے مقرر شدہ حصہ کعبے میں داخل کیا جائے گا ۔ حضرت ابو العالیہ رباحی کہتے ہیں کہ غنیمت کے مال کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پانچ حصے کرتے تھے ۔ چار مجاہدین میں تقسیم ہوتے پانچویں میں سے آپ مٹھی بھر کر نکال لیتے اسے کنبے میں داخل کر دیتے پھر جو بچا اس کے پانچ حصے کر ڈالتے ایک رسول اللہ کا ایک قرابت داروں کا ۔ ایک یتیموں کا ایک مسکینوں کا ایک مسافروں کا یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہاں اللہ کا نام صرف بطور تبرک ہے گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حصے کے بیان کا وہ شروع ہے ۔ ابن عباس کا بیان ہے کہ جب حضور کوئی لشکر بھیجتے اور مال غنیمت کا مال ملتا تو آپ اس کے پانچ حصے کرتے اور پھر پانچویں حصے کے پانچ حصے کر ڈالتے پھر آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی ۔ پس یہ فرمان کہ ان للہ خمسہ یہ صرف کلام کے شروع کیلئے ہے ۔ زمین و آسمان میں جو کچھ ہے اللہ ہی کا ہے ۔ پانچویں حصے میں سے پانچواں حصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے بہت سے بزرگوں کا قول یہی ہے کہ اللہ رسول کا ایک ہی حصہ ہے ۔ اسی کی تائید بہیقی کی اس صحیح سند والی حدیث سے بھی ہوتی ہے کہ ایک صحابی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے وادی القریٰ میں آ کر سوال کیا کہ یا رسول اللہ غنیمت کے بارے میں آپ کیا ارشآد فرماتے ہیں؟ آپ نے فرمایا اس میں سے پانچواں حصہ اللہ کا ہے باقی کے چار حصے لشکریوں کے ۔ اس نے پوچھا تو اس میں کسی کو کسی پر زیادہ حق نہیں ؟ آپ نے فرمایا ہرگز نہیں یہاں تک کہ تو اپنے کسی دوست کے جسم سے تیر نکالے تو اس تیر کا بھی تو اس سے زیادہ مستحق نہیں حضرت حسن نے اپنے مال کے پانجویں حصے کی وصیت کی اور فرمایا کیا میں اپنے لئے اس حصے پر رضامند نہ ہو جاؤ؟ جو اللہ تعالیٰ نے خود اپنا رکھا ہے ۔ ابن عباس فرماتے ہیں کہ مال غنیمت کے پانچ حصے برابر کئے جاتے تھے چار تو ان لشکریوں کو ملتے تھے جو اس جنگ میں شامل تھے پھر پانچویں حصے کے جار حصے کئے جاتے تھے ایک چوتھائی اللہ کا اور اس کے رسول کا پھر یہ حصہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لیتے تھے یعنی پانچویں حصے کا پانچواں حصہ آپ اور آپ کے بعد جو بھی آپ کا نائب ہو اس کا ہے ۔ حضرت عبداللہ بن بریدہ فرماتے ہیں اللہ کا حصہ اللہ کے نبی کا ہے اور جو آپ کا حصہ تھا وہ آپ کی بیویوں کا ہے عطاء بن ابی رباح فرماتے ہیں اللہ اور اس کے رسول کا جو حصہ ہے وہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا ہے اختیار ہے جس کام میں آپ چاہیں لگائیں مقدام بن معدی کرب حضرت عبادہ بن صامت حضرت ابو درداء اور حضرت حارث بن معاویہ کندی رضی اللہ عنہم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کا ذکر ہونے لگا تو ابو داؤد نے عبادہ بن صامت سے کہا فلاں فلاں غزوے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خمس کے بارے میں کیا ارشاد فرمایا تھا ؟ آپ نے فرمایا کہ حضور نے ایک جہاد میں خمس کے ایک اونٹ کے پیچھے صحابہ کو نماز پڑھائی سلام کے بعد کھڑے ہوگئے اور چند بال چٹکی میں لے کر فرمایا کہ مال غنیمت کے اونٹ کے یہ بال بھی مال غنیمت میں سے ہی ہیں اور میرے نہیں ہیں میرا حصہ تو تمہارے ساتھ صرف پانچواں ہے اور پھر وہ بھی تم ہی کو واپس دے دیا جاتا ہے پس سوئی دھاگے تک ہر چھوٹی بڑی چیز پہنچا دیا کرو ، خیانت نہ کرو ، خیانت عار ہے اور خیانت کرنے والے کیلئے دونوں جہان میں آگ ہے ۔ قریب والوں سے دور والوں سے راہ حق میں جہاد جاری رکھو ۔ شرعی کاموں میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا خیال تک نہ کرو ۔ وطن میں اور سفر میں اللہ کی مقرر کردہ حدیں جاری کرتے رہو اللہ کے لئے جہاد کرتے رہو جہاد جنت کے بہت بڑے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے اسی جہاد کی وجہ سے اللہ تعالیٰ غم و رنج سے نجات دیتا ہے ( مسند امام احمد ) یہ حدیث حسن ہے اور بہت ہی اعلیٰ ہے ۔ صحاح ستہ میں اس سند سے مروی نہیں لیکن مسند ہی کی دوسری روایت میں دوسری سند سے خمس کا اور خیانت کا ذکر مروی ہے ۔ ابو داؤد اور نسائی میں بھی مختصراً یہ حدیث مروی ہے اس حصے میں سے آنحضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم بعض چیزیں اپنی ذات کے لئے بھی مخصوص فرما لیا کرتے تھے لونڈی غلام تلوار گھوڑا وغیرہ ۔ جیسا کہ محمد بن سیرین اور عامر شعبی اور اکثر علماء نے فرمایا ہے ترمذی وغیرہ میں ہے کہ ذوالفقار نامی تلوار بدر کے دن کے مال غنیمت میں سے تھی جو حضور کے پاس تھی اسی کے بارے میں احد والے دن خواب دیکھا تھا ۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا بھی اسی طرح آئیں تھیں ۔ ابو داؤد وغیرہ میں ہے حضرت یزید بن عبداللہ کہتے ہیں کہ ہم باڑے میں بیٹھے ہوئے تھے جو ایک صاحب تشریف لائے ان کے ہاتھ میں چمڑے کا ایک ٹکڑا تھا ہم نے اسے پڑھا تو اس میں تحریر تھا کہ یہ محمد رسول اللہ کی طرف سے زہیر بن اقیش کی طرف ہے کہ اگر تم اللہ کی وحدت کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی دو اور نمازیں قائم رکھو اور زکوٰۃ دیا کرو اور غنیمت کے مال سے خمس ادا کرتے رہو اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حصہ اور خالص حصہ ادا کرتے رہو تو تم اللہ اور اس کے رسول کی امن میں ہو ۔ ہم نے ان سے پوچھا کہ تجھے یہ کس نے لکھ دیا ہے اس نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ، پس ان صحیح احادیث کی دلالت اور ثبوت اس بات پر ہے اسی لئے اکثر بزرگوں نے اسے حضور کے خواص میں سے شمار کیا ہے ۔ صلوات اللہ وسلامہ علیہ اور لوگ کہتے ہیں کہ خمس میں امام وقت مسلمانوں کی مصلحت کے مطابق جو چاہے کر سکتا ہے ۔ جیسے کہ مال فے میں اسے اختیار ہے ۔ ہمارے شیخ علامہ ابن تیمیہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہی قول حضرت امام مالک کا ہے اور اکثر سلف کا ہے اور یہی سب سے زیادہ صحیح قول ہے ۔ جب یہ ثابت ہو گیا اور معلوم ہو گیا تو یہ بھی خیال رہے کہ خمس جو حضور کا حصہ تھا اسے اب آپ کے بعد کیا کیا جائے بعض تو کہتے ہیں کہ اب یہ حصہ امام وقت یعنی خلیفتہ المسلمین کا ہوگا ۔ حضرت ابو بکر حضرت علی حضرت قتادہ اور ایک جماعت کا یہی قول ہے ۔ اور اس بارے میں ایک مرفوع حدیث بھی آئی ہے کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ مسلمانوں کی مصلحت میں صرف ہو گا ایک قول ہے کہ یہ بھی اہل حاجت کی بقایا قسموں پر خرچ ہو گا یعنی قرابت دار یتیم مسکین اور مسافر ۔ امام ابن جریر کا مختار مذہب یہی ہے اور بزرگوں کا فرمان ہے کہ حضور کا اور آپ کے قرابت داروں کا حصہ یتیموں مسکینوں اور مسافروں کو دے دیا جائے ۔ عراق والوں کی ایک جماعت کا یہی قول ہے اور کہا گیا ہے خمس کا یہ پانچواں حصہ سب کا سب قرابت داروں کا ہے ۔ چنانچہ عبداللہ بن محمد بن علی اور علی بن حسین کا قول ہے کہ یہ ہمارا حق ہے پوچھا گیا کہ آیت میں یتیموں اور مسکینوں کا بھی ذکر ہے تو امام علی نے فرمایا اس سے مراد بھی ہمارے یتیم اور مسکین ہیں ۔ امام حسن بن محمد بن حنفیہ رحمہ اللہ تعالیٰ سے اس آیت کے بارے میں سوال ہوتا ہے تو فرماتے ہیں کہ کلام کا شروع اس طرح ہوا ہے ورنہ دنیا آخرت کا سب کچھ اللہ ہی کا ہے حضور کے بعد ان دونوں حصوں کے بارے میں کیا ہوا اس میں اختلاف ہے ۔ بعض کہتے ہیں حضرت کا حصہ آپ کے خلیفہ کو ملے گے ۔ بعض کہتے ہیں آپ کے قرابت داروں کو ۔ بعض کہتے ہیں خلیفہ کے قرابت داروں کو ان کی رائے میں ان دونوں حصوں کو گھوڑوں اور ہتھیاروں کے کام میں لگایا جائے اسی طرح خلافت صدیقی و فاروقی میں ہوتا بھی رہا ہے ۔ ابراہیم کہتے ہیں حضرت صدیق اکبر اور حضرت فاروق اعظم حضور کے اس حصے کو جہاد کے کام میں خرچ کر تے تھے ۔ پوچھا گیا کہ حضرت علی اس بارے میں کیا کرتے تھے؟ فرمایا وہ اس بارے میں ان سے سخت تھے ۔ اکثر علماء رحہم اللہ کا یہی قول ہے ۔ ہاں ذوی القربیٰ کا جو حصہ ہے وہ بنو ہاشم اور بنو عبدالمطلب کا ہے ۔ اس لئے کہ اولاد عبدالمطلب نے اولاد ہاشم کی جاہلیت میں اور اول اسلام میں موافقت کی اور انہی کے ساتھ انہوں نے گھاٹی میں قید ہونا بھی منظور کر لیا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ستائے جانے کی وجہ سے یہ لوگ بگڑ بیٹھے تھے اور آپ کی حمایت میں تھے ، ان میں سے مسلمان تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کی وجہ سے ۔ کافر خاندانی طرف داری اور رشتوں ناتوں کی حمایت کی وجہ سے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابو طالب کی فرمانبرداری کی وجہ سے ستائے گئے ہاں بنو عبدشمس اور بنو نوفل گویہ بھی آپ کے چچازاد بھائی تھے ۔ لیکن وہ ان کی موافقت میں نہ تھے بلکہ ان کے خلاف تھے انہیں الگ کر چکے تھے اور ان سے لڑ رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ قریش کے تمام قبائل ان کے مخالف ہیں اسی لئے ابو طالب نے اپنے قصیدہ لامیہ میں ان کی بہت ہی مذمت کی ہے کیونکہ یہ قریبی قرابت دار تھے اس قصیدے میں انہوں نے کہا ہے کہ انہیں بہت جلد اللہ کی طرف سے ان کی اس شرارت کا پورا پورا بدلہ ملے گا ۔ ان بیوقوفوں نے اپنے ہو کر ایک خاندان اور ایک خون کے ہو کر ہم سے آنکھیں پھیر لی ہیں وغیرہ ۔ ایک موقعہ پر ابن جبیر بن معطم بن عدی بن نوفل اور حضرت عثمان بن عفان بن ابو العاص بن امیہ بن عبد شمس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور شکایت کی کہ آپ نے خیبر کے خمس میں سے بنو عبدالملطب کو تو دیا لیکن ہمیں چھوڑ دیا حالانکہ آپ کی قرابت داری کے لحاظ سے وہ اور ہم بالکل یکساں اور برابر ہیں آپ نے فرمایا سنو بنو ہاشم ہیں ۔ مجاہد کا قول ہے کہ اللہ کو علم تھا کہ بنو ہاشم میں فقراء ہیں پس صدقے کی جگہ ان کا حصہ مال غنیمت میں مقرر کر دیا ۔ یہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ قرابت دار ہیں جن پر صدقہ حرام ہے ۔ علی بن حسین سے بھی اسی طرح مروی ہے ۔ بعض کہتے ہیں یہ سب قریش ہیں ۔ ابن عباس سے استغفار کیا گیا کہ ذوی القربیٰ کون ہیں؟ آپ نے جواب تحریر فرمایا کہ ہم تو کہتے تھے ہم ہیں لیکن ہماری قوم نہیں مانتی وہ سب کہتے ہیں کہ سارے ہی قریش ہیں ( مسلم وغیرہ ) بعض روایتوں میں صرف پہلا جملہ ہی ہے ۔ دوسرے جملے کی روایت کے راوی ابو معشر نجیح بن عبدالرحمن مدنی کی روایت میں ہی یہ جملہ ہے کہ سب کہتے ہیں کہ سارے قریش ہیں ۔ اس میں ضعف بھی ہے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارے لئے لوگوں کے میل کچیل سے تو میں نے منہ پھیر لیا خمس کا پانچواں حصہ تمہیں کافی ہے یہ حدیث حسن ہے اس کے راوی ابراہیم بن مہدی کو امام ابو حاتم ثقہ بتاتے ہیں لیکن یحییٰ بن معین کہتے ہیں کہ یہ منکر روایتیں لاتے ہیں واللہ اعلم ۔ آیت میں یتیموں کا ذکر ہے یعنی مسلمانوں کے وہ بچے جن کا باپ فوت ہو چکا ہو ۔ پھر بعض تو کہتے ہیں کہ یتیمی کے ساتھ فقیری بھی ہو تو وہ مستحق ہیں اور بعض کہتے ہیں ہر امیر فقیر یتیم کو یہ الفاظ شامل ہیں ۔ مساکین سے مراد وہ محتاج ہیں جن کے پاس اتنا نہیں کہ ان کی فقیری اور ان کی حاجت پوری ہو جائے اور انہیں کافی ہو جائے ۔ ابن السبیل وہ مسافر ہے جو اتنی حد تک وطن سے نکل چکا ہو یا جا رہا ہو کہ جہاں پہنچ کر اسے نماز کو قصر پڑھنا جائز ہو اور سفر خرچ کافی اس کے پاس نہ رہا ہو ۔ اس کی تفسیر سورہ برات کی ( آیت انما الصدقات الخ ، ) کی تفسیر میں آئے گی انشاء اللہ تعالیٰ ۔ ہمارا اللہ پر بھروسہ ہے اور اسی سے ہم مدد طلب کرتے ہیں ۔ پھر فرماتا ہے کہ اگر تمہارا اللہ پر اور اس کی اتاری ہوئی وحی پر ایمان ہے تو جو وہ فرما رہا ہے لاؤ یعنی مال غنیمت میں سے پانچواں حصہ الگ کر دیا کرو ۔ بخاری و مسلم میں ہے کہ وفد عبدالقیس کو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تمہیں چار باتوں کا حکم کرتا ہوں اور چار سے منع کرتا ہوں میں تمہیں اللہ پر ایمان لانے کا حکم دیتا ہوں ۔ جانتے بھی ہو کہ اللہ پر ایمان لانا کیا ہے؟ گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور حضرت محمد اللہ کے رسول ہیں اور نماز کو پابندی سے ادا کرنا زکوٰۃ دینا اور غنیمت میں سے خمس ادا کرنا ۔ پس خمس کا دینا بھی ایمان میں داخل ہے ۔ حضرت امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب صحیح بخاری شریف میں باب باندھا ہے کہ خمس کا ادا کرنا ایمان میں ہے پھر اس حدیث کو وارد فرمایا ہے اور ہم نے شرح صحیح بخاری میں اس کا پورا مطلب واضح بھی کر دیا ہے واللہ الحمد و المنہ ۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنا ایک احسان و انعام بیان فرماتا ہے کہ اس نے حق و باطل میں فرق کر دیا ۔ اپنے دین کو غالب کیا اپنے نبی کی اور آپ کے لشکریوں کی مدد فرمائی اور جنگ بدر میں انہیں غلبہ دیا ۔ کلمہ ایمان کلمہ کفر پر چھا گیا پس یوم الفرقان سے مراد بدر کا دن ہے جس میں حق و باطل کی تمیز ہو گی ۔ بہت سے بزرگوں سے یہی تفسیر مروی ہے ۔ یہی سب سے پہلا غزوہ تھا ۔ مشرک لوگ عتبہ بن ربیعہ کی ماتحتی میں تھے جمعہ کے دن انیس یا سترہ رمضان کو یہ لڑائی ہوئی تھی اصحاب رسول تین سو دس سے کچھ اوپر تھے اور مشرکوں کی تعداد نو سو سے ایک ہزار تھی ۔ باوجود اس کے اللہ تبارک و تعالیٰ نے کافروں کو شکست دی ستر سے زائد تو کافر مارے گئے اور اتنے ہی قید کر لئے گئے ۔ مستدرک حاکم میں ہے ابن مسعود فرماتے ہیں کہ لیلتہ القدر کو گیارہویں رات میں ہی یقین کے ساتھ تلاش کرو اس لئے کہ اس کی صبح کو بدر کی لڑائی کا دن تھا ۔ حسن بن علی فرماتے ہیں کہ لیلتہ الفرقان جس دن دونوں جماعتوں میں گھمسان کی لڑائی ہوئی رمضان شریف کی سترہویں تھی یہ رات بھی جمعہ کی رات تھی ۔ غزوے اور سیرت کے مرتب کرنے والے کے نزدیک یہی صحیح ہے ۔ ہاں یزید بن ابو جعد جو اپنے زمانے کے مصری علاقے کے امام تھے فرماتے ہیں کہ بدر کا دن پیر کا دن تھا لیکن کسی اور نے ان کی متابعت نہیں کی اور جمہور کا قول یقینا ان کے قول پر مقدم ہے واللہ اعلم ۔